پطرس بخاری - اردو مزاح نگاری کو نیا انداز اور اسلوب دینے والا مزاح نگار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-05-05

پطرس بخاری - اردو مزاح نگاری کو نیا انداز اور اسلوب دینے والا مزاح نگار

Patras-Bokhari

بیسویں صدی کے ادبی منظرنامے میں طنز و مزاح کے جو نئے سوتے پھوٹے ہیں وہ اپنے آپ میں دلکش بھی ہیں اور جاذب نظر بھی۔ ویسے بھی بقول شخصے دنیا کی دیگر ترقی یافتہ زبانوں کی طرح اردو زبان کا دامن بھی طنزیہ اور مزاحیہ ادب سے کبھی خالی نہیں رہا بلکہ اگر دیکھا جائے تو مختصر عرصے میں ہی یہ زبان اپنے طنزیہ و مزاحیہ ادبی اثاثے سے مالا مال ہوگئی۔ دراصل طنز ومزاح کا معاملہ یہ ہے کہ جیسے جیسے انسانی ذہن ارتقا پذیرہوتاگیا ہماری فکر کا زاویہ بھی بدل گیا۔ آج سے ایک ڈیڑھ صدی قبل کے اردو سرمایے پر نظر ڈالیں تو ابتذال اور پھکڑ پن بھی طنز و مزاح میں شامل تھا یا پھر وہ لطائف تھے جن کو آج کے بچے بھی شاید پڑھ کر مسکرانا پسند نہ کریں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس دور میں اودھ پنچ نے جہاں طنز و مزاح کی ایک نئی داغ بیل ڈالی وہیں اکبر الہ آبادی نے اس میدان میں شاعری کو ایک نیا آہنگ عطا کیا۔ ان کے فوراً بعد نثری ادب کو شگفتگی عطا کرنے میں جن اہل قلم حضرات نے اپنے قلم کا استعمال کیا ان میں رشید احمد صدیقی، عظیم بیگ چغتائی، مرزا فرحت اللہ بیگ، غلام احمد فرقت کاکوروی، شفیق الرحمن، شوکت تھانوی اور پطرس بخاری تک ایک طویل فہرست ہےجن کے بنائے ہوئے نقوش قدم کو ایک وسیع شاہراہ میں تبدیل کرنے کا کام ہمارے عہد میں کرنل محمد خاں،فکر تونسوی، مشفق خواجہ،احمد جمال پاشا، مشتاق احمد یوسفی اور مجتبی حسین وغیرہ نے بڑی خوش اسلوبی سے کیا ہے۔


ان ابتدائیہ سطور کے پس منظر میں جب ہم پطرس بخاری کی تحریروں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ان کا قد اپنے ہم عصروں میں بہت بلند نظر آتا ہے۔ یہاں تک کہ معروف مزاح نگار رشید احمد صدیقی نے پطرس کی مزاح نگاری کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ، "ظرافت نگاری میں پطرس کا ہمسر ان کے ہم عصروں میں کوئی نہیں۔ بخاری کی ظرافت نگاری کی مثال داغ کی غزلوں اور مرزا شوق کی مثنویوں سے دے سکتے ہیں۔"


پطرس بخاری مشہور ماہر تعلیم، اردو کے صاحب طرز ادیب و مترجم، اعلیٰ پایہ کے نقاد، ممتاز براڈ کاسٹر، سفارت کار اور منفرد مزاح نگار تھے۔وہ گورنمنٹ کالج ،لاہور میں انگریزی کے پروفیسر رہے اور آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے انھوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ انھوں نے جہاں اردو میں مضامین پطرس جیسی شاہکار کتاب تصنیف کی وہیں کئی اہم کتابوں کے انگریزی سے اردو میں ترجمے بھی کیے۔ چونکہ پطرس انگریزی زبان کے رموز و اسرار، انداز اور مزاج سے پوری طرح واقف تھے، انھیں اردو میں اظہار پر بھی قدرت حاصل تھی، اسی لیے ان کے اردو تراجم کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جہاں تک ان کے فن کا تعلق ہے ڈاکٹر وزیر آغا نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ "پطرس بخاری کی مزاح نگاری کے متعلق عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا انداز سراسر مغربی ہے اور وہ کیا بالحاظ مواد اور کیا بالحاظ تکنیک مغرب کی مزاح نگاری سے متاثر ہیں؟"


اس میں کوئی شک نہیں کہ پطرس نے انگریزی کے وسیع مطالعے کو اردو میں بہت حد تک استعمال کیا لیکن اردو مزاح نگاری میں جو نیا انداز اور نیا اسلوب انھوں نے اختیار کیا وہ ان کا خالص اپنا ہے۔ وہ زندگی کے کیف وکم کو الفاظ کے پیکر میں اس طرح ڈھالتے ہیں کہ آنسو اور قہقہہ دونوں بغل گیر ہوجائیں۔ پطرس کے یہاں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ اپنے آپ کو اکثر اس صورتحال میں پیش کرتے ہیں جہاں بظاہر دکھ کے سائے ہوں لیکن انداز ایسا ہوتا ہے کہ آدمی مسکرا پڑے۔"کتے"، "مرید پور کا پیر"، "میبل اور میں" ، "ہاسٹل میں پڑنا" "مرحوم کی یاد میں" اور"سویرے جو کل آنکھ میری کھلی"ایسے ہی مضامین ہیں جو بیساختگی، بذلہ سنجی کے ساتھ راوی کے غم کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ مثلاً ان کے مضمون کتے کے یہ اقتباسات دیکھیے:


"کتوں کے بھونکنے پر مجھے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ ان کی آواز سوچنے کے تمام قویٰ معطل کردیتی ہے۔ خصوصاً جب کسی دکان کے تختے کے نیچے سے ان کا ایک پورا خفیہ جلسہ سڑک پر آکر تبلیغ کا کام شروع کردے تو آپ ہی کہیے ہوش ٹھکانے رہ سکتے ہیں؟"


آگے کہتے ہیں:
"خد ا نے ہر قوم میں نیک افراد بھی پیدا کئے ہیں۔ کتے اس کلئے سے مستثنیٰ نہیں۔آ پ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہوگا، اس کے جسم میں تپسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس کی مسکینی اور عجز سے گویا بار گنا ہ کا احسا س آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔ سڑک کے بیچ و بیچ غور و فکر کے لیے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کرلیتا ہے۔شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سر کو وہیں زمیں پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتحال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کرلیں۔ کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کردیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وہ راستہ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔


اسی طرح مضمون 'مرحوم کی یاد میں' میں مرزا کی پرانی سائیکل کا قصہ بڑے ہی مزاحیہ لہجے میں بیان کیا گیا ہے اور مرزا کی سائیکل کا نقشہ اس خوبی سے کھینچا گیا ہے کہ پڑھنے والا خود کو عملاً اس سائیکل پر سواری کرتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ اس مضمون میں پطرس نے اپنی ذات پر جس طرح مزاح کرکے اسے پیش کیا ہے اس کی مثال اردو میں مزاح نگاری میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے :

"چند قدم بھی چلنے نہ پایا تھا کہ اب کے ہینڈل یک لخت نیچے ہو گیا۔ اتنا کہ گدی اب ہینڈل سے کوئی فٹ بھر اونچی تھی۔ میرا تمام جسم آگے کو جھکا ہوا تھا۔تمام بوجھ دونوں ہاتھو ں پر تھا جو ہینڈل پر رکھے تھے اور برابر جھٹکے کھا رہے تھے۔ آپ میری حالت کو تصور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ میں دور سے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کوئی عورت آٹا گوندھ رہی ہو۔ مجھے اس مشابہت کا احساس بہت تیزتھا جس کی وجہ سے میرے ماتھے پر پسینہ آگیا۔میں دائیں بائیں لوگوں کو کنکھیوں سے دیکھتا جاتا تھا۔یوں تو ہر شخص میل بھر پہلے ہی سے مڑ مڑ کر دیکھنے لگتا تھا لیکن ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جس کے لیے میری مصیبت ضیافتِ طبع کا باعث نہ ہو۔ "


پطرس کے یہ مضامین نشست و برخاست کے حوالے سے بھی متاثر کرتے ہیں اور موضوعات کے حوالے سے بھی۔
پطرس بخاری کا نثری اثاثہ گرچہ بہت نہیں ہے لیکن جو بھی ہے وہ اپنے آپ میں بھرپور اور مکمل ہے اور جیسا کہ آل احمد سرور نے لکھا ہے کہ "پطرس نے بہت تھوڑے مضامین لکھے مگر پھر بھی ہمارے چوٹی کے مزاح نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔اتنا تھوڑاسرمایہ لے بقائے دوام کے دربار میں بہت کم لوگ داخل ہوتے ہیں۔"
اسی سلسلے میں احمد جمال پاشا لکھتے ہیں کہ:
"پطرس نے بہت کم لکھا لیکن جو لکھا وہ ظرافت کے بڑے بڑے کارناموں پر بھاری ہے۔"


پطرس کا یہ بھی کمال ہے کہ وہ الفاظ سے جو تصویر بناتے ہیں وہ اپنے تمام شوخ رنگوں کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ ان کی تحریف نگاری ہو یا جزئیات نگاری منظر بہرحال بولتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مثلاً ان کے مضمون لاہور کا جغرافیہ میں ان کی جزئیات نگاری کی بہترین مثال درج ذیل اقتباس میں دیکھیے:


"لاہور میں قابل دید مقامات مشکل سے ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لاہور میں ہر عمارت کی بیرونی دیواریں دہری بنائی جاتی ہیں۔ پہلے اینٹوں اور چونے سے دیوار کھڑی کرتے ہیں اور پھر اس پر اشتہاروں کا پلستر کردیا جاتا ہے، جو دبازت میں رفتہ رفتہ بڑھتا جاتا ہے۔ شروع شروع میں چھوٹے سائز کے مبہم اور غیر معروف اشتہارات چپکائے جاتے ہیں۔ مثلاً "اہل لاہور کو مژدہ"،"اچھا اور سستا مال" اس کے بعد ان اشتہاروں کی باری آتی ہے جن کے مخاطب اہل عل اور سخن فہم لوگ ہوتے ہیں مثلاً 'گریجویٹ درزی ہاؤس' یا 'اسٹوڈنٹوں کے لیے نادر موقع' یا 'کہتی ہے ہم کو خلق خدا غائبانہ کیا'۔ رفتہ رفتہ گھر کی چار دیواری ایک مکمل ڈائرکٹری کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ دروازے کے اوپر بوٹ پالش کا اشتہار ہے۔ دائیں طرف تازہ مکھن ملنے کا پتہ درج ہے۔ بائیں طرف حافظ کی گولیوں کا بیان ہے۔ اس کھڑکی کے اوپر انجمن خدام ملت کے جلسے کا پروگرام چسپاں ہے۔ اس کھڑکی پر کسی مشہور لیڈر کے خانگی حالت بالوضاحت بیان کردیے ہیں۔ عقبی دیوار پر سر کس کے تمام جانوروں کی فہرست اور اصطبل کے دروازے پر مس نغمہ جان کی تصویر اوران کی فلم کے محاسن گنوا رکھے ہیں۔ یہ اشتہارات بڑی سرعت سے بدلتے رہتے ہیں اور ہر نیا مژدہ اور ہر نئی دریافت یا ایجاد یا انقلاب عظیم کی ابتلا چشم زدن میں ہر ساکن چیز پر لیپ دی جاتی ہے۔اس لیے عمارتوں کی ظاہری صورت ہر لمحہ بدلتی رہتی ہے اور ان کے پہچاننے میں خود شہر کے لوگوں کو بہت دقت پیش آتی ہے۔"


جن لوگوں نے آزادی سے پہلے کا لاہور دیکھا ہے وہ یقینا اس صورتحال کی گواہی بھی دیں گے اور محظوظ بھی ہوں گے۔ ان کا یہ خاکہ صرف شہر کا ہی تعارف نہیں کراتا بلکہ دلچسپ پیرائے میں شہریوں کی فکری، علمی، ادبی اور سماجی صورتحال سے بھی آگاہ کرتا ہے۔


جہاں تک پطرس کی تحریف نگاری کا تعلق ہے پطرس نے بقول ڈاکٹر وزیر آغا نثر میں پیروڈی لکھنے کی گویا ابتدا کی ہے۔ انھوں نے اس مشکل صنف میں بھی نہایت خوبصورتی اور مہارت سے اپنی فنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے ہوئے قارئین کے لیے ہنسنے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ پطرس کی تحریف نگاری کی عمدہ مثالیں ان کے مضامین اردو کی آخری کتاب، ہاسٹل میں پڑنا، اور لاہور کا جغرافیہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
مثلاً اُردو کی آخری کتاب میں محمد حسین آزاد کی کتاب " اردو کی پہلی کتاب " کی پیروڈی کی گئی ہے۔ ماں کی مصیبت کے عنوان سے پطرس نے لکھا ہے:
"ماں بچے کو گود میں لیے بیٹھی ہے۔ باپ انگوٹھا چُوس رہا ہے اور دیکھ کر خوش ہوتاہے۔ بچہ حسبِ معمول آنکھیں کھولے پڑا ہے۔"
اسی طرح ان کے مضمون لاہور کا جغرافیہ کے درج ذیل اقتباس میں جہاں تحریف نگاری کی مثال ملتی ہے وہیں ہمیں لاہور کی ادبی صورتحال کا پتہ بھی چلتا ہے:


"اشتہاروں کے علاوہ لاہور کی سب سے بڑی صنعت رسالہ بازی اور سب سے بڑی حرفت انجمن سازی ہے۔ ہر رسالے کا ہر نمبر عموماً خاص نمبر ہوتا ہے اور عام نمبر صرف خاص خاص موقعوں پر شائع کیے جاتے ہیں۔ عام نمبر میں صرف ایڈیٹر کی تصویر اور خاص نمبروں میں مس سلوچنا اور مس کجّن کی تصاویر دی جاتی ہیں۔ اس سے ادب کو بہت فروغ نصیب ہوتا ہے اور فن تنقید ترقی کرتا ہے"
بعض مواقع پر پطرس نے تحریف نگاری کا کمال اشعار کے ذریعے بھی ظاہر کیا ہے۔ وہ اپنے مضمون "کتے" میں غالب کے شعر کی تحریف کچھ اس طرح کرتے ہیں:
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے سگ رہ بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا


یہ اور اس طرح کے اقتباسات قاری کو جہاں مسکرانے پر مجبور کردیتے ہیں وہیں لاشعور میں ایک درد کی لہر بھی اٹھتی ہے۔ پطر س کی تحریروں میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ عام کرداروں یا مناظر کو لفظو ں کے حصار میں اس طرح قید کرتے ہیں کہ بد صورتی بھی خوبصورت ہوجاتی ہے اور آدمی اسے بار بار دیکھنے پر مجبور ہوجاتا ہے وہ انسانی فکر و شعور کے تما م پہلوؤں پر جملوں کی ساخت اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ تحریر دلکش اور شگفتہ ہوجاتی ہے۔


بہرحال اردو ادب کے وسیع سرمایے میں مضامین پطرس کی تعد اد اگرچہ بہت کم ہے لیکن یہ وہ چمیلی کے پھول ہیں جو اپنی مہک سے پورے ادبی اثاثے کو ہمیشہ مہکاتے رہیں گے ہمیشہ گدگداتے رہیں گے۔

***
رضوان الدین فاروقی۔ عیدگاہ ہلز، بھوپال
ایمیل: rugenious[@]gmail.com

Patras Bokhari's new style of Humour. Essay by: Rizwan Uddin Farooqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں