بریانی کی پریشانی - انشائیہ از ابراہیم جلیس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-05-03

بریانی کی پریشانی - انشائیہ از ابراہیم جلیس

biryani-ki-pareshani-ibrahim-jalees

عشق اور مشک کے علاوہ بریانی بھی کمبخت وہ غذا ہے کہ
چھپاؤ لاکھ خوشبو کو کہ خوشبو آ ہی جاتی ہے۔


اور اس خوشبو سے میرے ساتھ ایک نہایت تلخ واقعہ پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ایک دن۔۔ وہ دن شاید منگل کا تھا بدھ کا تھا یعنی بکروں اور دبنوں کی ہفتہ واری چھٹی کا دن تھا۔۔۔ دوپہر کو گھر سے کھانا دفتر آیا۔۔ ٹفن کیریئر کھول کر دیکھا تو اس میں مسور کی دال تھی اور ع
دال کرتی تھی عرض یوں ماحول
کیا۔۔۔؟
(بطرز کے سی ڈے)
جاؤ جاؤ اے میرے بھیا مجھے نہ کھاؤ تم


میں نے بھی سوچا۔۔۔ "یہ منہ اور مسور کی دال۔۔۔"چلو کسی ہوٹل میں چل کر "جہانِ مرغ وماہی" آباد کریں۔ ورنہ اسی طرح دال اور وہ بھی ڈالڈا میں پکی ہوئی دال ڈال ڈال کر کھاتے رہے تو کہیں "قطب ابدال "نہ بن جائیں۔
ہوٹل پہنچ کر مچھلی اور مرغ بریانی کھائی اور خوب "ٹام ٹچ" ہوکر کھائی۔


مگر صاحب۔۔۔۔ بریانی تو دوپہر میں کھائی تھی۔ لیکن"آغوب۔ آغوب" ڈکاریں شام تک آتی رہیں۔ شام کو گھر پہنچے۔ بھوک ہی محسوس نہیں ہورہی اعلان کردیا کہ آج بھوک نہیں ہے۔ رات کا کھانا نہیں کھائیں گے۔"آغوب۔۔ " یہ کمبخت ڈکار عین اس وقت نکلی جب ہم اعلان کررہے تھے۔ ڈکار کے ساتھھ ہی بیوی کے نتھنے بھڑکے اور اس نے"سوں سوں" سونگھتے ہوئے پوچھا۔
"اچھا تو تم نے بریانی کھائی ہے؟"


اس وقت بچے بھی سامنے تھے اور یہ بھی ہم جانتے تھے کہ ان سب نے دوپہر کو چنے کی دال کھائی ہے۔ بچے بھی ایسی نظروں سے ہمیں دیکھ رے تھے جیسے کہہ رہے ہوں:
"اچھا جی ابا جی۔۔۔!! ہم تو کھائیں چنے کی دال اور تم الگ الگ اڑاؤ بریانی۔"


ہماری حالت اس وقت جیسے ایک مجرم کی سی تھی۔ بیوی سر کھانے لگی کہ ضرور تم نے بریانی کھائی ہے !
لیجئے۔۔ ہم نے بریانی کھائی تو بیوی نے ہمارا سر کھانا شروع کردیا۔۔ بریانی نہ ہوئی پریشانی ہوئی۔ بیوی کہہ رہی تھی۔
"کھاؤ قسم۔۔ کھاؤ میرے سر کی قسم کہ تم نے بریانی نہیں کھائی۔۔۔؟"


عجیب مصیب ہے۔۔! بریانی کھاؤ تو اس کے بعد قسم بھی کھاؤ۔۔ اور قسم بھی کیسی کھاؤ! بیوی کے سر کی قسم کھاؤ۔۔ بریانی کے بعد بالعموم کوئی سوئٹ ڈش یا میٹھا کھایا جاتا ہے ، قسم تو نہیں کھائی جاتی۔۔!
تنگ آکر میں نے بیوی سے کہا۔
"خدا کے لئے نہ تم خصم کو کھاؤ نہ میں قسم کھاؤں اور قسم کھائے بغیر ہی تم کو بتا دوں کہ ہاں ہاں میں نے بریانی کھائی ہے اور اب جو کرنا ہے کرلو۔۔"
بس صاحب۔۔ یہ سننا ہی تھا کہ بیوی نے سر پر دو ہتّڑ مارے (دو ہتّڑ مارنے کے بعد قسمت پھوٹے گی نہیں تو کیا سالم رہے گی۔)


"ہائے ہائے۔ اکیلے ڈیڑھ روپے میں تو سارے گھر والوں کا آٹا آتا ہے ، ہم کھائیں چنے کی دال اور تم اڑاؤ نقد مال! ہائے ہائے!"


بیوی کے اس بین سے پڑوسی دوڑے آئے اور گھر کا دروازہ کھٹکھٹانا شروع کردیا کہ
"کیوں بھئی۔۔ خیریت ہے نا۔۔؟"
بات سارے پڑوسیوں میں پھیل گئی کہ
"میاں جی۔۔ ہوٹل سے بریانی کھا کر آئے ہیں۔"
پڑوسی کھسر پھسر میں لعن طعن کررہے تھے کہ:
"عجیب خود غرض آدمی ہے ، بال بچے روکھی سوکھی کھائیں اور اکیلا بریانیاں اڑاتا ہے !"


بڑی شرمندگی ہوئی۔۔ اور میں نے کان پکڑ کر توبہ کی۔
توبہ نمبر ایک: آئندہ سے اس وقت تک بریانی کبھی نہیں کھاؤں گا جب تک کہ اس ملک کے سارے آدمیوں کو بریانی کھانے کو نہ ملے۔
توبہ نمبر دو : اکیلا کبھی کچھ نہیں کھاؤں گا۔ کھاؤں گا تو سب کے ساتھ کھاؤں گا اور اس ملک کے سب باشندے جو کھاتے ہیں وہی کھاؤں گا۔


بہتر ہے کہ آپ بھی توبہ میں میرے ساتھ شامل ہو جائیں کیونکہ ایک آدمی اکیلا دس آدمیوں کا کھانا کھا جائے تو دس آدمی بھوکے رہتے ہیں۔
"اللہ تبارک و تعالیٰ کسی کو بھوکا نہ رکھے۔"
آمین ثم آمین۔


***
ماخوذ از کتاب: اوپر شیروانی اندر پریشانی
مصنف: ابراہیم جلیس (سن اشاعت: نومبر 1966ء)

Biryani ki pareshani. Light-Essay: Ibrahim Jalees

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں