اترپردیش کا مہنت بجرنگ منی - اسلامو فوبیا کی بدترین مثال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-04-10

اترپردیش کا مہنت بجرنگ منی - اسلامو فوبیا کی بدترین مثال

rape-threat-to-muslim-women-mahant-bajrang-muni

بلتکار (عصمت ریزی) جرم نہیں ہے !
مہنت بجرنگ منی اسلامو فوبیا کی بدترین مثال


مسکرا کر گالی دینا جرم نہیں ہے !
مسلمانوں کے خلاف پہلا قصور قابل ضمانت ہے !
اور اب ' بلتکار ' بھی جرم نہیں رہ گیا ہے !


ایک مہنت نے کھلے عام لوگوں کو 'بلتکار' کرنے کی اجازت دے دی ہے ، اور کسی مہنت کی بات نہ غلط کہی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس پر عمل کو بُرا سمجھا جا سکتا ہے۔ مہنت تو دھرم کا ایک رکشھک ہوتا ہے ، اور وہ جو بھی بات کہتا ہے دھرم ہی کی ایما پر کہتا ہے۔ لہٰذا دھرم گرو بجرنگ مُنی داس نے جب مسلم بہو بیٹیوں کے ' بلتکار' کی دھمکی دی ، تو ان کے چیلوں نے اسے ' دھمکی' نہیں دھرم کا ایک فر مان ہی سمجھا ہوگا۔
اترپردیش کے سیتا پور کے خیبر آباد قصبہ کی ایک مسجد کے سامنے جیپ میں بیٹھے بجرنگ منی داس کی زبان سے جب زہریلے الفاظ نکل رہے تھے تب وہاں جمع بھیڑ تالیاں بجا رہی اور ' جے شری رام' کے نعرے لگا رہی تھی۔ ان تالیوں اور نعروں سے یہ خوب اندازہ ہوتا ہے کہ آج عام ہندوؤں کے ذہنوں کو کس قدر مسموم کر دیا گیا ہے۔


میں نے بجرنگ مُنی کی زہریلی تقریر کا ویڈیو کلپ دیکھا ہے ، اور مہنت کی زبان سے نکلتے جھوٹ کو بھی سنا ہے۔ مہنت کی زبان سے جب یہ نکلتا ہے کہ:
"اگر کوئی ہندو لڑکی چھیڑی گئی تو میں گھر کے اندر گھس کر عورتوں کو اٹھا لاؤں گا اور بلتکار کروں گا "
تب میں ویڈیو کو بند کردیتا ہوں۔ پھر ایک اور ویڈیو سامنے آتا ہے جس میں مہنت 'بلتکار' کی دھمکی کے وائرل ویڈیو پر سوال اٹھاتا ہے ، کہتا ہے کہ ویڈیو کو 'ٹیمپر' کیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ اس نے جو نہیں کہا وہ ویڈیو میں ڈال گیا گیا ہے۔ چونکہ ویڈیو 'الٹ نیوز' پر آیا تھا جس سے محمد زبیر کا نام وابستہ ہے اس لئے بجرنگ مُنی کو ویڈیو میں ٹیمپرنگ کا الزام لگاتے ہوئے قطعی شرم محسوس نہیں ہوئی۔ اس کو یہ لگ رہا تھا کہ چونکہ ایک مسلمان کا نام لیا گیا ہے اس لیے لوگ اس کی بات کو سچ مان لیں گے۔ مگر جھوٹ کبھی سچ نہیں ہو سکتا۔
اب بجرنگ مُنی اپنی زہریلی تقریر کے لیے جواز پر جواز دیئے جا رہا ہے ، حالانکہ یہ سارے جواز جھوٹ پر مبنی ہیں۔ یہ جواز کہ مسلمان اُسے قتل کرانا چاہتے ہیں اور اس پر 9 بار قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے اور اس کے قتل کے لیے علاقہ کے مسلمانوں نے 28 لاکھ روپئے جمع کیے ہیں !


بات یہ ہے کہ خیرآباد قصبہ کے ' بڑی سنگت آشرم' سے لگ کر ایک زمین ہے۔ الزام ہے کہ یہ مہنت اپنے آشرم کو وسیع کرنے کے لیے اس زمین پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ، اور جو اس زمین پر اپنے حق کے دعویدار ہیں ، وہ مہنت کو قبضہ کرنے سے روک رہے ہیں۔ چونکہ زمین کے دعویدار مسلمان ہیں اس لیے یہ معاملہ قدرے ' فرقہ وارانہ' بن گیا ہے۔ زمین کے تنازعے میں مہنت اور اس کے ساتھیوں اور زمین کے دعویداروں کے درمیان ایک بار سخت مار پیٹ ہو چکی ہے۔ مارپیٹ میں مہنت کو چاقو کے گھاؤ بھی لگ چکے ہیں۔ تو اصل معاملہ ہندو۔ مسلم کا نہیں زمین کا ہے۔ اور اس معاملے میں دونوں ہی جانب سے پولس نے شکایتیں درج کر رکھی ہیں۔ لہٰذا اگر یہ لڑائی ایک ہندو اور مسلمانوں کے درمیان ہے بھی تو وجہ فرقہ وارانہ نہیں بلکہ معاملہ ملکیت کا ہے۔ ملکیت کے ایک جھگڑے میں سارے مسلمان کیسے شامل ہو گئے اور مسلم عورتیں کہاں سے آ گئیں کہ ان کے ' بلتکار' کی دھمکی دی جائے !! مہنت جائیداد کے لیے لڑتے، مگر اُسے فرقہ وارانہ رخ تو نہ دیتے ! ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ مہنت سیتاپور کا نہیں پرتاپ گڑھ کا رہنے والا ہے ، لیکن سیتا پور میں آشرم کھول رکھا ہے۔


بات مہنت کی ' بلتکار' کی دھمکی سے شروع ہوئی تھی۔ جب دھمکی والا ویڈیو وائرل ہوا تب مہنت کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں ، بڑی بھاری تعداد میں لوگوں نے مہنت پر کارروائی کا مطالبہ کیا ، خواتین کے قومی کمیشن کی چیئرپرسن ریکھا شرما نے بھی سخت کارروائی کی مانگ کی۔ اور اب مہنت پر معاملہ درج کر لیا گیا ہے۔ اب مہنت ہے کہ معافیاں مانگتے پھر رہا ہے ، ماؤں بہنوں کے احترام کی باتیں کر رہا ہے۔۔۔
کیا واقعی اسے پولس کا اس قدر خوف ہے ؟ ممکن ہے ، کیونکہ اس مہنت نے ایک بار ، مذکورہ زمین تنازعے میں وزیراعلیٰ یوپی یوگی آدتیہ ناتھ کی سرکاری رہائش گاہ کے سامنے خودکشی کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ اور پولس پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ اسے قتل کرنا چاہتی ہے۔ تو اس مہنت کے پولس سے 'اچھے سمندھ' نہیں ہیں۔ اس لیے ممکن ہے پولس کی گرفتاری سے وہ بچنا چاہتا ہو۔


سوشل میڈیا پر اور چند نیوز چینلوں پر مہنت کی دھمکی کی خبر تھی لیکن "گودی میڈیا" نے مہنت کی ' بلتکار' کی دھمکی والی خبر پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی ، شاید اس لیے کہ مسلم عورتوں کے ریپ کی دھمکی شاید اس کے لیے خبر نہ ہو ، شاید گودی میڈیا یہ نہ چاہتا ہو کہ ایک مہنت کو ' منفی' ڈھنگ سے پیش کرے۔ ویسے بھاجپائی میڈیا مہنت کو ہمیشہ سے 'بےقصور' مانتا آ رہا ہے۔
ایک سنگھی ویب سائٹ ' اوپ انڈیا' نے 25/فروری 2022 کو زمین تنازع معاملے میں یہ سرخی لگا کر سارے معاملے کو زہریلا بنانے کی حرکت کی تھی کہ:
"مندر کی کروڑوں کی زمین پر قبضہ کے لیے عتیق ، مقصود نے مہنت کو مارنے کا بنایا پلان ، پہلے بھی کئی مہنتوں کی ہتیا کا آروپ "۔
حالانکہ یوپی میں مہنتوں اور سادھوؤں کے قتل کی جو وارداتیں ہوئی ہیں ( یوگی راج میں 42 سادھو قتل ہو چکے ہیں) ان میں زمینوں کے تنازعات ہی اہم رہے ہیں ، کوئی بھی سادھو فرقہ وارانہ وجہ سے نہیں مارا گیا۔ ایودھیا کے مہنت نریندر گری کا معاملہ لے لیں ، اسے کچھ لوگ خودکشی کہتے ہیں ، کچھ قتل، اس کے پیچھے زمین کا تنازعہ بتایا جا رہا ہے۔ گری کا تعلق نرنجنی اکھاڑہ سے تھا اور یہ الزام ہے یہ اکھاڑہ اپنی زمینیں فروخت کرتا رہا ہے۔ دیوریا کا ایک معاملہ لے لیں ، سادھو سجّا رام ، ہربھجن اور سادھو کے ایک چیلے کی لاشیں اس طرح ملی تھیں کہ ان کے ہاتھ چارپائی سے بندھے ہوئے تھے۔ بلند شہر میں دوسادھو ، غریب داس اور شیرسنگھ مارے گئے تھے۔ یہ معاملے بھی جائیداد سے متعلق بتائے جاتے ہیں۔ مزید اور معاملات ہیں۔
ایسے معاملات کو وجہ بناکر مسلم عورتوں کے 'بلتکار' کی دھمکی دینے کی ایک وجہ سمجھ میں آرہی ہے ؛ فرقہ وارانہ زہر پھیلاکر جائیداد واملاک پر قبضہ کرنا۔ لوگ اسی کو 'اسلاموفوبیا' کہتے ہیں۔ وہ 'اسلاموفوبیا' جس کی ان دنوں سارے ملک میں لہر چلی ہوئی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ملک کے بڑے بڑے دانشور ، سیاست داں اور مفکرین 'اسلاموفوبیا' سے انکار کرتے چلے آرہے ہیں۔ ساری دنیا میں بھارت کی تھو تھو ہورہی ہے۔ امریکی کانگریس کی سینٹر الحان عمر نے باقاعدہ صدر امریکہ جوبائیڈن سے سوال کرلیا ہے کہ وہ کیوں بھارت میں مسلمانوں کے جبر کے خلاف مودی سرکار کی سرزنش نہیں کرتے ؟


کیا غازی آباد ضلع کے ڈاسنہ مندر کے مہنت یتی نرسنگھانند سرسوتی نے 3اپریل کو نئی دہلی کی ایک ' ہندو مہاپنچائت' میں مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا جو نعرہ بلند کیا تھا وہ 'اسلاموفوبیا' نہیں ہے ؟ کیا یہ کہنا کہ اگر ملک میں مسلمان وزیراعظم آگیا تو آئندہ کے 20برسوں میں 50 فیصد ہندو اپنا دھرم تبدیل کرلیں گے اور آئندہ کے 20 برسوں میں 40 فیصد قتل کردیئے جائیں گے ، مسلمانوں کے تعلق سے ساری ہندو آبادی کو خوف میں مبتلا کرنا نہیں ہے ؟
یہی تو 'اسلامو فوبیا' ہے۔
کیا یہ کہہ کر اکسانا "مردبنو" لوگوں کومسلمانوں کے قتل عام پر آمادہ کرنا نہیں ہے ؟ اور کیا اسے ' اسلاموفوبیا' نہیں کہا جائے گا ؟ یہ وہی یتی نرسنگھا نند ہے جس نے دسمبر 2021ء میں ہری دوار میں ' دھرم سنسد' کا انعقاد کیا تھا۔ وہ ' دھرم سنسد جس میں مسلمانوں کی نسل کشی کا نعرہ لگایا گیا تھا۔
لوگوں کو خوب یاد ہوگا کہ ہری دوار میں 17 تا 19دسمبر 2021ء کو جو ' دھرم سنسد' ہوا تھا اس میں یتی نرسنگھا نند نے کہا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھاکر جنگ چھیڑدی جائے تاکہ 2029 میں کوئی مسلمان اس ملک کا وزیراعظم نہ بن سکے۔ اس 'دھرم سنسد' میں پٹنہ کے دھرم داس مہاراج ، سمبھوی دھام کے آنند سروپ مہاراج اور ہندو مہاسبھا کی پوجا شکن پانڈے نے انتہائی زہریلی تقریریں کی تھیں۔
یہ وہی ' دھرم سنسد' تھا جس میں یتی نرسنگھا نند نے ہندونوجوانوں سے ' بھنڈران والا ' اور 'پربھاکرن' بننے کے لیے کہا تھا۔ پولس نے اس مہنت پر ایف آئی آر درج کی ہے ، اسے ملز م بنایا ہے۔ واضح رہے کہ جتیندر نارائن سنگھ تیاگی ، جو پہلے وسیم رضوی کے نام سے جانا جاتا تھا ، وہ بھی ' دھرم سنسد' میں شامل تھا اور آج بھی سلاخوں کے پیچھے ہے۔ تو یہ ملزم ضمانت پر باہر آکر دہلی ، میں زہر اگل رہا ہے۔ معاملہ درج تو کیا گیا ہے ، پر سوال یہ ہے کہ معاملات درج کیے جانے کے بعد کوئی کارروائی ہوگی بھی یا نہیں؟ ہر ی دوار معاملہ میں کارروائی کی جاتی تو آج اس زہریلے مہنت کی زبان نہ کھلتی۔


یہ زہریلے مہنت اور سادھو سرکاری چھترچھایا یا باالفاظ دیگر سرکاری سرپرستی میں زہر اگل رہے ہیں ،یہ خوب ظاہر ہے۔ ملک کی موجودہ سرکار ، بی جے پی کے قائدین ، وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ سب کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں ، مگر یہ کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتے۔ کیا لوگ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ کیسے بی جے پی کے ممبران اسمبلی اور ذمے داران گوشت کی دوکانیں بند کرانے کے لیے ، حلال گوشت پر پابندی لگانے کے لیے ، پھل فروش مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کے لیے، گلا پھاڑ پھاڑ کر شور مچارہے ہیں ! کیا کسی سے حجاب معاملے میں کی جانے والی فرقہ پرستی چھپی ہوئی ہے !کیالوگ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ کشمیری پنڈتوں کے نام پر 'دی کشمیر فائلس' فلم کیسے نفرت کو پروس رہی ہے ، اور کیا لوگ یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ یوپی میں یوگی کا بلڈوزر مسلمانوں کی املاک پر چلنے لگا ہے !!
مودی سرکار کو خوب پتہ ہے کہ اس کی حکومت ان ہی موضٰوعات پر برقرار رہ سکتی ہے ، اور 2024ء کے انتخابات تک یہ موضوعات مسلسل چلتے رہیں گے۔ حالات انتہائی مایوس کن نظر آرہے ہیں ، لوگوں میں خوف پیدا کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس مایوسی سے ابھر کر آگے بڑھنا ضروری ہے۔ ڈر اور خوف سے اوپر اٹھ کر اپنا کام کیے جانا ضروری ہے۔ فرقہ پرستی بہت دنوں تک نہ چلی ہے اور نہ چلے گی ، ایک دن پھر ہم سب کا ہوگا۔

***
بشکریہ: شکیل رشید فیس بک ٹائم لائن
khansh.rasheed[@]gmail.com

Mahant Bajrang Muni video threatening to kidnap, rape Muslim women in UP's Sitapur. Analysis: Shakeel Rasheed, Mumbai.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں