راجندر کمار : فلم انڈسٹری میں فنکاروں کو اپنا مستقبل محفوظ کرنے کا مشورہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-12-04

راجندر کمار : فلم انڈسٹری میں فنکاروں کو اپنا مستقبل محفوظ کرنے کا مشورہ

rajendra-kumar-kafeel-azar
فلمی دنیا کے مشہور و مقبول اداکار راجندر کمار المعروف جوبلی کمار (پیدائش: 20/جولائی 1927ء، سیالکوٹ) کے انتقال (12/جولائی 1999ء، ممبئی) کی خبر پر ماہنامہ شمع (نئی دہلی) میں آنجہانی اداکار سے وابستہ کچھ یادوں کا سلسلہ مکتوبات کے ذریعے جاری ہوا، جن میں سے کفیل آزر (پیدائش: 23/اپریل 1940ء) کا تحریر کردہ ایک خط ذیل میں پیش ہے۔

ریڈیو، ٹی۔وی اور اخبارات میں جوبلی کمار یعنی راجندر کمار جی کی وفات کی المناک خبر سنی اور پڑھی۔ یہ نقصان بھی انڈسٹری بہت دن تک پورا نہ کر سکے گی۔


راجندر کمار صاحب نہایت نفیس، بااخلاق اور دوسروں کا درد محسوس کرنے والے اداکار تھے۔ میں نے جب فلم انڈسٹری میں پہلا قدم رکھا تو سب سے پہلے راجندر کمار صاحب کو دیکھا۔ فلم انڈسٹری میں جانے کا یا وہاں کام کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا، نہ میں فلم انڈسٹری کی "ف" سے ہی واقف تھا۔ ڈیڑھ ماہ سے کام کی تلاش اور فاقوں کا استقبال کر رہا تھا۔ ان دنوں اندھیری میں ایک ماڈرن اسٹوڈیو تھا (جو اب نٹراج اسٹوڈیو ہے)۔ وہ اسٹوڈیو کمال امروہی صاحب نے لیز پر لے لیا تھا اور اپنے ایک رشتہ دار بھائی قمر رضی صاحب کو امروہہ سے بلا کر اسٹوڈیو کا منیجر بنا دیا تھا۔ قمر صاحب میرے چچا شبنم عتیقی صاحب کے قریب ترین دوستوں میں تھے۔ جون ایلیا بھی اس گروپ میں شامل تھے۔ قمر صاحب سے میں نے پڑھا بھی تھا۔ میں ان سے ملنے گیا۔


جب اسٹوڈیو کے گیٹ میں داخل ہوا تو سامنے ہی اسٹوڈیو کا آفس تھا، جہاں باہر ایک بنچ مزدوروں کے بیٹھنے کے لیے پڑی ہوئی تھی۔ وہاں ہیرو ٹائپ ایک نوجوان بڑے آرام سے بنچ پر پیر رکھے بیٹھا تھا۔ جب میں قریب آیا تو ایسا لگا کہ یہ چہرہ پہلے کہیں دیکھا ہے۔ اس وقت تک میں نے راجندر کمار کی دو فلمیں "وچن" اور "مدر انڈیا" دیکھی تھیں۔ میں نے تصدیق کے لیے کسی سے پوچھا تو پتا چلا کہ واقعی یہ راجندر کمار ہیں۔ میں انہیں خوشی اور حیرت کے ملے جلے جذبات سے دیکھ کر قمر بھائی کے آفس کی طرف چل پڑا۔


راستے میں مینا کماری صاحبہ نظر آئیں۔ سفید ساری میں اس وقت وہ یقیناً قابل تعظیم لگ رہی تھیں۔ بےساختہ میرا ہاتھ سلام کے لیے اٹھ گیا۔ مینا جی کی میں نے ایک فلم "چاندنی چوک" دیکھی تھی جس کی مناجات:
اے خدا! مجبور کی فریاد ہے!
پر میں بےحد رویا تھا۔ ان دنوں ویسے بھی میں بہت جذباتی تھا۔ اے۔آر۔خاتون کے ناول شمع، شمیم، کہکشاں وغیرہ کے علاوہ عادل رشید صاحب کے "لرزتے آنسو" نے میری پلکوں پر بہت سے آنسو لرزائے تھے۔ ان دنوں ہمارے کٹر مذہبی گھرانے میں ناول یا رسالہ پڑھنا گناہ تھا۔ رات کو جب سب سو جاتے تھے، میں چوری سے تیل کا چراغ سرہانے رکھ کر ایک ایک رات میں ناول ختم کرتا تھا۔


اس دن کمال اسٹوڈیو میں "چراغ کہاں روشنی کہاں" (ریلیز: اگست 1959ء) کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ میناکماری کمال پکچرز کی معرفت ہی فلموں میں کام کرتی تھیں اور ان کے اگریمنٹ میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ جس فلم میں مینا جی ہوں گی، اس کی شوٹنگ کمال اسٹوڈیو میں ہی ہوگی۔
میں بھی کمال اسٹوڈیو میں ملازم ہو گیا۔ تب راجندر کمار سے میرا تعارف ہوا۔ وہ اردو کے آدمی تھے۔ راجندر صاحب کی جدوجہد وغیرہ کی کہانیاں تو بہت مشہور ہیں۔ لیکن جب وہ جوبلی کمار ہو گئے تھے تب بھی ان کی سادگی اور اخلاق میں فرق نہیں آیا۔ انہوں نے فلم والوں کو ایک رسم اور سکھائی:
"سورج بہرحال شام کو ڈوبتا ہے، اس لیے پیسے کی قدر کرو۔ پتا نہیں مستقبل کیا ہو؟"
تبھی سے کامیاب ہیرو ہیروئینوں نے اپنا پیسہ بزنس وغیرہ میں لگایا۔ اور آج کی نوجوان نسل تو بہت ہی سمجھدار ہو گئی ہے۔


راجندر صاحب فلم انڈسٹری میں کمار کے لقب سے یاد کیے جاتے تھے۔ وہ بس ایک ناکامی کا احساس لے کر گئے کہ ان کا بیٹا کمار گورو بہت کوششوں کے باوجود اور بہت اچھا ایکٹر ہونے کے باوجود کامیاب ہیرو نہ بن سکا۔


یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ فلم انڈسٹری میں داخل ہوتے ہی میں نے پہلی بار بھی کمار صاحب کو دیکھا اور انڈسٹری چھوڑ کر آتے ہوئے آخری بار بھی۔ وہ ایم این یسین اور کمل چودھری کی فلم "وقت کا سکندر" میں کام کر رہے تھے۔ یہ فلم بہت اچھی بنی ہے اور اس وقت کے حساب سے انڈسٹری کی بڑی فلموں میں اس کا شمار تھا۔
نہ جانے کیوں پروڈیوسر اور فنانسر میں جھگڑا ہو گیا۔ مکمل ہونے کے بارہ (12) برس بعد بھی اس فلم کو اسکرین پر آنے کا موقع نہیں ملا۔ اس فلم میں دھرمیندر جی، کمار صاحب، سمیت سہگل، امریش پوری، شکتی کپور، پریم چوپڑہ، رنجیت کے علاوہ مالا سنہا، انیتا راج اور وجیتا پنڈت نے کام کیا ہے۔ فلم میں نے لکھی ہے اور گانے بھی۔ شنکر جی (جے کشن والے) کا میوزک تھا مگر ان کا انتقال ہو گیا۔ دو گانے ریکارڈ ہو چکے تھے۔ اس لیے کسی اور میوزک ڈائرکٹر نے دلچسپی نہیں لی۔ مجبوراً شاردا کو لینا پڑا اور گیت نامقبول ہوئے۔


کمار صاحب سے جو آخری ملاقات تھی اس میں وہ یہ کہہ رہے تھے کہ:
"میاں کفیل صاحب! جب اداکاری کی بجائے دلیپ صاحب کا جھوٹا کھاتے تھے تو جوبلی کمار تھے اور اب اپنا کھانا آ گیا ہے تو کوئی پوچھتا نہیں۔"
یہ سچ بہت کم لوگ بول سکتے ہیں۔


راجندر کمار صاحب کو شعر و شاعری کا بھی ذوق تھا اور ہم اکثر شوٹنگ سے جب ذرا فرصت ملتی تھی تو شعر و شاعری کرتے تھے۔ مجھے "وقت کا سکندر" کی شوٹنگ کے دوران کمار صاحب کے ساتھ گزارا ہوا ایک ایک لمحہ یاد آ رہا ہے۔ میں ان کے خاندان کے غم میں برابر کا شریک ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ ان کی آتما کو شانتی ملے۔
کمار صاحب کا انڈسٹری والوں پر بہت بڑا احسان یہ ہے کہ انہوں نے مستقبل کو محفوظ کرنے کا نہ صرف مشورہ دیا بلکہ عملی طور پر راہ بھی دکھائی۔


اس سلسلے کا ایک انتہائی دردناک واقعہ سنیے۔ جو اب بھی یاد آ کر میری راتوں کی نیند حرام کر دیتا ہے۔
میں کمال صاحب کا نائب ہدایتکار بھی تھا اور کاسٹیوم انچارج بھی (جس میں جاوید اختر نے بھی دو سال گزارے ہیں)۔ میں مینا جی کے پرستاروں کے خطوط کے جوابات بھی لکھتا تھا۔ میں کمال صاحب سے کسی نئے ملنے آنے والے کا جغرافیہ بھی پوچھتا تھا۔ ایک دن میں آفس میں بیٹھا تھا کہ ایک صاحب بکھرے ہوئے بال، میلے اور پھٹے ہوئے کپڑے، ننگے پیر، چہرے پہ فاقے لکھے ہوئے، میرے پاس آئے اور بولے: مجھے کمال صاحب سے ملنا ہے۔
میں بداخلاق کبھی نہ تھا، نہ ہوں۔ میں نے ان سے پوچھا: کمال صاحب سے کیا کہوں؟
وہ بولے: کہنا ماسٹر نثار آیا ہے۔
یہ سننا تھا کہ میرے جسم کا رواں رواں کھڑا ہو گیا اور میں فوراً ہی کرسی سے اٹھا اور انہیں اپنی کرسی پیش کی۔


ماسٹر نثار وہ پہلے ہیرو تھے جب فلموں میں گانے بھی آنے لگے تھے مگر ان کی ریکارڈنگ الگ سے نہیں ہوتی تھی، یعنی پلےبیک ایجاد نہیں ہوا تھا۔ اُس دور میں ماسٹر نثار آج کے دلیپ کمار سے بھی آگے تھے، وہ گلے میں ہارمونیم ڈال کے ہیرو کی طرح ہر قسم کے گانے گاتے تھے۔ خوبصورت بھی تھے اور مالدار بھی۔ کار بھی تھی۔ ان کے حوالے سے یہ بات مشہور ہے کہ اگر وہ کسی علاقے سے گزرتے ہیں اور خواتین کو معلوم ہو گیا ہو تو ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے چھتیں چھجے گر پڑتے تھے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کا یہ حال کیسے ہوا؟
آنکھوں میں آنسو بھر کر بولے: ہم نے وقت کی رفتار کو نہیں پہچانا۔ یہ بھی نہیں سمجھا کہ دن کے بعد رات بھی آتی ہے۔ یہ سمجھا کہ یہ حالات ہمیشہ رہیں گے، اس لیے کچھ بھی پس انداز نہیں کیا۔ اور آج آپ دیکھ رہے ہیں۔"
میں ان کے لیے جو اس وقت کر سکتا تھا کیا پھر کمال صاحب کے آفس میں پہنچا آیا۔ یہ ہے فلم انڈسٹری کی دھوپ چھاؤں۔


***
ماخوذ: ماہنامہ "شمع" دہلی۔ (اگست-1999) ، کالم 'بازگشت'۔

Rajendra Kumar's advice to save future. Letter: Kafeel Azar, Delhi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں