مادھوری ڈکشٹ (پیدائش: 15/مئی 1967) نے بالی ووڈ کی فلمی دنیا میں اپنے کیرئر کی شروعات 1984 میں فلم "ابودھ" (ہیرو: تپس پال) کے ذریعے کی تھی۔ لیکن انہیں شہرت و مقبولیت 1990 کی دہائی کی لاتعداد فلموں کے ذریعے نصیب ہوئی۔ جہاں انہوں نے لیجنڈ اداکاروں جیسے دلیپ کمار، جتیندر، امیتابھ بچن، ونود کھنہ وغیرہ کے ساتھ کام کیا وہیں بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں کے مقبول عام اداکاروں عامر خاں، سلمان خاں، شاہ رخ خاں، انیل کپور، جیکی شراف، گووندا، سنجے دت، متھن چکرورتی، سنی دیول وغیرہ کے ساتھ بھی ان کی جوڑی بہت پسند کی گئی۔مادھوری ڈکشٹ نے بتایا:
اپنے وقت کے معروف و مقبول فلمی رسالے "شمع" نے 1990ء کے ایک شمارے میں مادھوری ڈکشٹ کا ایک ایسا مضمون شائع کیا تھا جس میں انہوں نے اپنے ساتھی مرد اداکاروں سے متعلق اپنے تاثرات سے آگاہی دی تھی۔ یہی مضمون تعمیرنیوز کے قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
فلم "عزت دار" دلیپ کمار صاحب کے ساتھ میری دوسری فلم ہے، اس سے پہلے "قانون اپنا اپنا" میں ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ اس کے علاوہ انیل کپور کے ساتھ میں راکیش روشن کی "کرشن کنہیا" اور ڈی راما نائیڈو کی "سنگھرش" میں کام کر رہی ہوں۔ "دیوانہ مجھ سا نہیں" اور "دل" میں عامر خان کے ساتھ آ رہی ہوں۔ انیل کے ساتھ میری ایک اور فلم "بیٹا" بھی ہے۔ "دیاوان" اور "مہا سنگرام" میں میرے ہیرو ونود کھنہ تھے اور "تھانے دار" میں سنجے دت۔ گووندا کے ساتھ پہلے "پاپ کا انت" میں کام کیا تھا جو ریلیز ہو چکی ہے ، اب "عزت دار" میں پھر گووندا میرا ہیرو ہے۔
ایک اور فلم "سیلاب" ہے، جس میں میرا ہیرو آدتیہ پنچولی ہے۔ اس کے علاوہ سنجے دت کے ساتھ 'زمین' ہے ، جسے رمیش سپی ڈائریکٹ کر رہے ہیں، مہیش بھٹ کی فلم 'مستقبل' میں بھی سنجے دت میرا ہیرو ہے۔ 'پاپی دیوتا' میں جتیندر کے ساتھ میں پہلی بار کام کر رہی ہوں۔ امیتابھ بچن کے مقابل مجھے دو فلموں میں ہیروئن کا رول ملا ہے۔ ایک ٹنو آنند کی 'شناخت' ہے، دوسری جے پی دتا کی "بندھوا"۔
اس تمہید کے بعد مادھوری ان ہیروز کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرنے لگی جن کے ساتھ وہ پہلے کام کر چکی یا کر رہی ہے۔ ان میں شیکھر سمن بھی شامل ہے جو 'مانو ہتیا' میں اس کا ہیرو تھا (یہ فلم ابھی تک ریلیز نہیں ہوئی ہے) اور تپس پال بھی جس نے اس کی پہلی فلم، "ابودھ" میں ہیرو کا رول کیا تھا۔
سنجے دتسنجے بابا کو میں شرارتوں کی پوٹ کہتی ہوں۔ ہنسنے ہنسانے سے وہ کسی وقت بھی باز نہیں رہ سکتا۔ اس کی موجودگی میں ساتھی ستارے اپنی ہنسی پر قابو پا ہی نہیں سکتے۔ وہ خود خوشی کے پروں پر اڑ رہا ہو یا کسی غم کے دور سے گزر رہا ہو۔ اس کی بشاشت کسی بھی حال میں اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ سنجو کے ساتھ بمبئی، مدراس، حیدرآباد، کہیں بھی سیٹ پر یا لوکیشن پر میری شوٹنگ ہوتی ہے تو وہ مجھے دل کھول کر قہقہے لگانے کے مواقع فراہم کر دیتا ہے۔ شکار اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے اور اپنے شکار کے واقعات وہ اس انداز سے سناتا ہے کہ مزہ آ جاتا ہے۔ حوصلے کا یہ عالم ہے کہ جب اس کا کیریر اسے ڈانوا ڈول ہوتا دکھائی دے رہا تھا تو بھی مسکراہٹ ہر آن اس کے ہونٹوں پر کھیلتی رہتی تھی۔ سنجو کے ساتھ میری ایک فلم "قانون اپنا اپنا" تو ریلیز ہو ہی چکی ہے، اب مستقبل کے علاوہ تھانے دار، اور زمین ریلیز ہونے والی ہے۔
گوونداسنجو کی طرح گووندا بھی ہمیشہ ہسنتا، مسکراتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے اندر برتری کا احساس نام کو بھی نہیں۔ انا اسے کبھی پریشان نہیں کرتی۔ زندگی کی حرارت اس کی رگ رگ میں رچی ہوئی ہے۔ اتنا چلبلا ہے کہ سیٹ پر ہر پل ایک سرے سے دوسرے سرے تک لپکتا نظر آئے گا۔ خوب قہقہے لگاتا ہے ، خوب زندگی کا لطف اٹھاتا ہے۔ بہت اچھا ڈانسر ہے اس سے بھی بڑھ کر ایک اچھا انسان ، ایک چاہنے والا شوہر، ایک جان چھڑکنے والا باپ۔ پہلے دن جب میں ، 'پاپ کا انت' کے لئے اس کے ساتھ شوٹنگ کرنے کی غرض سے پہنچی تو دل ہی دل میں کافی ڈر رہی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ میں نے فلم 'سدا سہاگن' میں اس کے ساتھ کام کرنے کی ٹی راما راؤ کی آفر نامنظور کر دی تھی اور اس واقعہ کے بعد پہلی مرتبہ اس کا اور میرا آمنا سامنا ہو رہا تھا۔ رسالوں، اخباروں نے اس واقعہ کو اس طرح اچھالا تھا کہ رائی کا پربت بنا دیا تھا، اور مجھے ویمپ کا درجہ دے ڈالا تھا۔ لیکن پاپ کا انت کے سیٹ پر گووندا کے رویہ میں رنجش کی کوئی جھلک نہ تھی۔ وہ بہت تپاک سے ملا اور اس طرح میری ساری بوکھلاہٹ دور ہو گئی۔ اس نے مجھ سے یہ کہا کہ اگر میری جگہ وہ ہوتا تو کسی آفر کے پرکشش نہ ہونے کی صورت میں وہ بھی صاف انکار کر دیتا۔ میں نے بھی اسے بتا دیا کہ اگر میں نے اس فلم میں کام کرنا قبول نہیں کیا تھا تو اس کا سبب رول کا غیر اہم ہونا تھا۔ گووندا کے خلاف میرے دل میں کوئی جذبہ نہ تھا۔ بعد میں یہ رول انورادھا پٹیل نے کیا اور دیکھنے والوں نے دیکھ ہی لیا ہوگا کہ یہ رول نہ ہونے کے برابر تھا۔
دلیپ کماردلیپ کمار میرے ہیروز میں تو نہیں گنے جا سکتے، لیکن مجھے ناز ہے کہ ان جیسے عظیم اداکار کے ساتھ مجھے دو فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ پہلی بار جب مجھے ان کے سامنے اداکاری کرنا تھی تو مارے گھبراہٹ کے میرا برا حال ہو رہا تھا۔ بوکھلاہٹ میں بار بار میں ایک لفظ پر آ کر ٹک جاتی تھی۔ دلیپ صاحب میری حالت کو بھانپ گئے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ ڈائیلاگ کا وہ لفظ میں اپنے ہی ڈھنگ سے بول دوں اور صحیح غلط ادائیگی کے پھیر میں نہ پڑوں۔ اگر غلطی ہوئی بھی تو ڈبنگ کے وقت دور کی جا سکتی ہے ، ان کی باتیں سن کر میری جھجھک دور ہوگئی اور اعتماد جاگ اٹھا۔ وہ اداکاری کا اسکول ہیں۔ ان کو کام کرتے دیکھ کر ہی میں بہت کچھ سیکھ سکتی ہوں ، اسی لئے میری آرزو ہے کہ ان کے ساتھ اور بھی فلمیں مجھے ملیں۔
متھن چکرورتیجب میں متھن کے ساتھ 'پریم پرتگیہ' میں کام کر رہی تھی تو اس سے میری زیادہ جان پہچان نہ تھی ، اس لئے اپنے ساتھیوں سے اس کے الگ تھلگ رہنے پر مجھے کوئی حیرت نہیں ہوتی تھی۔ میں یوں بھی فلموں میں نئی نئی آئی تھی اور متھن اس وقت بڑے ہیروز میں شمار ہوتا تھا۔ یہ اس کی مہربانی تھی کہ ایک ایسی فلم میں اس نے فوراً کام کرنا قبول کر لیا جس کی ہیروئن میں تھی ، جلد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ ایک طرف اگر میں اس کے مزاج میں نرمی اور پاس داری رچی ہوئی ہے تو دوسری طرف وہ انڈسٹری کے سب سے زیادہ مزاجی رنگ بدلتے ستاروں میں سے بھی ایک ہے۔ کسی کو بھی اندازہ نہیں ہو سکتا کہ کب کیسا موڈ اس پر سوار ہو جائے گا۔ بعد میں جب میں اس کے ساتھ 'مجرم' میں کام کر رہی تھی تو اس کی شخصیت کا دوسرا پہلو میرے سامنے آیا۔ یہ متھن ملنسار اور خوش باش ہے۔ خود قہقہے لگانے اور دوسروں کو ہنسانے کا رسیا ہے۔ مجرم کے دور سے ہی میرے اور اس کے درمیان تکلف کی دیوار ہٹی ورنہ 'پریم پرتگیہ' کی شوٹنگ پر تو ہم درمیانی وقفوں میں ایک دوسرے سے کچھ بولتے ہی نہیں تھے۔ میں متھن کو دادا کہتی ہوں اور اب اس کے ساتھ میرا بہت اچھا تال میل ہے۔
انیل کپورانیل کے ساتھ میری پہلی فلم 'حفاظت' تھی ( اس فلم کا مقبول گیت 'بٹاٹا وڑا' آپ کو یاد ہے نا؟) اور ان دنوں سے ہی اس سے میری راہ و رسم بڑھنے لگی تھی۔ وہ پہلا بڑا ہیرو تھا جس کے ساتھ اس وقت مجھے کام کرنے کا موقع ملا۔ اس فلم سے پہلے کوئی بھی نامور ہیرو مجھے اہمیت دینے کو تیار نہیں تھا۔ میں جن فلموں میں اداکاری کر چکی تھی، وہ 'ابودھ' (ہیرو: تپس پال) اور آوارہ زندگی (ہیرو: راجن سپی) جیسی فلمیں تھیں اور تپس پال یا راجن سپی اس زمانے میں خود بھی جانے پہچانے اداکاروں میں نہیں گنے جاتے تھے۔ انیل نے اس وقت میرے ساتھ ایک فلم میں آنے کی ہمت دکھائی تھی جب انڈسٹری کے لوگ مجھ پر ایک قسمت کی ہیٹی اداکارہ کا ٹھپ لگا چکے تھے۔ بہرحال، حفاظت تکمیل کی طرف بڑھتی رہی اور انیل کے ساتھ میرے تعلقات خوش گوار سے خوشگوار تر ہوتے گئے۔ یہ خوشگوار تعلقات آج بھی قائم ہیں۔
انیل میں سب سے بڑی خوبی کام کے لئے اس کی بے پناہ لگن اور لگاؤ ہے۔ ہر سین سے پہلے وہ دل لگا کر پوری تیاری کرتا ہے ، کوئی ڈرامائی سین کرنے سے پہلے وہ جذباتی شدت کا پیکر نظر آتا ہے۔اب تک انیل کے ساتھ میں چار فلموں 'حفاظت' ، تیزاب' ،'پرندہ' اور 'رام لکھن' میں کام کر چکی ہوں۔ ہم دونوں کا سکریٹری بھی ایک ہی ہے۔ راکیش ناتھ جسے میں دیکو جی کہتی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ انیل کے ساتھ میری جوڑی مبارک اور خوش قسمتی کی ضامن کہی جا سکتی ہے۔ 'تیزاب' اور 'رام لکھن' کی کامیابی سے میرا یہ خیال اور بھی پکا ہوا ہے۔ اب میری امیدیں "کرشن کنہیا' سے وابستہ ہیں۔ لگے ہاتھوں یہ وضاحت بھی کرتی چلوں کہ انیل کے ساتھ میرا کوئی رومانی لگاؤ نہیں ہے، اگرچہ کچھ جرنلسٹ اس سلسلے میں طرح طرح کی کہانیاں اخباروں، رسالوں کے ذریعے پھیلاتے رہتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ انیل اپنی بیوی سنیتا کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہا ہے اور میں اپنی جگہ خوش ہوں۔
آدتیہ پنچولیآدتیہ ایک سنجیدہ، کم بولنے ، مگر سب سے میٹھا بولنے والے نوجوان کا نام ہے۔ انکسار اس کی ایک اور خوبی ہے۔ سیٹ پر آتا ہے تو سب کا حال پوچھتا ہے، سب سے بے تکلفی کے ساتھ بات چیت کرتا ہے۔ چاہے وہ آرٹسٹ ہو ، یا اسپاٹ بوائے ، یا ہیرڈریسر، میں نے سن تو رکھا ہے کہ اسے بہت جلد غصہ آجاتا ہے، مگر یہ تماشا میں نے اپنی آنکھوں سے ابھی تک نہیں دیکھا۔
آدتیہ پنچولی کے ساتھ میں 'سیلاب' میں کام کر رہی ہوں، جو دراصل ایک تمل ہٹ فلم 'کن سمیتم نیرم' کا ہندی روپ ہے۔ آدتیہ کے ساتھ ابھی زیادہ گھلنے ملنے کا مرحلہ نہیں آیا ہے، کیوں کہ 'سیلاب' اکیلی فلم ہے جس میں اس کے ساتھ کام کرنے کا موقع مجھے ملا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آدتیہ (جس کا اصلی نام نرمل ہے) مزاجاً بہت شرمیلا ہے۔
چنکی پانڈےچنکی میں بچپنا بہت زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ وہ بہت خوش مزاج بھی ہے۔ ایک نٹ کھٹ بچہ اور ایک بے ضرر فلرٹ اس کی ذات میں یک جا ہو گئے ہیں۔ سیٹ پر وہ نہایت آرام اور سکون سے کام کرتا ہے۔ دوسروں کو بھی اس کے سامنے کسی طرح کے کھنچاؤ میں مبتلا نہیں ہونا پڑتا۔ مرعوب کرنے کی کوشش وہ کبھی نہیں کرتا۔
میرا خیال ہے کہ چنکی کا اور حادثوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پچھلے دنوں ہی (جب میں اس کے ساتھ 'خلاف' میں کام کر رہی تھی) وہ دو تین بار حادثوں سے دوچار ہوا۔ کام یابی کی راہ پر وہ حیرت انگیز رفتار سے آگے بڑھا ہے اور بہت کم مدت میں اس نے بہت زیادہ شہرت کمائی ہے۔ 'آگ ہی آگ' کے ذریعہ اس نے اداکاری کے میدان میں قدم رکھا تھا، اور اس کے بعد وہ چار سال کے اندر ہی وہ 13 فلموں (آگ ہی آگ، اگنی، پاپ کی دنیا، نا انصافی، گھر کا چراغ، گناہوں کا فیصلہ، پانچ پاپی، گولہ بارود، مٹی اور سونا، قسم وردی کی، خطروں کے کھلاڑی، تیزاب، اور زخم) میں اداکاری کے جوہر دکھا چکا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ خلاف کے سوا ہم دونوں کو حالیہ مدت میں کسی بھی فلم میں ایک ساتھ آنے کا موقع نہیں ملا۔ اگرچہ پہلے ہم 'خطروں کا کھلاڑی' میں بھی یک جا ہوئے تھے۔
ونود کھنہونود کھنہ بےحد موڈی قسم کے انسان ہیں۔ ان کا اور میرا ساتھ پہلے 'دیاوان' میں ہوا تھا اور پچھلے دنوں 'مہا سنگرام' میں دراصل ان کے مقابل ڈمپل کو آنا تھا۔ مگر آخری لمحوں میں میرا انتخاب ہو گیا۔ ویسے ایک بات میں ضرور صاف کر دینا چاہتی ہوں ، میں نے کسی بھی موقع پر یہ نہیں کہا ہے کہ ونود کھنہ زیادہ عمر کے ہونے کے باعث میرے ساتھ نہیں جچیں گے۔ اگر واقعی میری یہ رائے ہوتی تو میں ان کے ساتھ پہلے 'دیاوان' میں اور پھر 'مہا سنگرام' میں کام ہی کیوں کرتی؟
ونود کھنہ ہمیشہ اپنی ذات میں کھوئے رہتے ہیں۔ میرے لئے تو وہ آج بھی ایک بھید ، ایک پہیلی ہیں۔ میں نہ انہیں دیاوان کے دور میں سمجھ سکی نہ مہاسنگرام کے دنوں میں۔ شاید اس ظاہری روپ کے پیچھے چھپے ہوئے اصل ونود کھنہ کو جاننے میں زیادہ وقت لگتا ہے جو ہر دم یہی 'اعلان کرتا معلوم ہوتا ہے کہ مجھے دنیا میں کسی کی پروا نہیں۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ 'پاپی دنیا' سے کیوں الگ ہو گئے جس میں ہم دونوں کو یک جا کیا گیا تھا۔
عامر خاںعام بہت مہذب، بہت شائستہ لڑکا ہے۔ اپنے کام میں بہت سنجیدہ رہتا ہے۔ کوئی بھی شاٹ کرنے سے پہلے شاید کم سے کم پانچ بار سوچتا ہے۔ بیسیوں بار میں نے اسے کوئی سین کرنے سے پہلے سین کے بارے میں ڈائریکٹر سے بات چیت کرتے دیکھا ہے،تاکہ سین ڈائریکٹر کی مرضی کے مطابق آئے۔ میرے خیال میں تو ہم دونوں کی جوڑی بہت اچھی رہتی ہے۔ اگرچہ ابھی تک ہم صرف دو فلموں میں ایک ساتھ آئے ہیں۔ ان میں سے ایک 'دیوانہ مجھ سا نہیں' ہے اور دوسری 'دل'۔ دونوں پریم کہانیاں ہیں اور عامر کی امیج سے میل کھاتی ہیں۔ عامر اس محبت کے مارے، نئی نسل کی دھڑکنوں میں سمائے ہوئے لڑکے کی امیج میں بندھ گیا ہے۔
جتیندرجتیندر کے ساتھ ابھی تک میں نے صرف ایک فلم 'تھانے دار' مکمل کی ہے۔ جس انداز سے وہ سیٹ پر کام کرتے ہیں، دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ مجھے تو یقین ہی نہیں آتا کہ وہ 52 برس کے ہو گئے ہیں۔ گووندا کی طرح جیتو جی بھی باکمال ڈانسر ہیں۔ آج کل میں 'پاپی دیوتا' میں جتیندر کی ہیروئن بنی ہوئی ہوں۔ اس فلم کی رومانی جوڑی دھرمیندر اور جیہ پردا کی ہے۔
جتیندر ہنسی مذاق میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ سیٹ پر ایسے ایسے چٹکلے سناتے ہیں کہ سارا سیٹ زعفران کا کھیت بن جاتا ہے۔ اکثر خود کو بھی مذاق کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے۔ میرے خیال میں تو ان کی مزاح کی زبردست حس نے ہی انہیں سدا جوان اور سدابہار بنا رکھا ہے۔ ہر اداکار اور اداکارہ کو یہ ہنر جیتو جی سے سیکھنا چاہئے کہ اپنا سراپا کیسے ہمیشہ متناسب رکھا جائے اور بڑھتی عمر کے آثار کو نمایاں ہونے سے کس طرح روکا جائے۔
سنی دیولسنی نے بہت شرمیلی طبیعت پائی ہے۔ اس کی مسکراہٹ اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے ، یہ معصوم سی مسکراہٹ اڑ کر دوسروں کے ہونٹوں پر بھی ناچنے لگتی ہے۔ آپ کو اگر سنی پر کسی وجہ سے غصہ آرہا ہو تو یہ بچوں جیسی دل نشیں مسکراہٹ آپ کے دل میں غصے کی جگہ پیار کے امڈنے کا سبب بن جائے گی۔
سنی اپنے کسی بھی ساتھی ستارے کی برائی نہیں کرتا۔ یہ خوبی انڈسٹری میں بہت کمیاب ہے۔ مجھے اس سنجیدہ اداکار کے ساتھ کام کرنے کی آرزو بھی ہے، انتظار بھی۔
جیکی شروفجیکی کے ساتھ میں 'اتر دکشن' 'رام لکھن' اور 'پرندہ' میں کام کر چکی ہوں۔ وہ بہت جلد گھلنے ملنے والے انسان ہیں۔ لیکن ایسے بھی نہیں کہ بس اپنے آپ سے باہر کی دنیا میں ہی گم رہیں، وہ حقیقت پسند بھی ہیں، حساس اور دردمند بھی۔ پارے جیسی بے قراری انہیں ہمیشہ اپنی لپیٹ میں لئے رہتی ہے۔ نچلے تو بیٹھ ہی نہیں سکتے، جیسے زیادہ دیر تک ایک جگہ ٹکے رہیں گے تو انہیں زنگ لگ جائے گا۔
جیکی نے ریجھنے رجھانے والی طبیعت پائی ہے۔ ان کی آنکھوں میں ایسی مقناطیسی کشش ہے کہ عورتیں ان کی طرف سے کھنچنے سے خود کو مشکل سے ہی روک سکتی ہیں۔
شیکھر سمنیہ کون صاحب ہیں؟ میں ان کے بارے میں کچھ کہہ کر خواہ مخواہ انہیں ایسی بے جا پبلسٹی نہیں دلانا چاہتی جس کے وہ قطعی حق دار نہیں ہیں۔ میں نہ ان کا ذکر کرنا چاہتی ہوں نہ اس فلم (مانو ہتیا) کا، جس میں ہم دونوں نے ایک ساتھ کام کیا تھا۔ میں تو یہ سب کچھ کسی بھیانک سپنے کی طرح بھول جانا چاہتی ہوں۔ ویسے بھی گڑے مردے اکھاڑنے سے کوئی فائدہ نہیں، جو بیت گیا، سو بیت گیا۔
تپس پالمجھے خوشی ہے کہ تپس پال بنگالی فلموں میں چوٹی کا اسٹار بن کر ابھرا ہے۔ وہ میری پہلی "ابودھ" کا ہیرو تھا لیکن 'ابودھ' مکمل کرنے کے بعد اس نے بمبئی میں دوڑ دھوپ کرنا مناسب نہ سمجھا، جہاں کڑی جدو جہد کے بعد اس کے لئے کامیابی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا امکان خاصا تھا۔ اس کی جگہ اس نے بنگال میں ہی اپنے قدم جمانے کی کوشش کی اور وہاں وہ کامیابی کی راہ پر آگے ہی آگے بڑھتا گیا۔
پچھلے دنوں بپی لہری کی سال گرہ پارٹی میں تپس سے میری ملاقات ہوئی تو ہم دونوں دیر تک باتیں کرتے رہے۔ کچھ گزرے دنوں کا ذکر ہوا، کچھ بعد کے حالات پوچھے اور بتائے گئے۔ اداکار کے طور پر تپس آج ایک نئی بلندی پر ہے۔ اگر اس کے ساتھ کسی اچھی سی ہندی فلم کی آفر آئی تو میں اسے بے جھجک قبول کرلوں گی ، بھلا جھک مجھے کیوں ہونے لگی؟
امیتابھ بچنپہلی بار جب 'شناخت' کے لئے میں نے امیتابھ بچن کے ساتھ کیمرے کا سامنا کیا تو میں سچ مچ نروس ، بلکہ مہا نروس تھی۔ ان کا رعب ایسا چھا یا ہوا تھا کہ میری سٹی گم تھی۔ مگر انہوں نے دو میٹھے بول بول کر میری ساری گھبراہٹ دور کردی۔ انہوں نے ہنس کر کہا کہ میرے ساتھ کام کرتے ہوئے وہ خود بھی نروس ہو رہے ہیں۔ پھر کہنے لگے:
"مہورت شاٹس کا تو چلن ہی ختم ہو جانا چاہئے۔ ان سے ہم لوگوں کو بے کار نروس ہونا پڑتا ہے۔ ہے نا یہی بات؟"
امیت جی کے ساتھ دو فلموں کے ملنے پر میں بہت خوش ہوں۔ بہت سنسنی محسوس کرتی ہوں۔ پہلے ان کے ساتھ میں نے شناخت میں کام کیا۔ اور اب جے پی دتا کی 'بندھوا' میں ان کے ساتھ مجھے اور شلپا شروڈکر کو لیا گیا ہے۔ امیت جی کا اس فلم میں ڈبل رول ہے۔ ایسے فن کار کے ساتھ کام کرنا یقیناً میری خوش نصیبی ہے۔
مادھوری ڈکشٹ کے چند یادگار فلمی نغمے:
بڑی مشکل ہے ، کھویا میرا دل ہے : انجام
دیکھا ہے پہلی بار ساجن کی آنکھوں میں پیار : ساجن
او پریہ پریہ کیوں بھلا دیا : دل
کہہ دو کہ تم ہو میری : تیزاب
سن بیلیا شکریہ مہربانی : 100 ڈیز
***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: اپریل 1990
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: اپریل 1990
Madhuri Dixit, introducing her heroes, an article from April-1990 issue of Shama Magazine.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں