يعقوب میراں مجتہدی - از پروفیسر اشرف رفیع - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-09-24

يعقوب میراں مجتہدی - از پروفیسر اشرف رفیع

Yakoob Miran Mujtahedi

اردو زبان کی تاریخ لغت پر نظر کریں تو بظاہر ہمیں اورنگ زیب کے عہد میں عبدالواسع ہانسوی کی ایک مختصر سی اردو لغت کا پتا چلتا ہے۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں اہل یورپ نے ذولسانی لغات تیار کیں۔ ان ہی اہل یورپ نے انیسویں صدی میں لغت نویسی کا کام فنی سلیقے کے ساتھ انجام دیا۔
ہندوستانیوں نے پہلے یک لسانی لغات تیار کیں، اس کے بعد جیسے جیسے اردو کا دائرہ کار بڑھنے لگا، ذولسانی اور سہ لسانی لغات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جانے لگی۔ بیسویں صدی میں لسان و ادب کے علاوہ سائنسی،فنی، قانونی، نظم و نسق، فلسفہ اور سماجی علوم کے تراجم کی ضرورت بڑھتی گئی۔
مولوی عبدالحق کی مشہور انگلش اردو ڈکشنری اورنگ آباد دکن سے شائع ہوئی تھی۔ اس سے مترجمین، اساتذہ اور طلبہ کی ضروریات کی تکمیل ہوتی رہی۔ رام نرائن لال کی
Urdu-English Students' Practical Dictionary
اور فیروز اینڈ سنش لاہور کی اردو انگریزی لغت 1966ء میں اور بشیر احمد قریشی کی اردو انگریزی لغت 1982ء میں منظر عام پر آئی۔ یہ ساری ڈکشنریاں ان لوگوں کے لیے جو ہمہ شعبہ جاتی، علمی اور ادبی تراجم میں مصروف ہوں، ناکافی ثابت ہوئیں۔ پچھلی صدی کے آخری ربع میں دکن کے ایک غیر معروف مگر اردو اور انگریزی کے مزاج داں، رمز آشنا یعقوب میراں مجتہدی نے ایک جامع اردو/انگریزی لغت کا منصوبہ بنایا۔

اب تک جتنی اردو/انگریزی ذولسانی لغات طبع ہوکر منظر عام پر آئی ہیں ان کے پیچھے کسی نہ کسی حد تک شاہی سرپرستی، سرکاری وسائل، انجمنوں، اداروں اور اہل علم کی مشترکہ مساعی کا ہاتھ رہا ہے، مگر یعقوب میراں مجتہدی نے اس ہفت خواں کو تن تنہا طے کیا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں، نہ دھن نہ دولت، نہ کوئی مددگار نہ سر پرست۔ ایک ملازم سرکار نے دفتری اوقات کار کے بعد لغت کی تیاری کو اپنا مشغلہ بنا لیا۔
اردو انگریزی لغت مجتہدی سے ہند و پاک، امریکہ، برطانیہ اورخلیجی ممالک کا ایک بڑا پڑھا لکھا طبقہ کسی نہ کسی حد تک واقف ہے۔ لیکن بہت کم لوگ کوائف زندگی سے واقف ہوں گے۔ یہاں یعقوب میراں مجہتدی کا تعارف کسی حد تک تفصیل سے پیش کیا جاتا ہے تاکہ مستقبل کے محققین کو ان کے بارے میں مستند مواد مل سکے۔

یعقوب میراں مجتہدی
حیدرآباد کے ایک مشہور محلہ چنچل گوڑہ میں 5/ جولائی 1931ء کو سید شہاب الدین مجتہدی کے گھر پیدا ہوئے۔
(نوٹ: ان کی وفات حیدرآباد میں 21/جولائی 2010ء کو ہوئی)۔
یعقوب میراں ابھی ڈھائی سال کے تھے کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت ان کے دادا سید تقی مجہتدی کے سایہ عاطفت میں ہوئی۔ تسمیہ خوانی کے بعد قرآن شریف (ناظرہ) کی تکمیل کی۔ چھ سال کے ہوئے تو انھیں سرکاری مدرسہ فوقانیہ چنچل گوڑہ میں جماعت دوم میں شریک کروایا گیا جہاں سے انھوں نے 1946ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔
اس زمانے کے مدرسوں میں فارسی اور عربی زبان اختیاری مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی تھی۔ ہائی اسکول میں میراں صاحب کا مضمون اختیاری اعلا ریاضی تھا۔ انٹرمیڈیٹ میں طبیعیات (Physics)، کیمیا (Chemistry) اور ریاضی (Mathematics) کی تعلیم حاصل کی۔ اس زمانے میں حیدرآباد کی تاریخی درس گاہ سٹی کالج کے پرنسپل سجاد ظہیر کے بھائی ڈاکٹر حسین ظہیر تھے۔ 1948ء میں میراں مجتہدی نے انٹرمیڈیٹ کامیاب کیا اور بی۔ایس۔سی کے لیے جامعہ عثمانیہ میں داخلہ لیا۔
اردو میڈیم سے ہی بی،ایس، سی کی تعلیم حاصل کی مگر کسی وجہ سے امتحان نہ دے سکے۔ والد کے مشورے پر انگریزی ٹائپ اور شارٹ ہینڈ کا امتحان کامیاب کیا۔ 1952ء میں بی اے میں داخلہ لیا۔ معاشیات، سیاسیات اور اردو اختیاری مضامین تھے اور ذریعہ تعلیم اردو ہی تھا۔ 1954ء میں گریجویشن کی تکمیل کی۔ اس زمانے میں تاریخ اور سیاسیات کا ایک ہی شعبہ تھا۔ پروفیسر عبدالمجید صدیقی (مصنف تاریخ گولکنڈہ) صدر شعبہ تھے۔ پروفیسر ضیاء الدین Public Administration پڑھایا کرتے تھے اور سدھا کر ریڈی فکر سیاسی (Political Thoughts) کی کلاس لیا کرتے تھے۔ ان کی اردو اچھی نہیں تھی۔ انگریزی پر بڑی قدرت حاصل تھی۔ لکچرز کے دوران اردو کم اور انگریز ی زیادہ بولتے تھے۔ امتحان سر پر آ گیا مگر ان کے لکچرز طلبہ کے پلے نہ پڑ سکے۔ طلبہ نے پروفیسر عبدالمجید صدیقی سے اپنی مشکلات اور کمزوریوں کا اظہار کیا تو انھوں نے خود Political Thoughts پڑھانے کا وعدہ کیا اور اٹھارہ دنوں میں تمام کورس مکمل کیا۔
یعقوب میراں مجہتدی جن اساتذہ سے متاثر ہوئے ان میں پروفیسر عبدالمجید صدیقی کا نام سرفہرست ہے جن کی اردو، انگریزی، تاریخ، سیاسیات کے علاوہ دوسرے مضامین پر تبحر علمی کے وہ آج بھی قائل ہیں۔ انٹرمیڈیٹ کے اساتذہ میں ریاضی کے تین اساتذہ محمد علی صاحب ، ساستورکر صاحب اور پٹواری صاحب تھے۔ محمد علی صاحب بھی اردو ہی میں پڑھاتے تھے۔ ساستورکر صاحب اور پٹواری صاحب کی اردو نہایت فصیح ہوا کرتی تھی۔ پٹواری صاحب کی اصول پسندی آج بھی یعقوب میراں صاحب کےلیے مشعل راہ ہے۔ پٹواری صاحب بڑے پر مذاق بھی تھے۔ ایک دن ایک شریر طالب علم نے ان کے کلاس میں آنے سے قبل تختۂ سیاہ پر تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ یہ شعرلکھ دیا:
ماہر بہت ہیں علم ریاضی میں آپ تو
طول شب فراق ذرا ناپ دیجیے

پٹواری صاحب نے شعر پڑھا تو مسکرا دیئے اور پر لکھ دیا:
اسے ریاضی کی زبان میں "لامتناہی" کہتے ہیں۔
انگریزی میں سراج الدین صاحب Peotry پڑھاتے تھے۔ یہ وہی سراج الدین ہیں جو جامعہ عثمانیہ کے College P۔G سکندر آباد کے پرنسپل اور شعبہ انگریزی کے پروفیسر رہے۔ انگریزی، اردو اور فارسی زبان و ادبیات پر یکساں قدرت حاصل ہے۔ اقبالیات کا گہرا مطالعہ ہے۔
یعقوب میراں کو اردو اور انگریزی سے دلچسی اور لگاؤ کی ایک وجہ پروفیسر سراج الدین بھی ہیں۔ یہ زمانہ تھا ہی 'ہیرو ورشب' کا، طلبہ اپنے اساتذہ سے غیر شعوری طور پر اثر قبول کر لیا کرتے تھے۔ یہ اثر زندگی میں کہیں نہ کہیں اپنی چمک دمک دکھا جاتا ہے۔
یونی ورسٹی کے اردو اساتذہ میں سید محمد صاحب (مصنف ارباب نثر اردو)، ڈاکٹر حفیظ قتیل (مصنف: 'معراج العاشقین کا مصنف کون؟') اور ڈاکٹر حمید الدین شاہ (اڈیٹر 'سب رس' کراچی) اردو پڑھایا کرتے تھے۔ ان سب کا علمی ذوق وشوق اور طلبہ کے ساتھ ان کا مربیانہ رویہ غیر معمولی تھا۔ ڈاکٹر حفیظ قتیل نے یعقوب میراں مجتہدی کی ڈکشنری کا پروجکٹ ابھی اس کے ابتدائی مراحل میں تھا، اس کا معائنہ کیا اور لکھا:
"کسی کام کی لیاقت اور کام کرنے کا حوصلہ کم یاب اوصاف ہیں۔ ان دونوں کا اجتماع تو قریب قریب نایاب ہوتا ہے۔ حسن اتفاق سے جس میں یہ دونوں اوصاف جمع ہوجاتے ہیں ایسا ہی آدمی بڑا کام کر جاتا ہے۔ یعقوب میراں صاحب کے کام کو دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ اللہ تعالی نے ان کو ان دونوں اوصاف سے متصف کیا ہے"۔

یعقوب میراں نے ایم اے (سیاسیات) میں داخلہ لے کر کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اعلا حضرت نواب میر عثمان علی خاں آصف سابع کے دفتر پیشی میں اسٹینوگرافر کی ایک اسامی نکل آئی۔ اس وقت میراں صاحب کے والد سید شہاب الدین مجہتدی حضور نظام کے دفتر پیشی میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔ جون 1955ء میں یعقوب میراں صاحب کو بآسانی یہ ملازمت مل گئی۔

میراں صاحب کو کھیلوں میں صرف بیڈمنٹن سے دل چسپی تھی۔ وہ اسکول کے زمانے میں بیڈمنٹن کھیلا کرتے تھے۔ انھیں فلمیں دیکھنے کا بھی بہت شوق تھا۔ وہ دوران طالب علمی اور دوران ملازمت بہت فلمیں دیکھا کرتے تھے۔

میراں صاحب کو بچپن ہی سے ترجمہ نگاری سے دلچسپی تھی۔ چھٹی جماعت میں تھے تو انھوں نے اپنی Non-Detail (سرسری مطالعہ) کی کتاب سے ایک کہانی کا ترجمہ کیا۔ وہ کہانی ایک قلمی رسالے میں شائع ہوئی۔ دفتر پیشی میں بھی کچھ نہ کچھ تر جمے کرتے رہے۔ ترجمے کے دوران بابائے اردو کی ڈکشنری سے اکثر سابقہ پڑتا رہا۔ اس ڈکشنری سے جہاں کئی الفاظ کی مشکل کشائی ہوتی تھی وہیں کئی الفاظ اپنے معنی و مفہوم کی کشادگی سے عاجز بھی تھے۔ ایسے وقت کوئی چیز ضرور زبان کے دریچوں پر دستک دیتی تھی جیسے کہہ رہی ہو کہ:
"اس ادھورے پن کی تکمیل تم ہی کو کرنی ہے"۔

دفتر پیشی میں کام کرتے ہوئے ایک سال گزرا تھا کہ 1956ء میں دفتر انسپکٹر جزل رجسٹریشن اینڈ اسٹامپ میں بطور اسٹینوگرافر تقر رعمل میں آیا۔ ٹائپ وشارٹ ہینڈ میں مہارت کی وجہ سے بہت جلد سرکاری نوکری مل گئی۔ یہی وہ سال تھا جب لسانی بنیادوں پر ریاستوں کی تقسیم عمل میں آئی تھی۔
ریاست حیدرآباد کے ستر ضلعوں میں سے تین ضلع کرناٹک میں اور پانچ مہاراشٹر میں شامل ہو چکے تھے اور آندھراپردیش کی تاسیس عمل میں آ چکی تھی۔ تلگو کا چلن شروع نہیں ہوا تھا۔ انگریزی کی وبا پھیلنے نہیں پائی تھی۔ سب رجسٹرار اور دیگر آفیسر اردو ہی میں مراسلت کیاکرتے تھے۔ میراں صاحب اسٹینو گرافر تھے مگر اردو سے انگریزی میں انھیں مراسلات کے تراجم کرنے پڑتے تھے۔
1960ء میں حکومت آندھراپردیش کے محکمہ ترجمہ (Translation Department) میں سینئر اردو ٹرانسلیٹر کی حیثیت سے ایک پوسٹ پر یعقوب میراں مجتہدی کا انتخاب ہوا۔ دوسرے پوسٹ پر ڈاکٹر ضیاء الدین شکیب کا تقرر عمل میں آیا۔ یہ وہی ڈاکڑ ضیاء الدین شکیب ہیں جنھوں نے اب دیار غیر (انگلستان) میں ہندوستانی تاریخ، تہذیب، ادبیات اور اسلامیات کے لیے خود کو وقف کر رکھا ہے۔ جب وہ حیدرآباد میں تھے تو اے پی اسٹیٹ آرکائیوز میں ریسرچ آفیسر تھے۔ بہ حیثیت نقاد محقق، مورخ، ادیب و ماہر نوادرات کئی کارہائے نمایاں انجام دے چکے تھے۔ ان کے تربیت یافتہ بہت سے شاگرد ہند و پاک کی جامعات اور تحقیقی اداروں اور کتب خانوں میں اعلا عہدوں پر فائز ہیں۔

محکمہ ترجمہ میں آکر یعقوب میراں کو ایک گونہ قرار آ گیا جیسے انھیں ان کی منزل مل گئی۔ یہاں انھیں ہر قسم کے تراجم خاص طور پر مسودات قانون (Bills)، احکامات، بجٹ ڈیمانڈز، گورنر، چیف منسٹر اور منسٹرز کے خطبات کے انگریزی سے اردو میں ترجمے کرنے پڑتے تھے۔ نیز عدالتی فیصلے، اخباری تراشے، دفتری مراسلات، سرکاری قواعد و ضوابط وغیرہ کا انگریزی میں ترجمہ کرنا ہوتا تھا۔
اپنی ملازمت کے دوران تقریباً ہر سال بجٹ ڈیمانڈز کے ترجمے کیے۔ اس وقت محکمے میں مترجمین کے راست آفیسر کے۔ وی۔ رنگا راؤ (بی اے، ایل ایل بی عثمانیہ) تھے۔ ان کا ذریعہ تعلیم بھی اردو ہی تھا۔ ترجمے کا بڑا تجربہ رکھتے تھے۔ دیانت دار فرض شناس اور سخت گیرافسرتھے لیکن کام کرنے والوں کی قدر بھی کرنا جانتے تھے۔یعقوب میراں نے ان سے بہت فنی رموز سیکھے۔

یعقوب میراں مجتہدی کے دادا سید تقی مجتہدی ایک عالم دین اور کئی مذہبی کتابوں کے مصنف و مولف تھے۔ وہ آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں کے دفتر معتمدپیشی میں سرامین جنگ کے تحت ایک اعلاعہدے پر فائز تھے۔ اس وقت ان کی تنخواہ پانچ سو پچاس روپیہ تھی۔سرامین جنگ آکسفورڈ کے ایم اے تھے۔ ان کے کتب خانے میں ہزاروں کتابیں تھیں۔ ان کے بعد یہ کتب خانہ اردواورینٹل کا با حمایت نگر کو بطور عطیہ دی گئیں۔

سید محمد تقی مجتہدی کے تین بیٹے تھے اور ایک بیٹی۔ سب سے بڑے بیٹے میراں صاحب کے والد سید شہاب الدین مجتہدی تھے۔ سید شہاب الدین حضور نظام کے فرامین کی خوش نویسی کرتے تھے۔سید شہاب الدین اور ان کے والد سید محمدتقی مجتہدی سماجی و مذہبی حلقوں میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ سیدتقی مجہتدی کا92 سال کی عمر میں 1958ء میں اور سید شہاب الدین مجتہدی کا83 بری کی عمر میں1983ء میں انتقال ہوا۔

میراں مجتہدی کا خاندان خیر خیرات اور دادو دہش میں معروف رہا ہے۔ عموما لوگ زکوۃ اورعشرسے بچنے کے لاکھوں بہانے تلاش کرتے ہیں لیکن یہ خاندان عشر بھی بڑی پابندی سے نکالتا ہے۔ خیر وخیرات میں میراں صاحب اس بات کے قائل ہیں کہ دائیں ہاتھ سے دیں تو بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو۔ دامے درمے کے علاوہ سخنے اور قدمے بھی انھوں نے ضرورت مندوں کی مدد کی ہے۔
کئی لوگوں کو ملازمتیں دلوائیں، ترجمے کروائے۔ انھیں اکثر ایسے لوگوں سے بھی سابقہ پڑاہے جنھوں نے ان کی دل شکنی کی۔ ایسے وقت انھیں غصہ تو بہت آتا ہے مگر صبر وضبط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ ویسے بھی غصہ انہیں جلد ہی آتا ہے۔ کسی سے رنجش پیدا ہوجاتی ہے تو دل ہےکہ اسے بھلا نہیں سکتا۔

میراں صاحب بڑے احسان شناس ہیں، کھرے مگر بڑے بامروت انسان ہیں۔ ذرا سی بھی کسی سے مدد لیتے ہیں یا کوئی ان کے کسی کام آجاتا ہے تو بارہا اس کا تذکرہ لوگوں کے سامنے کرتے اور ممنونیت کا اظہار کرتے ہیں۔ ڈکشنری کی تیاری کے دوران مختلف مراحل پر بعض اشخاص اور اداروں نے ان سے مالی تعاون کیا تھا۔ اس تعاون کا ذکر ہر ملنے والے سے آج تک بھی وہ برابرکرتے رہتے ہیں۔ سب سے زیادہ مالی اعانت ای۔ای۔اچ دی نظامس ٹرسٹ اور اس کے صدر نشیں پرنس مفخم جاہ سے ملی۔ آندھراپردیش اردو اکیڈمی نے بھی اچھی خاصی گرانٹ دی۔ یعقوب میراں مجتہدی کے کام کی قدرشناسی میں جہاں بہتوں نے زبانی جمع خرچ سے کام لیا وہیں قدردان علم وحکمت نے بھی مالی تعاون میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھی۔
جناب عبدالرحمن انتولے و جناب حبیب علاء الدین نے مشہور و معروف فزیشن ڈاکٹر عبدالمنان کے توسط سے خطیر رقم سے نوازا۔ حیدرآباد کی ایک مخیر شخصیت ڈاکٹر سلطانہ خاں، کرناٹک کے ہردلعزیز وزیر جناب قمرالاسلام اور جناب ہوشدار خاں نے خاصی رقم دے کر ڈکشنری کے کثیر الخرچ کام میں سہولتیں فراہم کیں۔ یعقوب میراں نے ان رقومات کا ایک ایک پیسہ ڈکشنری کے کام پر خرچ کیا اور ایک ایک پیسے کا حساب اس طرح رکھا ہے کہ کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو بتائے نہ بنے۔

اپنے محسنوں اور قدردانوں میں یعقوب میراں صاحب، حضرت سید خدا بخش خوند میری اور جناب سردارشاہ خاں صاحب ایڈوکیٹ کے بڑےاحسان مند ہیں کہ ان دو حضرات نے یعقوب میراں کو ایک ایسی ہستی سے متعارف کروایا جس کے دنیائے علم وادب پر بڑےاحسانات ہیں۔ وہ خوند میری صاحب کا بڑے ادب و احترام سے ذکر کرتے ہیں۔ بارہا یہ کہتے آئے ہیں کہ:
"حضرت سید خدابخش خوند میری ہی کی وجہ سے میری ڈکشنری کی اشاعت کے سامان پیدا ہوئے ہیں"۔
انھوں نے جناب سید عبدالقادر جیلانی کو میراں صاحب کے کام سے واقف کروایا۔ سید عبدالقادر جیلانی چالیس، پینتالیس سال کے صالح نیک اور خدا ترس مخیر انسان ہیں۔ انھیں مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کا بڑا احساس ہے۔ تکنیکی اورفنی شعبوں میں مسلمانوں کی کم رسی کااچھا اندازہ تھا اسی لیے پچھلے دہے میں اقلیتوں کے لیے تعلیمی وظائف اور سہولتیں فراہم کیں۔ساتھ ہی اپنے والد مرحوم کے نام سے ایک ٹرسٹ "سید ہاشم میموریل فاونڈیشن" قائم کیا۔ اس فاؤنڈیشن کی طرف سے چار پانچ سال قبل ایک انجنیئر نگ کالج گجویل (میدک) میں اور دوسرا ایک سال پہلے فلک نما حیدر آباد میں قائم کیا۔
اقلیتوں کے نام پر ملک بھر میں خصوصا جنوبی ہند میں انجیئنرنگ وٹکنالوجی اور میڈیسن کی تعلیم کے کئی ادارے قائم کیے گئے ہیں جن میں القیتوں کی کم اور اپنی بھی خدمات زیادہ پیش نظر رہی ہیں۔ ہاشم فاونڈیشن کے مقاصد میں سب سے اہم مقصد صرف اور صرف تعلیمی اور معاشی اعتبار سے کمزور اقلیتوں کی خدمت کرنا ہے۔ ماہانہ ڈیڑھ دو سو بیواوں کو اس فاونڈیشن کی طرف سے وظیفے بھی دیے جاتے ہیں۔ گجرات کے فسادات کے موقع پر ایک چارٹرڈ پلین کے ذریعے کئی متاثرہ لوگوں کو حیدر آباد بلوایا اور یہاں ان کی باز آبادکاری میں مدد کی۔ جیلانی صاحب جو کچھ کار خیر کرتے ہیں وہ سہی سمجھتے ہیں کہ کسی پر احسان نہیں کررہے ہیں، حق دار کو اس کا حق پہنچا رہے ہیں اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ کار خیر کے لیے انھیں منتخب کیا۔

یعقوب میراں صاحب کی ڈکشنری کی طباعت و اشاعت کے لیے جیلانی صاحب نے بڑی فراخ دلی سے زمے داری قبول کی۔ انھی کی وجہ سے ڈکشنری کی تکمیل کے آخری مراحل میں کام بڑی تیز رفتاری سے ہو سکا۔ جیلانی صاحب نے میراں صاحب کو ایک کمپیوٹر یونٹ کی سہولت فراہم کی اور کمپیوٹر آپریٹر کی ماہانہ تنخواہ مقرر کی جس کے نتیجے میں بڑےسلیقے اور تیزی سے لغت کمپیوٹرائزڈ کی جاسکی۔ "اردو انگریزی لغت مجتہدی" 2800 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جسے تین جلدوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ لغت کئی لحاظ سے منفرد ہے اور عصری تقاضوں کی تکمیل کرتی ہے۔ شخص واحد کا کارنامہ ہونے کے باوجود یہ لغت نہایت جامع اور مبسوط ہے۔ اس کی کئی اہم خصوصیات میں سے چند یہ ہیں:

1- لغت نوے ہزار سے زائد اندراجات (Entries) کا احاطہ کرتی ہے جس میں بنیادی ان الفاظ کی تعدادتقریباً 26000 ہے۔

2- کسی اور اردو/انگریزی لغت میں شامل الفاظ کے مقابل اس لغت میں اردو الفاظ کےانگریزی معنی اور مترادفات کہیں زیادہ ہیں۔ مثلا ایک لفظ "لگانا" کا استعمال دیگر ڈکشنریوں میں 6 تا21 مرتبہ سے زیادہ نہیں آیا ہے جب کہ اس لغت میں 55 مرتبہ "لگانا" کا استعمال مثالی جملوں میں کیا گیا ہے۔

3- اردو اندراجات ( لفظوں) کا تلفظ رومن رسم الخط میں دیا گیا ہے۔

4- الفاظ کے ماخذ و مصدر اجزائے کلام (Parts of Speech) تذکیر و تانیث کی بالاستیعاب صراحت کی گئی ہے۔

5- نقل حرفی (Transliteration) کا ایک مفید اور کارآمد نظام تیار کیا گیا ہے۔۔

6- اردو کے مقابل عربی، فارسی اور دیگر زبانوں کے مترادف الفاظ، محاورے اور روزمرےکابھی پتا چلتا ہے جس کی وجہ سے لغت کی وسعت اور پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔

7- اردو الفاظ کے لیے انگریزی میں مستعمل لاطینی، یونانی، فرانسی، جرمن اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی دیے گئے ہیں۔ مثلاً: بادی النظر Primafacie، ناپسندیدہ اجنبی Persona non grata ، طریقہ کار Modus operandi، زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو Vox populi vos die، نو دولتیا Nouveau riche انقلاب Cuop detat، شماتت Sxhadenfreude

8- انگریزی میں حروف رابط و جار (Prepositions) کے استعمال میں اکثر غلطیوں کا احتمال رہتا ہے۔ میراں صاحب نے اپنی لغت میں حروف ربط کے مناسب اور برمحل استعمال کی خصوصیت سے نشان دہی کی ہے۔ مثلا "کا" کے لئے in, for, to وغیرہ کا فرق واضح کیا ہے۔ The role of Teacher in Society( سماج میں استاد کارول)، Time for School (اسکول کا وقت)، secratary to Governor (گورنر کا سکریٹری) وغیرہ۔

9- ہرزبان کے اپنے مخصوص Collocation ہوتے ہیں، جن کاصحیح استعمال زبان کے معیار اور استناد کا پتا دیتا ہے۔ میراں صاحب کی لغت سے انگریزی Collocation کےبرجستہ اور برمحل استعمال کی صراحت ہوتی ہے۔

10- ایک دلچسپ اور قابل ذکر خصوصیت یہ ہے کہ نہ صرف اردو بلکہ فارسی، عربی اور ہندی کے ضرب الامثال، محاورے اور روز مرے وغیرہ کے ہم معنی و مطلب انگریزی ضرب الامثال، محاورے وغیرہ بھی دیے گئے ہیں۔ مثلا الٹے بانس بریلی کو Coals to new castle، اندک اندک بسیار شود drop by drop fills the bucket الغرض مقراض المحبت lend your money and lose your friend۔

11- اس لغت میں ادبی، قانونی، دستوری، صحافتی، انتظامی، محکمہ جاتی (مثلاً عطیات اور مالگزاری وغیرہ) مذہبی، معاشرتی، سماجی اور جدید اصطلاحات، تراکیب اور لفظیات کا قابل ذکر ذخیرہ ملتا ہے جو مترجمین اور محققین کے لیے بڑی سہولت فراہم کر سکتا ہے۔

12- جنوبی ہند میں مستعمل مترادف الفاظ ، ان کا مقامی تلفظ جغرافیائی اور ساری روابط کے مقامی اردو پر پڑنے والے اثرات کو عموما لغات نویسوں نے قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ یعقوب میراں نے دکنی الفاظ خصوصاً جنوبی ہند میں اس وقت مستعمل کئی الفاظ کو بھی اپنی لغت میں شامل کر کے اردو کے دامن کو وسیع تر کیا ہے۔ مثلا: نکّو no/ not ، میندرماں (سوتیلی ماں) step mother، گھوڑ پھوڑ (سوسمار، گوہ) iguana ، پھکٹ (پھوکٹ) free, gratuitous، ڈھگار(ڈھیر) heap، چرڈنڈی junk food- ایک سو پچاس دکنی اور دکن میں مستعمل الفاظ و محاورے اس لغت میں شامل ہیں۔

13- اسی طرح ریاست حیدرآباد میں رائج انتظامی اور سیاسی اصطلاحات کے مترادف انگریزی اصطلاحات کی بھی نشان دہی کی ہے۔ یہ اردو انگریزی لغت کی ایک اہم خصوصیت ہے جس سے صرف ایک عہد کی تاریخی زبان کا تحفظ مقصود ہے بلکہ اردو زبان کی قوت اظہار کا بھی پتا چلتا ہے، مثلا امیر جامعہ (Chancellor)، معین امیر جامعہ (chancellor -Vice)، نائب معین امیر جامعہ ( Pro - vice - chancellor ) ، مدارالمہام (وزیر اعظم)(Prime minister) - یہ الفاظ اب متروک ہو چکے ہیں۔

14- Thesaurus کا جو طریقہ زندہ زبانوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اس ڈکشنری میں بڑی حدتک شعوری اور غیر شعوری طور پر برتا گیا ہے۔

5ا- ایک معیاری لغت کو زبان کے تدریجی ارتقا کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ تاریخی لغت میں بالالتزام اس کا لحاظ رکھا جاتا ہے لیکن معیاری لغت میں بھی اس سے حسب ضرورت استفادہ کیا جاتا ہے۔ میراں مجتہدی نے اپنی لغت میں اس طریقے کو بڑے سلیقے سےجگہ جگہ استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک لفظ "بجلی" کے انھوں نے تقریبا آٹھ مترادفات اور پینتیس اندراجات دیے ہیں۔ عقل کے کوئی پچاس اندراجات اس لغت میں موجود ہیں جس سے زبان کے تاریخی تناظر، سماجی برتاؤ، سیاسی اور ادبی تبدیلیوں کا اندازہ ہوسکتا ہے۔

کسی لغت کے معیار کو جانچنے کے لیے تین امور کو پیش نظر رکھناضروری ہے۔ ایک لغت کا Range یعنی احاطہ، دوسرے اس کا Perspective یعنی تناظر اور تیسرے Presentation یعنی پیش کشی کا سلیقہ۔ میراں مجہتدی کی اردو انگریزی لغت میں ان تینوں امور پر یکساں توجہ دی گئی ہے۔

اردو انگریزی لغت کی ترتیب و تشکیل میں ترجمے کی فنکارانہ مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ معیاری تراجم کے لیے مترجم کا نہ صرف ذولسانی ہونا ضروری ہے بلکہ دونوں زبانوں کی روح عصر، ثقافت، مزاج اور لب و لہجےپر بھی قدرت لازمی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وقت اور مقام کے پابندی لسانی تغیرات مختلف علوم وفنون، اصطلاحات، پیشہ وارانہ الفاظ، کہاوتیں اورضرب الامثال کے علاوہ بے تعصبی اور معروضی واستدلالی شعور کی پختگی بھی ضروری ہے۔ یہ ایسی خصوصیات ہیں جو ایک لغت نویس کے لیے عصائے موسی کا کام کرتی ہیں۔

لغت خواہ ایک لسانی ہو یا ذو لسانی، اس میں ذخیرہ الفاظ اور اس کی تہذیب و ترتیب کے لیے لفظ کے ہجایا املا کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اردو میں عام طور پر لفظوں کا املا طے شدہ ہے لیکن بعض الفاظ کے املا میں اختلاف بھی ملتا ہے۔ میراں مجتہدی نے ہر لفظ کا مستند املادیا ہے۔ تلفظ کے تین کے لیے اعراب لگائے ہیں۔ اختلاف تلفظ کی نشان دہی کی گئی ہے۔ املا کے تعین کے بعد تلفظ کی ادائیگی کا مسئلہ آتا ہے۔ اصوات کی شناخت کے لیے علامات کا استعال کیا گیا ہے۔
تلفظ کا املا سے اور املا کا تلفظ سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ تلفظی علامتوں کے تعین کے وقت اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ اگر حرف اردو رومن رسم خط میں منتقل کیا جائے تو اس لفظ کا اردو املا درست لکھا جانا ضروری ہے تا کہ تلفظ ٹھیک ٹھیک ادا ہو سکے ، مثلا سمر،ثمر، سدا/صدا، زن،ظن،ذمن ضمن جیسے ہم صورت حروف میں واضح فرق کیا جا سکے۔ اس کے لیے لغت نویس کو یہ طے کر کے چلنا پڑتا ہے کہ وہ لفظ کی نقل حرفی کے وقت اپنی لغت میں تین املا کی نشان دہی کس طرح کرے گا۔ اس کے لیے بین الاقوامی صوتی رسم الخط تیار ہو چکا ہے لیکن اردو لغت میں اس کا استعمال ایک عام آدمی کے لیے دشواری کا باعث ہو سکتا ہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں جب کہ سائنسی تکنالوجی اور الکٹرانکس کی پہنائیاں اور پرواز میں دنیا کو ایک عالمی گاؤں (Global Village) میں تبدیل کر رہی ہیں تو اردو کو بھی پر پرواز مل گئے ہیں۔
یونیسکو (Unesco) کے ایک سروے کی رپورٹ 1991ء کے مطابق اردوزبان دنیا کی دوسری بڑی زبان قرار دی گئی ہے (ظاہر ہے کہ اس میں ہندی بھی شامل ہے)۔ ہمیں اپنے پڑھنے لکھنے اور بولنے والوں کی مجبوریوں اور دشواریوں کو بھی سمجھنا ہوگا۔ اردو انگریزی لغت جس کی تیاری میں کسی کاوقت محنت اور کثیر سرمایہ صرف ہوتا ہے وہ صرف جامعات یا درس گاہوں میں تعلیم پانے اور تحقیق کرنے والوں اور پچاس برس سے او پری عمر والوں کے لیے تیار نہیں کی جاتی۔ یعقوب میراں مجتہدی نے بھی اپنی لغت کی تیاری کے وقت اردو کے عالمی منظر، پس منظر اور پیش منظر کو اپنے پیش نظر رکھا ہے۔ ان کی فراہم کردہ عالامتیں اپنے دور کی ضرورت کو ممکن حد تک پورا کرتی ہیں۔

میراں مجہتدی نے اپنی اس لغت کی ترتیب میں اردو انگریزی، انگریزی اردو، نیز فارسی انگریزی، عربی انگریزی اور پیشہ وارانہ اور اصطلاحی لغات اور ڈکشنری آف اسلام سے بھر پور مدد لی ہے۔ اس میدان میں ان کا مطالعہ خاصا وسیع اور گہرا ہے۔ چناں چہ عصر حاضر کی بعض انگلش ڈکشنریوں میں موجود غلطیوں کی انھوں نے پبلشرز کو نشان دہی بھی کی ہے جس کی طرف بہت ہی کم لوگوں کی نظر گئی ہوگی۔ دوایک مثالیں یہاں پیش کی جاتی ہیں۔

کم وبیش تمام انگریزی ڈکشنریوں میں رمضان محرم اور تعزیہ وغیرہ کی غلط یا نامکمل تعریف دی گئی ہے۔ میراں مجتہدی نے اس کی تصحیح اور ترمیم انگریزی ڈکشنری کے پبلشر کولکھی تھی۔ محرم اور رمضان کی تعریف ان ڈکشنریوں میں اس طرح کی گئی ہے۔
Moharram: A Muslim festival in memory of the death of Hassan and Hussain, the grandsons of Mohammad
Ramadhan: The ninth month of the Muslim year, when Muslims do not eat or drink anything between sunrise and sunset

یعقوب میراں مجہتدی صاحب کی ترمیم اس طرح ہے:
Moharram: the first month of Muslim year when the Martyrdom of Imam Hussain, the grandson of the Prophet Muhammad, is observed
Ramadhan: The ninth month of the Muslim year, when Muslims do not eat drink or engage in Legtimate sex between the pre-dawn hour and sunset

اسی طرح تعزیہ اور قوالی کے بارے میں انگریزی ڈکشنریوں کے پبلشر کو لکھ بھیجا تو انھوں نےشکریے کا خط لکھتے ہوئے ان ترمیمات کو قبول کر لیا۔

اللہ تعالی کو جب کسی سے کوئی غیر معمولی کام لینا ہوتا ہے تو وہ اس کی تعلیم وتربیت کے سامان بچین ہی سے فراہم کردیتا ہے۔ چناں چہ اسکول ہی کے زمانے سے الفاظ کی کھوج، معنی کی پرکھ کی صلاحیتیں ان کے انگریزی میں ترجمہ کی صبر آزما لیاقت کو ان کی فطرت میں ودیعت کیا جا چکا تھا۔ اس کے نتیجے میں آج "اردو/انگریزی لغت مجتہدی" صرف طباعت کی منتظر ہے۔
ربع صدی قبل جب میراں صاحب نے اس ڈکشنری کا خاکہ تیار کیا اور کام کا آغاز کیا تو ان کی اس جرات پراکثر لوگوں نے معنی خیز حیرت کا اظہار کیا تھا لیکن ان کی جدوجہد ،انتک اور دیوانہ وار محنت نے اسے اب مکمل کر کے طباعت و اشاعت کے لیے تین جلدوں میں تیار کر رکھا ہے۔ "سید ہاشم میموریل فاونڈیشن" حیدرآباد کے صد نشیں کا وعدہ ہے کہ اس سال (2003ء) کےختم سے پہلے ہی معرکۃ الآرا اردو انگریزی لغت ضرور منظر عام پر آجائے گی۔
سید یعقوب میراں مجتہدی نے اپنی زندگی بھر کا سرمایہ ان کے سپرد کر دیا ہے۔ وہ اس کام کے لیے بجا طور پر بھی دنیا کے شکریے کے مستحق ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
لغت مجتہدی کے ترتیب کار سید یعقوب میراں مجتہدی

***
ماخوذ از رسالہ
سہ ماہی اردو ادب (انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی)۔ شمارہ: 321 ، جولائی/اگست/ستمبر 2003ء

Yakoob Miran Mujtahedi, his life and work, Article by Prof Ashraf Rafi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں