پرانی اور نئی تہذیب کی ٹکر - از مرزا فرحت اللہ بیگ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-02-18

پرانی اور نئی تہذیب کی ٹکر - از مرزا فرحت اللہ بیگ

purani-aur-nayi-tahzeeb-takkar

انگریزی کی ایک مثل ہے کہ مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب۔ یہ دونوں نہ ملے ہیں نہ ملیں گے۔ جس طرح یہ صحیح ہے اسی طرح یہ مثل بھی صحیح ہونی چاہئے کہ ماضی ماضی ہے اور حال حال۔ یہ دونوں نہ ملے ہیں اور نہ ملیں گے۔ لیکن خدا نخواستہ اگر ان کی ٹکر ہو گئی تو سمجھ لیجئے کہ وہی مصیبتیں پیش آئیں گی جو مجھ غریب کو پیش آئیں۔ وہ کیا کیا مصیبتیں تھیں ان کو بھی سن لیجئے۔ واقعات از سر تا پا غلط سہی مگر پڑھنے کی حد تک ان کو سچ جانیے اور یقین کیجئے ، ورنہ پڑھنے میں خاک مزا نہ آئے گا۔ اگر آپ اس پر تیار ہیں تو بسم اللہ آگے چلیے۔
آؤ حضرت تمہیں بھی دکھلا دیں
سیر ماضی کی اس زمانہ میں

سنہ انیس سو کچھ میں ہم نے تعلیم سے فراغت پائی، اب نوکری کی تلاش ہوئی۔ ایک ریاست میں (نام کی جگہ صفر) ہمارے خاندانی تعلقات تھے۔ اسلئے کالج سے نکل کر سیدھا ادھر کا رخ کیا۔ یہاں پہنچے تو کسی نے کہا کہ نوکری کرو، کسی نے کہا کہ تعلیم جاری رکھو۔ چونکہ کالج کا خیال دل سے ابھی تک محو نہیں ہوا تھا اور وہاں کی صحبتیں پیش نظر تھیں اس لئے طبیعت نے اسی تجویز کو پسند کیا اور ہم بھی اس دوسری پارٹی کے ساتھ ہو گئے۔ خدا کی قدرت دیکھو کہ صورت بھی خود بخود پیدا ہو گئی۔
اس ریاست میں میرے ایک عزیز بہت ہی بڑے عہدہ پر تھے انہوں نے مجھ سے کہا:
ارے میاں میں ایک ترکیب بتاتا ہوں ، یہاں کے ایک امیر اپنے چھوٹے صاحبزادے کو تعلیم کے لئے علیگڑھ بھیج رہے ہیں۔ میرا ان کے ہاں بہت اثر ہے۔ اگر کہو تو تم کو اس لڑکے کا اتالیق بناکر بھیجنے کے لئے کہہ دوں تمہاری تعلیم مفت میں ہو جائے گی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ نواب صاحب بڑے رسوخ کے آدمی ہیں۔ واپسی کے بعد تمہیں کوئی جگہ بھی مل جائے گی۔
میں نے کہا: آپ کو اختیار ہے۔
دوسرے تیسرے ہی روز انہوں نے مجھے بلا کر کہا:
لو سب معاملہ ٹھیک ٹھاک ہو گیا۔ میں نے نواب صاحب سے تمہارے متعلق سب تصفیہ کر لیا ہے، مگر وہ چاہتے ہیں کہ چند روز تم کو اپنے پاس رکھ کر تمہاری طبیعت کا اندازہ کر لیں۔ تم کو کبھی پرانی وضع کے نوابوں میں رہنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ تم بھی اس عرصہ میں ان کی نشست و برخاست کے اور ادب آداب کے سلیقے سیکھ جاؤ گے۔ چھوٹے صاحبزادے صاحب کی طبیعت کا رنگ بھی معلوم ہو جائے گا اور انشاء اللہ اس طرح تم کچھ فائدہ ہی میں رہو گے۔

میں راضی ہو گیا، قرار پایا کہ سہ پہر کو ان کے مددگار صاحب لے جاکر مجھے نواب صاحب کی خدمت میں پہنچا دیں۔ اور تعارف بھی کرا دیں۔
اب آپ نواب صاحب کے نام کی جگہ نقطے سمجھ لیجئے۔ اور مددگار صاحب کے اسم شریف پر لکیر کھینچ دیجئے، کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ سچی بات بری معلوم ہوتی ہے، کہیں نام بتا کر میں خود مصیبت میں نہ پھنس جاؤں۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ
خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں
گفتہ آید در حدیثِ دیگراں!
بہرحال دو بجے ہی سے ہم نہا دھو کر، کپڑے بدل، سیاہ ٹرکش کوٹ ڈانٹ، دستار پہن، اور بگلوس باندھ تیار ہو گئے۔ یہاں ننگے سر رہنے کی عادت تھی۔ دستار سر پر بار ہو گئی۔ اگرچہ "شملہ بمقدار علم" کے لحاظ سے اس دستار کا بوجھ کچھ زیادہ نہ تھا۔ پھر بھی رہ رہ کر یہی جی چاہتا تھا کہ اس کو الگ ہی رہنے دو۔ اتار کررکھ دو اور ننگے سر ہی چلے چلو۔ مگر کیا کیا جاتا۔ وہ نواب صاحب پرانی وضع کے ایسے دلدادہ تھے کہ تنگے سر جانا یقیناً خالی ہاتھ آنے کی صورت اختیار کر لیتا۔ اس لئے 'قہردرویش برجان درویش' سمجھ کر اس بار کو اٹھانا ہی پڑا۔ ابھی دستار کا تصفیہ پوری طرح نہ ہوا تھا کہ بگلوس نے ستانا شروع کیا۔ پیٹی باندھتے عمر گزری تھی۔ مگر کوٹ کے نیچے پیٹی باندھتے تھے نہ کہ کوٹ کے اوپر۔ کوٹ کے اوپر باندھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ادھر ہاتھ ہلا اور ادھر کوٹ بگلوس کے اوپر گولا بن گیا۔ دامن پکڑ کر نیچے گھسیٹا۔ برابر کیا۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد وہی مشکل پیش آئی اور پھر اسی ترکیب سے رفع کی۔ ہم اسی کشمکش میں تھے کہ مددگار صاحب اپنی وکٹوریہ میں آہی گئے۔ اور ہم کوٹ کا دامن نیچے کھینچتے اور دستار کو درست کرتے گاڑی میں جا بیٹھے۔
چلتے چلتے آندھ آ گئی۔ آخر خدا خدا کر کے نواب صاحب کا مکان آیا۔ گاڑی سے اتر، آگے مددگار صاحب اور پیچھے ہم نواب صاحب کی عالی شان اور پر تکلف کوٹھی میں داخل ہو گئے۔ تین بج چکے تھے مگر معلوم ہوا کہ ابھی نواب صاحب آرام میں ہیں۔ اس لئے دونوں کے دونوں بلیرڈ روم میں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد رپورٹر ایجنسی کی طرح اطلاعات کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلے خبر آئی کہ نواب صاحب بیدار ہوئے۔ پھر اطلاع آئی کہ آنکھیں ملتے مسہری سے اٹھے۔ پھر کہا گیا کہ ہاتھ دھو رہے ہیں۔ پھر معلوم ہوا کہ منہ دھو رہے ہیں۔ چوبدار پر چوبدار آتے اور بیان کرتے کہ اب یہ ہو رہا ہے۔ اب یہ ہو رہا ہے ، یہاں تک کہ یہ پرچہ لگا کہ اب شیروانی کی آستین میں ہاتھ ڈالا ہے۔
یہ خبر آئی تھی کہ کمرہ کا رنگ ہی بدل گیا۔ یا تو ہم ٹٹروں ٹوں دوہی آدمی بیٹھے تھے یا سارا کمرہ آدمیوں سے بھر گیا۔ کوئی ادھر سے آیا کوئی ادھر سے کوئی اس کمرہ سے نکلا کوئی اس کمرہ سے۔ غرض اتنے بڑے کمرہ میں تل رکھنے کی جگہ نہ رہی۔ مددگار صاحب سے سب کی صاحب سلامت تھی۔ نواب صاحب ان کو بہت چاہتے تھے ، پھر بھلا مصاحبوں کا کیا حوصلہ تھا جو ان سے جھک کر نہ ملتے۔ البتہ مجھ کو دیکھ کر ذرا کھنچتے تھے۔ اکثروں نے اپنی ناکیں ذرا ذرا اوپر چڑھا کر چھوڑ دیں۔ بعضوں کی پیشانی پر بل بھی آیا۔ مگر جب مددگار صاحب نے میرا تعارف کرایااور یہ بتایا کہ میں کس خاندان سے ہوں تو ذرا ٹھنڈک پڑی ایک صاحب کہنے لگے:
سبحان اللہ! اس خاندان کا کیا کہنا۔ آفتاب ہے آفتاب۔ ارے بھئی میر صاحب تم نہیں جانتے۔ ان کے دادا صاحب قبلہ مرحوم و مغفور کی لکھنؤ میں کیا قدر تھی۔ واللہ عجیب آدمی تھے۔ اور بھئی دیکھنا ذرا ان کی شکل مرزا صاحب مرحوم سے کتنی ملتی ہے۔ میںنے تو ان کو بڑھاپے میں دیکھا ہے۔ واللہ جوانی میں عین مین ایسے ہی ہوں گے۔

مجھ کو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ تقریباً سب کے سب مصاحب لکھنؤ کے رہنے والے تھے، بہرحال یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک چوبدار نے آکر اطلاع دی کہ سرکار برآمد ہونے والے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ سب کے سب اپنی دستاریں سنبھالتے کپڑوں کو ٹھیک کرتے اور بگلوس باندھتے باہر نکل آئے۔ اب تھوڑا سا اس مکان کا نقشہ بھی سن لیجئے۔
کوٹھی کیا ہے کسی بڑے بادشاہ کا محل ہے۔ قیامت کی کرسی ہے۔ سامنے بہت بڑا میدان ہے۔ اس میں سے ایک چوڑی سڑک چکر کھاتی ہوئی سیڑھیوں تک آتی ہے۔ سیڑھیوں کے بعد صحن چبوترا، اور۔۔۔۔۔ صحن چبوترہ کے بعد پھر سیڑھیاں ہیں۔ اور یہیں سے کئی منزلہ مردانہ مکان شروع ہوتا ہے۔ پہلی منزل میں پرانا دقیانوسی سامان بھرا ہوا ہے۔ ان کمروں کے سامنے جو برآمدہ ہے اس میں چند ٹوٹی پھوٹی کرسیاں، لاوارث حاجتمندں کے لئے پڑی رہتی ہیں۔ ان کرسیوں سے مجھ کو بھی واسطہ پڑا ہے اس کا ذکر آئندہ کروں گا۔ جو بڑی سڑک چکر کھا کے محل سرا کے دروازے کو گئی ہے۔ وہ بلیرڈ روم کے سامنے سے گزرتی ہے اور یہاں اتنی چوڑی ہو گئی ہے کہ اچھا خاصہ صحن نکل آیا ہے۔ بلیرڈ روم کے بالکل سامنے دوسری منزل سے نیچے آنے کا زینہ اور اس کے بائیں طرف اوپر کے بڑے کمرے کے سامنے چھوٹا سا چھجہ ہے۔ چھجہ کے اوپر نہایت خوبصورت نیچی سی منڈیر ہے۔ بس میرے مضمون کے لئے مکان کا اسی قدر ہی نقشہ بالکل کافی ہے۔

خیر ، تو ہم سب یہ سن کر کہ نواب صاحب برآمد ہونے والے ہیں۔ کمرہ سے باہر نکل آئے اور اس طرح لائن باندھ کر کھڑے ہوئے کہ یہ چھجہ ہمارے بالکل سامنے تھا۔ بلیرڈ روم ہمارے بائیں طرف اور زینہ ہمارے دائیں جانب ہر شخص کی نظر اس چھجہ پر لگی ہوئی تھی کہ ایک دفعہ ہی چوبدار نے آواز دی۔ "آداب بجا لاؤ"۔ اس آواز کے سنتے ہی سب تو ایک دفعہ ہی رکوع میں گئے۔ مگر میں نے جھکنے سے پہلے ایک چھچلتی سی نظر نواب صاحب پر ڈال لی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ نواب صاحب چھجہ پر کھڑے ہیں، بالکل اس طرح کہ گویا فوٹو اتروارہے ہیں۔ میں نے ولایت کی ایک مشہور تصور دیکھی ہے جس میں ایک بارہ سنگھے کو پہاڑ کی چوٹی پر نہایت اکڑ کر کھڑے ہوئے دکھایا ہے۔ اس کے نیچے لکھا ہے۔
I AM THE MONARCH OF ALL I SURVEY
بس سمجھ لو کہ وہی رنگ تھا۔ نیچے صرف یہ لکھنا باقی تھا۔
"جدھر دیکھتا ہوں ادھر میں ہی میں ہوں۔"

یہ غلط انداز نظر ڈالنے کے بعد میں بھی تسلیم کو جھکا۔ ہماری اصطلاح میں "سلام کرنا" محض ماتھے کے سامنے ہاتھ لے جانے کو کہتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ یہ بڑے آدمی ہیں۔ ذرا جھک کر اس فرض کو ادا کردو۔ جھکا، سلام کیا، اور سیدھا کھڑا ہوگیا ،لیکن اِدھر ادھر جو دیکھتا ہوں تو سب لوگ جھکے ہوئے زنا زن ہاتھ چلا رہے ہیں۔ نقل را چہ عقل۔ میں نے بھی غپ رکوع میں جا، پٹا کے ہاتھ چلانے شروع کر دئیے ، مگر کن انکھیوں سے دوسروں کو دیکھتا رہا۔ جب دیکھا کہ اب سب سیدھے ہو گئے تو میں نے بھی سیدھے کھڑے ہوکر نیت کی طرح ہاتھ باندھ لئے۔
مگر حضرات آپ ہنستے کیوں ہیں، کیا عید کی نماز میں اپنی حالت بھول گئے؟ آپ ہر سال نماز پڑھتے ہوںگے۔ مگر ہر مرتبہ تکبیر کے وقت خدا کے فضل سے ادھر اُدھر دیکھنا ہی پڑتا ہوگا کہ دوسروں کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں یا بندھے ہوئے۔ دوسرے رکوع میں جا رہے ہیں یا ابھی اور کوئی تکبیر باقی ہے میں نے پہلے ہی عرض کردیا تھا کہ پرانی اور نئی تہذیب کی ٹکر ہمیشہ ایسی ہی الجھنیں پیدا کرتی ہیں پھر آپ کا میرے حال پر مسکرانا یقینا بے جا ہے۔

جب اس تسلیمات کے جھگڑے سے نجات پاکر میں نے اوپر نظر کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ نواب صاحب کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ سمجھ گیا کہ ہو نہ ہو یہ میری حرکت کا اثر ہے۔ جی میں تو آیا کہ لا حول ولا قوۃ تو کس مصیبت میں پڑا، چل گھر چل۔ پھر سونچا ذرا یہاں کا رنگ بھی دیکھ لو۔ نئی چیز ہمیشہ اچھی معلوم ہوتی ہے اس لطف کا بھی مزہ اٹھا لو۔ میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ نواب صاحب نے فرمایا :
"اوہو۔ یہ ہمارے چھوٹے میاں کے ماسٹر صاحب ہیں؟"
چلو چھٹی ہوئی۔ خدا نے خود تعارف کرا دیا۔ مددگار صاحب نے کہا:
"جی ہاں۔"
نواب صاحب مسکراتے ہوئے نیچے اتر آئے۔ میری تعلیم کا حال پوچھا۔ میں نے بیان کیا، میرے خاندان سے بہت اچھی طرح واقف تھے۔ نام بنام ایک ایک کا ذکر کرتے اور تعریف کرتے۔ غرض ان ہی باتوں میں شام ہو گئی ، جب سب رخصت ہونے لگے تو فرمایا:
"ماسٹر صاحب آپ دونوں وقت آیا کیجئے ، میں عموماً یہیں ہوتا ہوں اگر یہاں نہ بھی ہوا تو جہاں ہونگا چوبدار آپ کو پہنچا دیں گے۔"
دربار برخاست ہوا اور سب لوگ بگلوس کھولتے ہوئے بلیرڈ روم میں داخل ہوئے۔ ایک صاحب مجھ سے کہنے لگے:
"ماسٹر صاحب آپ نواب صاحب کو مخاطب کرنے میں ہمیشہ آپ، آپ کہتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں ہے"
میں نے کہا: آپ نہ کہوں تو کیا "تم" کہوں؟ اردو میں تو آپ ہی تعظیم کا لفظ ہے۔
کہنے لگے۔ نہیں، سرکار کہیے۔ خداوند نعمت کہئے۔
میں نے کہا: میر صاحب یہ موٹے موٹے لفظ تو مجھ سے ادا ہونے مشکل ہیں۔ ہاں کل سے سرکار کہنے کی کوشش کروں گا۔ مگر خدا معلوم، زبان کو لفظ سرکار سے چڑھ تھی کہ کبھی یہ لفظ منہ سے نہ نکلنا تھا نہ نکلا۔ اور ہمیشہ "جناب عالی" اور "جناب والا" ہی سے کام چلا کیا۔
ایک دوسرے صاحب فرمانے لگے : ماسٹر صاحب آپ کا دولتخانہ بہت دور ہے صبح آ جایا کیجئے۔ دوپہر کا خاصہ یہیں تناول فرمائیے ، شام کو تشریف لے جایا کیجئے۔ ایک کمرہ میں آپ کے بیٹھنے اٹھنے کا انتظام کئے دیتے ہیں۔ میں نے کہا: حضرت یہ دوسروں کے مکان میں آپ انتظام کرنے والے کون؟ اگر نواب صاحب کو میرے ٹھہرانے کا خیال ہوتا تو وہ خود ہی فرما دیتے۔ خدا میری بائیسکل کو سلامت رکھے۔ میرے لئے دور اور نزدیک سب برابر ہیں۔
وہ بیچارے شرما کر خاموش ہوگئے، چلتے چلتے ہم نے دربار کے اوقات بھی پوچھ لئے، معلوم ہوا کہ صبح کے نو بجے سے گیارہ بارہ بجے تک اور شام کے تین ساڑھے تین بجے سے سات آٹھ بجے تک نواب صاحب برآمد رہتے ہیں۔

دوسرے روز ہم صبح ساڑھے آٹھ ہی بجے سے پہنچ گئے۔ ایک چوبدار سے پوچھا کہ نواب صاحب کس طرف برآمد ہوں گے؟ اس نے کہا: میرے ساتھ آئیے۔ ہم ساتھ ہوگئے۔ اس نے لے جا برامدہ کی ان ہی ٹوٹی ہوئی کرسیوں پر بٹھا دیا جس کا میں نے کہیں اوپر ذکر کیا ہے۔ بیٹھے بیٹھے اکتا گیا۔ نواب صاحب نہ آج نکلتے ہیں نہ کل۔ جو چوبدار ادھر سے نکلتا اس سے پوچھتا کہ بھئی نواب صاحب آج برآمد ہونگے بھی یا نہیں؟ وہ یہی کہہ کر چلاجاتا: کہ آپ تشریف رکھئے ابھی یاد ہوتی ہے۔
جب ایک کرسی پر بیٹھے بیٹھے تھک جاتا تو اٹھ کر دوسری پر جا بیٹھتا ، ایک تو ٹوٹی ہوئی کرسیاں، دوسرے اس طرح جم کر بیٹھنے کی عادت نہیں ، تیسرے تنہائی کی کوفت ، غرض کیا کہوں کہ کیا حال ہوا۔ جیب سے گھڑی نکالتا دیکھ لیتا ، ادھر پاؤں بیٹھے بیٹھے سن ہوگئے۔ ادھر دستار کے بوجھ اور بگلوس کے دباؤ نے پریشان کردیا، اور ایک ایک منٹ کاٹنا مشکل ہو گیا۔ آخر خدا خدا کر کے دن سے بارہ بجے کی توپ چلی۔ اس وقت ایک چوبدار نے آکر کہا: اب آ پ جائیے سرکار محل میں تشریف لے گئے۔ شام کو آئیے گا ، تو ملاقات ہوگی۔
کیا بتاؤں کس قدر غصہ آیا ، لیکن جز بز ہو کر رہ گیا۔ آخر اپنی جگہ سے اٹھا، اور سائیکل سنبھال گھر آیا۔ شام کو جانے کا ارادہ نہ تھا مگر لوگوں کے کہنے سننے سے پھر پہونچا۔ ایک چوبدار نے لے جاکر پھر ان کرسیوں پر بٹھا دیا۔ خیال تھا کہ شاید اس مرتبہ مشکل آسان ہوگی، مگر وہاں کون کس کو پوچھتا تھا۔ بیٹھے بیٹھے شام کے چھ بج گئے۔ اس وقت میں نے دل میں کہا:
حضرت اگر یوں ہی ہاتھ پاؤں توڑے بیٹھے رہے تو تمام عمر بھی نواب صاحب کو اطلاع نہ ہوگی۔ چلو بغیر اطلاع ہی پہونچ جائیں، رستہ تو معلوم ہے ، ہو نہ ہو، نواب صاحب اسی طرف ہونگے، جدھر کل تھے ، زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ بلا اطلاع چلے آنے پر خفا ہو جائیں گے۔ خفا ہوتے ہیں تو ہو جائیں،تم روٹھے ، ہم جھوٹے۔ یہ سوچ، کرسی سے اٹھا، کمرہ میں سے ہو بلیرڈ روم میں آیا۔ یہاں نواب صاحب کی آواز صاف آرہی تھی۔ اسی آواز کی سیدھ پر چلا، دیکھا تو کمرہ کے باہر ہی نواب صاحب اور ان کے سب مصاحب کھڑے ہیں۔ میں بھی جا تسلیمات بجا لایا۔ اس مرتبہ اس پڑھے ہوئے سبق کو ذرا اچھی طرح دہرایا۔ پرانے مشاقوں کی طرح ہاتھ میں لوچ تو نہ تھا۔ بلا سے نہو مگر ہاتھ کے جھٹکے سات کے بجائے ان گنت دے ڈالے۔ جب اس کارروائی سے فارغ ہوا تو نواب صاحب مسکرا کر کہنے لگے:
اجی ماسٹر صاحب! آپ صبح کو کہاں غائب رہے؟ مجھ کو تو آپ کا بڑا انتظار رہا۔ میں نے کہا: جناب عالی! میں تو صبح کو بھی آیا تھا۔ مگر کسی نے اطلاع ہی نہیں کی، آخر بارہ بجے چلا گیا۔ اب بھی وہی صورت پیش آتی اگر میں خود بغیر اطلاع نہ چلا آتا۔ یہ سن کر نواب صاحب کو بہت غصہ آیا، کہنے لگے:
آپ آئے تھے اور مجھے اطلاع نہیں دی گئی، اس کے کیا معنی۔ میں نے کل ہی کہہ دیا تھا کہ میں جہاں کہیں ہوں آپ کی اطلاع کردی جائے۔
میں نے کہا: دیکھئے وہ چوبدار صاحب جو پیچھے کھڑے ہیں انہوں ہی نے مجھے وہاں ٹوٹی ہوئی کرسیوں پر لیجا کر بٹھایا تھا۔ اور کہا تھا کہ ابھی سرکار برآمد نہیں ہوئے۔ کئی دفعہ یہ بعد میں ادھر سے گزرے بھی مگر ہمیشہ میرے پوچھنے پر یہی جواب دیا کہ: ابھی عرض کر دیتا ہوں۔ اور وہ جو ان کے برابر کھڑے ہیں خدا جھوٹ نہ بلوائے تو آٹھ دس مرتبہ ان سے کہا مگر انہوں نے صر ف گردن کے جھٹکے ہی پر ٹالا۔
غرض میں نے ایک ایک کو لے ڈالا جتنے چوبدار تھے سب نیلی پیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔مگر میں نے جب تک سب کی خبر نہ لے لی چپکا نہ ہوا۔ ایک چوبدار نواب صاحب کے بہت منہ چڑھے ہوئے تھے وہ کچھ ہمت کر کے آگے بڑھے اور ہاتھ باندھ کر کہا: "سرکار" مگر میں نے ان کو آگے چلنے نہ دیا اور کہا: کیا سرکار ،سرکار لگائی ہے کوئی بات میں نے غلط کہی ہے جس کی اب آپ صحت فرمارہے ہیں۔ بس خاموش رہو اس طرح باتوں میں دخل دینا تمہارا کام نہیں ہے۔ وہ پھر کچھ کہنا چاہتے تھے کہ میں نے خاموش اس زور سے کہا کہ وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گئے۔ بیچارے سمجھے ہوں گے کہ کہیں یہ حضرت زبان سے ہاتھ پر نہ اتر آئیں؟ پہلے تو نواب صاحب کی پیشانی پر کچھ بل آئے مگر پھر ہنسنے لگے۔ سمجھے ہوں گے پرانی اور نئی تہذیب کی ٹکر ہے۔ مگر اس روز سے چوبداروں کا یہ حال ہوگیا کہ میری شکل سے گھبراتے تھے۔ میں گیا ، اور وہ کہتے ہوئے دوڑے کہ آئیے آئیے، نواب صاحب کہیں ہوں مجھے فوراً ہی وہاں پہنچادیتے۔ نواب صاحب کے چہیتے چوبدار صاحب تو ایسے پریشان ہوگئے تھے کہ اگر میں جاتا اور نواب صاحب واقعی محل میں ہوتے تو مجھ سے کہتے کہ ماسٹر صاحب! سرکار محل سے ابھی برآمد نہیں ہوئے۔ آپ جاکر خود کمرہ دیکھ لیجئے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ سمجھیں میں غلط عرض کررہا ہوں۔

علم مجلس کا رنگ جیسا میں نے یہاں دیکھا نہ پہلے کبھی دیکھا نہ دیکھنے کی آرزو ہے۔ اس نوابی دربار میں میری صاف گوئی بعض وقت عجیب رنگ لاتی تھی۔ ایک روز شام کے وقت دربار گرم تھا، کہ دو سائیس صاف ستھری وردیاں پہنے ریشمی باگ ڈور یں ہاتھ میں لئے ، ایک خوبصورت گھوڑے کو ملاحظہ کے لئے لائے۔ یہ گھوڑا اسی دن آسٹریلیا سے آیا تھا، اور نواب صاحب نے کوئی تین ہزار روپے کو خریدا تھا۔ گھوڑے کو نواب صاحب نے اپنے ہاتھ سے شکر کھلائی ، کچھ پڑھ کر اس کی پیشانی پر دم کیا اور کہا:بھئی عجیب چیز ملی ہے۔بس اتنا سنناتھا کہ مصاحبوں نے تعریف کے پل باندھ دئیے ، گھوڑے کا مقابلہ براق اور رف رف تک سے کرڈالا۔ غرض دو گھنٹے تک یہی بے سروپا گفتگو ہوتی رہی۔ شامت اعمال دیکھو کہ نواب صاحب کا ایک اور گھوڑا تھا ، اس کو یہ بہت ہی چاہتے تھے۔ جب تعریفوں کی کوئی انتہا نہ رہی اور نواب صاحب کو ڈر ہوا کہ کہیں میرا پیارا گھوڑا اس نئے گھوڑے سے نہ دب جائے تو انہوں نے کہا یہ سب کچھ سہی مگر ہمارے گھوڑے (نام بتانا گویا سارے راز کا انکشاف کرنا ہے) سے اچھا تھوڑی ہو سکتا ہے؟
یہاں تو سب سرکار کے نوکر تھے ، بیگن کے نوکر تو تھے ہی نہیں۔ فوراً بدل گئے۔ ایک صاحب کہنے لگے : خداوند نعمت! بھلا گھوڑوں کے تذکرہ میں اس کو کیسے لایا جا سکتا ہے۔ وہ گھوڑا تھوڑی ہے وہ تو انسان ہے انسان!!
ان کا اتنا کہنا تھا کہ یار لوگوں کو گفتگو کا سلسلہ مل گیا۔ اب کیاتھا۔ اس دوسرے گھوڑے کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملادئیے۔ جب کہیں جاکر نواب صاحب کو تسکین ہوئی۔ اس طرف سے ذرا فراغت پائی تو نواب صاحب نے میری طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا:
مرزا صاحب! آپ نے اس گھوڑے کے متعلق کچھ نہیں کہا۔ میں نے عرض کی: جناب عالی! مجھے نہ اس بارے میں کوئی واقفیت ہے اور نہ تعریف کرنے کے لئے الفاظ میں سرے سے گھوڑے پر چڑھنا ہی نہیں جانتا۔سائیکل پر سوارہوتا ہوں۔ اس کا ایک ایک پرزہ پہچانتا ہوں۔ ماشاء اللہ جب اتنے واقف کار لوگ تعریف کررہے ہیں تو گھوڑا اچھا ہی ہوگا۔ اگر سچ پوچھئے تو میں اس تمام گفتگو میں یہ بھی نہیں سمجھا کہ گھوڑے کے کس کس جوڑ بند کی تعریف ہو رہی ہے۔
نواب صاحب یہ سن کر مسکرانے لگے۔خیر ان ہی باتوں میں کوئی آٹھ بج گئے۔ اور درباربرخاست ہوا۔ اب دوسرے دن شام کا ذکر سنئے کہ نواب صاحب نے حکم دیا: ہمارا نیا گھوڑا لاؤ۔ سائیس اسی طرح بنا سنوار کر گھوڑے کو لائے۔ مگر بجائے چلنے کے وہ پھدکتا ہوا آیا۔ چار ٹانگ کے گھوڑے کی جگہ تین ٹانگ کا گھوڑا رہ گیا۔ یہ دیکھنا تھا کہ نواب صاب آگ بگولہ ہوگئے۔ اور اس سرے سے اس سرے تک سارے سائیسوں کو اور کوچوانوں کو لے ڈالا۔ مصاحبوں نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔ ایک صاحب نے اس ٹانگ ٹوٹنے کو جادو کا اثر بتایا۔ دوسرے نے سائیس کی لاپروائی کو سبب ٹھہرایا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔مگر آخر کار بغلبہ آرا یہ تصفیہ ہوا کہ دوسرے گھوڑوں کے سائیسوں نے جل کر اس کی ٹانگ توڑ ڈالی ہے۔ قرار پایا کہ تمام سائیس یکقلم موقف میں نے جو ان غریبوں پر بلا وجہ آفت آتے دیکھی تو مجھ سے نہ رہا گیا آگے بڑھ کر کہا: جناب والا! کل تعریفوں کے جوش میں خیال نہیں فرمایا گیا۔ یہ گھوڑا لنگڑا ہے۔ اگر ذرا غور سے گھوڑے کو ملاحظہ فرمایا گیا ہوتا تو کل ہی معلوم ہوجاتا کہ یہ گھوڑا تین ٹانگوں کا ہے۔ کل بھی چلنے مین یہ ایک پاؤں پر زور نہیں دیتا تھا۔
میرا یہ کہنا تھا کہ جتنے لوگ وہاں کھ ڑے تھے سب نے برے برے دیدوں سے میری طرف دیکھا، لیکن کچھ کہنے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی۔ جانتے تھے کہ جھاڑ کا کانٹا ہوکر کہیں لپٹ نہ جائے۔
نواب صاحب کو بھی ذرا برا معلوم ہوا کہنے لگے۔ ماسٹر صاحب اگر آپ کو معلوم ہواتھا کہ گھوڑا لنگ کرتا ہے تو کل ہی کیوں نہ کہا؟ میں نے کہا؛ جناب عالی! جب اتنے حضرات تعریف کر رہے ہوں تو بھلا میری کیا مجال ہے جو ان سب کے خلاف ایک حرف بھی زبان سے نکال سکوں۔ اگر یہ حضرات گھوڑے کی تعریف کی بجائے میری مذمت پر اتر آتے تو میں کہاں ان سے پیچھا چھڑاتا پھرتا۔ میں سمجھا کہ گھوڑے کا لنگڑا پن بھی کوئی تعریف ہے۔جو اس کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔
نواب صاحب نے فرمایا: ان سے نہیں تو چپکے سے مجھ ہی سے کہہ دیا ہوتا۔ میں نے کہا: عالی جناب کو تعریفیں سننے ہی سے کب فرصت تھی جو مجھے کچھ عرض کرنے کا موقع ملتا۔

قصہ مختصر سارا الزام میرے سر مونڈھ دیا گیا۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ بیچارے سائیسوں پر سے آئی ہوئی بلا ٹل گئی۔ جب مصاحبوں کو یہ یقین ہوگیا کہ ماسٹر صاحب کے پاؤں یہاں جم گئے تو انہوں نے مجھ سے راہ و رسم بڑھانی شروع کی۔بلاتے پاس بٹھلاتے پان کھلاتے۔ادھر اُدھر کی غپیں اڑتیں۔ شعروسخن کے چرچے رہتے۔ غرض کچھ دنوں اچھی گزری۔ میں اس زمانہ میں تحت اللفظ خوب پڑھتا تھا۔ سب نے صلاح دی کہ نواب صاحب کی مجلسوں میں تم بھی دو ایک مرثیے پڑھو۔ نواب صاحب سن کر بہت خوش ہوں گے۔ میں راضی ہوگیا۔ چند ہی روز بعد محرم آگیا۔ نواب صاحب کو شاید کسی نے اطلاع کردی۔
انہوں نے فرمایا: ماسٹر صاحب! آپ بھی مجلسوں میں شریک ہوا کریں۔
میں نے کہا: بہت خوب۔
دوسرے روز شام کے چھ بجے مجلس میں شریک ہوا۔ مجلس زنانہ مکان میں ہوئی۔ اندر پردہ ہو گیا۔ محل سرا کے وسط میں جو عمارت ہے اس کے دالانوں میں پرے ڈال کر دو حصے کردئیے ایک حصہ میں مردانہ ، دوسرے میں زنانہ۔ اندر کا حال تو معلوم نہیں ، مگر مردانہ حصے کا کل فرش سیاہ تھا۔ چاندنیاں سیاہ۔ گاؤ تکئیے سیاہ۔ قالین سیاہ، ممبر سیاہ۔ یہاں تک کہ تمام گھر والوں کا سارے کا سارا لباس دستار سے لگا کر جرابوں تک سیاہ۔ نواب صاحب ممبر کے سامنے قالین پر گاؤ تکیہ لگا کر اور تمام صاحبزادے ان کے کچھ ادھر کچھ اُدھر بیٹھ گئے ، چھوٹی صاحبزادی صاحبہ تھیں، وہ نواب صاحب کے پہلو میں آبیٹھیں اور اشارے کے ساتھ ہی مجلس شروع ہوئی۔
پہلے سوز خوانی ہوئی۔ یہ نہ پوچھو کہ کس طرح ہوئی کئی سوز خواں تھے ، شاید ہی کسی کو چند منٹ پڑھنے کو دئیے گئے ہوں تو دئیے ہوں نہیں تو جس کو اور جہاں کہیں نواب صاحب نے چاہا روک دیا۔ روکنے کے لئے صرف ہاتھ کا اشارہ کیاجاتا تھا کہ بس۔ ایک صاحب چار مصرع پڑھنے کے بعد ٹیپ اٹھانا چاہتے تھے کہ بس۔ کا اشارہ ہوا اوران کی آواز کو پنجم سے مدھم پر آنا نصیب نہ ہوا جب یہ جماعت ختم ہوئی تو تحت اللفظ پڑھنے والوں کی باری آئی۔ کسی نے خوش قسمتی سے چار پانچ بند پڑھ لئے تو کمال کیا ورنہ دو ہی بندوں پر بند کردئیے گئے۔ اس سلسلہ کے ختم ہونے کے بعد حلقہ کا ماتم شروع ہوا۔ ماتم کے بعد ہی مجلس ختم ہوئی۔
باہر نکل کر سب نے اصرار کیا کہ کل آپ بھی پڑھیئے۔
میں نے کہا:حضرت میں مجلس کا رنگ دیکھ چکا۔ بھلا ایسے پڑھنے میں کیا لطف اور سننے میں کیا مزا۔ مجھے تو معاف ہی فرمائیے۔ مصاحبین میں ایک میر صاحب تھے، بڑے مزیدار آدمی تھے کہنے لگے: مرزا صاحب! آج جن لوگوں نے پڑھا وہ پڑھنا نہیں جانتے کل میں دکھاؤں گا کہ کیوں کر پڑھتے ہیں۔ دیکھوں تو نواب صاحب بیچ میں کیوں کر روک دیتے ہیں۔

دوسرے دن جب میر صاحب کی باری آئی تو انہوں نے مرثیہ کوبجائے ابتدا سے پڑھنے کے وسط سے شروع کیا۔ اور پہلی ہی بند پر میدان میں اتر آئے۔ مرثیہ واقعی اچھا تھا۔ سب لوگ نہایت غور سے سن رہے تھے۔ میر صاحب نے تلوار تول کر اٹھائی۔ چاہتے تھے کہ ہاتھ ماریں ، کہ بس کا اشارہ ہوا۔ اور میر صاحب تلوار علم کئے ہوئے منبر سے نیچے تشریف لے آئے۔ اس کے بعد سب نے مجھ پر زور دیا کہ پڑھو۔ میں نے صاف انکار کردیا۔ نواب صاحب نے بھی ایک آدھ دفعہ اشارتاً فرمایا۔ مگر میں ٹال گیا۔ اور اس طرح سنتے ہی سنتے یہ مجلسیں ختم ہو گئیں۔
محرم کی تیرہویں یا چودھویں تاریخ تھی۔ صبح نو بجے کا وقت تھا۔ دربار جما ہوا تھا۔ معلوم نہیں ، کیوں، ایک دفعہ ہی نواب کو کچھ خیال آگیا، حکم دیا کہ ہمارے جواہر خانہ سے چھوٹا صندوقچہ لاؤ، چوبدار صندوقچہ لے آیا۔ اوپر کا کار چوپی کام سے لپا ہوا سبز مخمل کا غلاف، اندر ہاتھی دانت کا صندوقچہ، صندوقچہ پر گنگا جمنی جالی کا کام، ایسی خوبصورت چیز تھی کہ کیا کہوں؟ نواب صاحب نے صندوقچہ کھولا، پہلے ایک انگوٹھی نکالی، اس کو دیکھا بھالا اور رکھ دیا اس کے بعدسونے کی ایک جڑاؤ گھڑی نکالی۔ اس کو بھی الٹ پلٹ کر دیکھا اور رکھ دیا پھر ایک چھوٹے چھوٹے دانوں کی تسبیح نکالی۔ اچھی طرح دیکھی بھالی اورہاتھ میری طرف بڑھایا۔ میں سمجھا کہ مجھے دکھانے کو دیتے ہیں میں نے تسبیح لے کر خوب غور سے دیکھا مگر میری سمجھ میں نہ آیا کہ شیشہ ہے یا زمرد۔ دیکھنے کے بعد جس طرح لی تھی اسی طرح واپس کردی۔ اور کہا:
جناب والا! مجھے جواہر کی پرکھ نہیں ، ممکن ہے زمرد ہو۔ کسی جوہری کو دکھائیے۔ وہ مجھ سے بہتر بتا سکے گا۔
نواب صاحب نے مسکرا کر تسبیح صندوقچہ میں بند کردی اور صندوقچہ واپس بھیج دیا۔ جب دربار برخواست ہوا تو یار لوگوں نے میرا مذاق ڑانا شروع کردیا کہ واہ ماسٹر صاحب !خوب سمجھے ، اجی حضرت ! تسبیح آپ کو سرفراز ہوئی تھی۔ آپ نے غضب کیا کہ واپس کردی۔ سلام کر کے لے لیتے۔ نذر گزرانتے۔ بھلا ایسے موقعے کہیں رو ز روز ملتے ہیں ؟ ہم کو دیکھنے کے لئے بھی کوئی چیز دی جاتی ہے تو ہم سلام کر کے اپنی کرلیتے ہیں۔ میں نے کہا: حضرت! یہ لوٹ مار آپ ہی کو مبارک ہو۔ اگر نواب صاحب کا ارادہ تسبیح دینے ہی کا تھا تو زبان کس نے بند کی تھی؟ بھلا میری عمر دیکھو اور تسبیح کی سرفرازی دیکھو۔ اس بے جوڑ عطا کا مطلب بغیر سمجھائے سمجھنا میرے لئے دشوار ہی نہیں ناممکن تھا۔

اس واقعہ کے چند ہی دن بعد سے ہمارے علیگڈھ جانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ گھر میں کیا کیا انتظامات ہوئے اس کا علم تو اللہ کو ہے۔ ہاں باہر کچھ لاؤ لشکر جمع کیا گیا ہے اس کا حال سن لیجئے۔
ایک روز شام کے چار بجے کے قریب چھوٹے صاحبزادے صاحب محلسرا سے باہر تشریف لائے۔ نواب صاحب نے فرمایا: بادشاہ لو۔ اب تم جو چیزیں ساتھ لے جانا چاہتے ہو چھانٹ لو۔ ماسٹر صاحب بھی موجود ہیں۔ یہ بھی اس انتخاب میں مدد دیں گے۔ سب سے پہلے گاڑی گھوڑوں کا انتخاب شروع ہوا۔ پڑھنے جارہے تھے ، پھر بھی نواب کے بیٹے تھے۔ اللہ کے فضل سے چار گاڑیاں اور چھ گھوڑے پسند کئے۔ اس کے بعد ملازمین کے چھاٹنے کی باری آئی۔ چار خدمتگار، دو پاؤں دبانے والے ، ایک کہانی کہنے والا۔ دو باورچی ، آٹھ سائیس ، اس طرح خدا جھوٹ نہ بلوائے تو کوئی بیس پچیس آدمی منتخب ہوئے۔ جب نوبت یہاں تک پہونچی تو مجھ سے نہ رہا گیا میں نے کہا :
جناب والا! یہ صاحبزادے صاحب پڑھنے جا رہے ہیں یا کہانیاں سننے اور پاؤں دبوانے؟ یہ گاڑیاں، گھوڑے استعمال کے لئے جارہے ہٰں یا پروسیشن نکالنے؟ بھلا اس لاؤ لشکر کے ساتھ تعلیم کیا خاک ہوگی؟

جن صاحب کا انتخاب اس بہرونگاہ کی نگرانی کے لیے ہوا تھا وہ بگڑ کر بولے : ماسٹر صاحب! نواب صاحب کے صاحبزادے تعلیم کے لئے جارہے ہیں ، میری یا آپ کے بچے نہیں جارہے ہیں کہ ایک صندوق اٹھایا اورنکل کھڑے ہوئے۔
میں نے کہا: اور ہاں جناب عالی! یہ بھی توبتادیاجائے کہ خیر میں تو صاحب زادے صاحب کا اتالیق بن کر جارہا ہوں۔ کیا یہ حضرات میرے اتالیق ہوکر تشریف لے جا رہے ہیں؟
ان کے لئے تو میرا ایک ہی فقرہ کافی تھا۔ بیچارے خاموش ہوگئے جب میں نے دیکھا کہ طوطی کی آواز نقار خانہ میں کوئی نہیں سنتا تو میں بھی لاحول پڑھ کر خامو ش ہوگیا۔

اس واقعہ کو تین روز گزر گئے۔ ایک دن رات کو جب آٹھ بجے کے قریب دربار برخاست ہونے لگا تو نواب صاحب نے میری طرف دیکھ کر فرمایا:
ماسٹر صاحب! آج رات کو ہم سب چھوٹے میاں کو پہنچانے کے لئے علیگڑھ جا رہے ہیں آپ بھی دو بجے اسٹیشن پر آجائیے۔
میں نے عرض کی: عالیجناب! میں نے ابھی تک چلنے کی نہ کوئی تیاری کی ہے اور نہ میں ایسے فوری حکم کے لئے خود تیار تھا۔ آپ تشریف لے جائیے میں انشاء اللہ دو تین روز بعد پہنچ جاؤں گا۔

الغرض یہ تصفیہ ہوا کہ تیسرے روز میں یہاں سے روانہ ہوں۔ اور اس وقت تک نواب صاحب وہیں تشریف فرما رہیں۔
دوسرے روز صبح ہی میں نے روانگی کی تیاریاں شروع کیں۔ شام کو مددگار صاحب سے ملنے گیا۔ ان سے معلوم ہوا کہ نواب صاحب دو تین ہی اسٹیشن گئے تھے کہ نزلہ شرو ع ہوگیا۔ اور وہ مع مصاحبین واپس تشریف لے آئے۔ مگر صاحبزادے اور ان کا لشکر آگے چلا گیا۔ مددگار سے مل کر میں نواب صاحب کے ہاں گیا۔ دیکھا خاصے بھلے چنگے ہیں۔ ایک آدھ چھینک آ گئی تھی۔ ڈر ہوا کہ کہیں نمونیا نہ ہو جائے۔ اس لئے واپس تشریف لے آئے ، دوسرے دن پھر گیا تو نواب صاحب نے ایک تار میرے ہاتھ میں دیا۔ صاحبزادہ کا تار تھا لکھا تھا کہ کالج والوں نے تمام ملازمین اور گاڑی گھوڑوں کو بورڈنگ میں رکھنے سے انکار کردیا ہے۔ اور ہدایت کی ہے کہ اگر اس کالج میں رہنا ہے تو صرف ایک اتالیق اور ایک نوکر کے ساتھ آکر رہو۔ ورنہ کوئی دوسرا کالج تلاش کرو۔
اس تار نے تمام مصاحبین میں ایک جوش پھیلادیا کوئی کہتا تھا کہ خداوند نعمت! یہ تجارت پیشہ لوگ ہیں بھلا یہ کیاجانیں کہ نوابوں کے لڑکے کس طرح رہتے ہیں ؟ اور کس طرح تعلیم پاتے ہیں؟ یہ تو گدھے گھوڑے دونوں کو ایک لاٹھی ہانکتے ہیں۔ خدا کے واسطے صاحبزادے صاحب کو بلوا لیجئے۔ ایسا نہ ہو کہ کہیں ان کے دشمن بیمار پڑ جائیں۔
میں نے کہا : میر صاحب! جب نوابی ہی کرنی ہے تو پڑھانے سے فائدہ؟ نواب بن کر نہیں پڑھاجاتا۔ طالب علم بن کر پڑھا جاتا ہے۔ صاحب زادے صاحب کو اگر نواب صاحب بالکل میرے سپرد کریں تو میں دو ہی برس میں دکھاؤں کہ کیا سے کیا ہو گیا۔ یہ باتیں ہوہی رہی تھیں کہ دوسرا تار آیا، لکھا تھا:
میں اکیلا نہیں رہ سکتا۔ واپسی کی اجازت دی جائے۔
میں نے بہتیرا سرمارا مگر میری ایک نہ چلی اور تار دے دیا گیا کہ فوراً چلے آؤ۔ جب طالب علم ہی نہ رہا تو اتالیق کیسا۔ میں نواب صاحب کو اس روز جو آخری سلام کر کے آیا تو وہ دن اور آج کا دن پھر کبھی نہیں گیا۔ مدتیں گزر گئیں ، بھول گئے ہوں گے ، مگر مجھے پرانی اور نئی تہذیب کی یہ ٹکر ہمیشہ یاد رہے گی۔
تم ہمیں بھول گئے ہو صاحب
ہم تمہیں یاد کیا کرتے ہیں

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔


Purani aur nayi tahzeeb ki takkar (Clash of old & new civilization). Article: Mirza Farhatullah Baig

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں