ابن صفی - ایک سحر انگیز شخصیت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-06-03

ابن صفی - ایک سحر انگیز شخصیت

ibne-safi-magical-personality

یہ آسان نہیں ہے۔
لیکن تم کر سکتے ہو۔
یہ نہایت مشکل ہے۔
لیکن اس سے دلی تسکین ملے گی۔
تمہاری راہ میں رکاوٹیں آئیں گی۔
لیکن تم انہیں پار کر سکتے ہو۔
کامیابی تمہارا انتظار کر رہی ہے۔
اٹھو۔۔۔۔ ہمت کرو۔۔۔۔ بس تھوڑی سی ہمت۔
منزل راہ تک رہی ہے۔
کامیابی تمہارے مقدر کی جھولی میں گرنے کو بیقرار ہے۔
لیکن منزل کے حصول کے لیے اک سفر درکار ہے۔
اور سفر بھی نہایت کھٹن ہے۔
لیکن تم کر سکتے ہو۔
یہ چاند چھونے کی حسرتیں۔
انسان کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

یہ عجیب و غریب موٹیویشنل قسم کی آوازیں ہر انسان کو دل سے پکارتی رہتی ہیں، بہت کم خوش نصیب ہوتے تو جو ان آوازوں پر توجہ دیتے ہیں ان کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اس آواز سے اپنی زندگی میں کچھ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں اور پھر ہمیشہ کے لیے آسمان پر چمکتا دمکتا ستارہ بن جاتے ہیں۔

گزرے وقت کی بات ہے کسی صاحب ادب نے دعوٰی کیا تھا کہ "جاسوسی ادب محض فحش نگاری ہے۔"

اس دعوے کو غلط ثابت کرنے کے لیے ابن صفی میدان میں اترے اور کیا ہی خوب اترے کہ آج تک ہمیں مقروض کر رکھا ہے، اپنی برسوں کی محنت و مشقت سے انھوں نے ہمیں وہ کچھ دیا جو کوئی اور نہ دے سکا، لازوال کردار، خوبصورت مناظر، دلچسپ حالات و واقعات سے بھرپور ناول، ایڈونچر و دلچسپی سے بھرپور مواد، طنز و مزاح، قہقہہ لگانے پر مجبور کرنے والے ظرافت سے بھرپور جملے اور بھی بہت کچھ۔

ہم تو شاید انہیں کچھ بھی نہیں دے پائے، لیکن وہ ہمیں اتنا کچھ عنایت کر گئے کہ آج پچاس سال گزرنے کے بعد بھی ہم ان کی ادبی کاوشات سے دل بہلاتے رہتے ہیں اور یقیناً آنے والے ماہ و سال میں ان کے ناولوں کا مطالعہ اسی شدومد سے جاری رہے گا کیونکہ ان جیسا سدا بہار ادب لکھنے سے لوگ آج بھی عاجز ہیں۔

جاسوسی دنیا سے سری ادب کا آغاز کرنے والے اسرار احمد کہتے ہیں کہ انہوں صرف ابتدائی 8 ناولوں کا مرکزی خیال جزوی طور پر کہیں اور سے مستعار لیا تھا جیسا کہ ہر ایک لکھنے والا کہیں نہ کہیں سے لیتا ہے، کبھی وہ مرعوب ہوکر لکھتا ہے تو کبھی متاثر ہوکر، اور جس سے وہ مرعوب یا متاثر ہوتا ہے اس سے سیکھا ہوا اپنی تحریروں میں ناچاہتے ہوئے بھی لانے پر مجبور ہوتا ہے، بالکل اسی طرح ابن صفی نے بھی اپنے جاسوسی ناول لکھنے کے لیے مغربی ادب کا سہارا لیا، ان 8 ناولوں کو چھوڑ کر بقیہ ناول خود ان کے ہیں جن میں ملاوٹ کا شائبہ تک نہیں۔

جاسوسی دنیا کے علاوہ انھوں نے عمران سیریز بھی لکھی، اس کے علاوہ کچھ ناول اپنے مشہور و معروف کرداروں کے علاوہ بھی لکھے، جو کہ جاسوسی دنیا و عمران سیریز کی طرح دلچسپ اور سدا بہار ہیں، ان ناولوں میں انھوں نے زیادہ تر ناول شکرال اور اس کے پس منظر میں لکھے جس کی اپنی الگ ہی دنیا ہے، ان کو اگر کچھ اور مہلت ملتی تو وہ اس تصوراتی سرزمین شکرال پر مزید ناول لکھتے کیونکہ پڑھنے والوں کے لیے یہ ناول بے حد دلچسپ اور مسحور کن ہیں۔

ابن صفی کا ارادہ تھا کہ وہ ہر سال نئے مرکزی کردار متعارف کرائیں گے، اسی ارادے کے تحت انھوں نے انسپکٹر فریدی و سارجنٹ حمید کے کرداروں پر 12 ناول لکھ کر یہ سلسلہ منقطع کردیا اور اپنے دو نئے زندہ جاوید کردار متعارف کرانے کی کوشش کی، یہ کردار انور اور رشیدہ کے تھے، لیکن چونکہ ان کے قارئیں کے ذہن میں فریدی اور حمید کے کردار گھر کرچکے تھے اس لیے ذہنوں نے نئے کردار قبول کرنے سے انکار کردیا۔

انور و رشیدہ پر ابھی پانچ ناول ہی آئے تھے کہ قارئین نے صدائے احتجاج بلند کرنا شروع کردی، مجبوراً ابن صفی کو انور و رشیدہ پر لکھنا ترک کرکے دوبارہ فریدی اور حمید کے کرداروں پر لکھنا پڑا، ان دونوں کرداروں سے لوگ اس قدر مانوس ہوچکے تھے کہ کسی اور کردار پر کچھ پڑھنا ہی نہیں چاہتے تھے، بحالت مجبوری انور اور رشیدہ کے کرداروں کو فریدی اور حمید کے ناولوں میں ضم کرنا پڑا، اس طرح وہ لوگ جو ان دونوں نئے کرداروں کے مداح تھے ان کا بھی دل رہ گیا اور اکثریت جو کہ فریدی و حمید پسند تھی اپنے پسندیدہ کرداروں پر لکھے نئے ناول پڑھنے پر بخوشی تیار ہوگئی۔

1954 میں جب ابن صفی کی عمر صرف چھبیس برس تھی وہ شہرت کے سنگھاسن پر بیٹھ چکے تھے، ان کے لکھے ہوئے ناول پہلا شعلہ، دوسرا شعلہ، تیسرا شعلہ اور جہنم کا شعلہ نے تہلکہ مچا دیا تھا۔ ہر خاص و عام ان سے واقف ہو چکا تھا۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں اسرار و سراغ رسانی کی ایسی فضا تیار کی جو اس سے پہلے اردو کے قارئین نے کہیں نہیں پڑھی تھی، ان کے ناولوں کی خوبصورتی، جملوں کی کاٹ، طنز و مزاح کا ایک زمانہ دیوانہ ہوچکا تھا، عام سے لے کر خاص تک لوگ ان کے کرداروں کے گرویدہ ہوچکے تھے، یہاں تک کہ جب کبھی ان کا کوئی ناول شائع ہونے میں تاخیر ہوجاتی تو شکایتی خطوط کے انبار لگ جاتے، قارئین اپنی بے تابی کا اظہار کرتے۔

یہ سب تو تھا لیکن ابن صفی کی سیماب صفت طبعیت کو قرار نہیں تھا، وہ قارئین میں اپنے کچھ نئے کردار متعارف کرانا چاہتے تھے تاکہ جاسوسی و سراغ رسی کے میدان میں ایک نئی جہت کا آغاز کیا جاسکے، اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اور پچھلے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے ایک بالکل ہی نئے قسم کا کردار علی عمران متعارف کرایا، حالانکہ ابتداً ان کے قارئین نے اسے بھی مسترد کردیا لیکن بار بار کوششیں کرنے پر کسی طرح عمران لوگوں میں اپنی پسندیدگی کا لوہا منوانے لگا اور پھر لوگوں نے وہ وقت بھی دیکھا جب عمران ایک بیسٹ سیلنگ کردار بن چکا تھا۔

1960 سے 1963 تک آپ بے انتہا لکھنے کی وجہ سے "شیزو فرینیا" اور "ڈپریشن" جیسی نفسیاتی بیماری کا شکار ہو گئے، عمومی طور پر نفسیاتی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے والے لوگ زندگی میں کچھ نہیں کر پاتے لیکن یہاں بھی ابن صفی نے ہمارے اندازوں کو ایک بار پھر غلط ثابت کیا اور عمران سیریز کے شاہکار ناولز لکھ ڈالے جن میں"ڈیڑھ متوالے" کی بے پناہ مقبولیت نے پسندیدگی کے گزشتہ سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔

عمران سیریز کا کردار "علی عمران" آپ کی اپنی شخصیت کا پرتو معلوم ہوتا ہے کیونکہ آپ زمانہ طالب علمی میں نہایت شرارتی تھے، اس لئے عمران سیریز لکھتے ہوئے آپ کو زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہوتی تھی اس کے برعکس "فریدی" کے کردار پر کافی غور و فکر کرنا پڑتا تھا، فریدی کو لکھتے وقت اگر ایک جملے کی بھی لغزش ہوجاتی تو قارئین خطوط لکھ لکھ کر ان کا ناطقہ بند کردیتے تھے، اس لیے اس کردار پر ان کو بہت سوچ سمجھ کر قلم اٹھانا پڑتا تھا۔

اگر یہ کہا جائے کہ فریدی اور عمران ان کی فطرت کے دو مختلف پہلو تھے تو غلط نہ ہوگا، جہاں ان کی شخصیت میں فریدی کے کردار کی سنجیدہ جھلکیاں ملتی ہیں وہیں عمران کا شرارتی انداز بھی ان کے اندر موجود تھا، وہ ایک اصول پسند انسان تھے اور اپنی اس اصول پسندی سے انھوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، ایک قصہ مشہور ہے کہ وہ جب اپنی دونالی بندوق لے کر شکار پر جاتے تھے تو شکار کرنے سے قبل ایک فائر صرف اس لیے کردیتے تھے کہ پرندے ہوشیار ہوجائیں اور جب فائر کی آواز سے پرندے اڑنے لگتے تب وہ دوسرا فائر کرکے ان کا شکار کرتے، اپنی اس خاصیت کو انھوں نے فریدی کی ایک خصوصیت سے جوڑ کر ناول شاہی نقارہ میں دکھایا ہے۔

شاہی نقارہ کا اقتباس ملاحظہ کیجئے:
اسے (حمید کو) فریدی کے ساتھ شکار میں اکثر بڑے تلخ تجربات ہوئے تھے، اس کا ایک خبط حمید کو بری طرح کھلتا تھا، وہ یہ کہ وہ ہمیشہ پرندوں یا جانوروں کو ہوشیار کرنے کے بعد گولی چلاتا تھا لہٰذا اکثر ایسا بھی ہوتا تھا کہ دن بھر جھک مارنے کے باوجود ایک پرندہ بھی شکار نہ کرپاتے اور پھر روکھی روٹیاں چائے یا کافی میں ڈبو ڈبو کر کھائی جاتیں، آج بھی وہ کئی پرندے شکار کرلیتے لیکن فریدی کی جدت طرازیوں سے ناکام رہے اس نے دونالی بندوق سنبھال رکھی تھی، پہلے وہ ایک ہوائی فائر کرکے پرندوں کو اڑا دیتا پھر ان پر فائر کرتا، اتفاق سے آج اس کی ساری کوششیں رائگاں گئی تھیں۔

ان کرداروں کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قاری آج بھی ان کے سحر میں گرفتار ہیں، انھوں نے نثر کے علاوہ شاعری پر بھی طبع آزمائی کی، شاعری میں بھی آپ نے خود کو منوایا اور ایسا چسکا لگایا کہ رومانویت اور داستان گوئی کہیں پیچھے رہ گئی۔

1952 کا زمانہ دراصل ابن صفی کی شاعری کا اصل زمانہ ہے، اس دور میں انہوں نے محبت اور امن کے گیت گائے ہیں، غم ذات اور غم حیات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا، اس دور کی شاعری کلاسیکی روایات کا اپنے اندر گہرا رچاؤ لیے ہوئے ہے۔ مزے کی بات یہ کہ آپ نے ایک مرتبہ کے سوا کبھی بھی اپنا تخلص استعمال نہیں کیا۔

قاری ہمیشہ اپنے پسندیدہ مصنف سے ڈو مور کا مطالبہ کرتا رہتا ہے، ابن صفی بھی اس سے بچ نہ پائے، اکثر قارئین ملاقات کے وقت ایک ہی درخواست کرتے کہ وہ اپنے ناولز میں "ایکشن" کے تڑکے کا مزید اضافہ کریں، ابن صفی ایسے لوگوں کو درج ذیل جواب دیتے تھے:

"انگریزی کی اسپائی اسٹوریز پر مبنی فلموں نے بعض پڑھنے والوں کا ٹیسٹ بگاڑ دیا ہے اور وہ مجھ سے بھی یہی چاہتے ہیں کہ میرا ہیرو بھی ہر حال میں ’’فولاد کا پٹھا’‘ ثابت ہو۔ اوپر ہوائی جہاز، نیچے توپیں، دائیں سمندر، بائیں آتش فشاں، کبھی وہ بموں سے بچتا ہے، کبھی توپوں کے گولوں سے، توپیں چلیں اور وہ دھم سے گر پڑا۔ ارض و سما سمجھے کہ اس کا قصہ پاک ہوا، لیکن یہ کیا؟ اس نے ایک توپ کے دہانے سے چھلانگ لگائی تھی اور اس کی دم سے نکل کر سمندر کی ایک کشتی میں جا بیٹھا۔ توپیں منہ دیکھتی رہ گئیں۔ ہوائی جہاز نے منہ کی کھائی۔ آتش فشاں منہ پیٹنے لگا اور قاری کا منہ دیکھنے کے قابل، لیکن ہیرو دوبارہ منہ دکھاتا ہے۔ میں باز آیا۔ خدا مجھے معاف کرے۔"

آپ پاکستان کے واحد جاسوسی مصنف ہیں جنہیں بین الاقوامی سطح پر بھی اس قدر شہرت و امتیاز حاصل ہوا کہ ایک مرتبہ جاسوسی ادب کی ملکہ اگاتھا کرسٹی نے آپ کی خدمات پر اپریسئیشن ان الفاظ میں کی :

"میں اردو نہیں جانتی مگر برصغیر کے جاسوسی ناولوں سے مجھے واقفیت حاصل ہے، ان میں اوریجنل لکھنے والا مصنف ابن صفی ہے۔"

دیکھا جائے تو ابن صفی کو کسی غیر زبان کے مصنف کے تعریفی و توصیفی جملوں کی ضرورت نہیں ہے لیکن جو خراج تحسین اگاتھا کرسٹی نے ان کو پیش کیا اس سے ظاہر ہے کہ وہ کس پائے کے مصنف ہیں، اس سے بڑا خراج تحسین پیش نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس کے بعد کچھ کہنے کی ضرورت رہتی ہے۔

کسی مہا پرش کا قول ہے کہ بڑے ادیب مرتے نہیں ہیں کیونکہ وہ اپنے فن پاروں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، پڑھنے والا جب ان کی تحریریں پڑھتا ہے تو ان کرداروں کو اپنے سامنے زندہ و جاوید پاتا ہے اور یہی اس ادب کی خاص بات ہے کہ مصنف اپنے کرداروں میں اپنا عکس چھوڑ جاتا ہے جو پڑھنے والوں کو ہمیشہ اس کی یاد دلاتا رہتا ہے، وہ اپنی تحریروں میں زندہ رہتا ہے ہاں بس وہ لکھنا چھوڑ دیتا ہے۔

26 جولائی 1980 کو آپ نے اپنی آخری سالگرہ اس منفرد انداز میں منائی کہ اس دنیا سے ہی کوچ کر گئے اور اپنے پیچھے ہزاروں لاکھوں قارئین کے ساتھ اپنے کرداروں کو بھی روتا بلکتا چھوڑ گئے۔

موت اس کی (ہے) کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے

بشکریہ فیس بک گروپ: دی گریٹ ابن صفی فینز کلب

Ibn-e-Safi, a magical personality. Article: Emaanay Zaara Shah

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں