مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم تا غلام شمس تبریزی نشد
فخر الدین رازی نے شیخ نجم الدین کبری کا ہاتھ تھام لیا ۔ بوعلی سینا شیخ ابو الحسن خرقانی کے دامن سے وابستہ ہوگئے ۔ اس کے بعد سے حق کی جستجو اور پیر کامل کی تلاش ، کا ایسا سلسلہ چلا کہ اس کے بغیر سارا دین و ایمان علم و عمل اور زہد و تقوی ٹھپ ہوکر رہ گیا ۔ بڑے بڑے علما و زہاد نے جہاں کسی پیر کامل کو پایا اپنا جبہ و دستار اس کے قدموں میں ڈال دیا۔ اس خاکسار نے قوالیوں میں ایسے ایسے اشعار خوب سنے ہیں اور ان پر وجد و تواجد کے خوب مناظر دیکھے ہیں۔
مست گشتم از دو چشمے ساقی پیمانہ نوش
الفراق اے ننگ و ناموس الوداع اے عقل و ہوش
زہد و تقوی بر فگندم زیر پائے آن صنم
مذہبم عشق است درندی مشربم جوش و خروش
خوشارندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقوی کہ من باجبہ و دستار می رقصم
بیاجاناں تماشہ کن کہ در انبوہ جاں بازارں
بصد سامان رسوائی سر بازار می رقصم
علم لدنی یا علم سینہ دراصل کوئی چیز نہیں۔ حقیقی علم و معرفت وہی ہے جو قرآن پاک میں بالکل واضح لفظوں میں موجود ہے جس کے بارے میں اللہ تاعلیٰ نے فرمایا لا تیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ، (سورہ حم سدہ) قرآن پاک میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو صرف خواص کے لئے ہو اور عوام سے اس کو پوشیدہ رکھاجائے ۔ اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں فرمایا: ولقد یسر نا القران للذکر فھل من مدکر(سورہ قمر) اس لئے دین میں ایسا کوئی علم قرار دینا جو خواص کے لء ہو، یا اس کی تعلیم رازداری کی بیعت لے کر دی جائے ۔ ان ٰآیات کی پاک کی کلی تکذیب ہے ۔ لیکن علم سینہ اور علم لدنی ہی کی اشاعت کے لئے پیری مریدی کا سلسلہ چل پڑا۔
تزکیہ نفس و تصفیہ روح کے لئے اپنے آپ کو کسی ایک شخص کے حوالے کردینے اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرکے پیش مرد کامل پامال اور کالمیتہ فی ید الغسال ہوجانے کا قرآن پاک میں کہیں حکم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یا یھا الذین امنوااتقوااللہ وکونوا مع الصادقین(سورہ توبہ) اس آیت پاک میں مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ صادقین یعنی صالحین کی صحبت اختیار کریں ۔ مومنین صالحین کی محبت ہی میں ایمان و تقوی قائم رہ سکتا ہے ۔ یہاں صادقین کا لفظ یعنی اسم جمع استعمال کیا گیا ہے ۔ اور معیت یعنی صحبت کا حکم ہے جس کے لئے بیعت و سپردگی کی شرط نہیں ہے ۔ اچھی صحبت کے اچھے ثمرات سے کس کو انکار ہوسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین عظام میں ایک دوسرے سے علمی و اخلاقی استفادہ کرنے اور باہمی تعلیم و تربیت کرنے کا طریقہ رائج رہا۔ مروجہ پیری مریدی کے تصور سے یہ اکابر بالکل ناآشنا تھے ۔عہد صحابہ میں صرف امیر المومنین خلیفۃ المسلمین کے ہاتھ پر بیعت ہوتی تھی جس کا مقصد ملکی استحکام، قیام امن و امان، اجرا حدود اور تحفظ سرحدات ہوتا تھا، اور اس بیعت کی اس قدر اہمیت تھی کہ ایک خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت ہوجانے کے بعد کوئی دوسرا شخص بیعت لے تو اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کردینے کا حکم دیا تھا۔
ایک امیر المومنین خلیفۃ المسلمین کی بیعت پر اتفاق ہوجانے کے بعد سب سے پہلے جس شخص نے مملکت اسلامیہ میں انتشار پیدا کرنے اور امیر المومنین کا تختہ الٹنے کے لئے انڈر گراؤنڈ بیعت لی وہ مسلم بن عقیل تھے لیکن نصرت ربانی سے محرومی کے باعث وہ اپنے مشن میں کامیاب نہ ہوسکے اور گورنر کوفہ ابن زیاد نے مذکورہ بالا حکم رسول کی تعمیل میں ان کو قتل کردیا ۔ اس کے بعد سے انڈر گراؤنڈ بیعتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ امیر المومنین ہشام بن عبدالملک کے عہد میں جناب زید بن علی نے بھی یہی کام کیا اور ہزیمت اٹھا کر مقتول ہوئے ۔ مشہور ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ نے اس خروج کے لئے ان کی کافی مالی مدد کی۔ (یہ روایت اس خاکسار کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے)یہاں سے بیعت کے ساتھ ساتھ مذارتوں کی شکل میں مالی امداد دینے کا بھی سلسلہ چل پڑا ۔ خواجہ گیسو دراز فرماتے ہیں:
اہل بیعت پر امامت مخفی چلی آرہی تھی۔ لوگ ان سے پوشیدہ بیعت کرتے، اور خفیہ طور پر خراج ادا کرتے تھے۔( جوامع الکلم، مترجمہ، حصہ اول صفحہ۱۴)
۶۰ھ کے بعد سے اہل بیعت کے بزرگوں کو وقتاً فوقتاً مخفی بیعت کرکے اور ان کے لئے رقمیں فراہم کر کے اموی و عباسی خلافتوں میں انہیں کھڑا کیاجاتا رہا ۔ جس کا نتیجہ ملت اسلامیہ میں انتشار اور خود ان کی ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا۔ تیسری صدی ہجری کے وسط تک جب اس قسم کی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں تو ان بیعتوں کو سیاسی رنگ دینے کی بجائے تزکیہ نفس ، تصفیہ روح اور سلوک الی اللہ کا رنگ دیا گیا اور ان کا سلسلہ بھی اہل بیت کے بزرگوں سے جوڑ دیا گیا ۔ رفتہ رفتہ سلاسل، خانوادے اور گروہ وجود میں آئے ۔ تزکیہ نفس ، تصفیہ روح اور سلوک الی اللہ کے بھاری بھرکم ناموں کی وجہ سے چوتھی اور پانچویں صدی میں بے شمار صالحین ، جید علما بھی ان سلسلوں سے وابستہ ہوگئے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پیری مریدی کی ابتدا خواہ کسی مقصد سے ہوئی ہو لیکن اس پر ایک ایسا دور بھی آیا ہے کہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کو فائدہ بھی پہنچا۔ خانقاہی نظام سے وابستہ ایک طبقے نے اپنے اپنے دور میں اصلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا ۔
جناب رؤف خیر صاحب نے اپنے مقالے میں حضرت مدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ دہلوی کا ذکر اس ضمن میں کیا ہے اور ساتھ ہی اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں خیا جاسکتا کہ اب یہ خانقاہی نظام اپنی افادیت کھوچکاہے ۔ اخلاص کی جگہ ریا ، اخفا کی جگہ نمود اور للہیت کی جگہ دنیا طلبی نے لے لی ہے ۔ بلا شبہ اب یہ اس لائق ہے کہ اس کو خیر باد کہہ دیاجائے ۔ اس زمانے میں مسلمانوں کے لئے اسی دور کی اتباع مفید ہوگی جبکہ خانقاہی نظام کا کوئی تصور نہیں تھا۔جس طرح کہ اوپر بیان کیا گیا ہے ۔ انڈرگراؤنڈ بیعتوں کا سلسلہ صرف مملکت اسلامیہ میں انتشار پیدا کرنے اور امیر المومنین کا تختہ الٹنے کے شروع ہوا تھا۔ سلاطین و امرا کی نظر میں یہ طریقہ اطمینا ن بخش نہیں رہا۔ حکام وسلاطین ایسے شیوخ طریقت سے ہمیشہ اندیشے محسوس کرتے تھے ۔ جن کا حلقہ ارادت وسیع ہوجاتا تھا ۔ عام طو ر پر جس کسی شیخ کا اثرورسوخ عوام میں بڑھ جاتا تھا اور اس کے مریدوں کی تعداد زیادہ ہوجاتی تھی وہ حکومت وقت کی نظروں میں کھٹک جاتا تھا۔بادشاہ وقت کے لئے دو صورتیں سامنے آجاتی تھیں یا تو وہ اس شیخ سے ٹکر لے یا پھر خود بھی ان کے مریدوںمیں شامل ہوجائے ۔عام طور پر ایسے مواقع پر بادشاہوں نے مصلحۃً عقیدت کا اظہار کرکے اپنی گدی کی حفاظت کرلی ۔ جن بادشاہوں نے ٹکر لی انہیں نقصان اٹھانا پڑا۔ فی الوقت دو مثالیں پیش کی جاتی ہیں ۔ حضرت نظام الدین اولیاء کے سامنے سات بادشاہ گزرے جن میں سے پانچ معتقد تھے ، دو نے ٹکر لی، چنانچہ قطب الدین مبارک شاہ اور جلال الدین خلجی کا جو حشر ہوا وہ تاریخ میں محفوظ ہے ۔ خواجہ گیسو دراز کے زمانے میں فیروز شاہ بہمنی نے خواجہ صاسحب سے بگاڑکرلیا۔ نتیجۃً اس کو تخت سے دست بردار ہونا پڑا ۔ اور احمد شاہ بہمنی نے صرف خواجہ صاحب کی حمایت پر دکن کا تخت و تاج حاصل کرلی ا۔ اس لئے صاحب مقالہ رؤف خیر صاحب کا یہ کہنا کہ
خانقاہی نظام اور شاہی نظام میں عموماً ٹکراؤ نہیں ہوتا تھا۔ بیشتر ارباب خانقاہ کو حکمرانوں نے جاگیریں دیں۔ خانقاہی اخراجات کی پابجائی کے لئے سرکاری خزانے سے روزینے مقرر کردئیے ۔ کچھ صوفیہ پر تو بادشاہ وقت اس قدر مہربان ہوا کہ ان سے اپنی بیٹیوں کی شادیاں تک کر ڈالیں۔
اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ بادشاہوں نے صرف اپنی گدی کی حفاظت اور اپنی حکومت کے استحکام کے لئے شیوخ طریقت کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔ ان کی زندگی میں نذرانے اور تحفے دئیے ۔ مرنے کے بعد فلک بوس گنبدیں بنادیں عرس و صندل مالی، چراغوںاور جھیلوں کے لئے جاگیرات اور مقطعے عطا کردئیے ۔ اس طرح ان بادشاہوں کے تخت اور گدیاں بھی محفوظ رہ گئیں اور ن شیوخ کی مسندیں بھی۔
حیدرآباد کی خانقاہوںپر میرے دوست جناب رؤف خیر صاحب نے بڑی تحقیق سے یہ مقالہ تیار کیا ہے۔ اپنی حد تک بڑی جستجو کے ساتھ حیدرآباد کی خانقاہوں اور پیری مرید کے سلسلوں کا تعارف اس مقالے میں پیش کیا ہے ۔ جناب رؤف خیر صاحب مسلکاً اہل حدیث ہیں اور یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ اہل حدیث حضرات کو خانقاہی نظام سے نہ صرف عدم دلچسپی ہے بلکہ اختلاف ہے ۔ اس کے باوجود رؤف خیر صاحب کا خانقاہی نظام کے معاملے میں اس قدر دلچسپی لینا اور بڑی دھوڑ دھوپ کرکے اس بارے میں حتی الوسع معلومات فراہم کرنا ایک قابل قدر اقدام ہے ۔ موصوف نے اپنے مسلکی اختلاف کو ایک طرف رکھ کر احتیاط سے قلم اٹھایا ہے جو قابل تعریف ہے ۔ امید ہے کہ اس مقالے کو قدر کی نگاہوں سے دیکھاجائے گا۔
موصوف نے دو ایک جگہ تھوڑی سی غلطی بھی کی ہے ۔جس کی اصلاح ضروری ہے۔ موصوف نے مخدوم علی الہجویری کو سلسلۂ چشتیہ کی اہم شخصیت لکھا ہے جب کہ مخدوم ہجویری کا سلسلہ چشتیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ مخدوم ہجویری تین واسطوں سے شیخ جنید بغدادی کے مرید تھے ۔ اور یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ قادری چشتی اور سہروردی سلسلے وجود میں نہیں آئے تھے۔
موصوف نے حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ کا تذکرہ بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے ۔ ان دونوں بزرگوں کی اصلاحی خدمات کی بڑی تعریف کی ہے ۔ اس خاکسار کو اس سے اختلاف ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ حضرت مجدد نے عہد اکبری اور عہد جہانگیری میں بڑا اصلاحی کام کیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ حضرت موصوف کا خانقاہی نظام سے گہرا تعلق ہے ۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ عہد اکبری اور عہد جہانگیری کے بگاڑ اور اکبر کو اکفر بنانے میں خانقاہی نظام کا بڑا دخل تھا۔ پھر بھی حضرت مجدد نے نہ صرف خانقاہی نظام کو جو ں کا توں رکھا بلکہ اس کی قدر و قیمت اور بڑھا دی ۔اسی طرح شاہ ولی اللہ کا معاملہ ہے ۔ خانقاہی نظام سے شاہ صاحب کے تعلق کو جاننے کے لئے ان کی کتاب "انفاس العارفین" ہی کا مطالعہ اگر رؤف خیر صاحب کرلیتے تو انہیں اندازہ ہوتا کہ شاہ صاحب خود اس دلدل میں کتنے پھنسے ہوئے ہیں۔ اسی طرح آپ کے فرزند رشید شاہ عبدالعزیز نے کس طرح بدعات کو رواج دیا ہے اور فضولیات کی کتنی سر پرستی فرمائی ہے اس کو جاننے کے لئے فتاوی عزیزیہ یا پھر شاہ صاحب کے حالات زندگی کی کوئی کتاب کا مطالعہ کافی ہے۔ ان بزرگ نے جن عجیب طریقوں سے اصلاح کے نام سے فساد کی سرپرستی فرمائی ہے اس کی ایک مثال تحفہ اثناء عشریہ ہے جو شیعوں کے رد میں لکھی گئی ہے ۔ اس کتاب کے بارہ ابواب قائم کئے ہیں اور صراحت کردی ہے کہ بارہ امام کی مناسبت سے میں نے بارہ ابواب قائم کئے ہیں۔ ایسی صورت میں شیعوں کا کیا رد ہوسکتاہے جب کہ آپ نے بنیاد ہی تسلیم کرلی ۔
فاتحہ و ایصال ثواب کے مروجہ طریقے ، محرم کی مجلسیں ، یا شیخ عبدالقادر شیا للہ کا درد، السلام علیکم کی جگہ آداب و تسلیمات کا رواج سب کچھ آپ کے پاس تھا۔
موصوف نے اس خاکسار کو بھی سلسلہ تصوف و طریقہ میں پرودیا۔ اس میں شک نہیں کہ میں شاہ قاسم علی کلیمی کے سلسلہ نظامیہ و فخریہ میں اور حافظ محمد موسی مانک پوری کے سلسلہ صابریہ میں حضرت سید احمد علی شاہ صاحب کا مرید و خلیفہ ضرور ہوں۔ لیکن میرے خیالات تصوف و طریقت کے بارے میں جو کچھ وہ ناظرین کے سامنے آچکے ہیں ۔ ایسی صورت میں میرے نام کے ساتھ چشتی یا قادری وغیرہ کا جوڑ بالکل اس شعر کی طرح رہ گیا ہے
مدتیں گزری ہیں شغل مئے کشی چھوٹے ہوئے
وہ دھرے ہیں طاق پر جام وسبو، ٹوٹے ہوئے
بہر حال خانقاہی نظام اور تصوف و طریقت کا عنوان ایسا ہے جس پر کافی محنت کی ضرورت ہے ۔ یہ ایک با ضابطہ تحقیقی کام ہے اور یہ کام اپنے قیمتی وقت بلکہ عمر عزیز کے ایک حصہ کو مستقل طور پر وقف کردینے کا متقاضی ہے ، جناب رؤف خیر صاحب کا مقالہ صرف اشارات کا کام دیتا ہے ، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی صاحب ہمت ان اشارات سے استفادہ کرتے ہوئے ایک مستقل کتاب تصنیف کردے۔
ہمت مرداں مددے خدا
احقر العباد
حافظ سید محمد علی حسینی
مولوی کامل جامعہ نظامیہ
ماخوذ از کتاب: حیدرآباد کی خانقاہیں
مصنف: ڈاکٹر رؤف خیر
ناشر: خیری پبلی کیشنز، حیدرآباد (سن اشاعت:جون 1994)
مصنف: ڈاکٹر رؤف خیر
ناشر: خیری پبلی کیشنز، حیدرآباد (سن اشاعت:جون 1994)
Ahadith regarding the attributes of Prophet Muhammad.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں