انجمن ترقی اردو ہند کا انتقال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-01-20

انجمن ترقی اردو ہند کا انتقال

anjuman-taraqq-urdu-hind
انجمن ترقی اردو ہند کا ایک طویل علالت کے بعد دہلی میں ان کی رہائش گاہ راؤز ایونینو میں انتقال ہو گیا۔ ایک طویل مدت سے بے حسی، بے بسی، عدم سرگرمی، خیانت فنڈ، اپنوں کی نظر اندازی اور بے توجہی جیسی مہلک بیماریوں کی شکار تھیں۔ افسوس یہ ہے کہ ان کا قابل اطمینان علاج نہیں ہو سکا حالانکہ مرکزی حکومت اور بعض ریاستی سرکاریں ان کے علاج کے لیے برابر خطیر رقم دیتی رہیں جسے وہ ہضم کرتے رہے جن پر ان کے علاج اور دیکھ ریکھ کی ذمہ داری تھی۔
یہ بات صد باعث ندامت ہے کہ مرحومہ کے یہ ذمہ داران ان کے علاج کے لیے سرکار دربار سے ملا پیسہ بھی کھاتے رہے اور سینہ کوبی بھی کرتے رہے کہ موصوفہ جاں بلب ہیں مگر ان پر توجہ نہیں دی جاتی ہے اور اگر دھیان نہ دیا گیا تو چل بسیں گی۔ مرحومہ کی کثیر تعداد میں اولادیں پورے ملک میں موجود ہیں۔ ان میں سے بہتوں نے مرحومہ کے نام پر دکانیں بھی کھول رکھی ہیں جس سے کچھ مالی فائدہ اٹھا رہی ہیں اور جو مالی فائدہ اٹھانے میں ناکام ہیں وہ نام و نمود کی دولت کما رہے ہیں۔ بہرحال سبھی کچھ نہ کچھ کما رہے ہیں ۔
بتایا جاتا ہے کہ مرحومہ صاحب املاک تھیں۔ دہلی کے راؤز ایونیو [Rouse Avenue] میں ان کا بہت بڑا عالیشان مکان ہے۔ اسی میں وہ رہتی تھیں اور باقی حصے کو کرایہ پر دے رکھا تھا جس سے لاکھوں روپے ماہوار آمدنی ہوتی تھی۔ اسی مکان میں ان کی کتابوں کی ایک دکان بھی تھی جس سے بھی اچھی خاصی آمدنی ہوتی تھی ۔مرحومہ ایک رسالہ اور ایک ہفت روزہ اخبار کی بھی مالکہ تھیں جس سے بھی کچھ نہ کچھ آمدنی ہو ہی جاتی تھی۔ اس سے کہیں زیادہ اس کا فائدہ یہ تھا کہ رسالہ اور اخبار کے ذریعہ وہ اپنی لاکھوں کروڑوں اولادوں سے جڑی ہوئی تھیں۔ اخبار مذکور میں پہلے مرحومہ کی سرگرمیوں کی خبریں چھپا کرتی تھیں جس کو پڑھ کر لوگ اندازہ لگاتے تھے کہ بیمار تو ہیں لیکن زندہ ہیں۔ رفتہ رفتہ اخبار کے صفحات سے یہ خبریں ختم ہوتی گئیں تو اندازہ ہو گیا کہ اب مرحومہ مفلوج اور صاحب فراش ہیں۔ مرحومہ کا ایک عرصے تک ڈاکٹر تخلیق فہم علاج کرتے رہے۔ اس دوران مرحومہ صحت مند تو نہ ہوئیں لیکن معذور و مفلوج نہ ہوئیں تھیں، بس یہ کہا جا سکتا ہے کہ مردہ بدست زندہ والی حالت تھی۔ ان کی اولادوں کو ایک گونہ چین تھا کہ چلو زندہ تو ہیں۔
پھر ایسا ہوا کہ معالج بدلا گیا کہ شاید اس سے کوئی فائدہ ہو۔ ڈاکٹر تخلیق فہم کی جگہ ڈاکٹر احقر جاروبی کا علاج شروع ہوا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ نیا معالج بہتر علاج سے مریض کو ضرور تندرست کر دے گا اور مریضہ ایک بار پھر فعال ہو کر چلنے پھرنے کے لائق ہو جائیں گی ۔ لیکن تمام امیدوں پر پانی پھر گیا۔ ڈاکٹر احقر جاروبی کے علاج سے مریضہ صحت یاب کیا ہوتیں، صحت مزید خراب ہونے لگی ۔ پہلے کچھ بول لیا کرتی تھیں جس سے ان کی زندگی کا احساس ہوتا تھا۔ ڈاکٹر احقر جاروبی کے علاج سے مریضہ کی قوت گویائی بھی ختم ہو گئی ۔ لوگوں نے کہا بھی کہ مریضہ مر جائے گی ڈاکٹر بدلو۔ لیکن ڈاکٹر احقر جاروبی کی ضد تھی کہ علاج کریں گے تو وہی کریں گے یا تو مریضہ کو صحت مند کر دیں گے یا پھر مار دیں گے۔ ڈاکٹر موصوف کے تیور دیکھ کر سب سہم کر خاموش ہو گئے۔ اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا، یعنی:
مریضہ کا انتقال ہو گیا۔
اللہ بخشے بڑی خوبیاں تھیں مرنے والی میں۔ جب تک زندہ رہیں لاکھوں کروڑوں کا پیٹ بھرتی رہیں اور مرنے کے بعد بھی ان کا یہ صدقہ جاریہ جاری رہے گا۔

موصوفہ کی موت کی خبر جنگل کی آگ سے بھی زیادہ تیزی سے ملک اور بیرون ملک میں پھیل گئی۔ ان کے چاہنے والوں نے وہ آہ و بکا کی کہ محرم اور چہلم کا ماتم شرمندہ ہو گیا۔ جو رو نہ سکے انہوں نے گلیسرین آنکھوں میں ڈال کر نقلی آنسو بہائے۔ ملک اور بیرون ملک سے تعزیتی پیغامات کی اتنی بڑی تعداد آنے لگی کہ ڈاک خانہ والوں کو انہیں ڈھونے کے لیے خصوصی گاڑیوں کا انتظام کرنا پڑا۔ تمام تعزیتی پیغامات ڈاکٹر احقر جاروبی کے نام تھے اور کس کے نام ہوتے لوگ ان ہی کو مرحومہ کاسب سے قریبی سمجھتے تھے۔
جنازے کا انتظام ڈاکٹر احقر جاروبی نے تن تنہا سنبھال رکھا تھا۔ اس میں انہیں کچھ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ مرحومہ کے نام پر جن لوگوں نے ملک کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں دکان کھول رکھی تھی ان میں سے اکثر اپنی دکان بڑھا گئے تھے یا ان کی دکان کا بورڈ "ہندی پڑھو سمیتی" کی دکان پر لٹکا ہوا تھا ۔ ڈاکٹر احقر جاروبی کی ہمت قابل داد ہے کہ انہوں نے تمام دشواریوں کے باوجود ان دکانوں کا پتہ لگانے میں کامیابی حاصل کر ہی لی۔ تمام دکانوں کے مالکان شریک جنازہ ہوئے ان میں سے کچھ بیساکھیوں کے سہارے کچھ چلنے والی کرسی اور بعض اسٹرکچر پر لد کر شریک جنازہ ہوئے۔ سبھوں کی رائے ہوئی کہ دم واپسیں تک چونکہ ڈاکٹر احقر جاروبی ہی مرحومہ کے ساتھ تھے اس لیے آخری خدمت بھی وہی انجام دیں۔ ڈاکٹر احقر جاروبی بخوشی تیار ہو گئے اور مرحومہ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ قبر میں اتارنے میں البتہ گڑ بڑ ہو گئی کہ مرحومہ کے نام پر دکان چلانے والے سب کے سب تیار تھے، یہ صورتحال دیکھ کر ڈاکٹر احقر جاروبی نے اعلان کیا کہ وہ تنہا مرحومہ کو قبر میں اتاریں گے۔ مٹی دینے کے بعد ہفت روزہ "ہماری زبان" کے صفحات کو جوڑ کر چادر بنائی گئی اور قبر پر اوڑھا دی گئی۔
مرحومہ کو کسی قبرستان میں نہیں بلکہ ان کی رہائش گاہ جہاں انہوں نے آخری سانسیں لیں یعنی راؤز ایونیو، نئی دہلی میں ہی دفن کیا گیا۔

قل کے بعد ایک تعزیتی نشست کا انتظام کیا گیا جس کی صدارت ڈاکٹر احقر جاروبی نے کی۔ نشست میں درج ذیل تجاویز اتفاق رائے سے منظور کی گئیں:
1۔ راؤز ایونیو، نئی دہلی کی جس عمارت میں مرحومہ کو دفن کیا گیا وہ اب "مقبرہ اردو" کہلائے گی۔
2۔ اس مقبرہ کے تاعمر مجاور ڈاکٹر احقر جاروبی ہوں گے۔
3۔ ہر سال مرحومہ کا عرس دھوم دھام سے منایا جائے گا۔
4۔ عرس میں میر انیس اور میر دبیر مرحومہ کا مرثیہ پڑھیں گے۔
5۔ ملک بھر میں مرحومہ کے نام پر جو دکانیں ہیں وہ اپنے بورڈ میں "مرحومہ" کا اضافہ کرلیں یعنی:
" انجمن ترقی اردو ، ہند (مرحومہ)"
6۔ مرحومہ کے نام پر دکانداری جاری رہے گی تاکہ مرحومہ کی یاد سے زیادہ سلسلہ کام و دہن برقرار رہے۔

مرحومہ کے لیے دعائے مغفرت پر تعزیتی نشست کا اختتام ہوا۔

***
خورشید پرویز
موبائل: 07654722418

Sad demise of Anjuman Taraqqi-e-Urdu Hind. Satiric Article: Khursheed Parvez

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں