اردو کا پہلا سفر نامہ - تاریخ یوسفی - عجائبات فرنگ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-12-03

اردو کا پہلا سفر نامہ - تاریخ یوسفی - عجائبات فرنگ

urdu-travelogue-dr-anwar-sadeed
اردو سفرناموں میں اب تک یوسف خان کمبل پوش کا سفر نامہ "عجائبات فرنگ" قدیم ترین شمار ہوتاہے ۔ یوسف خان ایک فطری سیاحتھااس کا سفر لندن در حقیقت اس کے من کی ترنگ تھااوراس کیساتھ کاروباری، مذہبی یاسیاسی مقصدوابستہ نہیںتھا ، یوسف خان حیدرآباد کا رہنے والا تھا ۔ وہ نصیر الدین حیدر کے زمانے میں رسالہ خاص سلیمانی میں جمعدار بھرتی ہوا اور پھر ترقی پاکر صوبے دار کے عہدے پر فائزہوگیا لیکن جب اس کے دل میں ذوق سیاحت پیدا ہوا تو وہ سب کچھ چھوڑ کر عازم لندن ہوگیا۔ وہ لکھا ہے کہ:
"یکبارگی 1836ء میں دل میرا طلبگارسیاحی جہان بالخصوص ملک انگلستان کا ہوا ۔ شاہ سلیمان جاہ سے اظہار کرکے رخصت مانگی ، شاہ گردوں بارگاہ نے بصد عنایت وانعام اجازت دی ۔ عاجز تسلیمات بجالایا اور راہی منزل مقصودہوا۔تھوڑے دنوں میں دارالامارہ کلکتہ پہنچا ۔پانچ چھ مہینے وہاں کی سیر کی بعدازاں جمعرات کے دن تیسویں تاریخ مارچ کے مہینے میں سن اٹھارہ سو سینتیس عیسوی جہاز میں سوار ہوکربیت السلطنت انگلستان کو چلا۔"
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یوسف خان کا دل جیسا کہ اس نے خود بیان کیا ہے اچانک"طلبگاری سیاحی" نہیں ہوا تھا،اور ولایت کی سیاحت اس کی پہلی سیاحت نہیں تھی۔"عجائبات فرنگ" کی ابتدا میں اس نے اپنے حالات زندگی بھی لکھے ہیں۔ان کے مطابق وہ 1828ء میں اپنے وطن حیدرآباد سے روانہ ہوا اور عظیم آباد، ڈھاکہ ،مچھلی بندر، مندراج گورکھپور ، نیپال، اکبرآباد اور شاہجہاں آباد دیکھتا ہوا بیت السلطنت لکھنو روانہ ہوا ۔ لندن روانہ ہونے سے قبل اس نے اندرون ہند مشہور مقامات کی سیر کی ۔ انہیں جی بھر کردیکھا اور پھرنئے شہر کی کوچہ گردی پرروانہ ہوگیا ۔ لکھنومیں اسے ملازمت کی آسودگی اور رزق معاش کی سہولت بھی حاصل ہوئی لیکن وہ لکھنومیں بھی ٹک کربیٹھنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اس زمانے میں انگریزوں نے لکھنو پر دندان آزتیز کررکھے تھے اور یہ شہر سازشوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ قیاس غالب ہے کہ یوسف خان بھی انگریزوں کی حکمت عملی سے متاثر ہوا ہوگا اور اسی تاثر نے اسے حاکم قوم کا ملک دیکھنے پر آمادہ کیا ہوگا ۔ چنانچہ قرائن بتاتے ہیں کہ اس نے اس سفر کے لئے پوری تیاری کی تھی۔ انگریزی زبان سیکھی ۔تاریخ کی کتابوں سے اس ملک اوراس کے شہروں کے بارے میں معلومات جمع کیں اور پھر ایک روز جب اس کے جی میں آئی کہ ایران، استنبول ، روس اور ماژندان وغیرہ کی سیر کرنی چاہئے تو کفالت سفر کا خیال کئے بغیر اور زاد راہ کی کمی کو در خور اعتناء نہ سمجھتے ہوئے وہ گھر سے نکل کھڑا ہوا اور بالآخر انگلستان پہنچ گیا ۔ اس سفرمیں ممالک غیر نے یوسف خان پر اپنے آغوش وا کردئیے ۔ یوسف خاننے اس نیرنگی مناظر کو تماشائے خوش نظرسمجھ کر دیکھا اور ہر قدم پر حیرت کا اظہار کیا ۔بہجت کی یہ کیفیت حسب ذیل اقتباسات سے عیاں ہے:
"لندن عجیب شہر گلستان ہے ۔ دانائی کی وہاں دکان ہے ۔ یہ تماشے دیکھ کر سرائے"بل موت" میں پھر آیا۔"
"کیا خوب لندن شہر ہے ، لوگ وہاں کے مسافروں پر ایسی عنایات کرتے ہیں کہ ماں باپ بیٹیوں کے ساتھ نہیں کرسکتے ۔فقیر نے سفر بہت شہروں کے کئے مگر صاحب مروت ایسے نہیں پائے ۔ انگریز جو ہندوستان میں آتے ہیں مزاج میں بدل جاتے ہیں ۔ ان لوگوں کو ان سے کچھ نسبت نہیں۔"
یوسف خان فطرتاً آزاد منش اور طبعاً دریش تھا ۔ اپنے آپ کو کسی مروجہ مذہب کے ساتھ وابستہ کرنے کے بجائے وہ خود کو سلیمانی مذہب کا پیرو شمار کرتا تھا اور اسے حضرت سلیمان علیہ السلام کا مذہب کہتا تھا ۔ سفر نامے میں وہ خود کو عاجز ، فقیر، خطا پوش ، عذرنیوش اور امیدوار رحمت پر وردگار کہہ کرمتعارف کراتا ہے ۔ اور جہاں بھی اس کے دل میں حٰرت جاگی ہے وہیں زمین بوس ہوجاتاہے ، کبھی جھکتا ہے، کبھی تسلیمات بجالاتا ہے۔انکسار کی یہ کیفیت اس سفرنامے میں یوںسرایت کرگئی ہے کہ یوسف خان کی ہر بات سچی معلوم ہوتی ہے ۔ وہ حقیقت کو اس سادگی سے بیان کرتاہے کہ دل اس کی معصومیت سے محظوظ و مسرور ہو جاتا ہے ۔ اس کتاب کی وجہ تالیف کے طور پر یوسف خان نے لکھا ہے کہ:
"اس عاجز نے اکثر اوقات اپنی سیر ملکوں میں بسر کی اور کیفیت عجائبات زمانہ کی اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ اکثر دوستوں پر روداد سفر عیاں کیا انہوں نے نہایت محظوظ و مشتاق ہوکر مجھ کو آمادہ تالیف و بیان کیا۔"
یہ سفر نامہ اس لحاظ سے انفرادی حیثیت رکھتا ہے کہ یوسف خان نے سفر کے دوران اپنے اوپر مذہب کا خوف ، دینداری کا جذبہ اور عاقبت کا اندیشہ طاری نہیں کیا ۔اس نے لندن کو ایک آوارہ نظراور آزاد فکر سیاح کی صورت میں دیکھا اور سفر نامہ لکھ کر ان مسرتوں میں اہل وطن کو شامل کرنے کی کوشش کی ۔ لندن اسے بے حد رنگین اور دلآویز شہر نظر آتاہے اور وہ اس جنت نظر کو اپنی آنکھوں کے راستے دل میں اتارنے میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے ۔ ایسا لگتاہے کہ وہ ایک خواب ابو الحسن دیکھ رہا ہے جو حیرت انگیز بھی ہے اور بعید از عقل بھی۔ چند اقتباسات حسب ذیل ہیں:
"وہاں سات گاڑیاں کھڑی تھیں۔ ایک بڑی گاڑی سب سے آگے ۔ اس میں تین آدمی بیٹھے کوئلے سلگاتے ، پھر ہر گاڑی کی زنجیر دوسری گاڑی میں لگی ہوئی تھی۔بڑی گاری تک زنجیر بندی یونہی تھی ۔ جب سب آدمی ان میں بیٹھ جاتے بڑی گاڑی کے پیچ کو پھیرتے ، فی الفور وہ تیر کی طرح دھوئیں کے زور سے رواں ہوتی ۔ ہر ایک گاڑی زنجیر کے لگاؤ سے اس کے ساتھ چل نکلتی ۔ میں نے ایسا تماشا کبھی نہیں دیکھا۔"
"دیکھا کہ ایک غبارہ ہے ۔ اس میں بہت سی ڈوریاں لگی ہوئی ہیں اور دو سو گوروں نے وہ ڈوریاں اپنے ہاتھ مین پکڑیں۔اس میں دھوئیں بھرنے کے لئے گیس جلایا ۔اس لئے کہ بغیر دھوئیں بھرنے کے غبارہ اڑ نہ سکتا تھا ۔ نیچے اس کے ایک بڑا ٹکڑہ تانبے کا لگا ہوا ۔ اسپر ایک پلنگ چھوٹا سا بچھا ہواہے اس پر بارہ آدمیوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی ۔ نیچے اس کے ایک ناؤ معہ سامان دریائی کے لگی کہ شاید غبارہ اڑ کردریامیں گرے ۔ ناؤ کے سبب سے ڈوبنے نہ پاوے ۔ چار آدمی اس میںبیٹھے ہوئے تھے ۔ ایک شخص ہاتھ میں جھنڈی لئے ، جب غبارہ دھوئیں سے بھرا۔ صاحب غبارہ نے گوروں کو حکم دیا کہ ڈوریوں کو چھوڑ دو۔ گوروں نے ڈوریوں کو چھوڑا۔ غبارہ بلند ہونے لگا۔۔۔۔۔۔ سب لوگوں نے بہت تعریف کی ۔"
یوسف خان کے نزدیک سیاحت و سیلہ ظفر نہیں بلکہ یہ اکتساب لذت کا ایک ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاسبان عقل کی نگہبانی قبول نہیں کرتا ۔اور دل کو تنہا چھوڑ دیتاہے ۔ وہ غیرملکی عورتوں کے حسن سے نہ صرف متاثر ہوتا ہے بلکہ ان کی فتنہ سامانیوں سے محظوظ ہونے کی خواہش تک نہیں خرتا ۔اگرچہ اس نے عورتوں سے اختلا ط کو خالی از اغراض نفسانی قرار دیا ہے ۔ تاہم جس والہانہ شوق سے اس نے اس قسم کی وقائع نگاری کی ہے اس سے یہ باور کیاجاسکتا ہے کہ اس نے اپنی پرہیز گاری کو گداز بدن محبوباؤں اور سرور انگیز شرابیوں سے کہاں محفوظ رکھا ہوگا۔ خوبی کی بات یہ ہے کہ اس نے حقیقت کو پردہ پوش نہیں کیا اوربات برملا کی ہے :
"وہاں کے مالک نے بہت اخلاق سے ملاقات کی اور شراب انگوری ہم کو پلائی، عجیب ذائقہ کی تھی کہ کبھی دل سے نہیں بھولتی۔ایک شخص قوم ملائی سے میرا نوکر تھا۔ اس نے مجھ سے کہا"تم مذہب مسلمان رکھتے ہو ۔ شراب کیوں پیتے ہو ، میں نے جواب دیا کہ حضرت پیغمبر نے شیرۂ انگور کو منع نہیں کیا۔"
"میں حال دیکھ کر باہر نکلا ۔ پانی برسنے لگا ۔ سارے کپڑے تر ہوگئے ۔ مگر گرتے پڑتے گھر چلے ۔ راہ میں دو رنڈیاں ایک خوبصورت دوسری کریہہ الہیئت ملیں۔ میری وضع خلاف اس شہر کے دیکھ کر ترک ترک کہتی تماشا دیکھتی پیچھے دوڑی آئیں۔ ایک بار پاؤں پھسلا ، دونوں لڑ کھڑاکر گریں۔ میں نے قریب جاکر زنِ جمیلہ کا ہاتھ پکڑکر اٹھایا ۔ بد شکل کو ویسے ہی چھوڑا۔ وہ بڑی محنت سے اٹھی ، اپنی بولی میں کچھ کہنے لگی،مگر اس زبان سے مجھ کو آگہی نہ تھی۔ آخر اس نے ایک دھکا دیا ، مجھ کو زمین پر گرا دیا۔ دوسری خوبصورت نے جس کومیں نے اٹھایا تھا، میری طرف ہوکر اس سے مقابلہ کیا۔ میری جان بچائی ،غنیمت سمجھا اور وہاں سے بھاگا۔"
یوسف خان کمبل پوش کا سفر نامہ انیسویں صدی کے نصف اول کے انگلستان کو ایک ایسے اجنبی کی آنکھ سے دیکھتا ہے ۔ جس کی نظر پر پسماندگی کے سینکڑوں غلاف چڑھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ تاریخ کی کتابوں میں پڑھے ہوئے واقعات کووہ جب اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے تو متانت اور علمیت کا سہارا لئے بغیروہ انہیں بیان کرڈالتاہے ۔ اس کی کم علمی، آداب معاشرت سے عدم واقفیت اوربعض اوقات نادانی کی بنا پر بے حد مضحک صورت بھی پیدا ہوتی ہے ۔ لیکن یوسف خان اپنے وقائع کی صداقت کو مجروح نہیں خرتا اور مشاہدات کو حقیقی انداز میں بیان کرتا چلاجاتا ہے ۔ یوسف خان کی یہ بے تکلفی اور بدیہہ نگاری اس سفرنامے کی گراں مایہ خصوصیت ہے اور اس کے باطن میں انگلستان کی تہذیبی، معاشرتی، مذہبی اورعلمی زندگی کی ایسی متحرک تصویریں موجود ہیں جن کے نقوش اب لندن کے عجائب خانوں میں ہی دیکھے جاسکتے ہیں ۔
یوسف خان کمبل پوش نے یہ سفر نامہ اس دور میں لکھا جب اردونثر اپنے ارتقا کی منزلیں طے کررہی تھی ، تاہم اس زمانے میں میرا من نے دلی کی گلیوںکے روڑوں کو خوبصورت لڑی میں کچھ اس طرح پرو دیاتھا کہ رعایت لفظی ،قافیہ پیمائی اور صنائع بدائع وغیرہ سے استفادہ کی کوشش کومستحسن سمجھاجاتا تھا ۔ اس دور میں غالب کے خطوط میں اردو نثرکا ایک نیا اسلوب بھی پروان چڑھ رہا تھا اور وہ اسے روزمرہ گفتگوکا مثیل بنانے کی کوشش کررہے تھے۔ لیکن غالب کی نثر ابھی علمی زبان کا درجہ حاصل نہ کرسکی تھی ۔ یوسف خان کچھ زیادہ پڑھا لکھا آدمی نظر نہیں آتا ۔ لیکن اس کی سادہ اور سلیس زبان خاصی مقفی اورمسجع ہے ۔ اس نے محاوروں اور ضرب الامثال کو بھی خوبی سے استعمال کیا ہے اور اپنے مافی الضمیر کو قاری پر عمدگی سے روشن کیا ہے ۔ اس کے اسلوب میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ قاری کواپنے جادو سے مسحور کرسکے اور اس کی حیرت کو جگادے ۔ ایک مثال درج ذیل ہے:
"سبحان اللہ! عجب شہنشاہ ہے کہ سبب عدالت اس کی سے شیر و بکری ایک گھاٹ پانی پیتے ہیں ۔ رعایا سایہ عنایت اس کی میں روز و شب بہ آسائش بسر کرتی ہے۔ چور نے شہر میں پاسبانی اختیار کی ، شیر نے بیشہ میں پیشہ شبانی، گل عشرت آبیاری عدل اس کی سے سیراب ۔ خار عسرت چمن پیرائی رافت،اس کی سے نایاب۔ سخاوت اس کی سے ابر گہر بار شرمسار۔ مناسبت اس کی سی حاتم طائی کو افتخار۔
یوسف خان کا اسلوب انیسویں صدی کی نثرکا ایک اچھا نمونہ ہے ۔اسمیں پڑھے جانے کی عمدہ صلاحیت ہے۔ سفر نامے عجائبات فرنگ دلچسپ واقعات اورذاتی تاثرکے سبب سے افسانہ وناول کا سا لطف پیدا ہوگیا ہے اورکمبل پوش صاحب نے سفر اور سفر نامہ دونوں کا حق اداکردیاہے ۔"یوسف خان ابتدا میں لندن کا محض تماشائی نظر آتا ہے لیکن جیسے جیسے وہ اس شہر سے بے تکلف ہوتا ہے۔ یہ شہر بھی اپنے اسرار کھولتا چلاجاتا ہے ،اور سفر کے اختتام پر تو اس شہر کاباسی نظر آنے لگتا ہے ۔ ان خوبیوں کی بنا پر یہ سفر نامہ آج بھی تازہ نظر آتا ہے ۔ اور جدید سفرنامے کے دورِ رواں میں بھی اس کی قدر و قیمت قائم ہے ۔ اس سفرنامے سے پہلے تا حال کوئی ایسا سفر نامہ دریافت نہیں ہوا جس میں روداد سفر اردومیں لکھی گئی ہو اور سفر بھی مصنف نے خود اختیار کیا ہو چنانچہ یوسف خان کمبل پوش کے سفر نامے "عجائبات فرنگ" کو جس کا ایک عنوان"تاریخ یوسفی" بھی ہے بجا طور پر اردو کا پہلا سفر نامہ تسلیم کیا گیاہے ۔

ماخوذ از کتاب:
اردو ادب میں سفرنامہ
تالیف: ڈاکٹر انور سدید
ناشر: مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، لاہور۔ (سن اشاعت: 1987)

The first Urdu travelogue. Article by: Dr. Anwar Sadeed.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں