انسان کی تلاش میں انسان جائے گا!
سڑکوں پر ہونے والے قتل ، حادثات اور دیگر واقعات کی ویڈیو گرافی سماج کو کدھر لے جارہی ہے ؟!
متاثرین کی مدد کی کوشش سے گریز ، سوشل میڈیا پر ناقابل دید ویڈیوس پھیلانے کاخطرناک رجحان
گزرے زمانوں میں سڑک چلتے مصیبت میں گرفتار انسان، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے رہا ہو، کی مدد کیلئے راہ چلتے ایک ساتھ کئی ہاتھ پہنچ جاتے تھے۔ لیکن برا ہو موجودہ زمانے کے سوشل میڈیا اور انسانیت کے معیار کی گراوٹ کا کہ گزشتہ چند سالوں سے یہ وبا عام ہو گئی ہیکہ سڑک پر کوئی بھی انسان کسی بھی مصیبت میں گرفتار ہو جائے، لوگ اس کی مدد کرنے کے بجائے اپنے موبائل فون سے فوری ویڈیو لینے میں مشغول ہو رہے ہیں اور یہ انسانیت سوز رجحان روز بہ روز ایک غیر انسانی رویہ اختیار کرتا جا رہا ہے۔
چند سال قبل دہلی اور پھر حیدرآباد زو میں شیروں کے پنجرہ میں دو نوجوانوں کے گر جانے کا واقعہ شاید قارئین کے ذہنوں میں تازہ ہوگا کہ کس طرح شیر کئی منٹوں تک ان بدنصیب نوجوانوں کی زندگیوں سے کھیلتے رہے لیکن کسی کو بھی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ایک ساتھ اتنا شور مچاتے کہ شیر گھبرا کر بھاگ جاتے اس کے بجائے اس تماشہ کو دیکھنے والوں نے اپنے اپنے موبائل نکال لئے اور ویڈیو گرافی شروع کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل کر دئیے گئے ۔
گزشتہ دنوں حیدرآباد کی سڑکوں پر بے رحمانہ طریقہ سے قتل کی تین وارداتیں پیش آئیں قاتل کون تھے اور مقتول کون؟ یہ الگ موضوع بحث ہے لیکن قتل کے ان واقعات کے دوران جس طرح مقتولین کی مدد کو پہنچنا ضروری تھا اور چند باہمت نوجوانوں نے یہ کام بھی کیا جو لائق تحسین ہے، لیکن ان واقعات کے زیادہ تر چشم دید لوگ قتل کے لائیو ویڈیوز اور تصاویر کھینچنے میں مشغول رہے اور ہمیشہ کی طرح اسے سوشل میڈیا پر پھیلا دیا۔
حد تو اس وقت بھی پار کی گئی تھی جب حیدرآباد کے دو الگ الگ مقامات پر چند ناعاقبت اندیش مسلم لڑکیوں نے ٹریفک عملہ سے قابل مذمت اور ناشائستہ لفظوں کے ساتھ بحث و تکرار کی تو ان کے ویڈیوز بھی کسی کارِثواب کی خاطر سوشل میڈیا پر وائرل کر دیے گئے، جس سے کہ ساری قوم جواب دہ بن کر رہ گئی !!
کل ہی شہر کے مصروف مقام عطاپور پر فلمی انداز میں ایک نوجوان کا کلہاڑی کی مدد سے انتہائی انسانیت سوز حالت میں حملہ کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا۔ حیرت انگیز بات تھی کہ قتل سے کچھ ہی دور پر پولیس کی ایک گاڑی بھی نظر آئی۔ اس موقع پر اگر کوئی گروہ ہمت جٹا کر حملہ آوروں کی جانب بھاگتا تو شاید اس انسانی جان کو بچایا جا سکتا تھا، ہرچند کہ دو نوجوانوں نے کوشش بھی کی تھی لیکن کامیاب نہیں ہو پائے۔
انسانی سماج میں قتل و غارت گری کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر کوئی فی الوقعی مجرم ہے بھی تو اس کو سزا دینے کیلئے ہمارے پاس دنیا کا سب سے بہتر پولیس اور عدالتی نظام موجود ہے۔
ایسے انسانیت سوز واقعات کے دوران متاثرین یا مصیبت زدگان کی مدد کو آگے بڑھنے کے بجائے اس کی ویڈیو گرافی کرنا یا اسکے لائیو فوٹوز لینے کی کوششوں کو ایک مہذب معاشرہ میں اخلاقی اور قانونی سطح پر روکا جانا چاہئے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ جب تلگو فلم اسٹار ہری کرشنا کار حادثہ میں شدید زخمی ہونے کے بعد ایک خانگی ہسپتال کی میز پر موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا تھے تب بھی اس اسپتال کے عملہ کے چار افراد نے ان کے ساکت جسم کیساتھ سیلفی لی تھی جس پر سوشل میڈیا میں شدت سے اعتراض بھی کیا گیا تھا۔
ملک کے مختلف مقامات پر مختلف ناموں سے ہونے والے ہجومی تشدد ( موب لینچنگ ) کے ویڈیوز بھی فخریہ طور پر لے کر سوشل میڈیا پر پھیلاکر عوام کے ایک مخصوص طبقہ کو ذہنی طورپر کمزور کرنے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں، ان کی بھی مذمت ہونی چاہئے ۔
ایسے انسانیت سوز واقعات کی ویڈیو گرافی اور فوٹو گرافی کرنے والے اور اس مواد کو بنا کسی مطلب و فائدہ کے سوشل میڈیا پر پھیلانے والے افراد صرف ایک لمحہ رک کر یہ سوچیں کہ اگر مرنے والا کوئی اپنا ہی خونی رشتہ دار ہوتا تو کیا تب بھی وہ یہ کام انجام دیتے؟!
بھیانک سڑک حادثات کے ویڈیوز اور تصاویر کو سوشل میڈیا پر پھیلانے، معاشرہ کے چند منتشر ذہن افراد پر جنون سوار ہو گیا ہے۔ جبکہ ایسے خطرناک ویڈیوز اور تصاویر نیوز چینلس اور پرنٹ میڈیا میں بھی شائع و نشر کرنے سے احتیاط کی جاتی ہیکہ اس سے کمزور دل اور کمزور اعصاب والے قارئین و ناظرین کی سوچ اور صحت پربرے اثرات مرتب ہونگے۔
اس محتاط و مثبت رویے کا اطلاق سوشل میڈیا اشتراک [sharing/forwarding] پر بہت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر خواتین اور بچوں کی نظر بھی ہوتی ہے!!
ضرورت شدید ہیکہ ہر عام انسان اس بارے میں کچھ دیر کیلئے سوچے کہ مصیبت میں گرفتار انسان کی مدد ہر مذہب کی پہلی تعلیم ہے ورنہ وہ دن دور نہیں جب انسان پر سے انسان کا اعتبار ہی ختم ہو جائے گا اور ہم مہذب ہوتے ہوئے بھی دوبارہ پتھرؤں کے دور میں پہنچ جائیں گے !!
ہم نے اکثر دیکھا ہیکہ اگر سڑک پر کسی کوے یا بندر کی موت ہو جاتی ہے تو کوؤں اور بندروں کا غول انکے اطراف جمع ہو جاتا ہے ! ہم تو انسان ہیں جسے اشرف المخلوقات کہا گیا ہے۔ کیا اب انسانوں کو حیوانوں سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت درپیش ہے؟
Taking pic or video of accident/murder is against humanitarian ethics.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں