مشاہیر علم و ادب کے سرقوں کا محاسبہ - اثبات کا خصوصی شمارہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-08-01

مشاہیر علم و ادب کے سرقوں کا محاسبہ - اثبات کا خصوصی شمارہ

Esbaat issue on plagiarism
ہمارے معاشرے میں 'خطائے بزرگاں گرفتن خطا است' جیسے ضرب الامثال ، محاورے اور روزمرہ نے شخصیت پرستی کے فروغ میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ ایک ایسی فائر وال ہے ، جس نے بزرگوں اور مشاہیر پر تنقید کو ممنوع بنا دیا اور اس بنیادی اصول کو سرے سے نظرانداز کر دیا کہ 'میراث' ہی وہ اکلوتا معیار ہے جس پر بزرگی قائم رہتی ہے۔ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ جو قومیں اپنے بزرگوں کے کارناموں اور غلطیوں کے درمیان تفریق نہیں کرتیں ، وہ ان غلطیوں کو آہستہ آہستہ اپنے اندر سموتی چلی جاتی ہیں۔
علم و ادب کے شعبے میں تصنیف و تالیف ، ترجمہ و تلخیص اور اخذ و استفادہ کے اصول و حدود متعین ہیں ، جنہیں 'رواداری' یا 'چشم پوشی' سے پامال نہیں کیا جا سکتا۔ اسے پامال کرنے والا خواہ بزرگ ہو یا طفل مکتب، زندہ ہو یا مردہ ، قابل مواخذہ ہے۔ البتہ بزرگوں اور مشاہیر کی 'خطائیں' اس لیے زیادہ لائق گرفت ہیں کہ ان کے خطرناک اثرات نئی نسل کے اخلاق پر مرتب ہوتے ہیں ، جس کی ایک جھلک آج ہم تعلیمی اداروں میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں جہاں اس طرح کی جعل سازیوں کا بازار گرم ہے۔
ادبی سراغرساں سید حسن مثنیٰ ندوی نے سعدی کا حوالہ دیتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ بادشاہ اپنی رعایا کے گھر سے مرغی کا ایک انڈہ بھی چوری کر لیتا ہے تو اس کے وزرا اور عمال ڈربے کے ڈربے صاف کر جاتے ہیں۔ لہذا علم و ادب کا معاملہ صرف ایک انڈے کا نہیں ، بلکہ پورے پولٹری فارم کا ہے۔ لغزش بہرحال لغزش ہوتی ہے، جس کی اصلاح تو ہو سکتی ہے لیکن اس کی تقلید ہرگز نہیں کی جا سکتی۔
لہذا یہ خصوصی شمارہ علم و ادب کے حلقوں میں سنسنی پھیلانے کے بجائے شخصیت پرستی سے آزادی ، علمی و ادبی سرقوں کی حوصلہ شکنی اور نئی نسل کے لیے نسبتاً بہتر ماحول سازگار کرنے کی جانب ایک پہل ہے۔
مدیر 'اثبات' اشعر نجمی اپنی فیس بک ٹائم لائن پر 15/جولائی کے ایک مراسلے میں رقم طراز ہیں :

'اثبات' کے سرقہ نمبر کے بہانے جو کچھ لوگ اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ رہے ہیں، ان کا الزام ہے کہ میں بزرگوں کی پگڑیاں اچھال رہا ہون، اکابرین کی توہین کررہا ہوں، بزرگان ادب کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر ان کا مثلہ کررہا ہوں۔ اس سلسلے میں اپنی جانب سے کچھ نہ کہتے ہوئے صرف دو اہم سراغرسانوں کے مختصر اقتباسات نقل کرتا ہوں جو میرے مؤقف کی تائید کرتے ہیں اور یہی اس شمارے کے تعلق سے میرا مطمح نظر بھی ہے:

(1)
"ادبی سراغرساں کی مہمات کا مقصد صرف یہ ہے کہ صحت مند اور بہتر ادب پیدا کرنے کے لیے فضا کو ساز گار بنایا جائے، ادیبوں کو متوجہ کیا جائے اور ادبی صلاحیت رکھنے والے اہل قلم کو بیدار کیا جائے۔ اس کا مقصد سنسنی پیدا کرنا نہیں ہے، نہ کسی کی مخالفت بلکہ تخلیقی عمل کے لیے میدان ہموار کرنا ہے اور اس سلسلے میں ادبی سراغرساں چاہتا ہے کہ وہ حقائق و واقعات اور ادبی چوریوں (جی چاہے اسے کوئی دوسرا نام دے دیجیے) کے نمونے پیش کیے جائیں، جن میں کہیں تو بڑی چابک دستی نظر آتی ہے، کہیں بھونڈا پن دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسروں کی نقل اور ترجمہ، اصل مصنف کے تذکرے اور حوالے سے عملاً چشم پوشی بلکہ گریز آپ کے سامنے آئے اور دیانت داری سے ان کا تجزیہ کیا جائے۔ ہمارے اکثر ادیبوں اور فن کاروں میں بڑا ادب پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور انھوں نے بڑا ادب پیدا بھی کیا ہے مگر جہاں انھوں نے وہ صورت اختیار کی ہے جس کے لیے سرقہ اور چوری کے سوا دوسرا کوئی نام ہی نہیں ہے یا انھوں نے دوسروں کے افکار و خیالات کو حوالہ دیے بغیر، اپنے نام سے پیش کیا ہے تو یہ نہایت ہی سنگین بات ہے اور بڑا ظلم ہے اور اس ظلم کی ذمہ داری ان کی نیت سے زیادہ ان کی ذہنی سہل انگاری پر عائد ہوتی ہے ، جس کا اثر ابھرتے ہوئے ادیبوں اور مصنفوں پر بہت برا پڑرہا ہے اور اندیشہ یہ ہے کہ ادب کو مہلک جراحتیں پہنچ جائیں اور آج ادب جس دور سے گزر رہا ہے اس کا اندازہ کم و بیش ہر ایک کو ہے۔"
(سید علی اکبر قاصد)

(2)
"اگر کچھ حضرات کے نزدیک یہ بے ادبی ہے تو الگ بات ہے، ورنہ ادبی سراغرساں نے یہی کوشش کی ہے کہ ادب و تہذیب کا رشتہ کہیں ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے اور محض دلائل اور اقتباسات پیش کردیے جائیں ۔ ویسے بھی ادب کی دنیا میں زندوں اور مردوں کی تقسیم نہیں۔ یہ دنیا تو اپنے وابستگان دامن کو ابدیت عطا کردیتی ہے۔ کچھ نقاد یقینا ایسے ہیں جو زندوں سے ڈرتے ہیں اور مردوں سے بے خوف ہوتے ہیں لیکن ادبی سراغرساں نہ تو زندوں سے ڈرتا ہے اور نہ مردوں سے بے خوف ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ تقسیم کا قائل نہیں۔"
(سید ابوالخیر کشفی)

اثبات خصوصی شمارہ - فہرست مضامین
نمبر شمارعنوانمصنف
اداریہ
1'خطائے بزرگاں گرفتن خطا است'اشعر نجمی
محاضرات
2سرقے کی روایت تاریخ کی روشنی میںخالد جامعی
3سرقات اساتذہعندلیب شادانی
4سرقہ نویسیمشفق خواجہ
5قصہ کچھ کتابوں کاخالد علوی
6سرقہ ، توارد اور استفادہمرغوب علی
-جراحیات-
7محمد حسین آزاد کے سرقےفہیم کاظمی
8'نیرنگ خیال' میں خیال مسروقہسید ابوالخیر کشفی
9'مقدمہ شعر و شاعری' کا مقدمہعبیداللہ
10'ترغیباتِ جنسی' : نیاز فتح پوریسید حسن مثنیٰ ندوی
11'نگار' کے خدا نمبر کا خدا کونماہر القادری
12مولانا ابوالکلام آزاد سرقے کی زد میںسید حسن مثنیٰ ندوی
13دوسروں کی تحریریں اور مولانا ابوالکلام آزادعارف گل
14مولوی عبدالحق : لفظاً نقطاًسید ابوالخیر کشفی
15'عدالت خانم' کی عدالت میں عصمت چغتائیسید علی اکبر قاصد
16کرشن چندر : کس درجہ ہوئی عام یہاں مرگ تخیلسید علی اکبر قاصد
17شبلی نعمانی کی تنقید پر مغربی اثراتناصر عباس نیر
18مولانا اشرف علی تھانوی کا علمی سرقہمنیر الدین احمد
19فیض احمد فیض : قزاقی کا طوقمنصور آفاق
20اقبال : ماخوذ کے مآخذسکندر مرزا
21ابواللیث صدیقی کا سرقہانجم رومانی
22آل احمد سرور کی کرامتیںفرمان فتح پوری
23بکف چراغ داردممتاز لیاقت
24تاریخی ناول اور اس کا فن' : سید وقار عظیمممتاز لیاقت
25'ہنسی کے متعلق ۔۔۔' : سجاد باقر رضویممتاز لیاقت
26امانت لکھنوی' : سید وقار عظیمممتاز لیاقت
27یحییٰ تنہا علیگ کا 'آبِ حیات' سے سرقہسید حسن مثنیٰ ندوی
28سید معین الرحمن کا نسخۂ مسروقہناصر جمال
29اردو میں مغربی تنقید کی نصابی کتابناصر عباس نیر
30گوپی چند نارنگ کی 'سچائی'عمران شاہد بھنڈر
31ابن صفی کے ناولوں کا سرقہمحمد عارف اقبال
32مرزا حامد بیگ کا مال و متاعتوحید تبسم
33ستیہ پال آنند : استفادے سے سرقے تکحیدر قریشی
34سجاد مرزا : 'دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو'ابو عمران
35مناظر پس مناظررؤف خیر
36'چہ دلاور است دز دے ۔۔۔'اسیم کاویانی
37مدیر 'اثبات' کا سرقہ : 'دست صیاد بھی عاجز ہے'اشعر نجمی
مشتے نمونہ از خروارے
38کچھ جعلی کتابوں کے بارے میںگیان چند جین
39کتابوں کا کاروبار اور جعل سازیاںخلیق انجم
40منٹو سرقہ باز تو نہیں تھا لیکن ۔۔۔سعید ہمایوں
41ٹیگور کی گیتانجلی اور علیؒسعید ہمایوں
42جاسوسی ناول کی جاسوسیسید حسن مثنیٰ ندوی
43احتشام حسین کا ایک مضمونسید حسن مثنیٰ ندوی
44مولانا اسلم جیراج پوری : مصنف یا مترجم؟سید حسن مثنیٰ ندوی
45ایک زخم خوردہ فلسفی کی چیخسید حسن مثنیٰ ندوی
46تحقیق کا ڈولسید ابوالخیر کشفی
47دانتے اور ابن عربیحبیب الحق ندوی
48میر حسن کی مثنوی اور ایک مستشرققاضی عبدالودود
49مہدی الافادی کا ایک پرستارنظیر صدیقی
50تیرہ صفحات کا کوزہسلیم عاصمی
51پادری کی لڑکی یا 'مزدور کی بیٹی'؟زمانہ' ، کانپور
52قرۃ العین حیدر سے منسوب ایک کتابقاضی عابد
53'اداس نسلیں'قرۃ العین حیدر
54اجرت پر مقالہ لکھنے والے کی بددیانتیانور سدید
55حیدر طباطبائی کی 'آئین سخنوری'لطیف اللہ
56مضمون نہ ملا تو اداریہ سہیایڈیٹر ، 'روداد'
57مسجد قرطبہ' کی دو زیارتیںعمیق حنفی
58وزیر آغا کے گھر بھی ڈاکہانور سدید
59فکر غامدی اور علمی سرقہمحمد فہد حارث
60حضرت نیاز اور جادوناتھ سرکارنجیب اشرف ندوی
61'مقالات حالی' : مولوی عبدالحقعاصم جمالی
62وہ دن گئے جب پی ایچ ڈی پیدا ہوتے تھےوسعت اللہ خان
63سرقے کی ڈگریاںرئیس فاطمہ
64اک نیا انداز سرقہرؤف خیر
65واوین کی مدومیت کی علتمعراج رعنا
66سرقہ روکنے میں مدد دینے والا کمپیوٹر پروگرامعزیر اسرائیل

Esbaat's special issue on plagiarism in Urdu literary world.

1 تبصرہ:

  1. شخصیت پرپرس صرف ادب حلقحل میں ہی کیوں مذہبی جماعتوں میم بھی بڑے پیمانے پر پائی جاتی ہے اور ھر جماعت کو دوسری جماعتوں کے لوگوں میں تو یہ عیب نظر آتا ہے اپنا جماعت میں نہیں ھے نا مضحکہ خیز بات
    😊

    جواب دیںحذف کریں