در اصل گزشتہ دنوں ہم نے ہندی معاصر میں خبر پڑھی کہ
"ممبئی سے مراٹھی ٹوپی غائب ہوگئی۔"
اسی ممبئی میں ہم نے اپنی نو عمری میں اپنے بزرگوں کے سر پر ترکی ٹوپی(پُھندنے والی) عام طور پر دیکھی تھی۔ مسلمانوں میں شیروانی اور غیر مسلم لوگوں میں راجستھانی کوٹ ، گجراتیوں(مسلم اور غیر مسلم دونوں) میں بھی ٹوپی کے ساتھ کوٹ کا پہننا عام تھا۔ مسلمان قمیص یاکرتے پاجامے پر اور ہنود قمیص یا کرتے دھوتی پر کوٹ پہنتے تھے۔
اس وقت ٹوپی،کرتے دھوتی اور کوٹ کے ساتھ حافظے نے ہمیں ہمارے رام داس ماموں کو زند ہ کر دِیا۔ قدرت اُن کی آتما کو شانتی دے۔ یہ شریمان رامداس ہمارے ماموں کیسے تھے؟
قصہ یوں ہے کہ رام داس جی ہمارے ماموؤں کے کاروباری ساجھیدار تھے اور اس وقت کی تہذیب یہی تھی کہ بچے اپنے بزرگوں کے دوستوں اور ملنے جلنے والوں کو انکل نہیں بلکہ اپنے بزرگ کے رشتے سے یاد کرتے تھے۔ہمیں یاد ہے کہ کوئی پچاس برس پہلے ہمارے ایک ماموں کی شادی الہ آباد کے قصبے شہزاد پور میں ہوئی تھی تو یہ رام داسؔ ماموں بھی اُن کی بارات میں اسی طرح دُولہے ماموں کا صدقہ اُتار کر پیسے لٹا رہے تھے جس طرح ہمارے دوسرے ماموں کر رہے تھے۔ ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ شہزاد پور میں گجراتی رام داس ماموں کیلئے نہایت صاف ستھری جگہ پر دیگر ہنود مہمانوں کے لئے بھی ایک باورچی خانہ بنایا گیاتھا جس کے باورچی بھی ہنود تھے۔ کیا لوگ تھے کیا زمانہ تھا۔ یہ رام داس ماموں ہر عید بقرعید میں ہمیں عیدی کے ساتھ ایک ریشمی رومال بھی دیتے تھے۔
" آہ ،رام داس ماموں! اب کوئی رومال نہیں دیتا کہ اب رومال کا کردار ہی بدل گیا ہے۔"
پچاس برس میں کایا پلٹ گئی ہے۔ اب ہمارے ہاں اس لفظ یعنی ’ ماموں۔چچا‘ کی جگہ انکل سام کے’ انکل ‘ نے لے لی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ تبدیلی کب اور کیسے ہوئی کسی کو اس کا پتہ ہے اور نہ اس کا احساس۔
کرتا پاجامے کے آگے، ٹوپی کی بات پرانی لگتی ہے۔
ہمارے ہندی معاصر نے ممبئی میں مراٹھی ٹوپی کے غائب ہونے پر اظہارِ تشویش کرکے اپنے احترام ِروایات کا مظاہرہ کیا ہے اور ہم ہیں کہ یہ بھی نہیں جانتے کہ نصف صدی میں بلکہ اِدھر دَس بیس برسوں میں ہمارے معاشرے سے کیا کیا غائب ہوا ہم کو اور ہماری نئی نسل کو تو اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
ہم دفتر آتے ہوئے لوکل ٹرین میں یہ باتیں اپنے ایک دوست سے کر رہے تھے کہ سامنے بیٹھے ہوئے ایک نوجوان نےاپنے لیپ ٹاپ کو بند کرکے ہمیں مخاطب کر تے ہوئے کہا کہ
انکل آپ کہاں رہتے ہیں؟ ہم نے جواب دِیا: ممبرا میں۔۔۔
اس نے نہایت تمسخرانہ لہجے میں کہا کہ میرا مطلب ہے کس یُگ(زمانے) میں۔۔۔؟
ہماری بھی کھوپڑی کھسکی۔۔۔
اب ہمارا جواب تھا۔۔۔۔: آپ جس یُگ میں جی رہ رہے ہیں ہم بھی اسی یگ میں رہتے ہیں۔
" انکل! یہی تو مسئلہ ہے آپ کا۔۔۔۔۔
آپ کہتے تو یہ ہیں کہ اس یُگ میں آپ رہ رہے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ اپنے ورتمان (حال) سے بے نیاز ہو کر آپ اَتیت(ماضی) میں رہ رہے ہیں۔"
انکل! یا تو دُنیا جس طرح اور جس سمت چل رہی ہے اس کے ساتھ چلئے یا پھر دُنیا کو اپنے ساتھ چلانے کے گن (صلاحیت) پیدا کیجئے۔ ورنہ ابھی تو آپ کی ٹوپی وغیرہ گئی ہے آئندہ کیا کیا جائے گا اس کی لمبی لسٹ (فہرست) بن جائے گی اور سچ یہ ہیکہ آپ سمجھ رہے ہیں کہ آپ کے سماج سے ٹوپی چلی گئی ہے ۔ میرا ماننا ہے کہ ٹوپی گئی نہیں ہے بلکہ ٹوپی تو موجود ہے بس آپ کو دکھائی نہیں دے رہی ہے۔۔۔"
ہم نے کہا وہ کیسے۔۔۔۔۔؟
"۔۔۔۔۔ارے انکل ٹوپی اب پہنی نہیں جاتی بلکہ ٹوپی پہنائی جاتی ہے۔ آپ بھی ٹوپی پہنانا سیکھ لیجئے زمانے سے، ورنہ کنارے ہوجائیے کہ اسی میں آپ کی خیر ہے۔۔۔"
اتنے میں دادر اسٹیشن آگیا اور وہ یہ کہتے ہوئے جلدی سے اُ ٹھاکہ ۔۔۔
"انکل میں آپ کی ٹوپی کے چکر میں دادر اسٹیشن کو بھول گیا یہی ہوتا ہے کہ لوگ اتیت( ماضی) کے چکر میں ورتمان (حال) کا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔"
یہ کہتے ہوئے وہ آنکھوں سے اوجھل ہوگیا ۔
ابھی تو ہم ٹوپی کارونا رو رہے تھے اب اس کا احساس بھی ہے کہ ہم کو ٹوپی پہنانا نہیں آتا۔ کیا آپ کو آتا ہے؟
(وضاحت: ممبئی میں عام بول چال میں " ٹوپی پہنانا" ایک منفی محاورہ ہے یعنی دھوکہ دھڑی کرنا۔)
***
Nadeem Siddiqui
ای-میل : nadeemd57[@]gmail.com
Nadeem Siddiqui
ای-میل : nadeemd57[@]gmail.com
ندیم صدیقی |
The tradition of wearing caps. Article: Nadeem Siddiqui
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں