تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-11 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-06-09

تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-11


یہ کتاب برصغیر ہند و پاک کے ایک معروف صاحبِ طرز ادیب ، انشا پرداز ، عالم ، فلسفی ، صحافی اور نقاد مولانا عبدالماجد دریاآبادی کی تحریر کردہ ہے جن کا جنوری 1977ء میں انتقال ہو چکا ہے۔
اس مختصر روئیداد میں "حیدرآباد مرحوم و مغفور" (سابق مملکت اسلامیہ آصفیہ دکن) کی تہذیب و ثقافت کی نظر افروز جھلکیاں ہیں ، قائد ملت بہادر یار جنگ کے علاوہ دکن کے بعض مرحوم مشاہیر اور زندہ علمی و ادبی شخصیتوں کی دلکش تصویریں ہیں اور حیدرآباد کے دینی ، اسلامی ، علمی و ادبی اداروں کا دلچسپ تذکرہ ہے!

قدرتاً سابقہ سب سے زیادہ یونیورسٹی والوں سے رہا۔ یونیورسٹی کو اس زمانہ میں دیکھا تھا ، جب وہ شہرمیں تھی، اور صرف چند بڑے کمروں اور برآمدوں اور چھوٹے چھوٹے صحنوں کا مجموعہ تھی ۔ اب اس کے شباب کو اس کے بچپن سے کیا نسبت! شہر سے باہر اور مرکزی آبادی سے میلوں دور خود ایک چھوٹا سا شہر ہے، میلوں کے رقبہ میں آباد ، یہ شعبہ قانون ہے وہ آرٹس کالج، ادھر سائنس کی عمارتیں ہیں، ادھر لائبریری کی، ایک سے بڑھ کر ایک شاندار لق و دق مرعوب کن (1) ، وقت گھنٹوں کا نکال کر سیر کی جائے، تھک جائیے گا ، اور سیر تمام نہ ہوسکے گی۔ صدق نوازوں میں ایک استاد شعبہ نباتیات میں کپتان فتح یاب خان ہیں۔ خوب ملے اور خوب کھلایا پلایا۔ شعبہ مذہب و ثقافت کے استاد ڈاکٹر یوسف الدین پرانے ملنے والے نکلے۔ کئی کئی کتابوں کے مصنف ومرتب ہیں ۔ ایک بڑے علمی خاندان کے ڈاکٹر حمید اللہ کے عزیز ہیں۔ خود بھی سرتاپا علم ہیں۔ بلکہ علم دان بھی ۔ نئی نئی کتابوں کے عنقریب طبع و اشاعت کی خوشخبریاں انہیں سے سننے میں آئیں، خصوصاً فن حدیث میں مصنف عبدالرزاق کی۔ گھنٹوں ان سے صحبت رہی اور ہر بار یہ گمان گزرتا تھا کہ کسی اچھے کتبھ خانے میں بیٹھے ہوئے مصروف مطالعہ ہیں یا پھر الملل والنحل( شہرستانی) کے قسم کی کتاب کے ورق سامنے کھلے ہوئے ہیں۔ اللہ ان کے کام میں برکت دے ۔ ان سے بڑی بڑی توقعات ہیں ۔ ڈاکٹر غلام دستگیر رشید صوفی منش شخصیت رکھنے والے شعبہ فارسی کے صدر ہیں۔ صدق کے قدردان اس زمانے سے جب وہ سچ کے نام سے نکلتا تھا ، اور یہ خود کالج کے ابتدائی درجوں کے طالب علم تھے۔ فاضل گیلانیؒ کے چہیتے اور رشید شاگردوں میں تھے ۔ ان سے مل کر شخصی، علمی، دینی ہر حیثیت سے کتنی ہی خوشگوار یادیں تازہ ہوگئیں۔ اور یہ معلوم ہونے لگا کہ جیسے کچھ دیر کے لئے کسی بوڑھے کی جوانی پلٹ آئی ہو!
شعبۂ تاریخ اسلام کے استاد ڈاکٹر ابو نصر خالدی اپنے رنگ میں سب سے منفرد ہیں۔ بڑے مخلص گہرے مذہبی۔ اپنا دل کھول کر رکھ دینے والے ساتھ ہی بڑے پڑھے لکھے کہاں کہاں کی کتابیں دیکھ ڈالنے والے۔ قرآنیات کے سلسلہ میں دو ایک کتابیں ایسی ہدیۃً پیش کردیں۔جو اس کے قبل کہیں نظر سے نہیں گزری تھیں۔ جزاہ اللہ۔ دعوت تو ایسی کہ دوسروں کے لئے نظیر اور قابل تقلید، یعنی کھانا نہایت لذیذ، لیکن بس دو ہی ایک چیزیں۔ یہ نہیں کہ عام رواج کے مطابق دس چیزیں لاکر سامنے رکھ دیں۔ معدہ اس تعدد و تنوع سے الگ خراب ہو ۔ اور نیت پھر بھی نہ بھرے کہ اپنے پسند کی کوئی ایک چیز بھی سیر ہوکر نہ کھائی جاسکی ۔ بس اسراف ہی اسراف ہاتھ آیا ۔ اور میاں مظہر احسن گیلانی سلمہ( استاد معاشیات) کی تو کچھ پوچھئے ہی نہیں وہ کیا ہے ۔ گویا مدت کا ایک بچھڑا ہوا عزیز مل گیا ۔ میرے ایک عزیز ترین دوست و بزرگ مولانا مناظر احسن گیانی کے آخر چھوٹے بھائی ہیں۔ صورت و سیرت دونوں میں انہیں کے مثیل و نظیر! نماز مغرب عمداً انہیں سے پڑھوائی ۔ آواز میں کچھ ویسا ہی درد ۔ ویسا ہی رس جیسا کہ فاضل گیلانی کی آواز میں تھا ۔ وہ مسجد دکھائی ، جہاں مولانا اور مولانا عبدالبادی سلمہ اللہ نماز پڑھتے تھے ۔ وہ مقامات دکھائے جہاں یہ دونوں لکھتے پڑھتے ، اٹھتے بیٹھتے تھے۔ یونیورسٹی کے دواور استادوں کی بھی اسلامیت کی تعریف کئی زبانوں سے سننے میں آئی۔ ایک ڈاکٹر وحید الدین( فلسفہ) دوسرے پروفیسر صلاح الدین کی، افسوس ہے کہ دونوں سے ملاقات کی کوئی صورت نہ نکل سکی۔
ڈاکٹر میر ولی الدین اب یونیورسٹی میں ضابطہ سے ہوں یا نہ ہوں، بہر حال ان کا تصور یونیورسٹی سے الگ کیونکر کیاجاسکتا ہے ۔ جتنی بار ملئے طبیعت سیری حاصل نہ کرے، ملاقات کی خواہش کچھ اور بڑھتی ہی جائے ، اور کچھ بیجا نہ ہوگا اگر انہیں سے ملنے اور ان سے استفادہ کے لئے خود ایک سفر حیدرآباد کا کیا جائے ۔ فلسفہ، تصوف ، اسلامیت کے جامع، ایک خاص تجربہ یہ ہوا کہ جہاں وہ دماغ کے لحاظ سے فلسفی ہیں، اور قلب کے اعتبار سے صوفی ہیں ، ان کے دستر خوان پر جب بیٹھئے تو نہ یہ معلوم ہوکہ یہ نان جویں پر بسر کرنے والے کوئی صوفی مرتاض ہیں اور نہ تکلفات کے تقاضوں سے بے زار ، کوئی خشک مزاج فلسفی، بلکہ ایوان نعمت ہیں۔ کیا بہ لحاظ رنگا رنگی اور اور کیا بہ لحاظ مقدار رئیسوں ، جاگیر داروں کو بھی سبق پڑھا سکتے ہیں۔

حوالہ:
(1) یہ ساری عمارتیں دورِ عثمانی میں ، سقوط حیدرآباد سے پہلے تعمیر ہو چکی تھیں۔
(مرتب)


Book: Taassurraat-e-Deccan. By: Maulana Abdul Majid Dariyabadi. Ep.:11

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں