تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-10 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-06-02

تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-10


یہ کتاب برصغیر ہند و پاک کے ایک معروف صاحبِ طرز ادیب ، انشا پرداز ، عالم ، فلسفی ، صحافی اور نقاد مولانا عبدالماجد دریاآبادی کی تحریر کردہ ہے جن کا جنوری 1977ء میں انتقال ہو چکا ہے۔
اس مختصر روئیداد میں "حیدرآباد مرحوم و مغفور" (سابق مملکت اسلامیہ آصفیہ دکن) کی تہذیب و ثقافت کی نظر افروز جھلکیاں ہیں ، قائد ملت بہادر یار جنگ کے علاوہ دکن کے بعض مرحوم مشاہیر اور زندہ علمی و ادبی شخصیتوں کی دلکش تصویریں ہیں اور حیدرآباد کے دینی ، اسلامی ، علمی و ادبی اداروں کا دلچسپ تذکرہ ہے!

قیام ابھی حیدرآباد ہی میں تھا کہ اتفاق سے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر بدر الدین طیب جی صاحب ادھر آنکلے اور میرے میزبان اور علیگڑھ کے مشہور فدائی ناظر یار جنگ بہادر نے انہیں اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کی طرف سے عصرانہ دے دیا ۔ ان’’بوڑھے لڑکوں‘‘ کے کرتا دھرتا ، یہاں جوان ہمت پروفیسر حبیب الرحمن ہیں(انجمن ترقی ارد ووالے) ان کا حسن انتظام کوئی کور کسر کیسے رہنے دیتا۔ اس تقریب میں بہت سے علی گڑھیوں سے ملاقات ہوگئی ۔ ان میں سے اکثر کا شمار یہاں خے عمائد میں ہے ۔ نیاز خود طیب جی صاحب سے حاصل ہوا ۔ اور انگریزی تقریر اور گفتگو سننے کا اتفاق ہوا ۔ آدمی وجیہہ، شریف اور بڑے صاحب عمل و کردار نظر آئے ۔ علیگڑھ کی کشتی کو اس نازک وقت میں کھینا کوئی آسان چیز نہیں ، ایسے میں ان کا دم غنیمت ہے۔ جب کہ کردار و ایمان کی کمزوری کی کئی کئی بڑی ہی افسوسناک مثالیں مسلمانوں کے اونچے اور صاحب اثر طبقہ میں موجود ہیں۔ اللہ فتنہ و شر کے ماحول میں انہیں ہر طرح محفوظ رکھے۔

ڈھائی ہفتہ کے قیام میں آنا جانا، بہت جگہ رہا۔ افراد کے یاں بھی اور اداروں میں بھی لیکن سہوونسیان تو انسان کے دم کے ساتھ لگا ہوا ہے ۔ ایک جگہ جانے کی لازمی تھی اور اس وقت اس کا خیال نہ آیا ۔ اس بے خیالی پر تو اب بھی پچھتاوا ہے حیدرآباد کا اتنا لمبا سفر روز، روز کیونکہ ممکن ہے اور عمر کی اس منزل پر پہنچ کر اب دوبارہ سفر کا تو کوئی قرینہ ہی نہیں نظر آتا ہے ، اسی لئے قدرتاً قلق بھی زیادہ ہے۔ ان قابل زیارت جگہوں میں نمبر اول پر نام فخر دکن بلکہ فخر ہند ڈاکٹر حمید اللہ فرانسوی (1) کے مکان کا آتا ہے ۔ سچے مجاہد اور سچے مہاجر کی مثال انہیں کی ذات میں ملتی ہے ۔ علم و دین دونوں کے لئے بیک وقت وقف کئے ہوئے۔ اس وقت ایک انہیں کی شخصیت ہے جو محض اپنے عقیدہ کی خاطر عمر بھر کے لئے جلا وطنی اختیار کی۔ لازم تھا کہ ان کے مکان پر حاضری دیتا۔ ان کے رہنے سہنے اور سب سے بڑھ کر ان کے لکھنے پڑھنے کی جگہ کی دست ِ عقیدت سے جاروب کشی کرتا ۔ موقع ہاتھ آکر محض سہو و غفلت کی نذر ہوگیا۔ اب یہ چند سطریں بطور سجدۂ سہو کے ہیں۔ دو ایک جگہ کی اور ضروری حاضری بھی اس طرح رہ گئی، گو یہاں ضروری اس درجہ میں نہ تھی۔

آغا سفر سے پہلے ہی بڑا دھڑکایہ لگا ہوا تھا کہ کہیں خلقت کا ہجوم نہ ہوجائے، اسٹیشن پر پیشوائی کرنے والوں کا یا گھر پر ملنے والوں کا۔ صدق بلکہ اس کے پیش رو سچ کو اللہ نے جو مقبولیت حیدرآباد میں دے رکھی تھی ۔ اس کے لحاظ سے یہ اندیشہ خواہ مخواہ نہ تھا۔ اور حیدرآباد کا مقبول و معروف روزنامہ رہنمائے دکن حلقہ صدق کو برابر وسیع سے وسیع تر کرتا رہا ہے ، اس لئے ہجوم خلق سے بچنے کے لئے پیش بندی یہ کی کہ اپنے خصوصی مخلصوں کو پہلے ہی سے لکھ بھیجا۔ کہ آمدکی خبر ہر گز وہاں کے اخباروں میں نہ چھپنے پائے ۔ ورنہ اپنی جان غضب میں ہوجائے گی اور ممکن ہے کہ طبیعت پر گرانی اس درجہ بڑھ جائے کہ مدت قیام نا تمام چھوڑ کر اور بغیر خاص لوگوں سے ملے ہوئے ہی واپس چلاآنا پڑے ۔ الحمد للہ کہ استدعا قبول ہوگئی ، کسی اخبار نے اشارہ تک آمد کا نہ کیا۔ اور بجز ایک خصوصی مخلص کے جو شب میں قاضی پیٹ جنکشن تک پ ہنچ گئے تھے اور کوئی باخبر بھی نہ ہوا ، اور یہ صاحب بھی اس درجہ لحاظ رکھنے والے تھے کہ رات کو انہوں نے جگانا یا سکون میں خلل ڈالنا کسی طرح مناسب نہ سمجھا۔ بلکہ اسی ٹرین میں بیٹھ کر صبح تڑکے سکندرآباد جنکشن پر آکر ملے ۔ اور دن نکلنے کے بعد جب حیدرآباد خاص پر اترا ہوں ، بجز گنتی کے دو چار مخصوص عزیزوں و مخلصوں کے اور کوئی نہ تھا ۔ مقبولیت و مرجعیت خلق تو اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے ۔ لوگ اس کی تمنا میں رہتے ہیں، اس کی تدبیریں کرتے رہتے ہیں، لیکن اپنا اپنا ظرف ہے ، بعض سے اس نعمت کا تحمل ہی نہیں ہوتا ۔ اور اپنا شمار بھی اسی طبقہ میں ہے اور جس نعمت کا تحمل اپنے ظرف کو نہ ہوسکے ، تمنا اس کے حصوں کی نہیں، اس سے محرومی ہی کی کرتے رہنا چاہئے ۔ جب زبان پر قابو نہ ہو اور قلب بھی مجمع کے سامنے بجائے انشراح کے انقباض ہی محسوس کرے ۔ تو ایسے حال میں عقل و دل دونوں کا مشورہ گوشہ گیری یا مردم بیزاری ہی کا ہے ۔ اور اس مشورہ پر عمل بھی اب ۲۵۔۳۰سال سے ہے، مجمع میں گھس کر فریضۂ تبلیغ ادا کرتے رہنا، سلسلہ دعوت کو عام رکھنا، کام عالی ہمتوں ،جوان مردوں کا ہے ۔ بدہمتوں کی راہ اس سے بالکل مختلف دوسری ہے ۔
زاہد نہ داشت تاب جمال پری رخاں
کنجے گرت و ترس خدارابہانہ ساخت
بہر حال یہ بہانہ سازی بڑے موقع پر کام آجاتی ہے، اور ترسِ خدا کا لقاب اختیار کرلیتی ہے ۔

لیکن بات چھپی کب تک رہتی۔ ایک نے دوسرے سے کہا، دو نے دس سے، اور دس نے بیس سے اور خلقت کا تانتا لگنا شروع ہوگیا ۔ یہ آرہے ہیں، اور وہ فلاں آرہے ہیں اور فلاں تنہا بھی اور لڑلیاں بناکر بھی ۔ موٹر نشین بھی اور پاپیادہ بھی، کیا صبح اور کیا دوپہر اور کیا شام۔ وقت نا وقت کی کوئی قید نہیں گویا زو(چڑیا گھر) میں کوئی عجیب الخلقت جانور آگیا ہ ۔ اور تماشائیوں کے ٹھٹ اس کے دیکھنے کو لگ رہے ہیں ۔ اور پھر کن کن توقعات اور کیسی کیسی خوش اعتقادیوں کے ساتھ! خلق کو فریب دے دینا کس درجہ آسان ہے ۔ اور پھر حیدرآباد کی مخلوق تو شاید کچھ اور زیادہ ہی بھولی اور سریع الاعتقاد ہے۔ اف رے مالک و مولا کی شان ستاری! کیسے کیسے ذروں کو آفتاب بناکر دکھادیاجاتا ہے! کتنے سفلیوں کو روپ علویوں کا دے دیاجاتا ہے ، کتنے سنگ ریزوں میں تابش لعل و جواہر کی پیدا کردی جاتی ہے ۔ حیدرآبادیوں کے انس و محبت کا ان کی مسافر نوازیوں کا قائل تو شروع سے تھا، لیکن دعوتی تکلفات کا جو درجہ مشاہدہ میں آیا، اس حد تک اندازہ نہ تھا، آج یہاں عصرانہ ہے تو کل وہاں ظہرانہ اور پرسوں وہاں عشائیہ دعوت ایٹ ہوم کا ایک مسلسل چکر ، اور بندھے ہوئے وقتوں کے علاوہ بے وقت بھی ، چائے پیسٹری اور پھل پھلاری پر اصرار ۔ سارے کرم فرماؤں کے نام تو اب بھلا کہاں یاد رہ سکتے ہیں اور یاد ہوئے بھی تو اتنی لمبی چوڑی فہرست درج کرکے داستانِ سفر کہاں تک پھیلاتے چلے جائیے۔ پھر میں کچھ نام لانے اور تذکرے کرنے بہر حال ناگزیر ہیں، کہ ان سے خود اپنے دل کو مسرت حاصل ہوگی۔ جیسا کہ قبل کے نمبروں میں مختلف اداروں کے ذیل میں مختلف شخصیتوں کے تذکرے میں حاصل ہوچکی ہے ۔

Book: Taassurraat-e-Deccan. By: Maulana Abdul Majid Dariyabadi. Ep.:10

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں