ناول خوفناک جزیرہ - سراج انور - قسط - 09 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-06-03

ناول خوفناک جزیرہ - سراج انور - قسط - 09


پچھلی قسط کا خلاصہ :
اچانک جان نے منظر پر نمودار ہو کر پستول کے ذریعے عبدل اور کبڑے کو قابو میں کر لیا۔ لیکن عبدل نے چالاکی سے فیروز کو ڈھال بنا لیا اور کبڑے کے ذریعے جان کو ایک درخت سے باندھ دیا۔
اور جب وہ دونوں فیروز کی کمر سے نقشہ کو نقل کر رہے تھے تبھی فیروز نے موقع پا کر انہیں لات رسید کی جس پر بپھر پر عبدل نے فیروز پر گولی چلا دی مگر گولی فیروز کو لگنے کے بجائے عبدل کا ہاتھ زخمی ہو گیا۔ اور اسی وقت جیک ، فیروز اور جان کا مسیحا بن کر ہاتھ میں پستول لیے سامنے آیا اور اس نے دونوں کو عبدل اور کبڑے کے کرتوتوں کی کہانی سنائی۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔
"آپ بالکل سچ کہہ رہے ہیں، مسٹر جیک" میں نے خوش ہو کر کہا۔
"زلزلہ کے وقت مجھے خود یہی محسوس ہوا تھا کہ زلزلہ صرف ایک خاص حصے میں آیا تھا حالانکہ اسے پورے جنگل میں آنا چاہئے تھا ۔ لیکن مسٹر جیک میں ایک بات آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں۔ "
"پوچھو" جیک نے کبڑے کو دیکھتے ہوئے کہا جو پھر ہلنے کی کوشش کررہا تھا۔
"کبڑے کے وہ ساتھی جن کے بارے میں آپ نے کہا ہے کہ وحشی ہیں اب کہاں ہیں؟ ایسا تو نہیں کہ وہ اس نیولے کی مدد کرنے یہاں آ پہنچیں، تب تو ہم مصیبت میں پھنس جائیں گے۔ "
"نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، وہ لوگ اب ادھر نہیں آ سکتے، ایک تو وہ ان سب کھنڈرات کو بہت مقدس خیال کرتے ہیں اس لئے ادھر کا رخ نہیں کر سکتے، دوسرے میں جو اتنے عرصے غائب رہا تو خالی ہاتھ نہیں بیٹھا رہا، کچھ نہ کچھ کر کے ہی آیا ہوں۔ " جیک نے آہستہ سے جواب دیا۔
"جیک مجھے تم پر فخر ہے ۔" جان نے خوش ہو کر کہا:
"تمہارے بارے میں ہم نے غلط رائے قائم کرلی تھی، معاف کرنا۔ "
جیک نے جواب تو کچھ نہیں دیا بلکہ مسکرانے لگا ، اس کے بعد وہ کبڑے کی طرف مڑا اور خوف ناک آواز میں کہنے لگا:
"چیتن، تم خود ہی بتاؤ کہ تم کون سی موت مرنا پسند کرو گے ۔ اس کا فیصلہ میں تم پر ہی چھوڑتا ہوں۔ "
"مجھے معاف کردو ، میں بالکل بے قصور ہوں، مسٹر جان! مجھے معاف کر دیجئے" کبڑے نے یکایک کہنا شروع کر دیا اور اس کی یہ حات دیکھ کر عبدل نے غصے میں آکر زور سے زمین پر تھوک دیا ۔ گویا ا س نے حقارت ظاہر کی تھی ، کبڑے کی یہ بزدلی اسے پسند نہیں آئی تھی، جیک یہ دیکھ کر زور سے ہنسا اور پھر بولا:
"تمہاری حالت اس وقت عجیب ہے ، ابھی کچھ دیر پہلے تم ایک مظلوم لڑکے کو قتل کرنے والے تھے، اور اب معافی مانگ رہے ہو۔ دنیا کے ظالم لوگ ظلم کرتے وقت یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایک دن کہیں انہیں بھی معافی مانگنی نہ پڑ جائے ۔ بہر حال تمہیں معاف نہیں کیا جائے گا، میں نے تمہارے بارے میں یہ سوچا ہے کہ جس گڑھے میں تم نے فیروز کو گرایا تھا، اسی جیسے ایک گڑھے میں تمہیں گرا کر اسے اوپر سے مٹی سے ڈھک دیا جائے ۔ "
"نہیں۔۔۔۔" کبڑا خوف کے مارے بری طرح چلایا:
"ایسا غضب مت کرو، مجھے معاف کردو، میں ظالم نہیں ہوں، مجھے ظلم کرنے پر عبدل نے مجبور کیا تھا ، جو سزا دینی ہے اسے دو، میں بالکل بے قصور ہوں ۔ مجھے لالچ نے اندھا کر دیا تھا ، مگر یہ سب کچھ اس بدمعاش عبدل کا کیا دھرا ہے، اسے سزا دو اور مجھے چھوڑ دو۔ "
"او احمق کبڑے چپ رہ" عبدل کافی دیر کی خاموشی کے بعد آخر کار ایک خوف ناک آواز میں بولا:
"موقع ملتے ہی میں تجھے تیری غداری کا ایسا سبق دوں گا کہ تو ہمیشہ یاد رکھے گا۔ "
"اگر تم زندہ رہے ، کیوں کہ میرا ارادہ ہے کہ چیتن کے ساتھ تمہیں بھی زمین میں زندہ دفن کر کے تمہاری قبر پر ایک اہرام بنوا دوں ۔ تم مصری ہو نا ، اس لئے بولو کیا خیال ہے؟ " جیک نے مسکرا کر کہا۔
"اہرام تیری قبر پر بنے گا حبشی کی اولاد" عبدل نے چیخ کر کہا:
"اس دنیا میں ایسا کوئی جی دار نیہں جو عبدل کو مار سکے ، کیونکہ عبدل اس ہتھیار سے خود کو بچانا جانتا ہے۔ "
اتنا کہتے ہی عبدل نے اپنا وہی چاند نما خنجر لہرا کر جیک کی طرف پھینکا اور پھر جو بھی ہونا تھا وہ ایک سیکنڈ میں ہو گیا ، جیک کے بجائے عبدل زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا اور وہ عجیب سا مڑا ہوا خنجر جیک کے ہاتھ میں تھا ۔ عبدل بری طرح چیخ رہا تھا چاند کی اس ہلکی روشنی میں دیکھنے کی اب مجھے کافی عادت ہو گئی تھی، آنکھیں پھاڑ کر جب میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ عبدل کی ران سے خون بہہ رہا ہے ۔
"کیوں اب کیوں پڑے سسک رہے ہو؟" جیک نے بے دردی سے کہا:
"بے وقوف آدمی، تم اتنا نہیں جانتے کہ یہ ہتھیار اصل میں ہم افریقی لوگوں کی ایجاد ہے ۔ جب ہم اسے استعمال کرنا جانتے ہیں تو اس سے بچنے کا گُر بھی جانتے ہیں، تم سمجھتے تھے کہ تمہارا یہ ہتھیار مجھے زخمی کرکے تمہارے پاس واپس چلا جائے گا، مگر احمق انسان دیکھ لے کہ اب کیا ہوا؟ تو خود ہی زخمی ہوگیا ہے اور تیرا یہ چاقو تجھے زخمی کر کے اب میرے پاس واپس آ گیا ہے ۔ "
"مجھے معاف کردو جیک۔ " عبدل نے کراہتے ہوئے کہا: "میں تمہاری چالاکی سے واقف نہ تھا، اب ہم دونوں تم سے اور جان سے معافی مانگتے ہیں، یقین کرو ، اب ہم کبھی غداری نہیں کریں گے ۔ "
"نہیں، تم دونوں کو اب ہمارا ساتھ چھوڑ دینا ہوگا۔ "جان نے بڑی دیر بعد اس گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے سخت لہجے میں کہا۔
"ایسا ظلم مت کیجیے" کبڑے نے عاجزی سے کہا:
"اس طرح تو ہم مرجائیں گے، ہمارے پاس اب کوئی ہتھیار نہیں ہے، ہتھیار کے بغیر ہم کس طرح اس بھیانک جنگل میں واپس جا سکتے ہیں؟ "
میں نے یہ سن کر مسکرا کرکہا "تمہارا جادو پھر کس دن کام آئے گا۔ اپنے جادو کے زور سے ایک بندوق بنالو۔ "
"ٹھیک ہے فیروز، بیٹا اب تم کو میرا مذاق اڑانے کا پورا حق پہنچتا ہے ۔" کبڑے نے سر جھکا کر جواب دیا، وہ واقعی شرمندہ تھا۔
"اچھا ، میں تمہاری یہ درخواست مان لیتا ہوں ، مجھے تم پر رحم آتا ہے، تم اب ہمارے ساتھ ہی رہو گے ، مگر یاد رکھنا اگر آئندہ تم نے ہم سے غداری کی تو انجام اچھا نہ ہوگا۔ "جان نے بندوق اپنے کندھے پر لٹکاتے ہوئے کہا۔

جیک نے اس بات پر بہت زور دیا کہ ان دونوں کو فوراً ختم کر دیا جائے۔ اس کا خیال تھا کہ بچھو ڈنک ضرور مارتا ہے، مگر جان نے اس خیال سے اتفاق نہیں کیا ۔ اور مجبوراً جیک کو جان کی بات ماننی ہی پڑی ۔ اس کے بعد ہم نے عبدل کی مرہم پٹی کی، عبدل واقعی اب شرمندہ تھا اور کبڑے کی بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی۔ اس کی نگاہیں نیچی تھیں اور اب وہ مجھ سے نظر ملا کر بات بھی نہ کرتا تھا ۔ اگر سچ پوچھئے تو میں بھی ان دونوں سے خوف زدہ تھا ۔ میں نے دل میں سوچ لیا تھا کہ چاہئے سورج مشرق کے بجائے مغرب سے نکلنے لگے مگر میں ان دونوں بدمعاشوں کا کبھی اعتبار نہ کروں گا۔
رات بغیر کسی خاص واقعے کے آرام سے گزر گئی ۔ وہیں بارہ دری کے قریب ہم نے زمین صاف کر کے دوبارہ بستر بچھا دئیے اور پہلے کی طرح باری باری پہرہ دے کر آرام سے سوتے رہے ۔ صبح ہوئی تو بندروں کے ایک غول نے ہمیں خوں خوں کر کے جگایا۔ بار بار وہ ہمارے قریب آتے اور بھبکی دیتے۔ عجیب عجیب حرکتیں کرتے ، ان کی ان حرکتوں سے میں بہت خوش ہوا ۔ دن بھی خدا نے کیا چیز بنائی ہے۔ ہر قسم کا ڈر اور خوف اس کی روشنی میں ختم ہو جاتا ہے۔ صبح ہوتے ہی ہماری تھکن دور ہو گئی اور ہم نے پھر سے تازگی محسوس کی۔ اب چونکہ عبدل اور کبڑے سے نقشہ کا راز چھپانا ضروری نہ تھا ۔ اس لئے جان اور جیک نے ان دونوں کے سامنے ہی میرا کمبل ہٹا کر خزانہ کا نقشہ دیکھا، نقشے میں دکھائے گئے راستے سے ظاہر ہوتا تھا کہ جس جگہ ہم کھڑے ہیں اس کے شمال مغرب میں پچیس گز کے فاصلے پر ایک زینہ ہے اور یہی زینہ اس مقام پر جاتا ہے جہاں خزانہ موجود ہے ۔ خزانے سے خود کو اس قدر قریب محسوس کر کے ہر ایک کے چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ گئی، یکایک سب میں کام کرنے کا جوش پیدا ہو گیا۔ خچروں پر سے ضروری سامان اتارا گیا ۔ عبدل کے ذمے یہ کام لگایا گیا کہ جب جان فاصلہ ناپ کر اسے جگہ بتائے تو وہ فوراً کھدائی شروع کر دے۔ عبدل اب ہمارا ہر حکم ماننے پر مجبور تھا ، اس لئے جان نے جب اسے وہ جگہ بتائی جہاں کھدائی کرنی تھی تو اس نے کدال اور پھاؤڑا لے کر اپنا کام شروع کر دیا۔ کبڑا مٹی ہٹاتا جاتا اور عبدل لگاتار کدال زمین پر چلاتا جاتا ۔ ہم حیرت ، اشتیاق اور تعجب سے اس جگہ کو اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے ابھی کوئی عجوبہ دیکھیں گے ۔

اور سچ بات تو یہ ہے کہ وہ عجوبہ جلد ہی ہمارے دیکھنے میں آ گیا۔ ایک بار عبدل نے جب پوری طاقت سے کدال زمین میں ماری تو وہ ایک خطرناک چیخ مارتے ہوئے زمین میں دھنستا چلا گیا۔ زمین اندر سے کھوکھلی نکلی۔ یہ بات جان کی مرضی کے مطابق تھی اور اس کی یہی خواہش تھی کہ کہیں سے کسی کھوکھلی زمین کا پتہ چلے ، وہ کھوکھلی جگہ اب مل گئی تھی ۔ دراصل یہ زینہ تھا جو اوپر سے بند کر دیا گیا تھا ۔ عبدل نے جب مٹی ہٹائی تو وہ اس زینے کے اندر جا گرا تھا۔ پھر فوراً ہی اس کی آواز آئی کہ اس کے قدموں کے نیچے کچھ سیڑھیاں محسوس ہوتی ہیں ، جلدی جلدی باقی سب مٹی بھی ہٹائی گئی اور اب جو ہم نے غور سے دیکھا تو عبدل ایک زینے کی سیڑھیوں پر کھڑا تھا۔ آگے جاکر یہ سیڑھیاں ختم ہو جاتی تھیں اور وہاں سے ایک زمین دوز راستہ شروع ہو جاتا تھا۔ جان نے یہ دیکھ کر جلدی سے ٹارچ اٹھائی اور ہمیں پیچھے آنے کا اشارہ کر کے خود بھی اس زینے میں اتر گیا، اب ہم خزانے تک پہنچنے والی زمین دوز سرنگ میں داخل ہو رہے تھے۔

سرنگ میں داخل ہوتے ہی ہمیں ایسی بدبو محسوس ہوئی جو کسی جگہ کے ہزاروں سال تک بند رہنے کے باعث پیدا ہو جاتی ہے۔ ہمیں ایسا لگا جیسے کوئی ان دیکھا ہاتھ ہمارا گلا گھونٹ رہا ہے ۔ وہم کے ہم قائل نہیں تھے، جان خود بھی ایک بہت اچھا سائنس داں تھا، اس لئے اس نے بتایا کہ آکسیجن کی کمی کے باعث اس سرنگ میں دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور کوئی خاص بات نہیں ہے۔ ہمیں چاہئے کہ جلدی جلدی مگر لمبے سانس لیں، صدیوں کے بعد یہ دروازہ آج کھلا ہے ، اس لئے ہوا بھی اس میں دیر سے داخل ہوگی۔ ہم نے اس کی ہدایت پر فوراً عمل شروع کر دیا ، جوں جوں ہم سرنگ میں اندر بڑھتے جا رہے تھے اندھیرا اتنا ہی بڑھنے لگا تھا ۔ ٹارچ کی روشنی ناکافی محسوس ہرنے لگی تھی۔ ہمارا قاعدہ تھا کہ ٹارچوں کو زیادہ استعمال نہیں کرتے تھے ۔ ضرورت کے وقت صرف ایک ٹارچ جلاتے اور باقی بند رہنے دیتے، مگر اس جگہ ہم نے مشعلیں جلا لی تھیں۔
ہلکے ہلکے قدم بڑھاتے ہوئے آہستہ آہستہ ہم آگے بڑھتے گئے ۔ سرنگ تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ گھپ اندھیرا ، عجیب قسم کی پراسرار خاموشی ۔ ختم نہ ہونے والی لمبی سرنگ، ہلکی سی سرسراہٹ جو نہ جانے سانپوں کی تھی یا شاید زہریلے جانوروں کی۔ ایک انجان سا خوف دلوں پر طاری تھا۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کریں؟ مجھے اس ماحول اور ایسی خطرناک جگہوں پر چلنے پھرنے کی اب عادت سی ہو گئی تھی ، جیسا کہ آپ کو معلوم ہے میں ایسے بہت سے حادثوں سے دوچار ہو چکا تھا ، اس لئے اب زیادہ ڈر نہیں لگتا تھا۔ دیکھا جائے تو ان حادثوں کی چکی میں پس کر اب میں بے حد نڈر بن چکا تھا۔
آخر کار ایک وقت ایسا آیا جب کہ یہ سرنگ آگے جا کے ہمیں بائیں طر ف مڑتی ہوئی دکھائی دی ، ادھر مڑنے کے بعد ہم اندازاً پندرہ منٹ تک لگاتار چلتے رہے ۔ مگر سرنگ ختم نہ ہوئی۔ عجیب جگہ تھی ہم اس تنگ سرنگ میں چلتے چلتے گھبرا گئے تھے۔ مگر خزانے کی خواہش اتنی تیز تھی کہ واپس لوٹا بھی نہیں جا سکتا تھا ۔ مجبوراً خدا پر بھروسہ کر کے ہم آگے ہی آگے چلتے گئے ۔ میں آپ سے جھوٹ بولنا نہیں چاہتا، یقین مانئے کہ پورے تین گھنٹے تک ہم سرنگ میں اِدھر ادھر بھٹکتے رہے ، کبھی یہ سرنگ دائیں طرف مڑ جاتی اور کبھی بائیں طرف۔ ناامید ہوکر ہم لوگ واپس لوٹنے ہی والے تھے کہ یکایک سرنگ میں ہمیں ایک دروازہ نظر آیا۔ دروازے کے کواڑ شیشم کی لکڑی کے تھے، مگر اتنے مضبوط ہونے کے باوجود بھی جگہ جگہ سے کھوکھلے ہوگئے تھے ۔ ایک موٹی رسی سے دروازے میں مہر لگی ہوئی تھی ، خدا جانے وہ کون سے ہاتھ تھے جنہوں نے اس دروازے پر یہ مہر لگائی ہوگی؟ ہم پانچوں سانس روکے ہوئے حیرت سے اس دروازے کو دیکھ رہے تھے ۔۔ یہ وہ دروازہ تھا جس کے کھلتے ہی ہماری تقدیر بھی کھل جانے والی تھی۔

کچھ اشتیاق اور کچھ خوف کے ملے جلے انداز میں جان نے اس رسی کو ہاتھ لگایا، ہاتھ لگاتے ہی رسی اس طرح جھڑ گئی جیسے مٹی کی بنی ہوئی ہو، پھر جیک نے آہستہ سے دروازہ کو اندر کی طرف دھکیلا ، دروازے کی لکڑی کے اندر ہاتھ یوں داخل ہو گیا جیسے وہ لکڑی نہ ہو بلکہ کاغذ ہو ۔ کبڑے اور عبدل کے چہروں پر بے حد خوف چھایا ہوا تھا، اور اس سناٹے میں ان کی سانسوں کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ دروازہ کھلتے ہی ہماری آنکھیں چندھیا گئیں ، مشعلوں کی ہلکی سی سسکتی ہوئی روشنی ہیروں کے ایک عظیم الشان ڈھیر سے ٹکرا کے سورج کی روشنی کے برابر ہو گئی تھی۔ ہیروں سے نکلتی ہوئی کرنوں نے پورے کمرے کو بقعہ نور بنا دیا تھا۔
ہمیں جیسے سکتہ سا ہو گیا ۔ جہاں کھڑے تھے وہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے ۔ روشنی اتنی تیز تھی کہ ہماری آنکھیں بند ہوئی جا رہی تھیں۔ میں نے کمرے میں ادھر اُدھر نظریں دوڑائیں ۔ جگہ جگہ آئینے لگے ہوئے تھے اور ان آئینوں کے کناروں پر کئی کئی سو قیراط وزنی ہیرے جڑے ہوئے تھے ۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ سنگھار کا کمرہ یہی ہے ، ہیروں کے علاوہ سونے کے لاتعداد زیور، ایسے زیور جنہیں آج ہم دیکھ لیں تو دنگ رہ جائیں ۔ وہاں قرینے سے چنے ہوئے تھے۔ خدا جانے اتنے بھاری زیورات صدیوں پرانے زمانے کی عورتیں کس طرح پہنتی ہوں گی !
اس خزانے کی اگر میں تعریف بیان کرنے لگ جاؤں تو میرے خیال میں کئی ہزار صفحے بھی ناکافی ہوں گے ، اس لئے آپ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ خزانہ اتنا بڑا تھا ، اتنا بڑا تھا کہ پوری دنیا کے خزانے اس کے آگے ہیچ تھے ۔ اس خزانے کو دیکھ کر ہم کس طرح زندہ رہے یہ ایک معجزہ سے کسی طرح کم نہیں ۔ بس ، میں خزانے کی تعریف میں اتنا ہی کچھ کہہ سکتا ہوں۔

خزانہ دیکھ کر عبدل اور کبڑے چیتن کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، جان نے بڑے ضبط سے کام لیا ۔ حالانکہ اتنی دولت دیکھ کر انسان کو خوشی سے پاگل ہو جانا چاہئے، مگر ایک لمبی سانس لینے کے بعد اس نے کہا۔
"یہ دولت مجھے اپنے لئے نہیں چاہئے، مجھے محل تعمیر نہیں کرنے جو اس خزانے کو پا کر خوشی سے ناچنے لگوں، مجھے تو ان اندھے لڑکوں کی قسمت پر رشک آ رہا ہے جن کی آنکھیں اس خزانے کی مدد سے ٹھیک ہو جائیں گی ، مگر آپ لوگوں نے چوں کہ میرے ساتھ ہمدردی کی ہے ۔ اتنے لمبے اور کٹھن سفر میں میرا ساتھ دیا ہے۔ اس لئے خزانے کا دسواں حصہ آپ سب میں برابر بانٹ دیاجائے گا۔ کیا میری یہ بات آپ کو منظور ہے؟ "
"ہمیں آپ کی ہر بات منظور ہے۔ " صرف عبدل اور کبڑے نے خوشی سے چلا کر کہا۔
"بس تو اب ہمیں اس خزانے کو اسی طرح چھوڑ دینا چاہئے، اور اپنے اگلے سفر کے لیے روانہ ہو جانا چاہئے ، کیوں کہ وہ سفر اس خزانے سے کہیں زیادہ ضروری ہے ۔ سرنگ کو ہم دوبارہ باہر سے بند کر دیتے ہیں اور تمام اہم نشانات مٹا کر سمندر کی طرف چلتے ہیں، وہاں سے کوئی کشتی لے کر اس جزیرے کی تلاش کرتے ہیں، جو ہماری اصل منزل مقصود ہے ۔ کیا خیال ہے آپ حضرات کا؟ "
جان نے مشعل بجھا کر ٹارچ نکال کر جلا لی۔
"بالکل بجا فرماتے ہیں آپ۔ " صرف میں نے اور جیک نے جواب دیا، کبڑا اور عبدل دونوں خاموش رہے۔
"بس تو آئیے اب واپس چلیں۔ "
یہ کہہ کر جان واپس مڑا، لیکن عبدل اور کبڑا چیتن بار بار پیچھے مڑ کر خزانے کے ڈھیر کو دیکھتے رہے، دروازہ دوبار ہ بند کرنے کے بعد صرف میں نے ہی یہ محسوس کیا کہ جان کی اس حرکت سے وہ دونوں بدمعاش خوش نہیں ہیں، میں نے ان سے چوکنا رہنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ اس لئے اب ان کی ہر بات کو شک کی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہو گیا تھا ۔ اب میری یہ حالت تھی کہ بھرے ہوئے پستول پر ہر وقت میرا ہاتھ رہتا تھا، جان اور جیک کی حفاظت اب بہت ضروری تھی، اور مجھے یقین تھا کہ یہ پستول کسی نہ کسی وقت ضرور کام آئے گا ۔ عبدل ہم سے آگے تھا جان اس کے پیچھے اور اس کے بعد ہم سب، جان نے اپنی ٹارچ عبدل کو دے کر کہا کہ وہ اس کی روشنی آگے پھینکتا رہے تاکہ سب آسانی سے سرنگ کا راستہ طے کرتے رہیں۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ عبدل سرنگ سے جلد سے جلد نکل جانا چاہتا ہے، اور پھر مجھے جس بات کا خدشہ تھا وہ ہو کے ہی رہی۔
سرنگ ایک بار جیسے ہی دائیں طرف مڑی ، عبدل نے ٹارچ بند کردی۔ اب چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا اور اس کے ساتھ ہی کسی کے اندھا دھند آگے بھاگنے کی آواز آ رہی تھی ۔ جیک نے گھبرا کر جان سے کہا:
"مسٹر جان، یہ کم بخت ضرور دغا کرے گا، جلدی دوسری ٹارچ جلائیے ، اور فیروز۔ تم کہاں ہو؟ "


Novel "Khofnak Jazirah" by: Siraj Anwar - episode:09

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں