تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-7 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-05-20

تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-7


یہ کتاب برصغیر ہند و پاک کے ایک معروف صاحبِ طرز ادیب ، انشا پرداز ، عالم ، فلسفی ، صحافی اور نقاد مولانا عبدالماجد دریاآبادی کی تحریر کردہ ہے جن کا جنوری 1977ء میں انتقال ہو چکا ہے۔
اس مختصر روئیداد میں "حیدرآباد مرحوم و مغفور" (سابق مملکت اسلامیہ آصفیہ دکن) کی تہذیب و ثقافت کی نظر افروز جھلکیاں ہیں ، قائد ملت بہادر یار جنگ کے علاوہ دکن کے بعض مرحوم مشاہیر اور زندہ علمی و ادبی شخصیتوں کی دلکش تصویریں ہیں اور حیدرآباد کے دینی ، اسلامی ، علمی و ادبی اداروں کا دلچسپ تذکرہ ہے!

قصۂ ملکہ سبا میں ملکہ کی زبان سے قرآن مجید میں نقل ہوا ہے ۔
قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَادَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا وَجَعَلُوْا اَعِزَّۃَ اَھْلِھَا اَذِلَّۃً۔(النمل،آیت۳۴)
بولی کہ بادشاہ جب کسی بستی میں(فتح مندانہ) داخل ہوتے ہیں تو اسے تہہ و بالا کردیتے ہیں اور اس کے معززین کو ذلیل و خوار کردیتے ہیں۔
اور ملکہ سبا نے کہی یہ بات بڑے پتے اور بڑے تجربے کی ۔ دنیا کی تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے ۔ فاتح جب کسی ملک یا شہر میں داخل ہوتے ہیں تو اپنے کو بادشاہ کہیں یا جمہورئیے ، یا عوامئے ، یا اشتراکئے، یا جو کچھ بہ حال مفتوحوں کے حق میں ایک عذاب ہی بن کر آتے ہیں ۔ ان کے قلعوں کو توڑنا ان کی حویلیوں کو گرانا، ان کی شان عظمت کو مٹانا، دنیا کے ہر فاتح کا عام شیوہ ہے ۔ اور مفتوحوں کی قسمت میں کچھ صبر کے ساتھ ہنسنا ہی رہتا ہے ۔ حیدرآباد پولیس ایکشن کے بعد اپنے انجام پر حیرت ہی کیوں کرے ؟ عاقبت اندیشی اگر ہوتی تو اس کی نوبت ہی کیوں آنے دی جاتی؟ بہر حال اس بد اقبالی کا ظہور کسی درجہ میں تو ناگزیر ہی تھا۔ لیکن اللہ کا یہی بڑا فضل ہے کہ حالت نکبت زدہ اس درجہ میں دیکھنے میں نہیں آئی جس کا اندیشہ تھا ، بلکہ اسے برسوںکے مسلمانوں کی خود اعتمادی پر محمول کیجئے ۔ یا حکمرانوں اور ہم وطنوں کی رواداری پر( اور یہ تو واقعہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کے خلاف نہ لسانی تعصب اس پیمانہ پر ہے اور نہ دینی تعصب جس پیمانہ پر اتر پردیش میں ہے) بہر حال یہاں کے مسلمان اپنی اپنی ثقافتی، معاشرتی حالت بہت کچھ سنبھالے ہوئے ہیں مکہ مسجد تو خیر اس ڈر سے جانا نہیں ہوا کہ وہاں پہچان لیاجاؤں گا۔
اور پھر مجمع سے پیچھا چھڑانا مشکل ہوجائے گا، لیکن جن دو ایک چھوٹی مسجدوں میں جمعہ پڑھنے یا اور کسی وقت جانے کا اتفاق ہوا ۔ وہاں نہ صرف نمازی ہی اچھی خاصی تعداد میں دکھائی دئیے بلکہ جماعت و نماز کا انتظام اور ، روشنی، فرش، صفائی، پانی وغیرہ کا اہتمام بھی تقریباً اسی حال میں ہے ، جس میں دور نظام دکن میں تھا ، یہ دیکھ کر جی بڑا خوش ہوا ۔ اس زمانہ میں مسجدوں کے نظام ظاہری ہی کو مسلمان کہیں سنبھال لے جائیں، تو یہی ایک بڑی بات ہے ۔

نماز اور قرآن سے ملا اور جڑا ہوا مسئلہ قرأت و تجوید کا ہے ۔ ہندوستان میں حافظ تو خیر اب بھی تھوڑے بہت مل جاتے ہیں ، لیکن قاری برابر کمیاب سے کمیاب تر ہوتے جاتے ہیں ۔ ورنہ قرأت و تجوید کا نظام بجز لکھنؤ کے مدرسۂ فرقانیہ اور ریاست کی چند دینی درسگاہوں کے بھلا کہیں نظر آتا ہے ۔ بلدہ حیدرآباد بحمد اللہ اس خصوص میں بھی اپنی امتیازی شان قائم کئے ہوئے۔ ایک بڑا مرکزی ادارہ دارالقرأت کے نام سے بازار نورالامرا میں قاری کلیم اللہ صاحب حسینی ایم اے کی نگرانی و سر پرستی میں ماشاء اللہ خوب چل رہا ہے ۔ دیکھ کر جی خوش ہوگیا۔ قاری صاحب خود اپنی ذات سے جامع صفات ہیں۔ ایک طرف صورۃ’’سیرۃ ‘‘ پختہ و گہرے مسلمان اور دینی علوم کے عالم اور دوسری طرف انگریزی زبان اور مغربیات میں برق۔ جامعہ عثمانیہ میں فارسی کے استاد رہ چکے ہیں ۔ اور اب بھی شاید اعزازی پروفیسر ہیں ۔ مکان کا نام کلیم اللہ کی مناسبت سے ’’طور‘‘ خوب رکھا ہے ۔اور بڑی بات یہ ہے کہ اس کا جلوہ بغیر کسی لن ترانی کے از خود کرادیتے ہیں ، اور کھانے کی میز پر جب بٹھاتے ہیں تو معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ابھی ابھی دعائے موسوی رب انی لما انزلت من خیر فقیر، دل میں پڑھ چکے ہیں ۔ مہمان کے حق میں طعامی لذتیں من و سولی کا نقشہ پیش کئے ہوئے اور چھوٹے مدرسے سے قرآنیات سے متعلق اور بھی متعدد ہیں۔ انہیں میں سے ایک امتحانی ادارہ دارالقرآن( لال ٹیکری) کے نام سے ہے ۔ اور ایک سعید احمد ارس(خیریت آباد) میں جہاں ایک انگریزی اور اسلامیت کی جامع قاری خاتون سعید جہاں کے اہتمام میں پردہ نشین خواتین اور لڑکیوں کے لئے حفظ قرآن وتجوید کا بندوبست ہے ۔ البتہ بڑے اور چھوٹے ہر مدرسہ تجوید و قرآت میں لڑکیوں کو (دس برس کی بچیوں کو بھی) لڑکوں سے بالکل علیحدہ رکھنے کی شدید ضرورت ہے ۔ اور لڑکیوں اور عورتوں کا بلا تکلف مردوں کو اپنی آواز سنانے لگنا۔ خود ایک فتنہ کی جڑ ہے ۔ قرآن مجید کی برکت، ہرگز ایسے فتنوں کے روکنے کے لئے کافی نہیں، جیسا کہ مردانہ نفسیات کے ہر واقف کار پر روشن ہے۔
دینی درسگاہیں، اصلا، اوسطاً اونا، شہر میں بکثرت موجود ہیں اور اپنا کام کئے جارہی ہیں ۔ سب تک کیا معنی، دس فیصدی تک پہنچنا بھی نہ ممکن تھا ، نہ اس کی کوشش ہی کی گئی، دوہی چار کے معائنہ سے ایک اجمالی رائے قائم کرنے پر اکتفا کرلی۔

جماعت تبلیغ کا مرکز، مولد تو ہمارا شہر دہلی ہی ہے۔ لیکن یہ دیکھ کر دل باغ باغ ہوجاتا ہے کہ اس کی شاخیں اَصلھا ثابتٌ وفَرعُھَا فِی السَّماء۔کی مصداق ، ہندوستان پاکستان کے ہر شہر میں کیا معنی، افریقہ ، یورپ اور امریکہ تک میں پھیل گئی ہیں۔ حیدرآبادمیں اس کے خدمتی جلوے خوب خوب دیکھنے میں آئے۔ اور حیرت ہی ہوتی رہی کہ اس کی باگ کیسے کیسے لوگ سنبھالے ہوئے ہیں۔ ایک ڈاکٹر ادھیڑ سن وسال کے وحیدالزماں صاحب دیکھنے میں آئے ۔ ایلوپیتھی کے ایم ۔ بی ۔اپنے فن میں ممتاز ، ایک زمانے میں شاہی طبیب بھی رہ چکے ہیں، اپنی بزرگی کے لحاظ سے قابل زیارت، اسی تحریک تبلیغ کے لیڈر! صورۃً ہمارے لکھنو کے مشہور ڈاکٹر عبدالعلی مرحوم، ناظم ندوہ سے مشابہ، اور سیرت بھی انہیں کے ہم رنگ! انہیں کے ہمراہ ایک صاحب دراز ریش فوجی وردی میں ملبوس اور دکھائی دئیے ۔ اپنا وقت اسی جماعت تبلیغ کے لئے وقف کئے ہوئے۔یقین نہیں آتا تھا ۔ لیکن یقین کرنا پڑا کہ ہندوستانی کیا معنی، مشرقی بھی نہیں، خاص اسکاٹ لینڈ کے باشندے ہیں نومسلم، یہاں نظام دکن کی ذاتی رجمنٹوں کے کرنل ہیں۔ اسی جماعت والوں کے اثر سے ولایت میں اسلام قبول کیا ۔ اور اب ماشاء اللہ خود جماعت میں شریک ہوکر دوسروں کو اسلام کی طرف لارہے ہیں ۔ ایک اور ممتاز رکن اور سر گرم کارکن سکندر آباد کے سیٹھ حسین سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ چند ہی روز بیشتر تک سنا ہے کہ صاحب بہادر تھے ، اور اب صورت شکل تک مولویانہ، اور نام کتنوں کے لکھے جائیں ۔ یہ لوگ تو وہ ہیں کہ ناموری و شہرت سے کوسوں دور بھاگنے والے ہیں۔
جماعت تبلیغی کے ساتھ دوسرا نام جماعت اسلامی کا یاد پڑجانا بالکل قدرتی ہے۔یہ جماعت بھی ہندوستان میں اپنے رنگ میں بڑا مفید کام کررہی ہے ۔ کام کی نوعیت اس سے بالکل مختلف لیکن دین و ملت کے حق میں افادیت کے لحاظ سے اس سے کم درجہ پر نہیں۔یہاں اس کے بھی کارکنوں سے ملاقات رہی ۔ اور معلوم کرکے اطمینا ہوا کہ یہ بھی کام میں سر گرم عمل ہیں۔ اسلام کے سپاہیوں کو تو داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر اپنی زندگی کا ثبوت دینا ہے ۔ قلب میں جلا پیدا کرکے اندر کی روحانیت و نوارنیت کو بیدار کرنا کام جماعت تبلیغی کا ہے ، دماغ کو مغربی اور غیر اسلامی فتنہ و فسوں کے حملہ سے محفوظ کردینا اور تاریخ و جغرافیہ، معاشیات، فلسفہ، نفسیات، طبعیات وغیرہ پڑھ چکنے کے بعد بھی شہادتِ توحید و رسالت پر قدم جمائے رکھنا، یہ دائرہ عمل جماعت اسلامی ہند کا ہے، جس پر شاہد عادل، اس کی لکھائی ہوئی درسی کتابیں ہیں۔

Book: Taassurraat-e-Deccan. By: Maulana Abdul Majid Dariyabadi. Ep.:07

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں