تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-6 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-05-14

تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-6


یہ کتاب برصغیر ہند و پاک کے ایک معروف صاحبِ طرز ادیب ، انشا پرداز ، عالم ، فلسفی ، صحافی اور نقاد مولانا عبدالماجد دریاآبادی کی تحریر کردہ ہے جن کا جنوری 1977ء میں انتقال ہو چکا ہے۔
اس مختصر روئیداد میں "حیدرآباد مرحوم و مغفور" (سابق مملکت اسلامیہ آصفیہ دکن) کی تہذیب و ثقافت کی نظر افروز جھلکیاں ہیں ، قائد ملت بہادر یار جنگ کے علاوہ دکن کے بعض مرحوم مشاہیر اور زندہ علمی و ادبی شخصیتوں کی دلکش تصویریں ہیں اور حیدرآباد کے دینی ، اسلامی ، علمی و ادبی اداروں کا دلچسپ تذکرہ ہے!

ہر زبان کی طرح ارردو کے بھی بڑے نقیب اردو کے اخبار ہیں،جس خطۂ ملک میں بھی وہ نکل رہے ہوں۔ حیدرآباد کی صحافت ایک زمانہ میں بہت پست اور بالکل مبتدیوں کے درجہ کی تھی۔رہنمائے دکن اب دکن کا ایک معروف و مقبول روزنامہ ہے ۔ سب سے پہلے اس نے اپنے نقش اول رہبر دکن کے نام سے معیار حال کے مطابق روز نامہ حیدرآباد سے نکالا ۔ اور اپنی زندگی کے ہر دور میں اپنے فرائض انجام دیتا رہا ۔اور جہاں تک مسلمانوں کی نمائندگی کا تعلق ہے ، اپنی سنجیدگی ، معقولیت، میانہ روی اور اسلامیت کا نقش دوسروں کے دل پر بٹھائے ہوئے ہے۔ صدق سے اس کا رابطہ اتحاد و حسن ظن شروع سے گہرا ہے ، اور صدق میں اس کی مدح و ستائش کرنا ایک طرح خودستائی کرنا ہے ۔ دوسرا قابل ذکر روزنامہ سیاست نظر پڑا۔ اور اس کے مدیر و سر دبیر عابد علی خان صاحب سے بھی نیاز حاصل رہا ۔ خاصہ سنجیدہ شریفانہ ، معقول، و پر معلومات پرچہ ہے اور بڑی بات یہ ہے کہ اپنا ظریفانہ کالم خوب سنبھالے ہوئے ہے ، ورنہ لوگ ظرافت اور توہین، دل آزادی یا پھکڑکے درمیان فرق ہی نظر انداز کرجاتے ہیں۔ اور ایک تیسرا مقبول و کثیر اشاعت روزنامہ ملاپ کے نام سے دیکھنے میں آیا ۔ دلی و جالندھر کے مشہور روزنامہ ملاپ کا حیدرآباد ایڈیشن ہے ، اور اب مدتوں سے مسلمانوں کی دل آزادی کے بغیر کامیابی سے نکل رہا ہے۔ ایڈیٹر شومی یدھ دیر ہیں ۔ ایک ایٹ ہوم میں سر سری ملاقات رہی۔ عام تاثر اس مختصر اور پہلی ملاقات میں اچھا ہی قائم ہوا۔ جو پرچے اکثریت کے ہاتھ میں ہیں انہیں اپنے قلم کی ذمہ داری کا خاص طور پر احساس رکھنا ہے ۔ ملک کی بناؤ اور بگاڑ دونوں کی قوت بڑی حد تک انہی کے قلم کی روش سے وابستہ ہے ۔ عین اسی زمانہ قیام میں ایک نئے روزنامہ صحیفہ کا پہلا نمبرہاتھ میں آیا۔ صحیفہ نئے نہیں بہت پرانے پرچہ کا نام ہے ۔ مولوی فاضل مولوی اکبر علی مرحوم کی ادارت کے زمانہ میں یہی پرچہ حیدرآباد پرچھا یا ہوا تھا ۔ محض پہلا نمبر دیکھ کے کوئی ذمہ دارانہ رائے قائم نہیں ہوسکتی۔ خدا کرے اس کی روش اردو معاصرین میں اس کی نیک نامی کا باعث بنے ۔

اردو صحافت محض اردو زبان کی صحافت نہیں، اردو کلچر کی مظہر و ترجمان ہے ۔ ’’اردو محض ایک زبان کا نام نہیں ، ادو کلچر یا تہذیب کود ایک مستقل چیز ہے۔ اردو تہذیب کا آئینہ ہے ۔ اور اس آئینہ کی ساری جلا صرف ایک لفظ شرافت کے اندر مضمر ہے ۔
حیدرآبادی تہذیب لکھنوی تہذیب اسی جوہر شرافت کی یادگار تھی۔ وہ جب مٹتی ہے تو ہر شریف کو اس کے مٹنے کا رنج ہوتا ہے ۔
ٹھیٹھ مذہبی عقائد کا تعلق عالم غیب سے ہوتا ہے ۔ لیکن یہ تہذیبی شرافت ایسی ہے ، جو اسی دنیا میں بندوں کا دل بندوں سے جوڑے رہتی ہے ۔ اور جب اس تہذیب کا جنازہ اٹھتا ہے تو ماتم داروں میں سب سے آگے شرافت ہی ہوتی ہے ۔
پرانا حیدرآباد مٹافنا ہوا ، نظام جاگیر داری گیا، نئے نظام حکومت و آئینی سیاست نے جگہ لی ۔ اکثریت نے آزادی محسوس کی لیکن آخر کوئی تو بات اس مرحوم اردو کلچر میں تھی کہ جب پولیس ایکشن کے بعد ایک نامور ہندو ایڈوکیٹ نے از راہ ہمدردی ایک اونچے مسلمان عہدیدار سے کہا’’زمانہ اگر میر محبوب علی خان (1) کا ہوتا تو ہم خود آ پ لوگوں کے ساتھ ہوکر پولیس ایکشن کا مقابلہ کرتے۔‘‘ تو اس مسلمان عہدیدار نے کتنا بلیغ و جامع جواب دیا کہ’’ خیر ہم تو مر چکے ، خوشی اس کی ہے کہ ہم پر آنسو بہانے والے آپ بھی ہیں۔‘‘

حوالہ جات:
(1)
مملکتِ حیدرآباد پر آصف جاہی خاندان کے سات بادشاہوں نے حکومت کی۔ محبوب علی خان چھٹے بادشاہ تھے اور اسم بامسمیٰ۔ وہ ہندو مسلمان سبھی کے محبوب تھے۔ ہندوؤں کے بعض فرقے تو انہیں اوتار مانتے تھے۔ ان کا زمانہ حکومت 1879ء تا 1911ء ہے۔
(مرتب)

Book: Taassurraat-e-Deccan. By: Maulana Abdul Majid Dariyabadi. Ep.:06

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں