خود نوشت ممتاز شیریں - ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-05-28

خود نوشت ممتاز شیریں - ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

mumtaz-shireen
میری زندگی کے 35 سال یوں گزرے کہ معلوم ہوتا تھا مجھ پر کچھ بیتی ہی نہیں۔ میری زندگی میں ایسے کوئی نشیب و فراز نہیں آئے۔ کوئی ٹھوس اور تلخ تجربے نہیں ہوئے، کبھی تنہا بڑھ کر دنیا سے ٹکر لینے کا موقعہ نہیں ملا۔ ماں باپ کے گھر، پھر شادی کے بعد، شوہر کے ساتھ میری زندگی بڑی محفوظ مضبوط سہاروں کے ذریعہ گزری۔
زندگی صرف حادثات، واقعات اور ٹھوس تجربات پر مشتمل نہیں ہوتی۔ کسی فرد کی حیاتیاتی اور ذہنی نشوونما، کردار اور رویہ میں غیر محسوس تبدیلی، سیاحت اور دوسری تہذیبوں کا اثر۔ مذہب و اخلاق کا تصور، زندگی (اور میری زندگی بھی) ان سب کا مرکب ہے۔
بس ایک پرسکون، ہموار، خوشگوار اور متوازن زندگی تھی کہ بیتی جارہی تھی۔ اب پچھلے تین سال سے میری زندگی پر غم کا سایہ پڑا ہے کہ یکے بعد دیگرے عزیز ہستیاں مجھ سے چھن گئی ہیں اور میں خود موت کی وادی سے واپس آئی ہوں۔ وقت ایک ایسا مرھم ہے کہ زخموں کو مندمل کر دیتا ہے اور روزمرہ کی عام زندگی میں اتنی قوت ہوتی ہے کہ بڑے بڑے حادثات کے بعد بھی انسان کو اپنے معمول پر واپس لے آتی ہے۔
سلسلہ روز و شب اصل حیات و ممات۔۔۔۔ روز و شب یونہی بیت جاتے ہیں لیکن زندگی کے اس بے رنگ معمول میں ایسے ڈرامائی لمحات اور کیفیات بھی آتے ہیں جب شعور احساس تیز اور بلند ہوتا ہے۔ یہ لمحات ماہ و سال پر بھاری ہوتے ہیں اور ایسے لمحے میری زندگی میں بھی آئے ہیں جب وقت ایک اندرونی حقیقت بن گیا ہے اور ساری زندگی کی شدت ان لمحوں میں سمٹ آئی ہے۔
عرصہ دراز کی بات ہے، جنوبی ہند کے ایک چھوٹے سے شہر ہندو پور میں ہیضہ کی وبا یوں پھیلی کی آن کی آن میں سینکڑوں موتیں واقع ہو گئیں۔ ہر گھر سے نوحے بلند ہونے لگے اور اس شہر کے سب سے بڑے گھر میں ایک گیارہ سالہ لڑکا بے سدھ بستر مرگ پر پڑا تھا۔ بچے کی حالت دیکھ کر ماں کو ضبط کا یارا نہ رہا، ماں روتی ہوئی صحن کی طرف دوڑی۔ آنسو بھری آنکھیں آسمان کی جانب اٹھائیں اور دامن پھیلا کر خدا کے حضور میں صدق دل سے یہ دعا مانگی۔
"پاک پروردگار، موت و حیات تیرے ہاتھ میں ہے، میری زندگی میرے بچے کو بخش دے، میں اپنے بچے کی جان کے عوض اپنی جان کی بھینٹ دیتی ہوں۔"
یہ دعا لبوں سے نکلی ہی تھی کہ ماں نڈھال ہو کر بستر سے لگ گئی، آہستہ آہستہ اس کی حالت غیر ہوتی گئی اور بچے کی طبیعت سنبھلتی گئی حتیٰ کہ چند دنوں میں وہ پوری طرح صحت یاب ہو گیا اور ماں موت کی نیند سو گئی۔
جنوبی ہند کے ایک غیر معروف شہر کے ایک معزز گھرانے کی ماں کی یہ قربانی آل سس ٹس کی اسطور نہیں بن سکی اور نہ شہنشاہ بابر کی قربانی کی طرح تاریخ کے صفحات میں رقم ہوئی۔ لیکن ماں کے ایثار کی یہ کہانی اس علاقہ میں زبان زد عام تھی اور یہ سچی کہانی میں بچپن سے سنتی آئی ہوں کیوں کہ وہ ماں جس نے اپنے بچے پر سے جان نچھاور کی تھی میری نانی تھیں اور وہ بچہ جس کے لئے یہ قربانی دی گئی میرے نانا ابا تھے جن کے زیر سایہ میری پرورش ہوئی اور جو میری زندگی پر اثر انداز ہونے والوں میں سب سے پہلا اور سب سے بلند مقام رکھتے ہیں۔
مدتوں بعد اس شہر میں طاعون کی وبا آندھی کی طرح آئی، بے شمار جانیں ضائع ہوئیں گھر کے گھر خالی ہوگئے، ساری بستی ویران ہو گئی۔ لوگوں نے شہر چھوڑ کر بہت دور میدانوں میں خیمے لگا کر پڑاؤ ڈال دیئے۔ نفسا نفسی کا عالم تھا کسی کو کسی کی خبر نہ تھی سب اپنی اپنی جان بچا کر بھاگ رہے تھے۔ ایسے میں ایک گھر کی بہو کو یہ بیماری لگی تھی۔ بن ماں باپ کی بچی تھی ساس نندیں بھی چھوڑ کر کیمپ میں چلی گئیں۔ صرف ایک نند بیمار کے ساتھ رہ گئی کہ وہ اپنی بھاوج کو اس حال میں چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی تھی، نند بھاوج کا رشتہ کشیدگی، رنجش اور آپس میں جلن کا رشتہ ہوتا ہے۔ نند بھاوج کی محبت کا یہ مثالی نمونہ تھا کہ ایک نند نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر بھاوج کی اس تندہی سے تیمارداری کی کہ دن کو دن نہ سمجھا رات کو رات نہ سمجھی اور لب مرگ مریضہ کا سر زانو پر لیے بیٹھی رہی اور بھاوج نے اس کی گود میں دم توڑ دیا۔
یہ دوسری نیک اور نڈر بی بی جنہوں نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر طاعون جیسی مہلک، متعدی بیماری میں مبتلا مریضہ کی تنہا دیکھ بھال کی تھی، میری نانی اماں تھیں۔
یہ اگلے وقتوں کی نیک بی بیاں تھیں۔ سوچتی ہوں کہ میں ان دو نیک، نڈر بی بیوں کی نہایت بزدل نواسی ہوں۔ میرا اپنا تجربہ اس سے بالکل برعکس تھا۔ آج سے ٹھیک تین سال پہلے جب میں خود موت سے ہمکنار تھی ایک اجنبی ملک میں، اپنے وطن اور عزیزوں سے ہزاروں میل دور، ایک ماہر امریکن ڈاکٹر نے گھنٹوں موت سے مقابلہ کر کے مجھے بچالیا میری مسیحائی کی گئی۔ رات دن ایک کر کے نہایت جانفشانی اور تندہی سے میری تیمارداری کی گئی حتیٰ کہ میری زندگی کے لئے ایک اور زندگی کی پیش کش کی گئی اور ایک ننھی سی جان مجھ پر بھینٹ چڑھا دی گئی۔
گو اس وقت دو زندگیوں (ماں اور بچے کی) میں سے ایک کے انتخاب کا سوال نہیں تھا اور نہ یہ میرے اختیار میں تھا، تاہم اگر یہ انتخاب میرے سامنے اور اختیار میرے ہاتھ میں ہوتا تو کیا میں اپنے بچے کے لیے اپنی جان کی قربانی دے سکتی تھی، نہیں۔ یقیناً مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی۔ جب لوگ پرسہ دینے کے لئے آتے تھے اور یہ کہا کرتے تھے کہ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے آپ کی جان بچ گئ۔ آپ کی زندگی زیادہ قیمتی تھی "تو میں احساس ندامت میں" ڈوب ڈوب جاتی تھی۔
میرے لئے ایک زندگی کی پیش کش کی گئی اور میری پرنانی اور نانی اماں نے اوروں کے لئے اپنی زندگی کی پیش کش کی تھی!

ہندوپور میرا آبائی وطن ہے۔ یہ شہر صوبہ میسور کی سرحد پر واقع ہے ان دنوں مدراس پریذیڈنسی میں تھا اور اب آندھرا پردیش میں شامل ہے۔ میرے آباؤ اجداد باہر سے آئے تھے۔ جنوبی ہند میں بس گئے تھے۔ ہندوپور کے نواح میں ان کی زمینداریاں تھیں اور ہندوپور میں آم کے باغات تھے۔ ہمارے پرنانا ٹیپو خان شہر کے اکابرین میں سے تھے۔ ان کی موت کے بعد کچھ ایسے خاندانی جھگڑے آن پڑے کہ ہمارے نانا جان ٹیپو قاسم خان بددل ہوکر میسور چلے آئے کہ یہاں "اپنوں سے دور" ایک نئی دنیا بسائیں گے۔
میرے اباجان قاضی محمد عبدالغفور لڑکپن میں یتیم ہوگئے تھے۔ نانا ابا نے انہیں اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا تھا۔ بنگلور بھیج کر بنگلور کے سینٹ جوزف کالج میں انہیں تعلیم دلوائی تھی اور اپنی بیٹی کا ان سے بیاہ کردیا تھا۔ میری امی نور جہاں اکلوتی بیٹی تھیں اور نانا ابا اور نانی اماں انہیں دور نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ لہٰذا امی کو لے کر اباجان بھی نانا جان کے ساتھ ہی میسور چلے آئے اور یہاں ملازمت اور مستقل سکونت اختیار کرلی۔
یوں میسور میرا وطن بن گیا۔
دنیا کے مختلف ملکوں اور حسین شہروں کی سیروسیاحت کرنے اور ان میں سے بعض میں قیام کرنے کے باوجود مجھے اب بھی میسور سے اتنا ہی پیار ہے۔ چھوٹا سا صاف ستھرا، خوبصورت شہر، معتدل اور خوشگوار آب و ہوا۔ حسین باغ، مہاراجہ میسور کا عالیشان محل اور صرف چند میل دور پر وہ بہت بہشت برروئے زمین، یعنی کرشنا راج ساگر، رنگین فواروں اور چکا چوند کرنے والی روشنیوں کے ساتھ برندابن گارڈنز جو دریائے کاویری کے بندھ سے متصل شالامار گارڈنز کی طرز پر بنائے گئے ہیں اور شالامار سے زیادہ حسین ہیں۔ سال بہ سال میسور کا دسہرہ، وردنتی اور راج محل کے دربار کی رونق۔۔۔ یہ تھا میسور اور کسی شہر آرزو، کسی بہشت گم گشتہ، کا تصور میرے ذہن میں وابستہ ہے تو وہ شہر میسور سے ہے۔
میسور کا ماحول نہایت خوشگوار تھا۔ ریاست میسور دیسی ریاستوں میں سب سے ترقی یافتہ، موڈل سٹیٹ سمجھی جاتی تھی۔ مہاراجہ میسور سری کرشنا راج وڈیر (موجودہ مہاراجہ میسور کا چچا) نہایت رعایا پرور اور عدل گستر فرمانروا تھے اور مسلمانوں کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ دیوان میسور سر مرزا اسماعیل کے سیاسی تدبر کا شہرہ تھا۔ ہندو مسلمان یہاں آپس میں رفاقت سے رہتے تھے۔ چھوٹی سی اقلیت تھے لیکن مسلمانوں نے اپنی قومی انفرادیت کو برقرار رکھا تھا یہ سلطان ٹیپو کی سر زمین تھی اور مسلمان یہاں سرخرو اور سر بلند تھے۔
مسلمانوں کے ذہن میں اپنے تاریخی ماضی کا تصور بسا ہوا تھا اور میسور ہمارے لئے سلطان ٹیپو کی سر زمین تھی۔ میسور سے صرف آٹھ دس میل کے فاصلہ پر ٹیپو سلطان کا دارالسلطنت سریرنگپٹن واقع ہے۔ سریرنگپٹن کوئی خرابہ نہیں۔ سویا ہوا شہر معلوم ہوتا ہے جہاں ٹیپو کی خوابیدہ روح کا احساس چھپا ہوا ہے۔ گھٹا چھاتی ہے تو اب بھی یوں لگتا ہے جیسے اس آخری رات کی طرح (4 مئی 1799ء کی) سلطان شہید کی یاد میں بادل آنسو بہانے لگیں گے۔ گنجام گنبد جس کے نیچے حیدر علی اور سلطان شہید محو خواب ہیں۔ دریا دولت باغ جہاں سرو و صنوبر کے درمیان سلطان کا سادہ محل ہے جس کی دیواروں پر میسور کی جنگوں کے نقوش رقم ہیں اور دریائے کاویری کا رومان پرور سنگم، سریرنگپٹن کے یہ سارے تلازمات میسور کے تصور کے ساتھ میرے شعور کا ایک حصہ ہیں۔

میں بہت چھوٹی سی تھی لیکن بچپن کی بعض یادیں بہت واضح ہوتی ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ غالباً دسہرے کے موقع پر ایک شورش و ہنگامہ برپا ہوا تھااور چیلنج دیا گیا تھا کہ مہاراجہ صاحب اب کے سر مرزا اسماعیل کو ساتھ لے کر نکلیں گے تو انہیں جوتوں کے ہار پہنائے جائیں گے۔ جلوس کی آمد آمد تھی۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے دلوں میں متضاد جذبات موجزن تھے۔ سب کی نگاہیں بے تابی سے محلسرا کی جانب لگی تھیں۔ اتنے میں مہاراجہ کی سواری نکلی۔ وہ حسب معمول ایک نہایت سجے سجائے ہاتھی پر سونے کی عماری میں رونق افروز بڑی شان سے سر مرزا اسماعیل کو اپنے پہلو میں بٹھائے نکلے۔ مسلمانوں کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ غیر مسلموں کے چہرے مرجھا گئے لیکن انہیں ہمت نہ ہوئی کہ اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنائیں۔ جوتیاں تھامے ہوئے ہاتھ نیچے ہوگئے جوتیاں نہ برسیں، پھول ہی پھول برسے، مسلمانوں کے ہاتھوں سے۔
ویسے جنوبی ہند میں اور خاص طور پر ریاست میں ہندو مسلمان آپس میں رفاقت سے رہتے تھے۔ 1947ء میں فسادات کے زمانے میں بھی ریاست میسور میں امن و امان تھا۔ ریاست بھر میں بہت کم وارداتیں ہوئی تھیں جو نہ ہونے کے برابر تھیں۔ یہ رفاقت کسی "مشترکہ کلچر" یا ایک دوسرے میں ضم ہونے کی بنا پر نہ تھی۔ مسلمان یہاں چھوٹی سی اقلیت میں تھے لیکن اپنی قومی انفرادیت سختی سے قائم کئے ہوئے تھے، مسلمان یہاں سرخرو اور سربلند تھے ۔ یہ سر زمین سلطان ٹیپو کی سر زمین تھی۔
میسور میں ہمارا گھر۔۔۔۔ یعنی وہ ایک گھر جس سے اپنے گھر کا تصور وابستہ ہے۔ جہاں میرے بچپن اور نوجوانی کے دن گزرے۔ عیدگاہ محلے میں ہے۔ عیدگاہ سے بہت قریب اونچائی پر پرانی وضع کا یہ تنہا بنگلہ تھا۔ بڑے بڑے ستونوں اور قوسوں والا بہت بڑا ھال۔ برآمدے اور بہت سے کمرے جن کی ترتیب عجب بے ڈھنگی تھی اونچی دیواروں والا بڑا سا کامپاؤنڈ اور تینوں جانب کمپاؤنڈ کی دیواروں کے ساتھ ساتھ اونچے اونچے درخت پیچھے صحن میں مختلف پھلوں کے درخت اور سامنے چمپا چنبیلی کی بیلیں کمان بناتی تھیں۔ بھرا ہوا گھر ان افراد پر مشتمل تھا۔ ناناجان، اباجان، امی ہم چار بہنیں اور دو سب سے چھوٹے بھائی۔ بھائی بہنوں میں میں سب سے بڑی تھی۔
چونکہ "پہلوٹھی کی بچی" تھی مجھے ابا امی نے نہیں نانا، نانی نے لاڈ پیار ناز و نعم سے پالا۔ ابا نو عمر تھے اور لا پروا سے اور امی میری پیدائش کے وقت خود بھی بچی تھیں۔ پندرہ سال کی چھوٹی سی لڑکی۔ نانی اماں نے مجھے اپنے ہاتھوں میں لیا اور محبت سے پالا پوسا۔ نانی اماں سے ایک بوڑھی عورت کا تصور ابھرتا ہے۔ لیکن میری نانی جوان اور حسین تھیں۔ ان کے مزاج میں نفاست تھی اور کپڑے پہننے کا انہیں بڑا سلیقہ تھا۔ سفید یا ہلکے پٹیل رنگوں کے کپڑے پہنتی تھیں۔ کشیدہ کاری کئے ہوئے، جو ان پر بہت سجتے تھے۔ ان کی تصویر میرے ذہن میں اب بھی تازہ ہے۔
نانی اماں خلیق، ملنسار اور مہمان نواز تھیں۔ ساتھ ہی جہاندیدہ اور تجربہ کار بھی۔ اس کے برعکس میری امی بہت ہی معصوم، ناتجربہ کار، گوشہ نشین خوشحال گھرانے کی اکلوتی اولاد۔ انہیں دنیا جہاں سے محفوظ رکھا گیا۔ نہ باہر کہیں آنا جانا، نہ لوگوں سے ملنا جلنا، ہنسنا بولنا۔ مکمل(RECLUSE) بن کر ساری زندگی انہوں نے یونہی گزار دی۔ اب کہ وہ بیوہ ہوگئی ہیں۔ نانا جان کی خدمت گزاری میں اپنی زندگی کے دن پورے کر رہی ہیں اور یہی گویا ان کی زندگی کا "مشن" ہے۔
میری امی کا تصور میرے لئے ہمیشہ بہن کا سا رہا۔ ان کا سلوک بھی ہم سے بہنوں کا سا تھا۔ ہم بلا جھجھک دل کی باتیں انہیں بتا دیا کرتے تھے حتی کہ شادی بیاہ کے معاملوں میں اپنے انتخاب کا ان پر اظہار کردیا کرتے تھے۔ میں اپنی ماں کو آپا کہا کرتی تھی اور نانی اماں کو اماں کہ وہ سچ مچ میری ماں تھیں۔
میں چھ سات سال کی تھی کہ یہ محبوب ہستی جسے میں ماں سمجھتی تھی مجھ سے چھن گئی۔ نانی اماں کی موت میرے بچپن کی سب سے غمگین اور گہری یاد ہے۔ اس چھوٹی عمر میں میں پہلی دفعہ موت کی حقیقت سے دوچار ہوئی گو موت کے راز کو سمجھنے کا مجھ میں ادراک نہ تھا۔ میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے ان کے بے جان جسم کو دیکھتی رہی، جنازے کے ساتھ گئی ان کے محبوب آم کے باغ میں انہیں دفن ہوتے دیکھا۔ رات رات بھر نانا جان کی آہ و فغاں سنی۔ ان کی تڑپ اور بے پناہ کرب و اضطراب دیکھا۔ نانا جان اور نانی اماں کا مثالی جوڑا تھا۔ وہ آپس میں ایک دوسرے سے بے حد محبت کرتے تھے۔ اس زمانے میں ان کی محبت کی شادی ہوئی تھی۔
جب ان کا انتقال ہوا نانی اماں کی عمر بیالیس تینتالیس سال کی ہوگی۔ نانا جان کی عمر بھی اس وقت کچھ زیادہ نہ تھی لیکن انہوں نے لوگوں کے مجبور کرنے کے باوجود دوبارہ شادی نہیں کی اور ان کی چھوڑی ہوئی ایک نشانی اپنی اکلوتی بیٹی اور نواسیوں نواسوں کے لئے (یعنی ہمارے لیے) اپنی ساری زندگی وقف کر دی۔
اپنی موت سے بارہ دن پہلے نانی اماں میسور سے ہندوپور جانے کے لئے بے قرار ہو اٹھی تھیں گویا ایک ندائے غیب تھی کہ انہیں بے اختیار اپنی جانب کھینچ رہی تھی اور اپنے آبائی وطن کی مٹی انہیں نصیب ہوئی۔
وطن کی مٹی کی کشش کتنی زبردست ہوتی ہے۔ چاہے کوئی ساری عمر باہر گزار دے۔ آخر میں یہ مقناطیسی کشش اپنی جانب کھینچ ہی لیتی ہے اور اپنی مٹی وطن کی مٹی میں مل جاتی ہے۔ میری اپنی زندگی ایک مستقل سفر بن گئی ہے۔ ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف مغرب سے مشرق اور مشرق سے مغرب کی طرف۔ نہ جانے کہاں کس دیارِ غیر میں موت آ لے گی اور کونسی مٹی نصیب ہوگی۔ بہر حال ساری زمینیں اللہ کی ہی ہیں اور کبھی یوں محسوس ہوتا ہے ساری دنیا ہی اپنا وطن ہے۔
میرا وطن کونسا ہے؟ ہندوپور جہاں میرے بزرگ رہتے آئے ہیں اور جہاں میں پیدا ہوئی یا میسور جہاں میں پلی بڑھی، تعلیم حاصل کی شادی کی بچپن اور نوجوانی کا زمانہ گزرا اور جہاں اب بھی میرے نانا جان، امی، بہنیں، بھائی سبھی رہتے ہیں یا پاکستان جس کی تقدیر سے میں نے اپنے آپ کو وابستہ کر لیا ہے اور جو میرا روحانی وطن ہے۔
ہمارے آبائی وطن ہندوپور کی مٹی نے ایک اور ہستی کو جو میرے قریب تھی یا قریب ہونی چاہئے تھی اپنی آغوش میں لے لیا۔ یہ میرے اباجان تھے ابھی ایک سال کا عرصہ بھی نہیں ہوا کہ پچھلی عیدالفطر کے دو ہفتہ بعد 15 مارچ 1963ء کو میرے ابا جان رحلت فرما گئے۔
موت ہمیشہ بے درد نہیں ہوتی. یہ قید حیات و بند غم سے آزادی کا پیام لاتی ہے۔ آخری عمر میں ابا جان کی زندگی کچھ ایسی حسرتناک تھی کہ موت ان کے لئے رہائی کا باعث بنی۔ طویل بیماری نے دل، جگر، پھیپھڑے سب تباہ کردیئے تھے۔ تفکرات اور پریشانیوں میں گھرے ہوئے وہ زندگی سے بیزار تھے۔ میں نے دل کڑا کر کے سوچا شاید موت ان کے لئے رحمت تھی۔
ابا جان کی موت کی صرف ایک اطلاع۔۔۔ ایک منحوس خبر مجھ تک پہنچی۔ میں اس وقت ڈھاکہ مشرقی پاکستان میں تھی۔ سینکڑوں میل دور، نہ ان کا آخری دیدار کر سکی۔ نہ ان کی کوئی خدمت مجھ سے ہو سکی۔ یہ سعادت میری سب سے چھوٹی بہن نجمہ نسرین کو نصیب ہوئی جو ان کی سب سے چہیتی بیٹی تھی اور جس کے گھر میں ابا جان نے اپنے آخری دن گزارے تھے میری چھوٹی بہن نجمہ نسرین نے مجھے یہ اطلاع دی تھی اور اپنے سادہ جملوں میں ابا جان کے آخری دنوں۔ آخری سفر، ان کی موت اور تجہیز و تکفین کی تصویر کھینچی تھی۔
میری بہن کے قلم میں اظہار کی قوت نہیں لیکن اس کے خط میں بے پناہ خلوص اور سچا درد و کرب تھا. ایک ایسا معصومانہ خلوص جو شاید اپنے اندر نہیں پاتی SOPHISTICATION نے مجھ پر تصنع کا ایک ہلکا سا ملمع چڑھادیا ہے ۔۔۔۔ میری بہن نے اپنے سادہ جملوں میں ابا کے آخری دنوں، آخری سفر ان کی موت اور تجہیز و تکفین کی ایسی تصویر کھینچی تھی کہ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا میں ڈاکٹر زداگو کا آغاز اور انجام پڑھ رہی ہوں بلکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں اور اس حقیقی المیے کے مرکزی کردار میرے اپنے ابا ہیں۔
ابا جان کی چونسٹھ سالہ زندگی کا بیشتر حصہ میسور اور بنگلور میں گزرا تھا۔ لیکن مرنے سے صرف دو دن پہلے وہ بضد ہو گئے تھے کہ ہندوپور جائیں گے۔ ہندوپور میں ان کا کوئی نہ تھا۔ ماں باپ، بہن بھائی سب انتقال کر چکے تھے اور میسور میں ان کی بیوی، بیٹے بیٹیاں (سوائے میرے) سبھی موجود تھے۔ لیکن ایک بے نام آواز تھی کہ انہیں بلا رہی تھی۔ وطن عزیز کی مٹی انہیں اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ ٹرین میں اپنے آخری سفر پر روانہ ہوتے ہوئے انہوں نے اپنے کمپارٹمنٹ کی کھڑکی کھول لی اور لیٹے لیٹے ہی باہر نظریں جمائے رہے۔ انہیں ہر لمحہ یہ اندیشہ ستاتا رہا کہ کہیں غفلت میں آنکھ نہ لگ جائے اور ایسے میں ہندوپور کا اسٹیشن نہ نکل جائے۔ رات بھر وہ جاگتے رہے اور ٹکٹکی باندھے کھڑکی سے باہر دیکھتے رہے۔ ہندوپور کا اسٹیشن آگیا تو ان کے بے جان لبوں پر ایک ہلکی مسکراہٹ نمودار ہوئی ان کی منزل آ گئی تھی۔ آخری منزل!
اپنے نرم اور حساس ظاہر کے پس پردہ شاید میں بہت سخت دل ہوں۔ میں نے باپ کی موت کا وہ سوگ نہیں منایا جو ایک بیٹی کو منانا چاہئے۔ میں نے باپ کی موت کو اس طرح محسوس نہیں کیا جس طرح دو سال پہلے اپنے نوزائیدہ بچے کی موت کو محسوس کیا تھا۔ ہو سکتا ہے اس کی وجہ طویل جدائی ہو۔ پاکستان آنے کے بعد، پندرہ سال میں اپنے ماں باپ سے دور رہی ہوں اور اس دوران میں شاذ ہی چند ہفتے ابا جان کے ساتھ گزارے ہوں گے۔ اس پندرہ سال کے طویل عرصے میں ہم دو ہی مرتبہ ہندوستان گئے تھے اور وہ بھی قلیل مدت کے لیے۔ لیکن کیا یہ طویل زمانی و مکانی فاصلہ بھی باپ بیٹی کے اتنے قریب اور گہرے رشتہ کے نشان دھندلا سکتا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ گئی تھی کہ موت اباجان کے لئے ایک تکلیف دہ زندگی سے نجات کا باعث تھی۔ اس میں خدا کی مصلحت تھی اور ہمیں صبر و شکر سے کام لینا چاہئے۔
ابا جان میرے لئے ایک دوست تھے۔ وہ آزاد خیال اور وسیع المشرب واقع ہوئے تھے اور ہم پر کسی قسم کی پابندی لگانے کے قائل نہ تھے۔ وہ مجھے پڑھنے لکھنے سے نہیں روکتے تھے۔ کتابیں کہیں سے مانگ تانگ کر چھپ چھپ کر پڑھنے کی مجھے ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ اچھی ادبی کتابیں وہ خود لا دیا کرتے تھے۔ چنانچہ جب میں نو دس کی تھی وہ میرے لئے مرزا محمد سعید کی کتابیں، شرر اور راشد الخیری کے ناول اور منشی پریم چند کی ساری کتابیں لے آئے تھے۔ اس دور کے معیاری ادبی رسائل بھی منگواتے تھے۔ یوں مجھ میں بچپن ہی سے ادب سے لگاؤ پیدا ہو گیا۔
ابتدائی تعلیم بھی میں نے کسی کانونٹ یا سکول میں نہیں بلکہ گھر پر اباجان ہی سے حاصل کی تھی۔ چنانچہ میری ابتدائی ذہنی اور ایک حد تک ادبی تربیت کے ذمہ دار اباجان ہیں اور میری مذہبی اور اخلاقی تربیت ناناجان کے زیر سایہ ہوئی ۔ یوں تو ابا جان، امی، نانی اماں اور ناناجان ان سب نے اپنے اپنے طور پر میری پرورش اور تربیت میں حصہ لیا ہے اور ان سب کی متضاد کرداری، خصوصیات میری شخصیت میں غیر محسوس طور پر گھلی ہوئی ہیں۔ سب سے غالب اثر میری زندگی پر اور خصوصیت سے ابتدائی نصف زندگی پر ناناجان کا رہا ہے۔
ناناجان کو ہم جان بلاتے تھے اور وہ حقیقتاً ہمارے گھر کی اور سب کی "جان" تھے۔ بہت ہی نیک، شریف النفس، ثقہ، وضع دار بزرگ تھے۔ میرے نانا ابا، ٹیپو قاسم خان، سوتی کپڑے کی گول ٹوپی، سفید کرتہ اور سفید دھوتی یا پاجامہ میں ملبوس، سفید براق داڑھی، نورانی چہرہ، جو رنگ کی صباحت سے زیادہ ایک باطنی نور کا آئینہ دار ہے۔ یوں لگتے ہیں جیسے تاجکستان، روسی ترکستان اور ازبکستان کی تصویروں میں سے باہر نکل آئے ہوں۔ کہتے ہیں کہ جوانی میں وہ بڑے جامہ زیب تھے۔ "ولایتی کپڑے" پہنتے تھے، پھر خلافت کی تحریک میں انہوں نے مستعدی سے حصہ لیا تھا اور اپنے سارے "ولایتی کپڑے" نذر آتش کردئے تھے۔ اس وقت سے وہ یہی سادہ لباس زیب تن کئے رکھتے ہیں۔ بڑے ثقہ وضع دار بزرگ ہیں۔ ناناجان جوانی ہی میں اہل حدیث فرقہ میں شامل ہو گئے تھے۔ لہٰذا پیورٹن قسم کے عقائد رکھتے تھے۔ ہم سب کی زندگی بھی سخت پیورٹن نوعیت کی تھی۔ فاتحہ، نیاز کوئی رسم و ریت روا نہیں رکھی جاتی تھی۔ ہم سب ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ قرآن کی باقاعدہ تلاوت اور صوم و صلواۃ کے پابند تھے۔ فروعی مسئلوں کے پیچیدہ باریکیوں میں گئے بغیر ہم نے مذہب اسلام کی سادہ پاکیزگی کو اپنایا تھا۔
خواہ کوئی مذہبی پابندی ہو یا روزمرہ کے معمولات میں پابندی یا اخلاقی حدیں۔۔۔۔ ہمیں یہ بالکل احساس نہ ہوتا تھا کہ ہم پر کوئی دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ ہم بخوشی اس راستہ پر چل رہے تھے اور نانا ابا کی تعلیمات اور نصیحتوں کو سر آنکھوں پر رکھتے تھے۔ شرافت اور سادگی کی زندگی بسر کرنا کبھی جھوٹ نہ بولنا دوسروں کی دل آزادی نہ کرنا، کسی کی برائی اور غیبت نہ کرنا، امارت اور شہرت یا کسی بھی بات پر غرور نہ کرنا یہ سارے اصول جو اسلامی اصول تھے غیر محسوس طور پر ہماری زندگی کے معمول میں شامل ہو گئے تھے۔ اب مجھے احساس ہوتا ہے۔ سچ بولنا، حتی کہ اپنے آپ سے سچ بولنا کتنا مشکل مرحلہ ہے لیکن ان دنوں واقعی ہم جھوٹ نہیں بولا کرتے تھے۔ ٹیپو قاسم خان کی نواسی اور جھوٹ بولے نہ ناممکن سی بات تھی۔ ہم تینوں بہنیں کبھی خلوت میں بھی کوئی بیہودہ ***باتیں نہ کرتی تھیں، عجب سادہ اور پاکیزہ زندگی تھی، اس وقت نیکی اور بدی کا میرے پاس سفید و سیاہ کا تصور تھا۔ کوئی درمیانی رنگ نہیں تھا اور نیکی اور پرہیزگاری کی زندہ مثال میرے لئے نانا ابا تھے۔
میرے اس دور معصومیت میں جب میری زندگی سادہ اور پاکیزہ تھی، مجھے چند ایسے تجربات پیش آئے اور میں نے ایسے وژن خواب کی صورت میں دیکھے ہیں جن کی نوعیت MYSTIC قسم کی ہے۔ میں ان دنوں اکثر سچے خواب دیکھا کرتی تھی۔ میری امی کی ایک پھوپھی تھیں، عائشہ خانم جنہیں ہم بھی عاشو پھوپھی بلایا کرتے تھے۔ وہ اکثر ہمیں ایسی باتیں بتایا کرتی تھیں کہ جب خدا کے کسی نیک بندے کو موت آتی ہے تو موت کا فرشتہ نہایت حسین شکل میں اپنے دائیں پنکھ پر جنت لئے آتا ہے اور جب وہ کوئی بد روح قبض کرنے آتا ہے تو اس کی شکل نہایت ڈراؤنی ہوتی ہے اور اس کے بائیں پنکھ پر دہکتی دوزخ ہوتی ہے۔ وہ ہمیں قیامت کے آثار اور روز حشر کے قصے بھی سنایا کرتیں۔ کچھ ان کی باتیں ذہن میں رہ گئی تھیں اور قرآن شریف کے وہ حصے پڑھ کر جن میں قیامت کا ذکر ہے، میں مسلسل کئی دن قیامت کے MIGHTMARISH خواب دیکھتی رہی کہ سورج سوا نیزے پر ہے، چاند اور سورج کا نور ماند پڑ گیا ہے، آسمان پگھلے ہوئے تابنے کا سا ہوگیا ہے۔ سورۃ القیامت، سورۃ المعارج، سورۃ تکویر اور انفطار وغیرہ کے سارے مناظر سامنے ہیں خوف کی کپکپی طاری ہے اور میں سجدہ ریز ہوگئی ہوں۔ عجب خدا ترسی کا عالم تھا۔ پھر اچانک یہ سب کچھ نظروں سے غائب ہوگیا اور ہر طرف نور ہی نور چھا گیا۔ مجھے احساس ہوا یہ نور الٰہی ہے جو خیرہ کن ہونے کے باوجود انتہائی طمانیت بخش ہے۔ پھر برسوں بعد آج سے تین سال پہلے جب حقیقت میں میں نے موت کو اپنے بہت قریب محسوس کیا تھا مجھے اس طمانیت بخش نور کی، اس نفس مطمئنہ کی جستجو تھی (اس کیفیت کو میں نے اپنے افسانہ "کفارہ" میں بیان کیا ہے۔)
انہیں دنوں میں نے ایک اور خواب میں آنحضرت صلعم کو دیکھا کالی کملی والے بزرگ میرے قریب آئے، انہوں نے مجھے بتایا وہ رسول اللہ صلعم ہیں۔ گیسوئے دراز، نورانی چہرے کا وہ جمال کہ دیکھنے کی تاب نہ تھی۔ دست مبارک میرے سر پر رکھا اور مجھے دعائیں دیں کہا کہ میں بہت اچھی لڑکی ہوں اور تاکید کی کہ آئندہ بھی اسی راہ پر قائم رہنا۔ رسولؐ کا دیدار اس وقت ہوا تھا جب میری زندگی واقعی سادہ اور معصوم تھی۔ اب کسی شدید کشمکش کے موقع پر اس دست مقدس کے لمس کو یاد کرتی ہوں اور گھبرا کر سوچتی ہوں کہ کیا اب بھی مجھ میں وہ اچھائی ہے؟ اور کوئی خاطر خواہ تسکین بخش جواب نہیں پاتی۔
نہیں معلوم میرے تخیل کی شدت اور ارتکاز سے یہ ظہور ہوا تھا یا خداوند تعالیٰ کا کرم تھا کہ میں نے یہ وژن دیکھے اور روحانی (ELATION) محسوس کیا۔ عقیدہ راسخ تھا۔ شکوک و شبہات دل میں جگہ نہ پاتے تھے۔ میں سادگی سے ہر بات پر ایمان لے آتی تھی اب میں خود اپنے بچوں کے "استہفامیہ دماغ" دیکھتی ہوں اور ان کو اس کم سنی میں، ایمان و عقل، جبر و اختیار، تقدیر و تدبیر کے سے مسئلوں پر خاصے انٹلکچوئیل انداز میں بحث کرتے سنتی ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔
یہ میری نوجوانی کا وہ دور تھا جب میری زندگی محفوظ (SHELTERED) تھی۔ میں نے زندگی کی پچیدگیاں نہیں دیکھی تھیں دنیا کی ترغیبوں اور برائیوں کا سامنا نہیں کیا تھا۔ اب میرے لئے نیکی اور بدی کا سیاہ اور سفید کا تصور کئی رنگوں میں بٹ گیا ہے۔ اب باہر کی دنیا دیکھ کر اور مختلف ملکوں اور تہذیبوں کے درمیان رہ کر یہ محسوس کیا ہے کہ مختلف قوموں کی اخلاقی قدریں جدا ہیں۔ ان کی حد بندیاں الگ ہیں۔ ادب کے وسیع مطالعے نے یہ سمجھایا ہے کہ انسانی فطرت بہت پیچیدہ ہے۔ نیکی اور بدی کا مرکب اور جن لوگوں میں بعض برائیاں ہیں وہ دوسری حیثیت سے اچھے بھی ہو سکتے ہیں۔
گراہم گرین نے کہا ہے:
It is easy to sympathise with the unjustly condemned, the difficult thing is to sympathise with the justly condemned
شاید یہ سمجھ، یہ وسیع المشربی اور رواداری کا جذبہ مجھ میں پیدا ہو گیا ہے۔ میرے شوہر شاہین کہتے ہیں کہ "نیکی اور بدی کے اس مرکب تصور کو اور اس 'رواداری' کے جذبہ کو تم ادب کی حد تک ہی محدود رکھو ورنہ زندگی کے لئے اور خصوصیت سے اپنی ذاتی زندگی کے لئے تمہارے ناناابا کی دی ہوئی تربیت اور ان کی قائم کی ہوئی حدیں ہی ٹھیک ہیں۔" شاہین خود بھی بہت پڑھے لکھے ماڈرن اور آزاد ہونے کے باوجود ثقہ پیورٹن اصولوں کے پابند ہیں۔ نماز روزے کے خواہ وہ پابند نہ ہوں انہوں نے بھی ایک پاکیزہ زندگی بسر کی ہے۔

نانا ابا کی تعلیمات تو اسلام کی تعلیمات ہی تھیں پھر ان سے کسے روگردانی کی جاسکتی تھی؟ اپنے زمانے کے اعتبار سے وہ روشن خیال بزرگ تھے۔ شادی بیاہ کے معاملوں میں انہوں نے لڑکیوں کی اپنی مرضی کا خاص خیال رکھا۔ وہ لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے حامی تھے۔ ہم سب بہن بھائیوں کو انہوں نے گریجویٹ ہونے تک کالجوں میں تعلیم دلوائی بلکہ میرے چھوٹے بہن بھائیوں کو ابتدائی تعلیم کے لئے کونونٹ میں داخل کروایا۔ جب میری باری تھی تو انہوں نے کہہ دیا تھا:
“جس عمر میں کونونٹ کی لڑکیاں میٹرک یا سینیئر کیمرج کرتی ہیں، ہماری تاج بیٹا تو اس عمر میں بی اے کر لے گی۔"
اور ہوا بالکل یہی اور ان کی بات صحیح ثابت ہوئی۔ چنانچہ مجھے ابتدائی تعلیم کے لئے کسی کونونٹ یا سکول میں داخل نہیں کرایا گیا۔ گھر پر امی پھر ابا جان نے تعلیم دی اور ایک بڑی جماعت میں ایک نیم انگریزی اسکول میں داخل کرایا گیا وہاں سے ڈبل پروموشنز لے کر میں بہت جلد مہارانی ہائی اسکول آ گئی۔ پھر وہاں سے مہارانی کالج۔ مہارانی ہائی اسکول اور مہارانی کالج لڑکیوں کے لئے بہترین تعلیمی ادارے تسلیم کئے جاتے تھے۔ میسور یونیورسٹی کا معیار تعلیم بہت اونچا تھا اور اتنا سخت گیر کہ وہاں انٹرمیڈیٹ اور بی اے میں برسوں میں کوئی ایک فسٹ کلاس نکل آتا تھا۔ وہاں کا سیکنڈ ڈویژن ہی فسٹ ڈویژن کے برابر سمجھا جاتا تھا اور پھر کسی نے ریاست بھر میں کوئی رینک (درجہ) بھی حاصل کرلیا تو سمجھو ذہانت کی سند مل گئی۔ بی۔اے کرنے کے بعد میسور یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کا میرے لئے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ یونیورسٹی میں مخلوط تعلیم تھی، جس کے نانا ابا سخت مخالف تھے۔
نانا ابا کی تعلیمات تو اسلام کی تعلیمات ہی تھیں پھر ان سے روگردانی کیسے کی جا سکتی تھی؟ ہم پر کسی دباؤ کا احساس نہ تھا اور نہ ہم میں بغاوت کا جذبہ پیدا ہوا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ عنفوان بلوغیت کی اس قید و بند نے میرے سائیکے "PSYCHE" پر اثر ڈالا ہو اور میری شخصیت اس طرح نہ ابھر سکی ہو جس طرح کے ایک آزاد فضا میں اس کے ابھرنے کا امکان تھا۔ تاہم مجھے اس وقت یہ مطلق احساس نہ ہوا تھا کہ یہ قید و بند میرے لئے مضر ہے اور نہ کسی قسم کی گھٹن اور فرسٹریشن کا احساس تھا (آزاد زندگی میں اور طرح کے فرسٹریشن اور جذباتی پچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں) شاید ا س کی وجہ یہ ہو کہ ہمارے گھر کا ماحول خوشگوار تھا۔ میرا ہائی اسکول اور کالج کا کیرئیر بہت اچھا رہا۔ عزیز سہیلیوں کے درمیان کالج کی زندگی (STIMULATING) اور فرحت انگیز تھی۔ پردے کی پابندی بھی پابندی معلوم نہ ہوتی تھی کیونکہ میسور اور بنگلور میں پردے کا رواج عام تھا (یہاں عورتیں اور لڑکیاں برقعے نہیں پہنتی تھیں۔۔۔ تانگوں پر پردے اور کاروں میں بلائنڈز لگتے تھے) اور سبھی معزز گھرانوں کی تعلیم یافتہ لڑکیاں پردہ کرتی تھیں۔
نانا جان کا یہ رویہ درست ہی تھا کہ کم از کم بیاہ ہونے تک لڑکیوں کو ایک حد میں رکھاجائے۔ اس کے بعد ان کے شوہروں کی مرضی پر منحصر ہے جس قدر چاہیں آزادی دیں۔ اب نانا جان میری بے پردگی کا برا نہیں مانتے اور نہ ہی انہیں میرے افسانوں اور مضامین پر کوئی اعتراض ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اب وہ بھی وسیع المشرب ہوگئے ہیں یوں بھی اپنے زمانے کے اعتبار سے وہ روشن خیال بزرگ تھے۔ چنانچہ جب میں نے مہارانی کالج بنگلور سے بی۔اے کر لیا تو پھر کئی سال بعد میں نے کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم۔اے کیا۔
کالج کی زندگی کا دور زندگی کا بہترین دور ہوا کرتا ہے۔ میری زندگی میں اور بھی پر رونق اور مسرتوں سے معمور دور آئے ہیں لیکن اس زمانے کی اور نوخیزی کی سادہ مسرتوں کی بات ہی اور تھی۔ میں کالج میں پروفیسرز اور لیکچرر کی "فیوریٹ" تھی۔ ہمارا کالج سٹاف ان دنوں بہت اچھا تھا (اب وہ بات نہیں رہی) پروفیسرز اور لیکچرر مرد اور عورتیں سب آکسفورڈ، کیمبرج، لندن، جرمنی کے پڑھے ہوئے علمی قابلیت رکھتے تھے۔ میں لڑکیوں میں بھی ہر دلعزیز تھی (یہ بات میرے حق میں اچھی ثابت نہ ہوئی کہ میں گھر پر بھی سب کی چہیتی لاڈلی تھی بچپن ہی سے "CHILD PRODIGY" سمجھی جاتی تھی اور سکول کالج میں بھی تحسین کی نظر سے دیکھی جاتی تھی۔ چنانچہ مجھ میں نارسییت اور خود پسندی پیدا ہوگئی) میری بڑی اچھی سہیلیاں تھیں، معزز گھرانوں کی مسلمان ہندو اور عیسائی لڑکیاں بہترین اور گہری دوستیاں اسی زمانے میں ہوا کرتی تھیں۔
میری بہترین اور سب سے عزیز دوست ("انگڑائی" کی زرینہ اور "آئینہ" کی زینی) مرزا مہرین غازی تھیں۔ ایرانی نژاد تھیں اور سر مرزا اسماعیل کی رشتہ کی بھانجی لگتی تھیں (آج کل وہ اپنے میاں کے ساتھ تہران میں رہتی ہیں) وہ مجھ سے اکثر کہا کرتیں۔
ممتاز تم کالج کی سب سے ذہین لڑکی ہو اور تمہارے نانا جان ہیں کہ ایسی لڑکی کو سات پردوں میں چھپا رکھا ہے اس کے باوجود شہر بھر میں تمہارا شہرہ ہے۔ تمہارے نانا جان نے تمہیں اس قدر قید و بند میں نہ رکھا ہوتا تو نہ جانے تم کیسے چمکتیں، تمہاری پرسنلٹی کیسے ابھرتی۔ ان دنوں بھی جب میں بنگلور کے مہارانی کالج سے بی۔اے کررہی تھی اور ہوسٹل میں مجھے آزادی میسر تھی میں نے کوئی ایسی بات نہ کی تھی جو میرے نانا ابا کو ناگوار گزرتی گو وہ بنگلور میں موجود نہ تھے لیکن غائبانہ طور پر ان کی موجودگی کا احساس چھایا رہتا تھا۔
صرف ایک مرتبہ انہوں نے کہا تھا "تاج بیٹا (وہ میرے پیدائشی نام ممتاز محل کی مناسبت سے مجھے پیار سے تاج بلایا کرتے تھے یا جنوبی ہند کے دستور کے مطابق تاجماں) اللہ تعالیٰ نے تمہارے قلم کو اظہار کی قوت بخشی ہے اسے اصلاحی کاموں کے لئے وقف کرو۔ انسانوں اور تنقید پر اسے کیوں ضائع کرتی ہو؟" میں نے جواب دیا "نانا جان ادب بھی اصلاح کا ایک ذریعہ ہے اس کا اثر غیر محسوس طور پر زیادہ گہرا اور دیر پا ہوتا ہے۔" یہ جواب سن کر وہ خاموش ہوگئے۔ اب سے تین سال پہلے جب ہم بنکاک سے واپسی پر میسور گئے تھے۔ نانا ابا خود افسانوی انداز میں اپنی سوانح لکھ رہے تھے۔
انہیں میرے شوہر سے کوئی شکایت نہیں تھی اگر شکایت تھی تو بس اتنی کہ وہ مجھے نہ صرف پاکستان لے گئے بلکہ دنیا جہاں میں جانے کہاں، کہاں لیے گھوم رہے ہیں۔ دس دس سال تک "بچی" کی صورت دیکھنی نصیب نہیں ہوتی۔ بے چارے نانا ابا، انہوں نے کتنی محنت سے ہمیں پالا پوسا، ہم سے کتنی محبت کی۔ ان کی اس بے اندازہ محبت کا جواب میرے پاس کیا ہے؟ لیکن وہ اب بھی میرے لئے دنیا بھر میں دو چار محبوب ترین ہستیوں میں سے ہیں اور اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ عزیز ہیں اور آج تک ان کی شخصیت کا اثر میری زندگی پر چھایا ہوا ہے۔
نانا ابا کی ثقاہت، پاکیزگی اور پرہیزگاری، ابا جان کی وسیع المشربی لبرل خیالات، آزاد اور بے فکر زندگی، عیش کوشی اور آرام طلبی، امی کی سادگی، معصومیت، دنیا سے بے پروائی اور نا تجربہ کاری، صبر و قناعت اور گوشہ نشینی اور نانی اماں کا خلق، ملنساری، ہر دلعزیزی خو ش ذوقی اور نفاست یہ سب متضاد اثرات اور خصوصیات غیر محسوس طور پر میرے کردار اور شخصیت میں گھلے ہوئے ہیں لیکن یوں کہا جا سکتا ہے کہ میری ابتدائی نصف زندگی پر نانا ابا کا اور بقیہ نصف (نصف سے کچھ زیادہ) زندگی پر میرے شوہر صمد شاہین کا اثر سب سے غالب رہا ہے۔

بی اے ہونے تک میرے سترہ سال پورے ہوئے تھے اور نانا جان کے خیال میں شادی کے لیے یہ بالکل مناسب عمر تھی چنانچہ اسی عمر میں اسی سال 23 اگست 1942ء کو میری شادی صمد شاہین سے ہو گئی۔ میرا بیاہ بغیر کسی رسم و ریت کے نہایت سادہ انداز میں ہوا۔ نانا ابا سادگی پسند تھے رسومات کے قائل نہ تھے اور جو نانا ابا کی رائے تھی، وہی ابا، امی کی بھی رائے تھی نہ مجھے مایوں بٹھایا گیا نہ مہندی کی رسم ہوئی نہ جنوبی ہند کے دستور کے مطابق "شکرانے" کی رسم۔ حتیٰ کہ آرسی مصحف کی رسم بھی ادا نہیں کی گئی۔
میری شادی گویا مشرق کی "طے ہوئی" اور مغرب کی "محبت کی شادی" کے بین بین درمیانی نوعیت کی تھی۔ یعنی دونوں گھر والے بھی رضامند تھے اور ہم دونوں کی اپنی مرضی اور پسند بھی تھی اور میں نے ایک خالص مشرقی لڑکی کی طرح اپنے ہونے والے شوہر سے محبت کی تھی۔ ہمارے ٹھیٹ مشرقی گھرانے میں مغربی انداز کی "کورٹ شپ" کا کوئی دخل نہ تھا لیکن نانا ابا نے اس بات کی اجازت دے دی تھی کہ ہم دونوں۔۔۔۔ یعنی شاہین اور میں کسی "شاپرون" کی موجودگی میں ایک دوسرے سے مل سکتے ہیں۔
صمد شاہین کی عمر اس وقت 25، 26 سال کی تھی۔ سجیلے، جامہ زیب اور وجیہہ نوجوان تھے، طرحدار شخصیت کے مالک (اور اب بیس اکیس سال بعد بھی ان میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی ہے اور نہ اس طویل قربت نے میرے پہلے تاثر کو ڈزالوژن میں تبدیل کیا ہے) وہ ابھی طالب علم تھے پونا اور بمبئی میں ایم۔اے۔ایل۔ایل۔بی کے لیے ٹرمز ڈال رہے تھے۔ ابھی شادی کا ارادہ نہ تھا لیکن جب وہ چھٹیوں میں گھرآئے تو ان کے چھوٹے بھائی صادق سہیل نے انہیں رضامند کر لیا۔ شاہین اپنے چھوٹے بھائی سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ یہ دو بھائی جو چودہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں گویا ایک جان دو قالب ہیں۔ صادق سہیل سب سے چھوٹے ہونے کے باوجود بہت سنجیدہ، ذمہ دار، دور اندیش اور دانشمند ہیں اور خاندان اور گھر کے سارے معاملوں میں انہیں کا دخل ہے۔ چنانچہ وہی میرے لئے پیام لے آئے تھے اور سارے انتظامات اور امور انہوں نے طے کئے تھے۔
جب نانا ابا نے منظوری دے دی، اس رشتہ کو منظور کر لیا اور بات پکی ہو گئی تو انہوں نے مجھے بلا کر کہا "تاج بیٹی تمہارے لیے یہ انتخاب بہت موزوں رہے گا۔ تم دونوں کا جوڑا بہت اچھا ہے۔ تم لکھنے پڑھنے کی شوقین ہو اور صمد بھی تمہارے ہم ذوق ہیں۔ بات طے کرنے سے پہلے میں نے تمہارا ارادہ بھی معلوم کرلیا تھا۔ تمہاری امی اور بہنوں کے ذریعے مجھے علم ہوگیا تھا کہ تم بھی صمد کو بہت پسند کرتی ہو۔ بیٹی ان کی دو باتوں سے میں خاص طور پر متاثر ہوا ہوں ایک تو یہ کہ تمہارے منگیتر نے صاف انکار کر دیا کہ ہماری جانب سے کوئی جہیز، روپیہ حتی کہ زیور بھی نہ دیا جائے۔ آج کل کے نوجوانوں میں یہ بات کہاں ہوتی ہے؟ گو ان کے پاس بھی خدا کا دیا سب کچھ ہے وہ ریاست میسور کے متمول ترین کافی پلانٹرز خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے اپنے خاص کافی اسٹیٹ ہیں لیکن ان کے کافی کے باغات سے زیادہ مجھے ان کی لائبریری نے متاثر کیا ہے۔ جس لڑکے نے اس عمر میں اتنی بڑی لائبریری جمع کررکھی ہو، کتابوں کے انتخاب میں جس کا ذوق اتنا اچھا ہو اور اپنی نوجوانی میں لہو لعب اور فضولیات میں پڑے بغیر، جس نے پڑھنے لکھنے کو اوڑھنا بچھونا بنایا ہو، ایسا سنجیدہ طبیعت سکالر ٹائپ نوجوان ہی تمہارے لئے بہترین رفیق حیات ثابت ہو سکتا ہے اور تم جیسی ذہین لکھنے پڑھنے کی شوقین لڑکی کے لیے اس گھر میں بہت اچھا ماحول ملے گا۔"
میں حیران رہ گئی کہ نانا ابا اتنے کھلے طور پر مجھ سے میرے ہونے والے شوہر کے بارے میں باتیں کررہے تھے اور میرا رشتہ طے کرنے میں انہوں نے ان سب باتوں کا اور میری اپنی پسند کا خیال رکھا تھا۔ بزرگوں کی طے کی ہوئی شادیوں کو دقیانوسی سمجھاجاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے بزرگ اپنے بچوں کی آئندہ زندگی کی بہتری کا ہر طرح لحاظ رکھ کر یہ طے کرتے ہیں۔ طرفین کی خاندانی شرافت حسب نسب، سماجی حیثیت، مادی خوشحالی، لڑکے لڑکی کی تعلیم، کردار کی درستی، یہ سب باتیں ان کے پیش نظر ہوتی ہیں (یوں دیکھا جائے تو مغرب کی شادیاں بھی اس اعتبار سے طے کی ہوئی ہوتی ہیں کہ ان سب باتوں کا لحاظ رکھ کے لڑکے لڑکیوں کو آپس میں ملنے دیاجاتا ہے۔)
شاہین حقیقتاً میرے لیے بہت اچھے شوہر اور موزوں رفیق حیات ثابت ہوئے اور ان کے گھر میں بھی مجھے بہت اچھا ماحول ملا اتنا اچھا کہ مجھے اپنا "نے ہر" جو صحیح معنوں میں "نے ہر" تھا چھوٹنے کا غم نہ رہا۔ یہ بھی بھرا پرا پر رونق گھر تھا۔ میرے دیور صادق سہیل ہمارے ساتھ ہی رہتے تھے اور شاہین کے والد ( قاضی عبدالکریم) بھی بہت ضعیف ہوچکے تھے (شاہین کی امی اپنے چہیتے بیٹے کے سہرے کا ارمان دل میں لیے ہی اس دنیا سے سدھار گئی تھیں۔) ان کے علاوہ جیٹھوں، نندوں کے بیٹے بیٹیاں تھیں جو میسور، پھر بنگلور میں ہائی اسکول اور کالجوں میں تعلیم پا رہی تھیں۔ نو عمر لڑکے لڑکیوں کی موجودگی سے گھر میں بڑی رونق رہا کرتی تھی۔ شاہین کی بھانجیاں، بھتیجے سب مجھ سے دو چار سال چھوٹے تھے اور آپس میں ہم سب دوستوں بلکہ بھائی بہنوں کی طرح رہا کرتے تھے (کبھی کبھی چھوٹی چھوٹی رنجشیں پیدا ہوتی تھیں تو بہت جلد دور ہو جایا کرتی تھیں) مجھے یوں محسوس ہوتا تھا میکے میں میں اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کو چھوڑ آئی ہوں تو ان کے بدل یہاں بھی مجھے چھوٹے بھائی بہنیں مل گئی ہیں۔
شاہین کے خاندان میں یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی لڑکی باہر سے بیاہ کر لایا تھا۔ ان کے یہاں آپس میں ہی شادیاں ہوا کرتی تھیں اور دوسرے سب بھائی عم زاد، خالہ زاد بہنوں سے بیاہے گئے تھے۔ خاندان بھر میں اس کا خوب چرچا ہوا کہ شاہین شہر سے ایک گریجوایٹ پڑھی لکھی لڑکی بیاہ کر لائے ہیں لیکن اس کا کسی نے برا نہیں مانا اور سسرال میں جہاں کہیں بھی گئے بڑی گرمجوشی اور محبت سے میرا استقبال کیا گیا۔
شادی کے ڈیڑھ ایک مہینے بعد شاہین مجھے باری باری اپنی بہنوں اور بھائیوں کے کافی ایسٹیٹز (ESTATES) پر لے گئے پھر اپنے ایسٹیٹز پر لے گئے۔ ہم دونوں یہ چاہتے تھے کہ شادی کے ابتدائی مہینے شہر سے دور ایک پر سکون، پر فضا مقام میں گزاریں اور واقعتاً یہ نہایت پر فضا مقام تھا۔ ویسٹرن گھائز میں کوئی پانچ چھ ہزار فیٹ کی بلندی پر یہ کافی کے باغات واقع تھے۔ ان باغات کو گھیرے ہوئے پہاڑیاں تھیں اور جنگل اور ہمارے ایسٹیٹز کے عین درمیان شارولی ندی بہتی تھی۔
کافی کے باغات کے علاوہ سنترے اور کیلے کے باغ تھے، کٹھل، آم اور امرود کے درخت، انناس اور دوسرے پھلوں کے آرچرڈ چھوٹی الائچی اور کالی مرچ بھی خوب ہوتی تھی جو بڑی قیمت پر بکتی تھی اور دنیا کی بہترین کافی "پی بیری" ہمارے ایسٹیٹز پر ہوتی تھی۔
مشرقی بنگال میں سلہٹ کے چاء کے باغات کی طرح، جنوبی ہند کے کافی کے باغات بھی پہاڑوں کی ڈھلانوں پر ہوتے تھے۔ سیکڑوں ایکڑ پر پھیلے ہوئے باغات میں کافی کے پھول لگتے تھے تو یوں معلوم ہوتا تھا جیسے چیری بلوزم کا موسم ہو۔ پھر کافی کے پودے سرخ سرخ پھلوں کے گچھوں سے لد جاتے تھے۔ پکے سرخ پھلوں کو توڑ کر کھلیانوں میں سکھایا جاتا تھا یہ سب کچھ مجھے بڑا رومانی لگتا تھا۔ نوخیز عمر اور شادی کے ابتدائی مہینے، ہر بات میں رومانیت ہی رومانیت نظر آتی تھی۔
لیکن یہاں آن کر مجھے مختلف نوعیت کا تجربہ ہوا۔ یہاں میں نے مزدور طبقے کو قریب سے دیکھا یہاں مجھے پہلی مرتبہ براہ راست مزدور طبقے سے واسطہ پڑا۔ اس وقت ترقی پسند ادب کا دور دورہ تھا اور میں نہ صرف اردو کے ترقی پسند ادیبوں کو پڑھا کرتی تھی بلکہ مغربی ادب میں بھی خاص طور پر 1930ء کے ادیبوں کو اور ان تحریروں کو پڑھا کرتی تھی جو نچلے طبقے اور مزدور طبقے سے متعلق تھیں۔ ان کے زیر اثر مجھ میں آسودہ طبقے سے ہونے پر احساس انفعالیت سا پیدا ہوگیا تھا اور اس طبقے سے میں نے جو ہمدردی محسوس کی تھی وہ پر خلوص ہونے کے باوجود (QAIVE) قسم کی تھی۔ اس طبقے سے مجھے اب تک اتنا ہی واسطہ رہا تھا کہ گھر کے نوکروں کی مصیبت بھری داستانیں ہمدردی سے سنیں۔ کہیں بر سر راہے شہر کے مزدوروں کو کام کرتے دیکھ کر اپنے آپ پر رقت طاری کر لی اور یہاں میں نے اپنے ایسٹیٹز پر سینکڑوں مزدوروں کو کافی کے باغات میں اور کسانوں کو اپنے کھیتوں میں کام کرتے دیکھا تو یہ احساس انفعالیت اور گہرا ہو گیا اور یہ اچانک ہوا کہ ہم "دوسرے کیمپ" میں ہیں یعنی خود سرمایہ دار ہیں۔ مزدور عورتیں مجھے "ایسٹیٹ کی رانی" کہا کرتی تھیں تو عجب سی ندامت محسوس ہوتی تھی لیکن ایک بات سے اطمینان تھا کہ ہمارے ہاں ان مزدوروں، کسانوں کی حالت دوسری جگہوں سے بہت بہتر تھی۔ انہیں مزدوری مناسب دی جاتی تھی۔ ان کے لیے پکے، ہوادار مکانات بنوائے گئے تھے دوائیاں مفت تقسیم کی جاتی تھیں ان کی فریادیں سنی جاتی تھیں، ان کے آپس کے جھگڑے چکائے جاتے تھے۔
یہ مزدور سرحد مالابار کے گھاٹی مزدور تھے جو بنگلور سے لائے جاتے تھے۔ ان کی جنسی زندگی آزاد تھی اور آئے دن شکایتیں آتی رہتی تھیں کہ فلاں کی بیٹی کو کوئی اڑا لے گیا۔ فلاں کی بیوی شوہر بچوں کو چھوڑ کر فلاں کے ساتھ رہنے لگی ہے۔ کھلیانوں کے پاس ہمارے ایسٹیٹز پر کام کرنے والے مزدوروں کی ایک پوری کی پوری بستی آباد تھی ان کے تہوار ہوتے تھے تو گہری رات میں مزدور بستی سے گانے بجانے کی آوازیں گونجتی تھیں۔ بڑے بڑے الاؤ جلتے تھے اور ان کے گرد لوک ناچ ہوتے تھے۔ سارا ماحول اور پس منظر اتنا EXOTIC تھا کہ اس پر ایک کتاب ہی لکھی جاسکتی تھی۔ ان دنوں میں نے ملک راج آنند کی کتاب "TWO LEAVES AND A BUD" پڑھی تھی جو چائے کے باغات کے پس منظر میں لکھی گئی تھی اور کافی کے باغات کے پس منظر میں ایک ناولٹ لکھنے کا مجھے بھی خیال آیا ہوا تھا لیکن ہم زیادہ دیر یہاں نہ رہے اور بعد میں بھی ہم شاذ ہی اپنے ایسٹیٹز جاتے تھے سارے انتظامات ایک منیجر کے سپرد تھے اور اپنے ایسٹیٹز کے ساتھ ہمارے ایسٹیٹز کی دیکھ بھال بھی شاہین کے چھوٹے بھائی صادق سہیل کیا کرتے تھے اور ہم شہر ہی میں رہتے تھے۔
یہاں تین چار ماہ رہ کر ہم میسور واپس ہوئے تو شاہین ہائی کورٹ میں ایڈوکیٹ ہو گئے لیکن ان کی پریکٹس برائے نام تھی اور کورٹ کے کیسوں کے مطالعہ میں ان کا جی بالکل نہ لگتا تھا۔ ہماری لائبریری ایسٹیٹز پر تھی اور یہاں ہم چن چن کر بہترین کتابیں ساتھ لے آئے تھے اور بس کتابیں تھیں اور ہم تھے۔ دن رات مطالعہ اور ادبی بحث میں گزرتے پھر ہم نے وہ سکیم بنائی جس کی ہم دونوں کو دیرینہ آرزو تھی یعنی ایک معیاری ادبی رسالہ نکالنے کی سکیم۔ شہر میسور میں رسالے کے اجراء کے لیے زیادہ سہولتیں نہ تھیں لہذا ہم بنگلور منتقل ہوگئے اور 1944ء میں شادی کے سال بھر بعد ہم نے بنگلور سے "نیا دور" (اور ایک انگریزی ہفتہ وار "میسورین") نکالا بہت جلد شمالی ہند کے اچھے اچھے ادیبوں کا تعاون ہمیں حاصل ہو گیا اور آن کی آن میں "نیا دور" کو جو کتابی صورت میں اردو کا پہلا رسالہ تھا وہ ترقی حاصل ہوئی کہ اس کا شمار ہندوستان بھر کے دو ایک سب سے معیاری ادبی رسالوں میں ہونے لگا۔
"نیا دور" کو ہم نے نہایت محبت اور محنت سے پروان چڑھایا "نیا دور" کے اجراء کے چند مہینوں بعد ہمارے ہاں بچہ پیدا ہوا لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے "نیا دور" بھی اپنا بچہ ہے اب مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ شاید میں نے اپنے دو بچوں سے زیادہ "نیا دور" پر توجہ دی تھی اور بچے میری ماں، بہنوں، بھتیجے اور بھانجیوں میں ہاتھوں ہاتھ پل گئے تھے میں ابھی کمسن تھی، بیس سال کے اندر دو بچوں کی ماں بن گئی تھی اور مجھ میں بچوں کی تخلیق سے اپنی زندگی اور شخصیت کی تکمیل کا شعور ابھی پوری طرح بیدار نہ ہوا تھا لیکن شوہر، دو منے بچوں اور "نیا دور" کے ساتھ میری ننھی سی دنیا مکمل تھی۔
شادی کے بعد چار سال میسور اور بنگلور میں بڑے اطمینان اور سکون سے گزرے تھے کہ 47ء کے فسادات کی آگ بھڑک اٹھی۔ اس آگ کے شعلوں نے ریاست میسور کو صرف چھوا ہی تھا۔ یہاں بظاہر امن و امان تھا بہت کم وارداتیں ہوئی تھیں۔ ہمارے محلے بسون گڑھی میں جو خالص مسلمانوں کا محلہ تھا یہ خبر پھیلی تھی کہ پاس کے مندر سے سر شام سنکھ بجنے کی آواز آتی ہے اور دوسرے محلوں کے ہندو یہاں جمع ہوتے ہیں اور اس مسلمان محلے پر حملہ کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ ایک خوف و ہراس کی کیفیت پیہم چھائی رہتی تھی۔ تاہم فسادات کی آگ کے بھڑکنے کا یہاں امکان کم ہی تھا۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد ہم نے پاکستان جانے کا ارادہ کرلیا تو اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ ہم خطرے میں گھرے ہوئے تھے یہ ہماری دیرینہ آرزو تھی اور عرصے سے یہ عقیدہ ہمارے دل میں جاگزیں تھا کہ مسلمانوں کا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہے۔ ہمارے رشتہ داروں میں سے کوئی بھی ہمارے ساتھ پاکستان آنے پر تیار نہ تھے۔ شاہین کے بھائیوں نے انہیں سمجھایا کہ وہ پاکستان میں ایک نئی زندگی کا آغاز کیسے کریں گے؟ زندگی گویا "صفر" سے شروع کرنی ہو گی اور بہت ممکن ہے کہ شاہین اپنی ساری آبائی جائیداد، مکانات، کافی ایسٹیٹز سب کچھ کھو بیٹھیں لیکن شاہین مصر رہے کہ آبائی جائیداد کھونے کا انہیں افسوس نہیں ہوگا اور پاکستان میں انہیں پچاس روپے کی نوکری قبول ہے۔ چنانچہ دو ہی ہفتہ بعد یعنی اگست کے آخر میں وہ پاکستان چلے گئے۔ کراچی کے سندھ مسلم مدرسہ کالج اور سندھ مدرسہ لاء کالج دونوں جگہ انگریزی ادب اور قانون کے لیکچرر ہو گئے۔ پانچ مہینے بعد 1948ء کے آغاز میں وہ واپس آ کر مجھے اور بچوں کو جو اس وقت دو تین سال کے تھے اپنے ساتھ پاکستان لے آئے۔

پاکستان آنا ہمارے لئے نقل وطن تھا یا ہجرت؟ ہم فسادات کی قیامت سے نہیں گزرے تھے اور اپنے رشتہ داروں کو اچھی حالت میں چھوڑ آئے تھے۔ بچھڑے ہوؤں کا خیال کسے نہیں آتا اور اپنے وطن کے گلی کوچے یاد نہیں آتے۔ میں میسور اور بنگلور کے لئے "نوسٹولسجیا" محسوس کرتی ہوں اور شاہین کو اگر کوئی مقام بے انتہا عزیز تھا تو وہ ان کا اپنا کافی ایسٹیٹ "بیلگوڈ" تھا۔ شاہین کی پیدائش اور ہمارے ہنی مون کا وہ پر فضا مقام، وہ جنگل، وہ باغات، وہ پہاڑیاں ندی اور جھرنے۔۔۔۔ شاہین کے بچپن اور نوجوانی کی یادیں یہیں سے وابستہ تھیں اور وہ اس مقام کے لئے "نوسٹولسجیا" محسوس کرتے ہیں۔ تاہم پاکستان آنے کے بعد ایک نئی سر زمین میں اپنی ایک نئی دنیا بسانے کا احساس اس نوسٹولسجیا پر غالب آگیا اور ہم نے اپنے آپ کو اس نئے روحانی وطن سے مکمل طور پر وابستہ کرلیا۔
لہذا ہجرت کا احساس جلاوطنی کے احساس پر منتج نہ ہوا ویسے "اجنبی" اور "جلاوطن" ہونے کا احساس موجودہ دور کے انسان کے خمیر میں ہے۔ وہ اس دنیا میں خود اپنے وطن میں بلکہ اپنے جسم کی قید میں اپنے آپ کو "اجنبی" اور "جلاوطن" کر سکتا ہے۔
پاکستان آنے کے بعد ہماری زندگی ایک مستقل سفر بن گئی ہے ایک سفر سے دوسرا سفر، مشرق سے مغرب کی طرف اور مغرب سے مشرق کی جانب لیکن پاکستان کا سفر میرے لئے سب سے بڑا سفر تھا گو مکانی فاصلہ کے اعتبار سے میں نے اس سے بڑے سفر کئے ہیں۔ کیوں کہ یہ سفر صرف جسمانی نہیں، ذہنی، جذباتی اور روحانی سفر بھی تھا۔ ایک نئی زندگی کا آغاز اور ایک نئے ملک سے اپنی ساری وفاداریوں، حب الوطنی اور جذباتی لگن کا وابستہ ہونا ایک اہم تجربہ تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف اپنا انفرادی تجربہ نہ تھا بلکہ قوم کا اجتماعی تجربہ بھی تھا۔
(نا تمام)

ماخوذ از:
ادبی مجلہ "قند" (جلد3، شمارہ:4-5، جنوری/فروری 1974ء)
(کمپوزنگ: تعمیر نیوز بیورو -- پروف ریڈنگ: فالق اصباح)

The Autobiography of Mumtaz Shireen. Article: Mumtaz Shireen

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں