سائینسی علوم کے نظریات یہ ہیں کہ انسان ہزارہا ارتقائی منازل ومراحل یا "ایوالیوشن پروسیس" سے گزر کر جانور سے "سماجی جانور" اور پھر "مہذب انسان" بنا۔ صوتی علامتوں اور جانوروں کی طرح غوں غاں سے یا "مونوسیلےبل" سے اس کے بولنے کا سفر شروع ہوا۔ یعنی انسان ابتدا میں گفتگو سے بے بہرہ اور ناآشنائے زبان و علم تھا۔ مختلف تدریجی عمل سے گزرکر اس نے بولنا، پرکھنا، سمجھنا سیکھا۔ پھر اپنے احساسات و خیالات کو اور دنیا میں موجود بے شمار اشیاء کو مختلف نام دے کر گفتگو اور اظہار خیال کا ایک وسیلہ تلاش کیا۔ سائینسی علوم کی یہ منطق دینی عقائد سے ٹکراتی ہے اوراس کی مخالفت میں دینی عقائد مضبوط دلائل رکھتے ہیں۔
دینی عقائد کے تحت خالقِ حقیقی نے انسان کو ازل سے بطور اشرف المخلوقات تخلیق کیا نہ کہ بطور کوئی جانور۔ اسے عقلِ سلیم سے نوازتے ہوئے اچّھے برے اور حق و باطل اور علم الاشیاء کی بنیادی تعلیم بھی ودیعت کی تاکہ وہ اپنے خالق کے احکامات کو آفرینیش سے سنے، سمجھے اور عمل کرے۔ ظاہر ہے ایسے اہم احکامات کو سننے، سمجھنے، عمل کرنے اور کہنے کے لئے صوتی علامتوں اور جانوروں کی طرح غوں غاں سے اطاعت لازم نہیں آتی۔ چاہے وہ تجلیاتی صحیفے ہوں یا وحی ہو یا کوئی اور پیغام رسانی اور تبلیغ کا ذریعہ ہو ہر ایک کے لئے الفاظ ضروری رہے ہیں۔ اس عقیدہ کو قبول کرنے کے لیےاورسائینسی منطق کی نفی کے لیے صرف یہی دلیل کافی ہے کہ اگر انسان ارتقائی مراحل سے گزر کر جانور یا بندر سے آج مہذب انسان بنا ہے تو عقل اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ بندر سے انسان تو انسان کے بعد کیا؟ اور بندر سے پہلے اول مرحلہ میں انسان کیا تھا اور اسکے باقی ساتھی جانور خاصکر موجودہ بندر اس ارتقائی سفر میں انسان کا ساتھ کیوں نہ دے سکے۔ بعد کے ارتقائی سفر سے دینی عقائد کو کچھ زیادہ اختلاف نہیں ہے بلکہ دینی عقائد آگے کے تہذیبی سفر کی خود ترجمانی کرتے ہیں۔ آگے تہذیبی و تمدنی مراحل سے گزر کر انسان مختلف زبانوں کوایجاد کرنے پر قادر ہوا، اظہارِ بیان و افکار کی مسلسل اور شدید خواہش نےقلم و کاغذ کی ایجاد پر اسے مجبور کیا اور پھر دنیا میں لسانی تشکیل کا وہ عظیم الشان دور شروع ہوا جس نے انسانی تہذیب و تمدن کو آگے پروان چڑھایا۔ رسم الخط کے انقلاب نے مختلف بولیوں کو زبان و ادب سے متعارف کرایا۔ انسانی شعور نے جہاں اپنے تہذیبی ارتقائی مراحل سے بہت کچھ حاصل کیا وہاں اسکی طبیعت میں یہ نقص بھی سرایت کرگیا کہ وہ ہر تغیر کو ترقی سمجھنے لگا۔
اس تمہید کا مقصد ہے کہ انسانی تہذیبی ارتقا کا زبانوں کے ساتھ جو ربط رہا اور زبانوں کے ترویج اور دوام کے لیے جن عناصر کی اہمیت ہے انھیں سمجھا جائے، اوراس حقیقت کو بھی کہ دنیا کی تمام زبانوں کا مبدا ایک ہی ہے۔ اور یہ بھی کہ زبانوں کا وجود میں آنا، رواج پانا اور ترقی کرنا نظام قدرت کی دیگر بے شمار کار گزاریوں کا ہی حصّہ ہے۔ زبان و عقل اور علم و ادب بنیادی طور سےانسانی تخلیق کا جزو لا ینفک ہیں اور یہ انسانی تہذیبی ارتقا کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے آرہے ہیں نا کہ سائینسی نظریات کے مطابق دنیا میں عدم سے وجود میں آئے ہیں۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو لسانی تشکیل اور انسانی تہذیبی ارتقا غوں غاں ہی کر رہی ہوتی۔
تیرہویں صدی عیسوی میں انسان اپنی تہذیبی ارتقاء کے اس دور میں داخل ہو چکا تھا جہاں دنیا کے مختلف حصوں میں نئی زبانیں عالمِ وجود میں آکر اپنے تدریجی عمل سے گزر رہی تھیں۔ چند زبانیں صدیاں گزر جانے کے باوجود اپنے وجود کا لوہا منوائے ہوئے تھیں جیسے عربی اور فارسی۔ چند قدیم ترین زبانیں جیسے عبرانی، سنسکرت، لاطینی، یونانی وغیرہ تہذیبی ارتقائی مراحل کا ساتھ نہ دے سکی اور مٹنے لگی یا دوسری زبانوں میں ضم ہوگئیں۔ عربی زبان جو بنیادی طور پر عبرانی زبان سے ماخوذ تھی اپنے عروج پر تھی اور مشرقِ وسطی، افریقہ، اسپین سے لے کر ایشیا تک انسانی تہذیبی ارتقاء کو اپنے اندر جذب کررہی تھی اور آگے آنے والی نسلوں کے لئے سنگ میل رکھ رہی تھی۔ اسی کے ساتھ فارسی زبان بھی اپنی ساکھ کو قائم رکھنے میں کوشاں تھی۔ مشرق بعید میں چینی زبان اور یوروپ میں فرانسیسی زبان کے ساتھ انگریزی اپنے وجود کا لوہا منوانے پر تلی تھی ۔ برِ صغیر اور اسکے اطراف میں اردو زبان جو ہندوستانی کہلاتی تھی اپنے رسم الخط کے ساتھ وجود میں آچکی تھی۔
پندرھویں صدی میں یوروپی نشاتہ ثانیہ کے آتے آتے دنیا کے نقشہ پر عربی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی، جرمن اور اردو زبانیں چھا چکی تھیں اور انسانی تہذیبی ارتقاء کا نہ صرف آئینہ تھیں بلکہ انسانی تہذیب و تمدن کے سنہرے دور کو اپنے اندر سمیٹ کر مضبوط ہو چکی تھیں۔ زبانوں کی اس مضبوطی کا راز وہ عناصر تھے جو ان زبانوں نے اپنے اندر جذب کرلیے۔ ان عناصر میں بنیادی طور پر تہذیب و تمدن، تاریخ، عقائد و اخلاقیات، اصلاحات، ادب اور سائینس ہیں۔ عوام الناس میں زبان کی مقبولیت کے لئے زبان کی فصاحت و بلاغت، سلا ست، جاذبیت اور نفاست اہم محرکات رہے۔ لسانی تشکیل کیلئے ان عناصر و محرکات کے علاوہ رسم الخط کا مستعمل ہونا بہ مثل آکسیجن اہمیت کا حامل رہا۔ کسی زبان کے قیام و دوام کے لئے ضروری ہے کہ اسکا رسم الخط وسیع پیمانہ پر مستعمل ہو اور اس کے جاننے، پڑھنے، سیکھنے اور سمجھنے والوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا رہے۔ رسم الخط کے بغیر زبان ایک عالمی معیاری زبان کے بجائے بولی جانے والی بولیوں میں شمار ہوتی ہے جسکے بولنے والے بے شمار ہو سکتے ہیں لیکن ایسی بولیوں میں سینہ بہ سینہ چلنے والی داستانوں کے سوا قابل ذکر کچھ نہیں ہوتا۔
اہل زبان کی تعداد میں اضافہ صرف مادی ترقی سے نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی کسی دوسری زبان کی ترقی سے کسی زبان کو زوال آتا ہے۔ اس بات کا ثبوت انگریزوں کے دور حکومت میں اردو زبان کی ترقی میں نظر آتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کرمختلف پر آشوب ادوار میں عربی زبان کے قیام و دوام میں نظر آتا ہے۔ عالمی معروف زبانوں میں یہی ایک واحد زبان ہے جسنے پچھلی دو ہزار سالہ مختلف تہذیبوں کو اپنے اندر سمو کر رکھا اور جن میں خالص اسلامی تہذیب کے علاوہ ما قبل اور ما بعد تہذیبوں کے خصائص بھی شامل رہے۔ کسی زبان کی ترقی مادی ترقی سے حاصل ضرور کی جاسکتی ہے لیکن ایسی زبان جو مادی ترقی یا کسی ایک مذکورہ عنصر پر انحصار کرتی ہے وہ اس عنصر کے زوال کے ساتھ ہی زوال پذیر ہوتی ہے۔
مندرجہ بالا تناظر میں اس بات پر غور کیا جاسکتا ہے کہ آنے والے دور میں کون سی زبانیں ہیں جو انسانی تہذیبی ارتقاء کے ساتھ پروان چڑھتی رہے گی اور کونسی زبانیں نہیں۔ مغربی ممالک میں انگریزی زبان نے پچھلے ہزار سال میں انسانی تہذیبی ارتقاء میں جو کردار ادا کیا وہ ساری دنیا پر عیاں ہے اور اسکے مدِ مقابل جرمن اور فرانسیسی زبانیں کمزور ہوتی جارہی ہیں۔ مذکورہ عناصر کو اپنے اندر سمیٹے انگریزی زبان نشو نما پا رہی ہے۔ لیکن یہ گمان غالب ہے کہ تہذیب و تمدن، عقائد و اخلاقیات اوراصلاحات جیسے بنیادی عناصر کےمسلسل فقدان سے یہ زبان بھی اپنی ہمسر زبانوں کی طرح مستقبل بعید میں زوال پذیر ہوسکتی ہے۔ اور اس وجہ سے بھی کہ اس زبان کا حالیہ ارتقائی سفر زیادہ تر مادی ترقی کے ساتھ منسلک رہا ہے۔ قدیم ترین زبانوں کا یہی کچھ حال ہوا تھا جب اہل زبان تہذیبی اور ارتقائی سفر میں اپنی زبان کو کہانیوں،فلسفہ، ادب براے ادب اور افہام و تفہیم، کے سوا کچھ نہ دے سکے۔ بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس مضمون کی تمہید کے پس منظر میں انگریزی زبان صرف سائینسی، تکنیکی اور فنی علوم کی اصطلاحات کے ذخائر تک محدود رہ جائے ۔ یہی حال مشرق بعید میں چینی زبان کا ہو سکتا ہے۔ مشرقِ وسطی میں عربی ہی ایک ایسی زبان ہے جو فی الحال مذکورہ عناصر کو اجمالی طور پر جذب کیے ہوے رواں دواں ہے۔ بر صغیر میں اردو زبان ہے جو تمام بنیادی عناصر جذب کیے ہوۓ ہے۔ لیکن ایک طرف جسے جانے انجانے ہندی زبان میں ضم کرنے کی مسلسل کوشش جاری ہے اور دوسری طرف اہل زبان کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے اور اسکے رسم الخط کا استعمال ناپید ہوتا جارہا ہے۔ انسانی تہذیبی ارتقا نے صنعتی اور تجارتی انقلابات سے ایک جدید عنصر کا اضافہ کردیا جسکو انگریزی، عربی، چینی اور جرمن زبانوں نے اپنے اندر جذب کرلیا۔ اردو زبان کو اس عنصر سے مکمل طور سے واقف نہیں کرایا گیا اور اس کا الزام اہل اردو کے ساتھ ساتھ ان حکومتوں کو بھی جاتا ہے جنہوں نے اردو کو صرف ادب تک محدود کرکے رکھا ہے۔
بر صغیر اور یوروپ میں جتنی بھی زبانیں خاص و عام میں بولی اور لکھی جاتی ہیں اکثر میں مذکورہ بنیادی عناصر کا فقدان ہے۔ چند زبانیں ہیں جن میں ضروری سلاست و فصاحت و بلاغت موجود نہیں ہے اور چند زبانیں ہیں جن کا بہتر استعمال کسی مخصوص شعبہ میں ہی کیا جاتا ہے۔
ویسے تو اردو زبان کی ایک دنیا شیدائی ہے لیکن چند تعصب پسند ایسے بھی ہیں جنہیں اردو سے دشمنی ہے کیوکہ انھیں مسلمانوں سے دشمنی ہے اور وہ اس دشمنی کا غبار اردو پر نکالتے ہیں۔ اردو دشمنی کی ایک اہم وجہ ہے تقسیم ہند کے بعد اردو کو پاکستانی قومی زبان کا درجہ ملنا۔ تعصب پسندوں کو ایک اور بہانا مل گیا کہ اردو زبان پاکستانی ہوگئی۔ جبکہ اردو پاکستان میں بھی لا پرواہی کا شکار رہی۔ یہی وہ چند وجوہات ہیں جن کے پس منظر میں اہل اردو خاصکر شعراء حضرات احتجاجاً یا مصلحتاً ایسا کچھ کہتے رہتے ہیں کہ اردو کو مسلمان نہ کہو یا مسلمانوں کی زبان نہ کہو وغیرہ وغیرہ۔ فی الحقیقت یہ ایک غلط رد عمل ہے۔ اردو مسلمانوں کی ہی زبان ہے اور اس سے انکار کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ نہایت نا معقول وجہ ہے کہ چند تعصب پسندوں اوردشمنوں کے ڈر سے مسلمان اردو سے دستبردار ہوجائے۔ کل کو تاج محل یا قطب مینار سےکیا دست بردار ہوا جاسکتا ہے؟ چاہتے ہوۓبھی نہیں، جیسے کہ مسلمان الجبرا اور علم الکیمیا کی بنیاد سے دست بردار کبھی نہیں ہو سکتا۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کے مسلمانوں کے دینی عقائد میں نہ ہی کسی تاج محل اور نہ ہی اردو زبان کی کوئی ایسی اہمیت ہے کہ جس پر مسلمان کا ایمان قائم ہو۔ تاج محل کے تعلق سے دو دہائی قبل چند تعصب پسندوں نے یہ شگوفہ بھی چھوڑا تھا کہ تاج محل مسلمان بادشاہ نے نہیں بلکہ ایک غیر مسلم بادشاہ نے تعمیر کیا تھا اور اس میں نقش کنندہ فارسی اشعار کا یہ جواز دیا گیا تھا کہ وہ غیر مسلم بادشاہ فارسی جانتا تھا۔ یہ شگوفہ اس دور کے معروف اخبار ،بلٹز، میں کئی دنوں تک کھلایا گیا تھا۔ بہر کیف مسلمانوں کے تہذیبی اور ثقافتی اثاثہ دنیا کے لیے تحفہ تو ہوسکتے ہیں جسے کوئی مسلمان کبھی واپس لینا نہ چاہے گا لیکن کوئی احسان فراموش ان تحائف کو ایرے غیروں سے منسوب کرے گا تو احتجاجاً اسے یاد دلانا ضروری ہے کہ یہ محبتیں مسلمانوں نے دنیا کو دی ہے۔ اردو زبان بھی ایک تحفہ ہے اور اس پر اب ساری دنیا کا حق ہے۔ اردو اور تاج محل مسلمانوں کی امن پسندی، رواداری اور انسان دوستی کی علامت ہے ۔
مسلمانوں کے انسانیت کو دئے گئے لاکھوں تحائف میں اردو زبان و ادب کی شیرینی اور شائستگی کے علاوہ مختلف علوم و فنون بھی ہیں۔ علم الحساب و ھندسہ میں اعشاریہ، صفر اور الجبرا ہے تو سائینس، فلسفہ، ادب، تعمیرات، جغرافیہ اور تواریخ میں لاکھوں بنیادی تحقیقات و تجربات و مشاہدات ہیں جو انسانی تہذیب و تمدن اور ارتقاء کی اساس ہیں۔ انھیں پر موجودہ عالمی تمدن کی عمارت ٹکی ہوئی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عمارت کی ظاہری تراش خراش اور نقش و نگاری میں کبھی عمارتوں کی اساس و بنیاد ڈھک جاتیں ہیں۔ لیکن حق پسنداہلِ نظر دیکھ لیتے ہیں کہ عمارت کے پیچھے کیا کیا ہے اور کون کون ہے۔ اردو زبان کو بھی مذکورہ تحائف کی طرح تعصّب پسند یا تو مٹانا چاہتے ہیں یا اسکی ہیت تبدیل کر اغیار کے نام سے منسوب کرنا چاہتے ہیں ۔ اردوزبان و ادب کی ترسیل و ترویج میں اہم کردار ادا کرنے والے مسلم و غیر مسلم تمام حضرات کےکار ہائے نمایاں اہل اردو کے دلوں میں ہمیشہ نقش رہیں گے اور اس میں مذہب کی تفریق کرنا بے جا ہے۔ اردو زبان پر کسی کا احسان نہیں ہے بلکہ اردو زبان کا ہی سب پر احسان ہے اور اس تہذیبی اور اخلاقی اقدار کا بھی جس کے خون جگر سے اردو کی نشو نما ہوئی تھی۔
اردو اور ہندی میں بہت سی قدر مشترک ہے اسلئے ان کے درمیاں تعصّب برتنا غیر مناسب ہے۔ تمہید کے پس منظر میں دیکھیں تو ہر زبان آپس میں بہنوں کی طرح ہیں۔ ماہرِ لسانیات یہ بات جانتے ہیں کہ اردو بہ حیثیت زبان تیرھویں صدی میں وجود میں آئی اور امیر خسرو کے کلام سے اس کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ اردو کی لسانی تشکیل میں عربی و فارسی کے علاوہ پرا کرتی زبانوں کا عنصر بھی کثرت سے پایا جاتا ہے ۔ اس دور میں ہندی زبان کا وجود نہیں تھا اور صرف سنسکرت یا پراکرتی زبانوں کا وجود تھا۔ سنسکرت دنیا کی قدیم ترین زبانوں جیسے عبرانی اور یونانی زبانوں میں سے ایک ہے اور ایسی تمام زبانیں مذکورہ ارتقائی مراحل کا ساتھ نہ دے سکی یاانسان کی تغیر پسندی کی نذر ہوگئی۔
ہندی زبان کا وجود رسم الخط کے ساتھ انیسویں صدی میں مختلف وجوہات کی بنا پر ہوا۔ یعنی آٹھ سوسال کے انسانی تہذیبی ارتقائی مراحل سے جب اردو زبان گزر رہی تھی اس وقت ہندی زبان کسی شکل میں یا کسی اور نام سے کہیں موجود نہیں تھی۔ آج ہندی زبان اور اس کا جو رسم الخط دیوناگری ہے وہ ستر اسی سال پرانا ہے جبکہ اردو کا سات آٹھ سو سال پرانا ہے۔ اردو اپنے اندر آٹھ سوسالہ تہذیب رکھتی ہے اور ہندی اپنے اندر تقریبا اسی سالہ تہذیب رکھتی ہے اور آج حکومت کی سر پرستی میں اپنے ارتقائی مراحل سےگزر رہی ہے۔ چونکہ ایک عالمی معیاری زبان کے عناصر اور مقبولیت کے لئے ضروری محرکات اس میں موجود نہیں ہیں اس لئے وہ اردو زبان کے الفاظ و محاورات اوراسلوب اختیار کرنے پر مجبور ہے۔
اردو کو دوام بخشنا ہے تو اس کا استعمال عام کرنا ہوگا۔ فی الحقیقت ہندوستان کے موجودہ حالات میں یہ مشکل ترین اور طویل مدتی کام ہے اور شاید فتنوں کا باعث بھی ہوسکتا ہے۔ حکومت اور عوام الناس کی اکثریت ہندی کو تقریبا پچاس سے زائد بولی جانے والی زبانوں میں سے چن کر ایک قومی اور سرکاری زبان تسلیم کر چکی ہے۔ اس کے باوجود ہندوستان میں اہل اردو کی تعداد انگریزی کے بعد دوم نمبر پر ہے۔ اردو کے حق میں یہ بھی اچّھا ہی ہوا کہ اردو کو ہندوستان کی سرکاری زبان نہیں قرار دیا گیا ورنہ یہ بھی ممکن ہوتا کہ نام اور رسم الخط اردو ہوتا لیکن اسلوب و ادائیگی ہندی لہجے میں ہوتی۔ اردو کی اپنی بقا کا اتنا مسئلہ نہیں ہے جتنا کہ اسکے رسم الخط کا اور حکومتوں کی مخلصانہ سرپرستی سے محرومی کا ہے۔ حالانکہ ذرائع ابلاغ میں اردو زبان کی اپنی اہمیت واضح ہے اور اردو ادب و شاعری کا آج بھی دیگر زبانوں کے مقابلہ میں بول بالا ہے۔ لیکن اردو کو تعصّب کی بنا پر برصغیر میں وہ مقام نہیں دیا جا رہا ہے جسکی وہ حقیقی معنوں میں حقدار ہے۔ اردو ایک عالمی معیار رکھتی ہے اور انگریزی، عربی، چینی، فرانسیسی زبانوں کے ساتھ ساتھ انسانیت کی ارتقا اور تہذیب و تمدن کو بہت کچھ دے سکتی ہے۔ اردو اپنے اندر وہ سب مادہ رکھتی ہے جو موجودہ دور کی عالمی معیاری زبانیں رکھتی ہیں۔
اردو جیسی زبانیں صرف آپسی گفتگو اور اظہار خیال کا وسیلہ نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے اندر ایسی پوشیدہ قوت رکھتی ہے جس سے وہ انسانی ارتقا کے ساتھ ساتھ خود بھی ترقی کرتی ہے اور انسانی تہذیبی و تمدنی مراحل کو اپنے اندر جذب کر کے آنے والی نسلوں کی رہنمائی کرتی ہے۔ اہل اردو کو اس حقیقت کو اب قبول کرنا ہوگا کہ اردو کی بقا کا کام اور اسے عالمی پیمانہ پر لے جانے کا کام پاکستان میں اہل اردو زیادہ آسانی سے کر سکتے ہیں بہ نسبت کسی اور کے، اور یہ انکی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ انکا خود اپنے ساتھ کیا ہوا ایک عہد بھی ہے۔ اردو کی بقا کے لئے دنیا کے باقی خطوں سے اردو ادب کی ترویج میں ہاتھ بٹایا جا سکتا ہے اور اردو زبان کو زندہ رکھنے میں اپنا وقت، وسائل اور صلاحیتیں لگائی جاسکتی ہیں۔ جہاں تک اردو ادب کی بات ہے تو یہ بے حد ضروری ہے کہ ادب کے مفہوم کو صرف معروف تخلیقی اصناف تک محدود نہ کرتے ہوۓ فراخدلی سے اصلاحی اور اخلاقی قدروں کی تبلیغ کو بھی ادب میں شامل کیا جائے۔ بالخصوص اردو کے دوام کے لئے یہ بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ اردو زبان میں ادب کے ساتھ ساتھ علمی اور معلوماتی ذخائر بھی کافی ہیں اور اردو زبان نے اپنے ادبی سرمایہ کے ساتھ اپنے علمی سرمایہ کی وجہ سے بھی عروج و دوام حاصل کیا ہے۔
کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی دنیا میں انسان جب تہذیبی ارتقائی مراحل طے کر رہا ہے تو اردو زبان بھی اپنے تدریجی عمل سے گذرے گی اور یہ زبان کا اپنا کمال ہوگا کہ وہ نا مناسب لفظوں کی در آمد کو خود رد کرے گی اور اپنی اصل کی حفاظت کر ے گی۔ اس کا یہ مطلب بلکل نہیں ہے کے اہل اردو کو اس ضمن میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا ہے بلکہ یہ کام وہ ادارے احسن طریقے سے انجام دے سکتے ہیں جو اردو زبان کی ترسیل و ترویج کے ذمہ دار ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ اہل اردو کو اردو کی فطری فراخدلی کو مد نظر رکھتے ہوۓ ان خارجی الفاظ پر بے جا اعتراض نہیں کرنا چاہیے جنکو خود زبان اپنے دامن میں سمیٹنے کی مجاز ہے۔ غیر ضروری الفاظ جو اردو میں پہلے سے موجود ہیں اور ایسے خارجی الفاظ جس کی شمولیت سےاردو زبان کی اپنی شائستگی اور ادب کے معیار میں فرق آتا ہو ان سے احتراز کرنا چاہیےاور ان پر روک تھام لگانی چاہیے، نہ کہ ان اصطلاحات اور فنی اور تکنیکی لفظوں پر جن کا بدل اردو میں موجود نہیں اور جن کو متعارف کرانے میں اردو ادبی مراکز اور اداروں سے سند ملنے میں برسہا برس لگ سکتے ہیں۔ بلکہ ان اصطلاحات کو اردو زبان میں داخل نہ کرنے پر اردو زبان جدید عناصر سے حاصل ہونے والی قوت سے محروم ہو سکتی ہے۔ یہ بات کسی بھی اہل زبان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ زبان کی ترسیل اور ترویج پر مکمل دسترس رکھ سکے اور زبان کی فطری ترسیل اور ترویج میں مداخلت کرسکے یا کسی قسم کی روک تھام کر سکے۔ محبان اردو کیلئے صرف غوں غاں کرنے سے بہتر ہے اردو کے حق میں عملی محبّت کا ثبوت دیں اور اپنے اپنے حصّے کی شمعیں جلاتے جائیں۔ ظلمت شب کے رونے سے یہی بہتر ہے۔
***
Zubair Hasan Shaikh (Mumbai).
zubair.ezeesoft[@]gmail.com
Zubair Hasan Shaikh (Mumbai).
zubair.ezeesoft[@]gmail.com
Linguistic and cultural evolution and Urdu. Article: Zubair H Shaikh
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں