پاکستانی وزارت خارجہ کے بموجب پاکستانی سفیر سہیل محمود جو جمعرات کو پاکستان واپس لوٹے ہیں، انہیں اس وقت تک ہندوستان نہیں بھیجا جائے گا تاوقتیکہ سفیر اور ان کے اہل خانہ کو مبینہ پریشانی کا شکار نہیں بنایا جائے گا۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ "جب دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بدترین مرحلے میں تھے، تب بھی اس وقت سفارت کاروں کے اہل خانہ کو ہراساں نہیں کیا گیا تھا." حکام نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں محمود کا نئی دہلی میں کام کرنا ممکن نہیں ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تنازع مزید گہرا ہو سکتا ہے۔ ایک طرف، جب ہندوستان نے اپنی سرکاری ویب سائٹس کو روکنے کا پاکستان پر الزام لگایا ہے تو وہیں دوسری طرف پاکستان نے جمعہ کو ہندوستان میں جاری ڈبلیو ٹی او میٹنگ میں شرکت سے انکار کیا ہے۔ ڈبلیو ٹی او وزرائے خارجہ اجلاس اگلے ہفتے 19-20 مارچ کو ہندوستان میں منعقد ہونے والا ہے۔
ہندوستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف سے عائد کردہ تمام 'حقیقی' الزامات کی جانچ کی جائے گی، وہیں دوسری طرف اسلام آباد کا الزام ہے کہ حکومت ہند اس کی شکایات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے۔ پاکستان کا الزام ہے کہ ہندوستان میں اس سے پہلے کبھی بھی اس سطح پر اس کے سفارت کاروں کو ہراساں نہیں کیا گیا ہے۔ وہیں ہندوستان کا الزام ہے کہ پاکستان میں اس کے سفارت کاروں کو آئی ایس آئی اور دیگر عناصر کی طرف سے مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے، سفارت کاروں کا پیچھا کیا جا رہا ہے اور انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
diplomatic row pak may not send his envoy to india soon
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں