لفظوں سے آگے - اداریہ شعر و حکمت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-03-01

لفظوں سے آگے - اداریہ شعر و حکمت

sher-o-hikmat
تم اپنے باپ کی لاش کو ہر جگہ گھسیٹتے نہیں پھرسکتے (ابولینیر)
گزشتہ چند برسوں سے میں اردو شعروادب میں بعض اہم، بنیادی اور نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ۔ یہ تبدیلیاں ادب کے تعلق سے ادیب اور قاری دونوں کے بدلے ہوئے رویوں کی غماز ہیں ۔ ان تبدیلیوں کے جواز اور اردو ادب کی موجودہ صورتحال کی تفہیم اور توضیح کے لئے اردو تنقید میں’’ جدیدیت‘‘ کی اصطلاح رواج پاگئی ہے ۔ جدیدیت کے خلاف اور جدیدیت کی تائید میں ایسی تحریریں شائع ہوتی رہی ہیں جن کے مطالعے سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ کوئی منظم تحریک ہے ۔ ان مناظروں اور مباحثوں میں جدیدیت اور تجدد کو بھی غلط ملط کیاجاتا رہا ہے ۔ کوئی سوجھ بوجھ رکھنے والا نقاد جدیدیت کو ادبی تحریک کے نام کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس غلطی کا اعادہ نہیں کرے گا جو ماضی میں ترقی پسند تحریک کی اصطلاح کو روان دینے میں ہوئی تھی ۔ ترقی پسند تحریک ادب کے رشتے سے ایک بے معنی اصطلاح تھی ۔ یہ نام ایک سیاسی مصلحت کے تحت ادب کے سر منڈہ دیا گیا تھا۔
آج کے اردو ادب کا مطالعہ کسی ذہنی تحفظ اور پیش بندی کے بغیر کریں تو اس میں ایک مخصوص رجحان نہیں بلکہ مختلف اور متنوع رجحانات نظر آئیں گے جن میں سے بعض کا رشتہ ماضی کی شاعری سے جڑتا دکھائی دے گا ۔ اس میں مختلف ادبی اور فنون لطیفہ کی تحریکوں کے اثرات کا سراغ ملے گا ۔ مجموعی طور پر یہ محسو س ہوگا کہ نیا اردو ادب، ماضی قریب کے ادب سے بڑی حد تک مختلف ہے ۔ یہ اختلاف سیاسی نظریے یا عقیدے کا نہیں بلکہ بنیادی طور پر تخلیقی رویوں کا اختلاف ہے ۔ ماضی میں جس نظریے کو تنقید فن میں دخیل کیا گیا وہ اشتراکی حقیقت نگاری کا نظریہ تھا ۔ اسٹالین نے لینن کے مضمون ، پارٹی کی تنظیم اور پارٹی کے ادب‘‘ کی گمراہ کن تاویل کے ذریعے اپنی پالیسی کا جواز مہیا کرنے کی کوشش کی جب کہ لینن کا خود منشایہ نہیں تھا کہ اس مضمون کا اطلاق فنون لطیفہ پر کیاجائے ۔ پھر کچھ ایسی رو چلی کہ اشتراکی حقیقت نگاری کے علم برداروں نے فن اور پروپیگنڈے کے فن کو بالاے طاق رکھ دیا۔ انہوں نے جو فارمولا وضع کیا تھا وہ جان بر گر کے الفاظ میں کچھ اس طرح کا تھا کہ پہلے خالص نظریاتی ادعا کے مطابق ایک مصنوعی یا فرضی واقعے کی تخلیق کرو پھر اس میں زیادہ سے زیادہ فطریتNatutrationکا رنگ بھرو تاکہ فطریت غیر فطری اور جھوت کے لئے’’ موقعہ ، واردات پر عدم موجودگی کا حیلہ‘‘ بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اشتراکی حقیقت نگاری کے نظریے کے تحت جس طرح کے ادب کی تخلیق ہوئی اس کا زندگی کے حقیقی تجربوں سے کوئی گہرا رشتہ نہیں تھا۔
نئی شاعری اور ادب میں اس نظریاتی ادعایت کے خلاف ایک رد عمل نمایاں ہے ۔ سب کی بات تو نہیں کہی جاسکتی لیکن بیش تر نئے اور اچھے شاعروں اور ادیبوں کی تخلیقات میں جو رویے جھلکتے ہیں انہیں ایک طرح کی آواں گارویت سے موسوم کیاجاسکتا ہے ۔ ان رویوں کا اظہار ہمارے آرٹ اور کلچر میں فطری انداز سے ہورہا ہے ۔ اس کلچر کا بنیادی رویہ قدیم کلچر کے نظم و ضبط کے مقابلے میں مہم پسندی کا ہے ۔ ایسی فعالیت جو عمل برائے عمل کا تصور رکھتی ہے ۔ جس کی نفسیاتی حرکت میں طبعی حرکیت بھی شامل ہے ۔ یہ کلچر ہندوستان کی موجودہ فضا اور حالات میں ایک مخصوص رنگ رکھتا ہے لیکن اس کا رشتہ دوسرے ملکوں کے آواں گارو کلچروں سے ملتا ہ ے، تاریخی اور سماجی نظم کے خلاف نیسلسٹی بغاوت جو اس نفی کے کلچر کی خصوصیت ہے ہندوستان کی تمام زبانوں کی نئی شاعری میں اظہار پارہی ہے ۔ نئے ادب کا ایک وصف پبلک سماج اور روایت سے مقاومت ہے ۔ وہ اس مذاق عام کی تسکین اور تشفی کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا جس کابورژوا کلچر اور اشتراکی سیاست نے بگاڑ دیا ہے ۔ ماحول سے یہی عدم مطابقت فن کار میں اجنبیت کا شدید احساس پیدا کرتی ہے ۔ یہ احساس کبھی اس کو محزون بناتا ہے اور کبھی وہ خود کو ایسا سورما سمجھنے لگتا ہے کہ جو پا بہ زنجیر ہے۔ تمسخر بھی اس کے جذبہ، مقاوقت کے اظہار کی ایک صورت ہے ۔ نئے ادیب کی روایت سے برگشتگی ، صاحب نظر ی کی دلیل ہے جو اس کو دین بزرگان سے منحرف کرتی ہے ۔ نسلوں کا اختلاف ہر دور میں رہا ہے لیکن دو کلچروں کے درمیان اتنی وسیع خلیج کبھی حائل نہیں ہوئی تھی اسی لئے موجودہ نسل کو اپنے مختلف اور جدید ہونے کا احساس زیادہ ہے ۔
نئے ادب اور پرانے ادب کا واضح اختلاف زبان کے استعمال میں دکھائی دیتا ہے ۔ یہ اختلاف ناگزیر اس لئے ہے کہ دونوں کے تجربوں کی دنیائیں مختلف ہیں ۔ اس کے قطع نظر نثر کا محاوہ چوں کہ پرانی نسل میں تر سیل کا ذریعہ ہوتا ہے اس لئے نئی نسل پرانی نسل کے خلاف خود کو نمایاں اور ممتاز کرنے کے لئے ایک خفیہ زبان وضع کرلیتی ہے ۔ یہی خفیہ زبان جو نئی شاعری اور نئے ادب کا محاورہ ہے ایک حد تک عوام اور تخلیق کار کے درمیان مقاومت پیدا کرنے کی ذمہ دار ہے ۔ ایک نقطہ نظر سے نئے ادب کا ابہام جہاں جدید نسل کے لئے اسہالی فعل انجام دیتا ہے وہیں ا سکا یہ معالجاتی فنکشن بھی ہے کہ جب روایت اور عادت ادبی زبان کو کاروباری اور ترسیلی نثر کی سطح پر لے آتے ہیں تو نیا محاورہ اس سے پیدا ہونے والی لسانی سٹرن کو دور کر کے عام زبان کو معانی کی دولت سے مالا مال کرتا ہے ۔
نئے ادیب کی روایت دشمنی رومانی رویے سے مماثلت رکھتی ہے ۔ اس کو رومانی عقلیت پسندی کا نام دینا زیادہ موزوں ہوگا۔ روایت دشمنی کے زیر اثر وہ ا پنے قریبی ماضی سے جتنا منحرف ہے ماضی بعید سے اتنا برگشتہ نہیں ہے ۔ بلکہ وہ بہت قدیم اور بھولی بسری روایتوں کی تجدید اور باز آفریبی بھی کرتا ہے ۔اس نے رویے کی تہہ میں ماضی پرستی بلکہ معقلیت کا رفرما ہوتی ہے ۔ آج کے ادیب مستقبل کے ادب کے نقیب ہیں ۔‘‘ مستقبل اور اس کے امکانات کے تصور کے بغیر خواہ وہ کتنا ہی موہوم اور مبہم کیوں نہ ہو جدیدیت کوئی مفہوم نہیں رکھتی یہ مستقبلیت آنے والی نسلوں کی عظمت کی خاطر ایثار اور قربانی کا مطالبہ پیش کرتی ہے جس کی تکمیل کے لئے یوٹوپیانی لگن ضروری ہے ۔
مستقبلیت ، روایت کی دشمن اور تجربے کی محرک ہوتی ہے ۔ جدیدیت کی جمالیات میں ندرت کو پہلا مقام حاصل ہے ۔ کلاسیکیت کا نظریہ، کمال اس کے تابع ہوتا ہے ۔ جدید تخلیق اس اعتبار سے غیر روایتی ہوتی ہے ۔ ایسے ادب کا دعوئے کمال جھوٹا اور لغو ہے جو روایت کی نقل کرتا اور خود کو دہراتا ہے ۔

Lafzon se aage, Editorial of Sher-o-Hikmat mag. By: Mughni Tabassum

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں