امام حسن البنا پر ایک نظر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-02-23

امام حسن البنا پر ایک نظر

hasan al banna
نام:
حسن بن احمد عبدالرحمن البنا

پیدائش:
مصر کے ایک علاقے " البحیرۃ" کے محمودیہ نامی گاؤں میں 25 شعبان 1324ھ مطابق اکتوبر 1906ء بروز اتوار۔

والد محترم کا مختصر تعارف:
آپ کا نام عبدالرحمن البنا تھا، گھڑی سازی کی وجہ سے (الساعاتی) یعنی 'گھڑی ساز' کے نام سے مشہور ہوئے، آپ کا شمار اعلیٰ درجے کے علماء حدیث میں ہوتا ہے ، آپ کا سب سے بڑا کارنامہ مسند امام احمد کو فقہی ترتیب پر تخریج احادیث اور مختصر شرح کے ساتھ نئے انداز سے مرتب کرنا ہے، جس کو انہوں نے "الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل الشیبانی" کے نام سے شائع کیا ۔ اسی طرح" بدائع المثن فی جمع و ترتیب مسند الشافعی والسنن" بھی ان کی ایک اہم کتاب ہے ۔

والدہ ماجدہ :
ام سعد بنت ابراہیم صقر احمد اپنے شوہر ہی کے گاؤں سے تعلق رکھتی تھیں ، ان کے والد مویشی تاجر تھے ۔

تعلیم:
آٹھ سال کی عمر میں"مدرسۃ الرشاد الدینیہ" میں داخل ہوئے ، اور وہاں چار سال تک تعلیم حاصل کی ، یہی تعلیم ان کی شخصیت سازی میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے ، ثانویہ کی تکمیل کے بعد "مدرسۃ المعلمین الاولیۃ" سے 1920ء میں فراغت حاصل کی ۔
مزید تعلیم کے لئے دارالعلوم قاہرہ میں داخلہ لیا ، اور 1346ھ/1927ء میں امتیاز کے ساتھ وہاں سے فارغ ہوئے ۔ شیخ محب الدین الخطیب سے ان کے خاص روابط تھے ، ان کے علاوہ بیشتر علماء سے ان کی ملاقاتیں رہیں۔
1346ھ مطابق 1928ء میں "الاخوان المسلمون" کی بنیاد ڈالی ، اسی سال مجلہ "المنار" کو از سر نو جاری کیا، اور استعماری طاقتوں سے مقابلے کے لئے سرگرم ہوئے ۔ 1355ھ مطابق 1936ء مٰں سیاسی میدان میں قدم رکھا اور حکام و امراء کے نام خطوط لکھ کر ان سے اسلامی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا اور خلافت راشدہ کے طرز پر اسلامی حکومت کے قیام کی امید ظاہر کی ، ان کا کہنا تھا کہ اسلامی حکومت قائم نہ کرنے کی صورت میں تمام مسلمان مجرم و خطاکار ہوں گے۔

تالیفات:
ان کے قلم سے متعدد رسائل، "احادیث الجمعہ" اور "الماثورات" اور آپ بیتی بعنوان" الدعوۃ و الداعیۃ" نکلے۔ ان کے والد ماجد نے اپنی کتاب الفتح الربانی کا مقدمہ لکھنے کی ذمہ داری ان کے سر ڈالی ، اسی طرح مصنف کتاب امام احمدؒ کے حالات پر بھی ایک مضمون لکھوایا جس کو انہوں نے بحسن و خوبی انجام دیا۔
آپ کا شمار صف اول کے خطباء میں ہوتا ہے ۔ آپ کی تقریروں میں جوش و انفعال کے بجائے سکون کی کیفیت نمایاں ہوتی لیکن سامعین بہت زیادہ متاثر ہوتے تھے ، اس سکون و اطمینان کی تقریر کے ذریعے وہ حاضرین کے جذبات میں زبردست انقلاب برپا کردیتے تھے ۔

مقاصد:
ان کے سامنے دوہی مقصد تھے
(1) اسلامی ملک کو ہر طرح کے خارجی اثرات سے پاک کرانا۔
(2) آزاد اسلامی ملک میں آزاد اسلامی حکومت کا قیام۔
آپ نے اپنے ماننے والوں کی تربیت ایمانیات پر کی۔ اس کے لئے دعوت دینا ، اور اس کی خاطر ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار کرنا، دعوت کے سلسلے میں جو آزمائشیں پیش آئیں ان کا صبر و ثبات سے مقابلہ کرنا، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت و وفاداری کا ثبوت دینا۔ اسلام کو مکمل نظام حیات تصور کرنا اور اس کے نظام کے نفاذ کو لازمی اور ضروری قرار دینا۔ یہ ان کی تربیت کے نمایاں پہلو تھے ۔ انہوں نے حقیقتاً ایک اسلامی انقلاب برپا کیا۔ اخلاقی گراوٹ اور مغربی افکار کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

شہادت:
ابراہیم عبدالہادی کی حکومت نے انگریزوں کے اشارے پر حکومتی ہتھیار اور حکومت کے کارندوں کے ذریعے 12 فروری 1949ء مطابق یکم ربیع الثانی 1367ھ کو قاہرہ میں انہیں شہید کر دیا۔

ماخوذ از کتاب:
شیخ حسن البنا - ایک مثالی شخصیت
مصنف: مولانا سید ابوالحسن علی ندوی

a review on the life of imam hasan al banna

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں