مقدمہ - ہندوستان کی قدیم اسلامی درس گاہیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-01-14

مقدمہ - ہندوستان کی قدیم اسلامی درس گاہیں

ہندوستان کی اسلامی تاریخ جن کثیر و متنوع اجزاء پر مشتمل ہے ،ان میں تعلیم کا حصہ خاص طور پر عظمت و اہمیت رکھتا ہے ، بارہویں صدی ہجری کا ہندوستان پانچویں صدی ہجری کے ہندوستان سے جس طرح تمدنی، معاشتی اور سیاسی حالات میں مختلف ہے ، بعینہ وہ اپنی دماغی و علمی کیفیات میں بھی اس سے علانیہ جداگانہ ہے، یہ اختلاف اور یہ تغیر کیوں کر اور کس طرح پیدا ہوا؟ اور اس کی تدریجی و ارتقائی رفتار کیا رہی؟ اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں اور نہ اس کتاب ہی میں( جس کا یہ مقدمہ ہے) اس پر بحث کی گئی ہے ۔ البتہ اس کے متعدد اسباب میں سے ایک سبب’’تعلم اور اس کی توسیع و اشاعت‘‘ سے متعلق تاریخی معلومات کا ایک سرسری خاکہ اس میں کھینچا گیا ہے اور اسی مبحث کے متعدد پہلوؤں کو اس میں نمایاں کیا گیا ہے ۔
ایک علمی و تاریخی خطبہ کے طور پر اجلاس ندوۃ العلماء میں پیش کرنے کی ضرورت سے میں نے اس کو اپنا موضوع قرار دیا تھا ، یہ ایک محدود اور ہنگامی ضرورت تھی، کسی مجمع عام کے روبرو کسی موضوع پر تقریر کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس پر نہایت تفصیلی اور جزوی بحث کی جائے ، اس لئے اس کے ہر حصہ ٔ بیان میں اجمال ہی سے کام لیا گیا ہے ، لیکن ہاں چونکہ یہ ایک تاریخی عنوان تھا، اس لئے بیان کا ہر جزو تاریخی حوالوں اور معتبر مستند ماخذوں پر مبنی ہے تاہم مزید سعی و محنت کے بعد جس تفحص و استقصا کے ساتھ اس پر قلم اٹھایاجاسکتا تھا ، مجھے علانیہ اقرار ہے کہ وہ اس کتاب میں نہیں ہے اور یہ یقینی ہے کہ اس عنوان کے متعلق پیش نظر مواد تاریخی سے کہیں زیادہ معلومات ابھی اور جمع ہوسکتی ہیں ، اس کا یقین اس طرح ہوا کہ قدیم تاریخی کتابوں کی جو تصنیفی نوعیت ہے اور ان میں جس طرح کے واقعات کا انبار ہوتا ہے اس کو دیکھ کر پہلے اس عنوان کو ہاتھ لگاتے ہوئے طبیعت جھجکتی تھی لیکن معظم و محترم جناب مولانا سید سلیمان صاحب ندوی کے اصرار آمیز ارشاد نے مجبور کردیا اور بالآخر جب میں نے اس مقصد کے لئے صفحات تاریخ کا مطالعہ شروع کیا تو بحمداللہ اپنی محنت و جاں فشانی بے کارنہ گئی اور تلاش و جستجو کا قدم جتنا آگے بڑھتا گیا اتنا ہی امید سے کہیں زیادہ وسیع اور کشادہ میدان نظر آیا۔
سردست چونکہ حصول معلومات کا بہت محدود ذخیرہ پیش نظر تھا، اس لئے اس تلاش و سعی کے نتائج سے جو نا تمام مرقع تیار ہوسکا وہ آئندہ صفحات میں نظر آئے گا ، اس کتاب کی تالیف میں جن کتابوں سے مدد لی گئی ہے ان کے حوالے اصل کتاب میں موجود ہیںِ نیز اس لئے کہ وہ عام اور متداول کتابیں ہیں ، یہاں ان کے جداگانہ تذکرہ کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی ، کوئی نایاب و نادر کتاب پیش نظر نہ تھی ، جس کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیاجائے گا، البتہ قلمی نسخہ’’ خلاصۃ التواریخ‘‘ او ر ایک اور انگریزی کتاب’’Promotion of learning in India‘‘ کا تذکرہ ضروری ہے ، ان دونوں کتابوں کے مصنف ہندو ہیں، اول الذکر عالم گیر کے زمانہ کی تصنیف ہے اور اس کا قلمی نسخہ کتب خانہ’’الاصلاح و سنہ‘‘ (صوبہ بہار) سے دستیاب ہوا، آخر الذکر موجودہ زمانہ کے ایک بنگالی ہندو مصنف کے قلم سے نکلی ہوئی کتاب ہے اس میں مسلمان حکمرانوں کی علمی و تعلیمی دلچسپیوں ، مدارس و مکاتب، علماء و مصنفین اور کتب خانوں کا تذکرہ ہے ، گو مصنف اصل زبان( فارسی) سے ناواقف معلوم ہوتا ہے اور اس نے غیر ذمہ داراشخاص کے نقل و ترجمہ پر اعتماد کیا ہے، اس لئے کہیں کہیں خامیاں، سہو و خطا ، بلکہ غلطیاں بھی نظر آتی ہیں، تاہم عام طور پر کتاب اپنے موضوع میں کامیاب ہے اور مصنف کی محنت و کوشش ہر طرح مستحق تحسین و آفرین ، اس موقع پر مسلمان انگریزی داں طبقہ سے یہ سوال دلچسپ ہوگا کہ یہ فرض اس کا تھا یا کسی اور کا؟ خدارا وہ انصاف کو پیش نظر رکھ کر اس کا جواب دے۔
تاریخ کی متداول فارسی کتابیں تاریخ ہند کا مکمل مجموعہ نہیں ہیں، ان کے علاوہ اور بھی مفید و ضروری کتابیں ہیں، جو اس کتاب کی تالیف و ترتیب کے وقت میسر نہ آسکیں، اور ان کے حصول کے لئے اقطاع ملک کے مختلف مشہور و عام کتب خانوں کی سیر، نیز ذاتی کتب خانوں تک رسائی حاصل کرنا بہت ضروری ہے ، علاوہ ازیں عہد اسلامی میں ہندوستان کی علمی و تعلیمی ترقی کو دکھانے کے لئے بزرگان دین، مشائخ کبار اور دیگر علماء و فضلاء کی سوانح عمریاں، نیز ان کے ملفوظات و مکتوبات کی ورق گردانی نہایت ضروری ہے ، یہی چیزیں وہ تاریخی سرمایہ ہیں جن کا تفصیلی مطالعہ ہندوستان کی گزشتہ علمی و تعلیمی ترقیوں کی تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے کھینچ دے گا۔
لیکن اس موقع پر ایک اور ذخیرہ معلومات کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے جو اپنی صحت وواقعیت میں تاریخی کتابوں کی روایات سے کہیں زیادہ بہتر اور عمدہ ہے، یعنی مسلمان حکمرانوں کے فرامین جو اب تک ہندوستان کے مختلف ہندو مسلمان خاندانوں میں محفوظ و موجود ہیں، یہ تمام فرمان تاریخ ہند کا ایک گراں بہااور وقعی سرمایہ ہیں، ان سے ہندوستان کی گزشتہ تاریخ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے، مجھے یقین کامل ہے کہ ان میں جہاں اور ضروری باتیں ملیں گی، وہیں اس ملک کے مسلم فرماں رواؤں نے ملک کی ترقی کے لئے علم و فن کی اشاعت میں جو کوششیں کی ہیں، ان کی تصریح و تفصیل بھی ملے گی۔
اس کتاب میں ’’اشاعت تعلیم کے دیگر ذرائع‘‘ کے عنوان سے جو کچھ لکھا گیا ہے ، اس میں اجمالاً اس کی طرف اشارہ ہے، پہلے خیال تھا کہ اس کی نسبت کسی قدر تفصیل سے لکھنا چاہئے لیکن بعض ناگزیر اسباب کی بنا پر ایسا نہ ہوسکا ، ہندوستان کے مسلمان باشاہوں میں بہت کم ایسے گزرے ہیں جنہوںنے ہندوؤں کے پنڈت، گوشائیں یا گرووغیرہ مذہبی و علمی اشخاص کے لئے وظیفے یا جاگیریں عطا کی ہوں، شاہنشاہ عالم گیر اورنگ زیب کے مذہبی تعصب کا غلغلہ مصنفین یورپ نے نہایت بلند آہنگی سے اٹھایا اوراپنی تصنیفات میں اس کو بہت کچھ آب و رنگ دے کر بیان کیا ہے، جس کا نمایاں اثر یہ ہوا کہ تمام ملک میں نہایت برے خیالات پھیل گئے اور اس نیک دل و رحم پرور بادشاہ کو ظالم، ستم گر، ہندو کش کے خطابات دیے گئے اور اب حالت یہ ہے کہ اگر کبھی اس کے قابل قدر اوصاف کی کوئی آواز اٹھائی بھی جاتی ہے تو وہ اس غوغا ئے عام میں دب کر رہ جاتی ہے ۔
تاہم یہ واقعہ ہے کہ یہ بالکل بانگ تہی ہے اور جو کچھ بیان کیاجاتا ہے اس میں اصلیت کا بہت کم حصہ ہے بلکہ اس کے تعصب کے خلاف اس کی رواداری و مسالمت کی شہادتیں ملتی ہیں، گوشائیں ، گرو اور پنڈتوں کے نام مسلمان فرماں رواؤں کے متعدد فرامین جن کے ذریعہ سے ان کو شاہی عطیے یا جاگیریں یا معافیاں دی گئیں، میری نظر سے گزرے ہیں، ان میں شاہنشاہ عالم گیر اورنگ زیب کے فرمان بھی ہیں، غالباً یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ہندوؤں کے مشہور مقدس مقام بودھ، گیا جہاں ہندوستان کے مصلح اعظم مہاتما بدھ کو علم حاصل ہوا تھا، اس کی عظیم الشان بودھ خانقاہ کے متعلق جو کئی لاکھ جائدا د وقف ہے وہ تمام تر اسلامی سلاطین کے فیض و کرم کا نتیجہ ہے ، اس وسیع جائیداد میں بڑا حصہ شاہنشاہ عالم گہر کا عطیہ ہے، عالم گیر اور دوسرے سلاطین کے فرمان اب تک اس وقت کے متولی خاندان میں محفوظ ہیں۔
علامہ شبلیؒ نے اجلاس ندوۃ العلماء ، منعقدہ بنار س کے موقع پر ایک علمی نمائش کی تھی، اس میں اس قسم کے متعدد فرامین جمع کئے گئے تھے، یہ تاریخ ہند کا مہتم بالشان ذخیرہ ہے اس لئے اس کو پیش رکھے بغیر جو تاریخ ہند مرتب کی جائے گی وہ بڑی حد تک نامکمل ہوگی۔
آخر میں یہ بتادینا بھی ضروری ہے کہ گو اس کتاب کا ایک بڑا حصہ تقریر کی ضرورت سے زیادہ یادداشت کے طور پر جمع کیا گیا تھا لیکن چونکہ اس سے وہ کام نہ لیا جاسکا اور بعد میں یہ قرار پایا کہ اس غیر معمولی اور مفید یادداشت کو رائگاں نہ جانے دیاجائے بلکہ اس کو ایک مستقل کتاب کی شکل میں جمع کردینا چاہئے ۔ اس لئے کتابی ترتیب و نظر ثانی کے موقع پر اس میں بہت سے حصے اضافہ کردیے گئے اور اس کو ایک خطبہ کی صورت سے بدل کر موجودہ تصنیف کے قالب میں ڈھال دیا گیا ۔
اس موقع پر مخدوم محترم مولانا سید عبدالحئی صاحب ناظم ندوۃ العلماء کا شکریہ ادا کرنا بھی اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ جناب ممدوح کے مضمون ’’ہندوستان کا قدیم نصاب درس‘‘ سے بڑی مدد ملی، اس کتاب میں جہاں پر قدیم درسی کتابوں کی فہرست دی گئی ہے وہ تمام تر اس مضمون سے منقول ہے، یہ امر مزید شکریہ کا محرک ہے کہ مولانا ممدوح نے میری اجازت طلبی پر نہایت خندہ پیشانی سے اس کے نقل و اخذ کی اجازت دی۔

ابوالحسنات ندوی
دارالمصنفین اعظم گڑھ
18/جولائی1922ء روز دوشنبہ

ماخوذ از کتاب:
ہندوستان کی قدیم اسلامی درس گاہیں (یعنی ہندوستان کے مسلم حکمرانوں کے عہد کی اسلامی درسگاہوں کی تاریخ)
مصنف: مولانا ابوالحسنات ندوی
ناشر: دارالمصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ (اتر پردیش)
تعداد صفحات: 108

The history of Old Islamic Institutes of India. By: Abul Hasnaat Nadvi

1 تبصرہ: