پدماوت بھاکھا - اردو ترجمہ - دیباچہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-01-24

پدماوت بھاکھا - اردو ترجمہ - دیباچہ

Padmaavat Urdu
محققین زبان مشاہیر کی تاریخی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی ایسا بھی زمانہ تھا جب کہ انسان کی زبان بشکل الفاظ نہ تھی، زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ بہ مرضی خدا تعالیٰ کچھ ایسے عالم پیدا ہوئے جن کے قلوب خدا کے نور خاص سے منور تھے، پس ان کے دل میں ایسے خیالات پاکیزہ بصورت کلمات مدون ہو گئے جو نہایت نصیحت آمیز اور دلکش تھے، جن کو تمام عالم نے نہایت سنجیدگی اور دلچسپی سے تسلیم کیا۔
ان خیالات کی جب ترتیب دی گئی تو ان میں نہایت سنجیدہ الفاظ نمودار ہوئے ، پس یہی حضرت انسان کی زبان کا منبع ہے۔ اس زبان کو خدائی کلام، الہام، علم الیقین، ویدیاگیان وغیرہ کہتے ہیں۔(1)
اب چونکہ اس زبان کو ناواقف اشخاص صحیح لفظ سے استعمال نہ کر سکتے تھے لہٰذا اس زبان کے الفاط میں تبدیلیاں واقع ہو گئیں، یعنی ان کے صحیح تلفظ بگڑ کر وہ الفاظ بالکل نئی صورتوں میں استعمال ہونے لگے جس کو زبان عادتی (پراکرت بھاشا) کہا جانے لگا، جو بلحاظ ممالک کئی طرح سے استعمال ہونے لگی۔ جن کے نام یہ ہیں:
  • شورسینی
  • ماگدھی
  • پیشاچی
  • آونتی
  • مہاراشٹری
  • اور پراچیا۔
اس کے بعد علماء نے برائے استعمال خواندگان مذکور چھ زبانوں کو اصلاح دیتے ہوئے ان میں صرف و نحو کی ترتیب دی اور وہی زبان ناشایستہ شستہ یعنی سنسکرت بن کر نہایت ہی کارآمد ثابت ہوئی جس سے معنی و مطلب اور دستور العمل میں نہایت ہی سہولیت پیدا ہو گئی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ لا محدود اس اشرف المخلوقات کو مقید کر کے کسی ایک راستے پر چلانا نہایت ہی ٰغیر ممکن ہے لہٰذا اتنا سب کچھ ہونے پر بھی وہی زباں شستہ بہ لحاظ آب و ہوا ممالک مختلف الفاظ کے جامے پہن کر مختلف صورتوں میں گوش گزار ہونے لگی۔ مثلاً لیٹن، گریک، فارسی ، انگریزی وغیرہ۔ علاوہ اس کے جو زبان عادتی یعنی پراکرت تھی اس کا استعمال ناخواندہ اشخاص میں بدستور جاری رہا، اور بگڑتے بگڑتے اس کی یہاں تک نوبت پہنچی کہ اب سینکڑوں طرح کی زبانیں رائج ہو گئیں ۔ مثلاً :
برج بھاشا، اودھی، اردھ اودھی، کھڑی بولی وغیرہ وغیرہ۔
جن کو بگڑی ہوئی زبان یعنی اپبھرنش بھاشا کے نام سے کہا جاتا ہے ۔ الغرض ہندوستان کے ہر ایک صوبے میں بہت طرح کی زبانیں مستعمل ہیں۔
ہر ایک زبان کی رفتار دو حصوں میں منقسم ہے یعنی نثر اور نظم جس میں نظم کا استعمال اکثر نصیحت اور عبادت خدا کے لیے مخصوص ہے ، اور نثر کا استعمال عوام کی گفتگو وغیرہ کے لیے ہوتا ہے ، بعض عالم نثر کو بھی نظم کی طرح شمار کرتے ہیں ۔
جس زمانے اور جس ملک میں جو زبان بولی جاتی ہے، علماء اور شعراء اسی زبان سے نصیحت فرما کر اور حاصل کر کے زندگی کے اصل مقصد، خدا کی عبادت میں دنیائے فانی سے نجات حاصل کرتے ہیں ۔ اب چونکہ زمانہ حال کے کچھ صدیوں سے اپبھرنش یعنی بگڑی ہوئی زبانوں مثلاً اودھی ، برج بھاشا وغیرہ کا چلن ہے ، تو علماء اور شعرا انہیں زبانوں میں کتابیں لکھ کر نصیحت فرماتے ہیں۔
اسی طرح ہمارے معزز شاعر ملک محمد جائسی صاحب نے بول چال کی زبان اودھی میں جو اس زمانے میں رائج تھی، "پدماوت" نامی تصوف کی کتاب تصنیف فرما کر ہمیں مشکور فرمایا ۔ اس 'پدماوت' کے علاوہ ان کی اور بھی تصنیفات شائع ہوئی ہیں، مثلا ً اکھراوٹ، آخری کلام ونیز پوستی نامہ اور نبناوت نامی دو تصانیف کے نام اور بھی سننے میں آتے ہیں۔

مصنف کتاب ہذا جائسی صاحب صوفی مشرب کے ایک شاعر تھے۔ اس مشرب میں خدا کو معشوق تصور کر کے اس کی عبادت کی جاتی ہے ۔ اس مشرب کا معتقد عیش دنیاوی کا خواہشمند نہیں ہوتا بلکہ خدا کا دیدار حاصل کر کے اس کی وحدانیت میں مل جانے کا خواستگار ہوتا ہے۔ صوفی درد محبت سے بے قرار ہوتا ہے، وہ تمام خلقت کے ذرے ذرے میں درد و محبت کی آواز سنتا ہے ۔ آئینہ دل کا صاف ہونا ہی صوفی کے لیے دنیائے فانی سے نجات مل جانے کی علامت ہے۔ سوائے دیدار خدا جنت وغیرہ کی جستجو صوفی کو نہیں ہوتی، اسے ہر وقت 'دریائے عشق بہہ رہا لہروں میں بیشمار' ہی نظر آتا ہے ۔

جائسی صاحب کے پیدائشی مقام کا تو صحیح پتہ چلتا نہیں البتہ ان کی کتاب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صوبہ اودھ ضلع رائے بریلی قصبہ جائس میں آ کر انہوں نے سکونت اختیار کی تھی جس کی بابت وہ خود فرماتے ہیں کہ ؎
جائس نگردھرم استھانو
تہاں آئے کب کینھ بکھانو
قصبہ جائس کے باشندگان کہتے ہیں کہ ملک محمد صاحب کا مکان محلہ کنچانا میں تھا، یہاں وہ ایک گرست کسان کی حالت میں رہتے تھے، ان کی عادت تھی کہ کھانا کھیت میں ہی منگا کر کھایا کرتے اور وہ بھی تنہا نہیں بلکہ کسی اور کو بھی کھانے میں شریک کر لیتے ۔ ایک بار ان کے ساتھ کھانے والا کوئی دکھلائی نہ پڑا تو وہ بڑے شش و پنج میں پڑے، کچھ انتظار کے بعد ایک جذامی آتا دکھلائی پڑا ۔ جائسی صاحب نے بڑے اصرار کے ساتھ اسے اپنے کھانے میں شریک کر لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جذامی کے جسم کا کچھ مواد کھانے میں گر پڑا لیکن جائسی کو ذرا بھی گھن نہ معلوم ہوئی اور یہاں تک کہ اس پُر مواد حصے کو بھی کھانے پر آمادہ ہوئے ۔ یہ دیکھ کر اس جذامی نے ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ آپ کھانے کا صاف حصہ کھاویں، اسے میں کھالوں گا، لیکن جائسی نے ایک نہ سنی آخر کار اس کھانے کو فوراً کھا لیا ۔ اس کے بعد وہ جذامی غائب ہو گیا۔ اس تعجب خیز واقعہ سے جائسی صاحب کی توجہ خدا کی طرف بہت زیادہ بڑھ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ دنوں بعد جائسی صاحب کے عیال و اطفال کسی دردناک حادثہ سے مر گئے تو انہیں اس ناپائدار دنیا سے بے حد بیزاری ہوگئی اور وہ گھر چھوڑ کر گھومنے لگے۔

تذکرات مقامی سے معلوم ہوا ہے کہ جائسی صاحب غازی پور کے کسی مسلمان کے لڑکے تھے ۔ بچپن میں چیچک کی سخت بیماری سے وہ قریب المرگ ہوگئے تو ان کی ماں نے مکن پور کے مدار شاہ (2) کے مزارپر جاکر منوتی(منت) مانی ، خدا خدا کر کے ان کی جان تو بچ گئی لیکن ایک آنکھ جاتی رہی۔ اس کے علاوہ ان کا ایک کان بھی بیکار تھا یہ دونوں اعضاء بائیں جانب کے تھے ۔ ان کے بیکار ہونے کی بابت انہوں نے پدماوت میں بھی اشارہ کیا ہے ؎
"محمد بائیں دس تجی ایک سرون ایک آنکھ"
ایک نین کب محمد گنی"
جائسی صاحب صوفی خیال کے ایک کامل فقیر تھے ، ان کو اپنی شخصیت کا ذرا بھی غرور نہ تھا اور نہ ان میں انانیت کی بو تھی۔ سناجاتا ہے کہ سلطان وقت شیر شاہ ان کی شہرت سن کر ان کی زیارت کے لیے جائس آیا اور ان کے بھدے چہرے پر مذاق کیا تو اس کا جواب انہوں نے اس طرح دیا کہ ؎
مہنہ کان سنسسِ کہ کہر ہنہ"
یعنی میری صورت پر ہنستا ہے کہ صورت بنانے والے کمھار پر ۔ اس سے سلطان شرمندہ ہوکر معافی قصور کا مستدعی ہوا ۔

جائسی صاحب کے والد کا انتقال تو پیشتر ہی ہو چکا تھا ، چیچک سے صحتیاب ہوتے ہی ان کی ماں بھی انہیں لاوارثی کی حالت میں چھوڑ کر ملک عدم کی جانب سدھاریں۔ اس کے بعد ان کی پرورش فقراء اور زاہدوں میں ہوئی۔
جائسی صاحب کے کچھ کرامات بھی سنے جاتے ہیں کہ امیٹھی کے راجہ رام سنگھ کو ان کی دعا سے اولاد پیدا ہوئی جس سے وہ ان کے مرید بن گئے۔
جائسی صاحب کی موت کا واقعہ اس طرح مشہور ہے کہ وہ کبھی کبھی شیر کی شکل اختیار کر کے جنگل میں گھوما کرتے تھے۔ ایک بار کسی شکاری کی نگاہ پڑ گئی اور اس نے ان پر بندوق چلا دی۔ اس کے بعد شکاری نے جاکر دیکھا تو وہاں کے بجائے جائسی صاحب کی نعش پڑی ملی۔ اس کی بابت جائسی صاحب نے خود ایک بار راجا امیٹھی سے کہا تھا کہ میری موت کسی شکاری کے ہاتھ سے ہوگی۔ گو کہ راجا صاحب نے بہت کچھ انتظام کررکھا تھا کہ اس قرب و جوار کے جنگل میں کوئی شکار نہ کھیلے لیکن آخر 'وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے' ۔ اس کے بعد جائسی صاحب کی قبر راجا کی کوٹ کے سامنے بنائی گئی جو اب تک موجود ہے ۔

جائسی صاحب نے 'پدماوت' میں اپنے کچھ دوستوں کا ذکر کیا ہے۔ جن کے نام ہیں۔ بڑے شیخ ، سلار خادم یوسف ملک اور سلونے میاں۔ کہاجاتا ہے کہ 1527 عیسوی یعنی 946 ہجری میں ان کے دو دوست یوسف ملک اور سلونے میاں بھوجپور ۔ غازی پور کے مہاراج جگت دیوجی کے سایہ عاطفت میں پرورش پاتے تھے۔ اس سے ان کے وقت کا صحیح پتہ چلتا ہے ۔ 'پدماوت' کی تصنیف کا بھی یہی زمانہ ہے ۔
جائسی صاحب نے اپنے مشربی سلسلہ کو بھی کتاب ہذا میں بیان کیا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ میں مخدوم اشرف جہانگیر چشتیہ کا خادم ہوں ؎
سید اسرپھہ پیم پیارا
جنھہ موہنہ پنتھ دینھہ اجیارا
جہانگیر وے چستی نہکلنک جس چاند
وے مکھدوم جگت کے ہوں اوہ گھر کے باند

اس کے علاوہ سلسلہ بیعت کی بابت فرماتے ہیں کہ میں شیخ محی الدین صاحب کا مرید ہوں اور مرشد بزرگان کے نام یہ ہیں: شیخ برہان ۔ شیخ اللہ داد ۔ شیخ محمد۔ شیخ دانیال۔ حضرت خواجہ خضر اور سید راجے لیکن اہل اسلام کی تاریخی کتابوں کے بموجب اس سلسلہ میں کچھ اختلاف ہے ۔
جائسی صاحب مجلس پسند فقیر تھے ۔ انکا وقت پنڈتوں اور سادھوؤں میں زیادہ گزرا ہے ۔ یہ بات ان کی کتاب سے ظاہر ہے ۔ مذہب ہنود اور اس کے رسم و رواج کی بابت ان کو کافی معلومات تھیں۔ جائسی صاحب کے بعد ان کے نمونے کے اور بھی شعرا ہوئے ہیں ۔ مثلاً عالم۔ عثمان۔ قاسم۔ نور محمد۔ فاضل شاہ اور شیخ نبی وغیرہ۔ ان کے چند تصنیفات دستیاب ہوئے ہیں ۔ نور محمد کی اندراوتی اور عثمان کی چتراولی، ناگری پرچارنی سبھا بنارس سے شائع ہوئی ہے ۔

یہ کتاب عام فہم زبان اودھی ہندی مثنوی یعنی دوہا اور چوپائی میں لکھی گئی ہے۔ زبان اودھی صوبہ اودھ ضلع آگرہ، چھوٹا ناگپور، بگھیل کھنڈا اور صوبہ متوسط میں بولی جاتی ہے ۔ اس زبان کی پیدائش مذکور زبان پراکرت بقسم اردھ ماگدھی سے ہوئی ہے ۔ یہ اردھ ماگدھی زبان گنگا جمنا کی ترائی میں استعمال ہوتی تھی ۔ اس خطہ کے پوربی حصے میں زبان پراکرت کی ماگدھی رائج تھی اور پچھمی حصے میں شورسینی۔ ان ہر دو زبانوں کی درمیانی زبان کو اردھ ماگدھی کہتے ہیں، جو زبان اودھی کی ماں ہے ۔ یہ زبان اودھی بھی پوربی اور پچھمی نام سے دو حصوں میں منقسم ہے۔ پچھمی اودھی لکھنؤ سے قنوج تک استعمال ہوتی ہے اور پوربی اودھی گونڈہ اور اجودھیا کے قرب و جوار میں بولی جاتی ہے۔ اس 'پدماوت' کی زبان کو ہم پوربی اودھی کا ایک پرانا نمونہ کہہ سکتے ہیں۔

'پدماوت' کی تاریخ تصنیف کچھ مشتبہ ہے کیونکہ پدماوت کے عام نسخوں میں یہ چوپائی ملتی ہے کہ ؎
سن نو سے ستائیس اہے
کتھا ارمبھ بین کب کہے
یعنی جس زمانہ میں شاعر نے پدماوت کا قصہ شروع کیا اس وقت ہجری کا 927 یعنی عیسوی 1518ء تھا لیکن اسی پدماوت میں شاعر نے شیر شاہ کی تعریف بھی کی ہے جو اس وقت دلی کا حکمراں تھا ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ شیر شاہ کا زمانہ ہجری 947 یعنی 1538 عیسوی کا ہے۔ 927 ہجری میں تو دلی کا حکمراں ابراہیم لودی تھا۔ اس اختلاف سے 927 ہجری مشکوک ہے ۔ البتہ قیاس میں آتا ہے کہ جائسی صاحب کی تصنیفات کو لوگوں نے بحرف فارسی نقل کیا ہو اور کچھ دنوں کے بعد لفظ سینتالیس (47) کے بجائے ستائیس (27) پڑھ لیا گیا ہو جس سے اس طرح کی غلط فہمی واقع ہو گئی کیونکہ سینتالیس اور ستائیس کا لفظی املا لکھنے میں بحرف فارسی کوئی زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ابتدائے تصنیف 927 ہجری ہو مگر کسی وجہ سے سلسلہ تصنیف رک گیا ہو اور شیر شاہ کے زمانہ میں یہ کتاب اختتام کو پہنچی ہو۔
علیٰ ہذا بابت مقبولیت 'پدماوت' اس امر کا بھی ذکر کردینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ گو سوامی تلسی داس جی کی 'رامائن' جو ایک بہت مشہور اور مقبول عام کتاب ہے اس کا زمانہ تصنیف پدماوت کے بعد قریب چھتیس (36) سال کا ہے یعنی عیسوی 1538 میں پدماوت تصنیف ہوئی ۔ اور عیسوی 1574 میں رامائن تلسی کرت۔ ان دونوں کی طرز تصنیف بیت میں بہت کچھ یکسانیت ہے ۔
تلسی کرت رامائن میں آٹھ چوپائی کے بعد دوہا رکھا گیا ہے اور پدماوت میں سات چوپائی کے بعد۔ ونیز رامائن میں چھند (بیت) بہت طرح کے آئے ہیں ۔ اور پدماوت میں دو ہاو چوپائی صرف دو ہی طرح کی زبان قریب قریب یکساں ہے ، اور مضمون دونوں کے دو طرح پر ہیں لیکن مرکز و مقصد دونوں کا ایک ہی ہے یعنی دونوں کتابیں ایک ہی پرماتما خالق کی حمد و ثنا میں لکھی گئی ہیں۔

پدماوت کا مضمون عشق مجازی کے خاکہ میں حقیقت کا انکشاف ہے ۔
داستان یہ کہ جزیرہ سنگلدیپ میں پدماوتی نامی ایک نہایت حسین شہزادی تھی ۔ اس نے ہیرامن نامی ایک طوطا پال رکھا تھا۔ جب پدماوتی جوان ہوئی تو اس نے طوطے سے شوہر کی خواہش کی ۔ طوطے نے شوہر تلاش کرنے کا وعدہ کیا ۔ دونوں کی باہم رازداری مگر کسی چغلخور نے پدماوتی کے باپ راجہ گندھرپ سین سے شکات کر دی ۔ راجہ نے طوطے کو مار ڈالنے کا حکم دیا، لیکن پدماوتی نے اس کی جان بچا لی ۔ ایک دن پدماوتی تالاب میں نہانے گئی، اسی اثناء میں طوطے پر ایک بلی جھپٹی ، طوطا اپنی جان لے کر جنگل میں اڑ گیا ، وہاں کسی چڑ ی مار نے اسے پھنسا لیا اور بازار میں بیچنے لایا ۔ ایک برہمن جو چتور گڑھ سے سنگلدیپ کو تجارت کے لیے گیا تھا، اس نے طوطے کو خرید لیا اور اپنے وطن کو واپس آکر چتور گڑھ کے بازار میں اس طوطے کو فروخت کرنے لگا ۔ طوطے کو پڑھا ہوا دیکھ کر وہاں کے راجا رتن سین نے اسے خرید لیا اور اپنے راج محل میں رکھا۔
ایک دن راجا کی عدم موجودگی میں اس کی رانی ناگمتی نے سنگار کر کے طوطے سے پوچھا کہ "تمام دنیا میں میرے حسن کی اور بھی کوئی نازنین ہے؟"
اس بات پر طوطا پدماوتی کے حسن کی تعریف کرکے ہنس پڑا ۔ ناگمتی نے غضبناک ہوکر طوطے کو مارنے کا حکم دیا لیکن ایک دایہ نے طوطے کو چھپا دیا ۔ رتن سین طوطے کا مرنا سن کر رانی کی جان لینے پر آمادہ ہوا ۔ یہ دیکھ کر دایہ نے طوطے کو لاحاضر کیا۔ طوطے سے خیر و عافیت پوچھی تو اس نے صاف صاف کہہ دیا اور ساتھ ہی پدماتی کے حسن کی بخوبی تعریف بھی کی ۔
رتن سین اس کے عشق میں بے قرار ہوا اور سولہ (16) ہزار راجکماروں کے ساتھ مع طوطے کے، جوگی بن کر سنگلدیپ گیا اور پدماوتی سے شادی کر کے چتور گڑھ واپس آیا۔
اس کے بعد دلی کے سلطان علاؤ الدین خلجی نے جس طرح پدماوتی کے حسن کی تعریف سنی تھی اسی طرح رتن سین کے یہاں دعوت کے سلسلے میں چتور گڑھ آ کر اس نے پدماوتی کے حسن کو آئینے میں بھی دیکھا ۔
padmaavat urdu translation
الغرض سلطان پدماوتی کے حسن پر فریفتہ ہوا اور رتن سین کو دھوکے سے قید کر لیا۔ پھر پدماوتی کو کٹنیوں کے ذریعے ورغلانے کی بہت سی تدبیریں کی گئیں لیکن وہ اپنی عفت پرستی پر بدستور قائم رہی ۔ اس کے بعد گورا بادل نامی بہادروں نے سولہ سو نقاب پوش محافوں میں مسلح راجپوت سرداروں کو اور ایک مرصع محافے میں ایک لوہار کو بٹھا کر سلطان سے جاکر کہا کہ :
"پدماوتی مع سہیلیوں کے خدمت میں حاضر آئی ہے ۔ وہ عرض کرتی ہے کہ خاوند سے آخری ملاقات کی اجازت بخشی جاوے ۔ اس کے بعد محل سرا میں داخل ہو جاؤں گی"۔
پس حکم کی دیری تھی کہ پدماتی کا محافہ قید خانے میں رتن سین کے سامنے اتارا گیا۔ اس محافے میں پوشیدہ لوہار نے رتن سین کے پیروں کی بیڑیوں کو کاٹ دیا اور وہ قید خانے سے باہر ہوکر چتور گڑھ پہنچ گیا ۔
پھر طرفین میں بہت بڑی لڑائی ہوئی جس میں راجہ رتن سین بھی کام آ گئے ۔ القصہ پدماوتی اور ناگمتی نے اپنی عصمت و عفت کے گلے میں لپٹ کر خاوند رتن سین کے ساتھ ستی ہو زندگی کے اصل مقصد کو سر انجام کیا۔
اس کی تاریخ بموجب فرشتہ، عیسوی سن 1303 کے قریب کی ہے ۔ 'پدماوت' کا یہ قصہ تاریخی واقعات سے تعلق رکھتا ہے لیکن مضمون کو دلچسپ بنانے کی غرض سے مصنف نے بہت سے غیر تاریخی واقعات کو بھی حسب دستور شامل کر لیا ہے جیسا کہ داستان پردازی کا رواج ہے ۔

پدماوت کے ترجمے منظوم فارسی حرفوں میں دو نسخے کمترین کو ملے۔ اول پدماوت اردو مصنفہ ملا ابوالقاسم اور پدماوت اردو مصنفہ ضیاء الدین عبرت اور غلام علی عشرت، ان دونوں شاعروں نے آپس میں میں مل کر 'پدماوت' کا اردو شعر میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کی تاریخ تصنیف 1796ء ہے ۔
مطبوعات نول کشور پریس لکھنؤ اور ترجمان اردو نثر کے بھی دو نسخے دیکھنے میں آئے ۔ ایک تو نولکشور پریس لکھنو کا اور دوسرا کانپور کے کسی پریس کا ۔ اس کے علاوہ ہندی حرفوں کے بھی دو نسخے دیکھے ۔ اول کمترین کے ایک دوست رام سنگھ شرما، باٹنی ڈپارٹمنٹ لکھنؤ یونیورسٹی کی مہربانی سے مترجمہ سدھاکر دویدی، ایشیاٹک سوسائٹی کا اور دوسرا جائسی گرنتھاولی ناگری پرچارنی سبھا بنارس مولفہ پنڈت رام چندر شوکل کا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنڈت جی صاحب موصوف نے تصنیفات جائسی کی تالیف فرما کر جو احسان ادبی دنیا پر فرمایا ہے اس کی تعریف کرنا آفتاب کو چراغ دکھلانا ہے ۔

اس پدماوت کا ترجمہ زبان بنگلہ میں بھی ہونے کا پتہ چلتا ہے کہ اراکان راج کے وزیر مگن ٹھاکر نے آلو اجالو نامی کسی شاعر سے اس 'پدماوت' کا بنگلہ زبان میں ترجمہ کرایا تھا ۔ جس کی تاریخ 1650ء کے قریب کی ہے ۔ اس کے بعد 1652ء میں منشی رائے گوبند جی نے پدماوتی کی کہانی پر 'تحفۃ القلوب' نامی کتاب فارسی نثر میں لکھی اور حسین غزنوی نامی کسی شاعر نے 'قصہ پدماوت' نامی ایک کتاب فارسی نظم میں لکھی ۔

کمترین مترجم اپنے رفیقان کار مصور درد مولوی عبدالباری صاحب آسی اور مولوی جعفر علی صاحب فاضل دیوبند کا بھی شکر گزار ہے جنہوں نے ترجمے کی نظر ثانی کر کے اردو لہجے کی موزونیت کو زینت فرمائی ورنہ میں ایک سنسکرت کا پنڈت 'پدماوت' کی مشکوک متن والی پیچدار شاعری کا اردو ترجمہ کرنے کی کیونکر ہمت کرسکتا تھا؟
جائسی گرنتھاولی کے سوائے جتنے بھی نسخے 'پدماوت' کے ملے وہ سب بےحد مشکوک اور غلط ہیں۔ ایک ایک مصرعہ پر کمترین مترجم کو کافی غور کرنا پڑا ہے ۔ جہاں تک ممکن تھا شاعری کے کسی بھی لفظ کا مطلب نظر انداز نہیں کیا گیا ہے تو بھی اگر علماء کی باریک بین نظر میں کوئی غلطی ظہور میں آئے تو براہ عنایت احقر کو اس کی اطلاع فرماویں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی صحت کر دی جاوے۔

فقط
بھگوتی پرساد پانڈے 'انوج'
(موضع ہاتھی گروہ)
پوسٹ متھرا بازار (بہرائچ)

(1)بعض علماء کا یہ قول ہے کہ الہام علم الیقین کی زبان کچھ ایسی تھی کہ عوام کی گفتگو میں اس کے تلفظ زیادہ کار آمد نہ ثابت ہوئے ، لہذٰا اسے آسان بنانے کی غرض سے ،اس میں کچھ اصلاح کردی گئی جس سے وہ ایک اچھی خاصی عام فہم زبان بن گئی جو سنسکرت بھاشا کے نام سے کہی گئی، اس کے بعد زبان عادتی (پراکرت بھاشا) کا زمانہ آیا۔
(2) مدار شاہ کا مزار مکن پور مقام، بی ۔ بی ۔ اینڈ ۔ سی ۔ آئی ریلوے میں اردل اسٹیشن کے پاس ہے ۔ یہ اردل اسٹیشن کانپور انور گنج سے 41 میل ہے، یہاں ان کے زمانے میں ہزاروں آدمی آکر شرف زیارت حاصل کرتے ہیں۔

نوٹ :
نام کتاب: پدماوت بھاکھا مترجم
تعداد صفحات: 351
مصنف: ملک محمد جائسی
اردو ترجمہ: پنڈت بھگوتی پرساد پانڈے 'انوج' (ملازم مطبع منشی نول کشور لکھنؤ)۔
ناشر : منشی نول کشور ، لکھنؤ

ریختہ ڈاٹ آرگ پر آن لائن مطالعہ:
padmavat bhakha mutarjam malik mohammad jayasi ebooks

Foreword of Padmaavat Urdu. Article: Bhagoti Prasad Pandey

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں