ڈپٹی نذیر احمد کے مشہور و مقبول ناول "ابن الوقت" کا شمار اردو کے کلاسک ناولوں میں ہوتا ہے۔خلاصہ فصل - 11
یہ ناول سی۔بی۔ایس۔ای کے بارہویں جماعت کے اردو لٹریچر میں شامل رہا ہے۔ بعض طلبا کی متواتر فرمائش پر محترم جناب رؤف خلش نے آج سے کچھ سال قبل اس ناول کی تلخیص تحریر کی تھی۔ وہی تلخیص افادہ عام کی خاطر پہلی مرتبہ "تعمیر نیوز" پر قسط وار شکل میں شروع کی گئی تھی ۔۔۔ چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر یہ سلسلہ 12 ویں قسط (خلاصہ فصل-10 ، 25/اپریل/2013) کے بعد سے تعطل کا شکار ہو گیا جس کے لیے ہم اپنے معزز قارئین سے معذرت خواہ ہیں۔ اس ہفتہ سے یہ ہفتہ وار سلسلہ جاری کیا جا رہا ہے۔ 13 ویں قسط یہاں ملاحظہ فرمائیں۔
انگریزی دستور کے مطابق ابن الوقت نے نوبل صاحب کی دعوت میں کھانے کے بعد تقریر کی
نوبل صاحب ابن الوقت کا تعارف کرانے کے بعد بیٹھے ہی تھے کہ ابن الوقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی تقریر شروع کی:
نوبل صاحب نے ایسی مہربانی کے ساتھ میرا تعارف کروایا کہ ان کی شکر گذاری کو میں اپنا فرض سمجھتا ہوں۔میں نے نوبل صاحب کی مدد کی تو بحیثیت مسلمان یا بحیثیت ایک انسان۔یہ نوبل صاحب کی شرافت ہے کہ وہ میرا احسان مانتے ہیں اور گورنمنٹ سے زمین داری اور ماہانہ خدمت عطا فرمائی۔
مبارک ہیں وہ لوگ جونتیجہ سے پہلے وجوہات پر نظر کر کے فیصلہ کرتے ہیں۔اگر ہندوستانیوں کو انگریزی سلطنت سے امن و آزادی کے فائدے پہنچے ہیں تو انگلستان اس سلطنت کی وجہ سے مالا مال ہوگیا ہے۔انگریزوں نے اس ملک کو تلوار کے زور سے فتح کیا اور اس پر قابض رہے اور تلوار کے زور سے غدر کو بھی ختم کردیا۔مگر وہ تلوار کے زور پر اپنی رعایا کے جسموں کو قابو میں رکھ سکتے ہیں اور نہ دلوں کو۔
لہذا اس ملک کے عہدے داروں کا فرض ہے کہ وہ ہر وقت اپنے آپ کو ملکہ انگلستان کا قائم مقام سمجھ کر لوگوں کے ساتھ برتاؤ کریں۔غدر کے بعد سے ہر انگریز کو یہ شکایت ہے کہ ہندوستانیوں نے اس کی مدد نہیں کی، لیکن انگریز اتنا سوچیں کہ وہ کس مہربانی کے صلہ میں ہندوستانیوں کی مدد کے مستحق تھے۔ہزاروں برس سے ہندوستانی اپنے ہم وطنوں کی حکومت میں بسر کرنے کے عادی تھے۔ملک کی تمام آمدنی بادشاہ کی ہوتی تھی اور وہ جس طرح چاہتا خرچ کرتا تھا۔پھر اس بدنصیب ملک کی ساری دولت ایشیائی لوگوں کے ان ملکوں میں تقسیم ہوتی رہی جن کی قسمت میں اس سے فائدہ اٹھانا تھا۔
اب ایک ایسی سلطنت شروع ہوئی جس کی مثال اس ملک میں نہ دیکھی گئی نہ سنی گئی یعنی خلق خدا کی۔ملک، ملکہ وکٹوریہ کا اور حکم کمپنی بہادر کا۔یعنی عوام تو ایک تھے لیکن حکومت کرنے والے تھے تین تین پھر تینوں نظر سے چھپے ہوئے۔۔حاکم اور محکوم دونوں میں کسی طرح کی مناسبت نہیں۔نہ وطن ایک نہ زبان ایک، نہ مذہب ایک ۔
ہندوستانیوں کے حق میں سلطنت کیا بدلی گویا ساری خدائی بدل گئی۔اگر سرکار کو اپنی رعایا کا دل خوش رکھنا منظور ہے تو ہندوستانیوں میں اس سرے سے اس سرے تک اایک طرح کا انتظام ہونا چاہئیے۔پچھلی حکومت میں اہل شہر اور اہل قلعہ( یعنی حکمران بادشاہ کا قلعہ)کی زندگی ایک دوسرے سے اتنی مختلف تھی کہ قلعہ ایک دوسری دنیا معلوم ہوتا تھا۔غدر کی وجہ سے ملکہ معظمہ نے سلطنت اپنے ہاتھ میں لے لی اور کمپنی کو کچھ تعلق نہ رہا تو یہ اس ملک کے لئے فال نیک ہے۔
میری صلاح یہ ہے کہ گورنمنٹ اپنے تعلقات اندرونی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ درست کرے۔کیونکہ ان ریاستوں کی حالت بہت ہی خراب ہے اکثر ہندوستانی رئیس اپنی نالائقی اور بدکرداری کی وجہ سے خود انگریزی حکومت کے حق میں نقصان کا سبب بن رہے ہیں۔ان ریاستوں کی درستگی نہایت ضروری ہے کیونکہ انگریزوں کی طرف سے قائم کردہ ایجنٹ یا ریزیڈینٹ،ریاستوں کے اندرونی انتظامات میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ جب کہ ان کے اختیارات اتنے وسیع ہونے چاہئیں کہ وہ اپنی صلاحیت سے ریاست کو قابومیں رکھیں اور یہ ریاستں انگریزی سلطنت کے لئے خطرہ نہ بن پائیں۔
ابن الوقت نے قوموں کے درمیان نفرت کا سب سے بڑا سبب مذہب کو بتلایا۔خصوصاً ہندوستانیوں کے نزدیک۔ہندو اپنے مذہب کے تعلق سے اتنے سخت ہیں کہ وہ دوسری قوم کا چھوا ہوا پانی نہیں پیتے۔ہندوستان کے باشندوں میں انگریزوں کے ساتھ میل جول بڑھانے میں اگر کچھ لوگ ہیں تو وہ مسلمان ہیں۔کیونکہ مذہب اسلام ایسے تعصبات سے پاک ہے۔مسلمانوں کی آسمانی کتاب قرآن میں دیگر آسمانی کتاب رکھنے والوں کو ساتھ روا داری کی اجازت موجود ہے بشرطیکہ وہ مشرک اور کفر میں متبلا نہ ہوں۔
ہندوستان میں ایک مدت سے ہندو مسلم ملے جلے رہتے آئے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں قوموں نے ایک دوسرے سے بہت سی باتیں اخذ کی ہیں۔خصوصاً شادی بیاہ کی بہت سی رسموں کو دونوں قوموں نے ایک دوسرے سے لے کر اختیار کیا ہے جب کہ مذہب میں اس کا وجود نہیں لیکن یہ کیفیت سینکڑوں سال میں جاکر پیدا ہوئی ہے۔اس کے باوجود کوئی بھڑکانے والا کھڑا ہو تومسلمانوں اور ہندؤں میں فساد ہو جاتا ہے اور آپس کی یہ نااتفاقی انگریزی گورنمنٹ میں فائدہ مند ہے۔چنانچہ لوگوں میں تو یہی بات مشہور ہے کہ یہ تمام فساد چربی کے کارتوسوں کا تھا۔
ابن الوقت کی نظر میں یہ عوام کی غلط فہمی ہے۔لیکن رعایا کے خیالات نہ جاننے یا ان کی پروا نہ کرنے سے انگریزی عہدہ داروں سے اس طرح کی غلطی کا ہونا ممکن ہے۔جس سے کہ لوگوں کو مذہبی ناخوشی پیدا ہو۔لیکن ایسا نہیں ہے کہ صرف کارتوس ہی غدر کا سبب ہوا ہو۔بلکہ غدر کا مادہ دلوں میں مدّت سے جمع ہو رہا تھا،کارتوس اس کا سبب بن گیا۔کیا لوگوں کو صرف اسی ایک کارتوس سے شبہ ہوا کہ سرکار مذہب میں مداخلت کرنا چاہتی ہے یا کسی اور کاروائی سے لوگوں کو پہلے سے بدگمانی تھی؟
ابن الوقت کا خیال تھا کہ انگریزوں نے ہندو مسلمانوں میں کسی کو اس کے فرائض مذہبی ادا کرنے سے نہیں روکا یا کسی کو زبردستی یا کسی کا لالچ دکھا کر عیسائی نہیں کرنا چاہا۔لیکن ہندو سمجھتے تھے کہ انگریز مذہب کو پھیلانے میں اس درجہ سرگرم ہیں کہ گلی گلی میں پادری وعظ کہتے ہیں اور مذہبی کتابیں مفت بانٹتے پھرتے ہیں۔چمار ہو،بھنگی ہو ان کو اپنی ذات میں ملا لینے سے انکار نہیں۔یوں ہندوؤں کے دلوں میں از خود سرکار انگریزی کی طرف سے مذہبی بدگمانی پیدا ہوئی۔
ہندوستانیوں کو حقیر سمجھنا اور ان کی مرضی کی مطلق پروا نہ کرنا،اس کا انداز نہ صرف عہدہ داروں بلکہ خود گورنمنٹ کے کاموں میں جھلکتا ہے۔کیونکہ گورنمنٹ صرف عہدیداروں پر بھروسہ کرکے فیصلہ کرتی ہے،اور یہ عہدیدار رعایا کے ساتھ ربط و ضبط بالکل نہیں رکھتے۔جس کی بنأ پر عوام کی ضرورتیں اور حاجتیں گورنمنٹ پر ظاہر نہیں ہو پاتیں۔اس کے علاوہ گورنمنٹ یہ نہیں جان پاتی کہ اگر کسی ہندوستانی میں مشورہ دینے کی صلاحیت ہے تو وہ ہیں انگریزی جاننے والے ،جو اپنے ملک کے حالات سے بھی واقف ہیں۔خیالات روشن ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ انگریزی گورنمنٹ کے ارادوں کو جانتے بھی ہیں۔لیکن چونکہ یہ لوگ چھوٹا منہ بڑی بات ،انگریزی کے ساتھ برابری کا دم بھرتے ہیں،اسی بنأ پر انگریزوں کی نظر میں کھٹکتے ہیں۔
گورنمنٹ نے ہندوستانی ریاستوں کو من مانی کرنے اور کھلی چھوٹ دے کر بڑی غلطی کی ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان ریاستوں کی خرابی کو گورنمنٹ اپنی مضبوطی کا سبب سمجھتی ہے۔ہندوستان میں کبھی رعایا کی رائے سے حکومت نہیں چلی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے اپنی حکومت تھی اب اس پر اجنبی قبضہ کئے بیٹھے ہیں۔
کمائی کے ذرائع سے غور کیا جائے تو ہندوستان میں چار قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ پہلے زراعت پیشہ، دوسرے صنعت پیشہ،تیسرے نوکری پیشہ اور چوتھے تجارت پیشہ۔ہندوستانی سرکاریں جو پہلے تھیں ان کا ناقص قسم کا انتظام مالگذاری تھا۔نقدی لگان کا دستور نہ تھا،فصل پک کر تیار ہوگئی۔زمین داروں اور کاشت کاروں دونوں نے غلّہ بانٹ لیا۔اب انگریزی گورنمنٹ کے انتظام میں ہر قسم کی زمین کی پہلے پیمائش کروائی گئی اور پھر کھاد یا آبپاشی کے لحاظ سے پیداوار کا اندازہ مقرر کیا گیا اور آدھی پیداوار حقِ سرکار ٹہرائی گئی۔جس کی وجہ سے کاشت کاروں کے ایسے حقوق تسلیم کرلئے گئے کہ زمین دار کا کاشت کار وں پر ذرا بھی دباؤ باقی نہ رہا۔زمین دار کسی کاشت کار کو کھیت سے بے دخل نہیں کرسکتا۔نتیجہ یہ نکلا کہ زمین داروں اور کاشت کاروں میں ہمدردی یا مدد کے بجائے دشمنی اور کشمکش پیدا ہو گئی۔
مثل مشور ہے کہ "اتفاق میں قوت ہے"،مطلب یہ کہ زمین دار اور کاشت کار مل جل کر کام کریں تو ایک قوت پیدا ہوگی اور اگر یہ قوت گورنمنٹ کی مددگار بن جائے تو اپنے طور پر کسی دوسری قوت کی کیا ضرورت ہے۔لیکن افسوس کہ گورنمنٹ نے بجائے اس کے کہ اس قدرتی زور سے فائدہ اٹھائے اس کو ضائع کردینا آسان سمجھا۔
زمین دار وں،کاشت کاروں اور عہدہ داروں کے درمیان سمجھوتہ اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے کام کرنے کا جذبہ ہو تو سارے مسائل اپنے آپ حل ہوجائیں۔لیکن ایسا نہ ہونے سے نتیجہ یہ نکلا کہ بے چارے کاشت کار ساہوکاروں اور مہاجنوں کے قابو میں آگئے اور ان کے غلام بن کر رہ گئے۔غرض جتنے زراعت پیشہ ہیں، کیا زمین دار، کیا کاشت کار، سب تباہ حال ہوگئے۔چونکہ سرکاری مالگذاری وقت مقررہ پر وصول ہو جاتی ہے اس لئے سرکار سمجھتی ہے کہ انتظامِ مال گزاری اچھا ہے۔
یہ تو ہوئی کسانوں کی بات،اہل حرفہ یعنی صنعت پیشہ (کاریگروں)کی حالت اور بھی خراب ہے یوروپ کی مشینوں نے ان کو کہیں کا نہ رکھا۔پرانے پیشے اب غائب ہوگئے۔کہاں وہ ڈھاکہ کی ململ ،بنارس کی کاریگری،اورنگ آباد کے کمخواب،بیدر کے برتن یا کشمیر کی شالیں۔ہندوستان سے ہر طرح کی پیداوار ولایت چلی جاتی ہے۔انسانی قوت کے مقابلے میں یوروپ کی مشینیں سارے دن ساری رات بے تکان چل پڑتی ہیں۔ہندوستانیوں میں مشینوں کا ایجاد کرنا تو کجا،ابھی تو کلوں(مشینوں)سے کام لینے کو بھی عمر چاہئیے۔کیونکہ وہ حد درجہ کے کاہل اور غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ان میں اپنی حالت کو درست کرنے کی طرف دھیان ہی نہیں۔یوروپ کی تمام ترقی کا راز علوم جدیدہ ہیں۔اس میں شک نہیں کہ لکھنے پڑھنے کا شوق پہلے سے زیادہ ہو گیا ہے۔جن لوگوں میں پڑھنے لکھنے کا دستور نہ تھا وہ بھی اپنے بچوں کو پڑھانے لگے ہیں۔انگریزی کا شوق بھی زیادہ ہو رہا ہے۔پہلی جیسی نفرت نہیں رہی۔لیکن لوگ نوکری کی لالچ میں پڑھنے لگے ہیں۔نوکری ہی ان کے نزدیک پڑھنے کی وجہ ہے۔ہم کو چاہئیے کہ ہم تعلیم حاصل کر کے صنعت و حرفت(INDUSTRY) کو ترقی دیں۔لیکن اب لوگوں کو ایسی پٹی پڑھائی جاتی ہے کہ ہم اپنے آبائی پیشوں یعنی باپ دادا کے پیشوں سے نفرت کرتے ہیں۔
اس کے بعد ابن الوقت اپنی تقریر میں تجارت پیشہ لوگوں کی نسبت کہنے لگا ۔تجارت کو روپیہ پیسہ یعنی سرمایہ چاہئیے اور اسی کا رونا ہے۔سچ پوچھو تو ساری تجارت اہل یوروپ کی مٹھی میں ہے اور ہندوستانی تاجر نہیں،تاجروں کے دلال ہیں۔ولایت سے مال منگواتے ہیں اس کے طفیل میں روپے کے پیچھے دھیلا دمڑی(پرانے زمانے کا پیسہ) کماتے ہیں۔
ہندوستان کے لوگ عادتاً سادگی اور کفایت شعاری سے زندگی بسر کرنے والے لوگ رہے ہیں۔ان لوگوں نے اپنی ضرورتوں کو اس قدر محدود کررکھا ہے کہ ان کو بہت سے ساز و سامان کی حاجت نہیں۔ان کے پاس اگر روپیہ ہو تو کھانے پینے کے ضروری مصارف کے بعد اس کا زیور اپنی عورتوں کو بنا دیتے ہیں۔لیکن آج کل انگریزوں کے دور میں تکلف،آرائش،نام و نمود کی نئی نئی چیزیں ولایت سے آکر رواج پا رہی ہیں۔
مثال کے طور پر ریل کی وجہ سے اس قدر سہولت ہوگئی ہے کہ جو لوگ کبھی گھر سے باہر نکلنے کا نام نہیں لیتے تھے،اب ذرا ذرا سی ضرورتوں پر چل کھڑے ہوتے ہیں۔حقّے کے بجائے اب چرٹ کا استعمال اور کپڑوں کی گٹھری کے بجائے بیاگ کا استعمال ہونے لگا ہے۔اس طرح ضرورتوں کا سلسلہ چپکے چپکے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ڈاک کے انتظام نے خط و کتابت کو اس قدر بڑھا دیا ہے کہ زیادہ نہیں تو مہینے کے مہینے ایک دوسرے کی خیریت لینا ضروری ہے۔پہلے چھتری کو امیری کی نشانی سمجھا جاتا تھا لیکن اب کسی بھی بڑے بازار میں اس سرے سے اس سرے تک چھتریوں کا ایک سائبان نظر آنے لگا ہے۔
ولایت سے قسم قسم کے کپڑے بن کر چلے آتے ہیں۔اکثر آدمی بے ضرورت بھی بنا لیتے ہیں۔ابن الوقت کی نظر میں تہذیب اور فضول خرچی لازم و ملزوم ہوگئے ہیں۔خرچ کی نسبت سے اگر ہندوستانی اپنی آمدنی بھی بڑھا سکتے تو کچھ پروا کی بات نہ تھی۔
سب کا اتفاق رائے سے یہ خیال ہے کہ انگریز کی عملداری میں امن ہے،انصاف ہے،زور نہیں،ظلم نہیں مگر نہ جانے کیوں اگلے وقتوں کی خیر و برکت نہیں۔یعنی پیٹ کو روٹی ہے تو تن کو کپڑا نہیں اور کپڑا ہے تو روٹی نہیں۔مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔جس چیز کو دیکھو آگ لگ رہی ہے۔روپیہ ادھر تڑایا ادھر غائب۔غلّہ بارش کی کثرت سے ہوتا ضرور ہے لیکن سرکاری لگان دینے کی غرض سے ہم ایک فصلی زمین سے اگر دو فصلیں یا چار فصلیں پیدا کریں تو زمین بے دم اور کمزور ہو جائے گی اور اس کی قوت پیداوار گھٹتی چلی جائے گی۔اسی کو عوام بے برکتی سے تعبیر کرتے ہیں۔اس کے بعد یہ بھی ہے کہ اس عملداری میں بے ایمانی بہت پھیلتی جاتی ہے۔لوگوں میں اگلا جیسا راست گوئی کا معاملہ نہیں رہا۔نیّتوں میں کھوٹ،دلوں میں دغا،باتوں میں جھوٹ پھیل گیا ہے۔جس کے نتیجے میں بات بات میں لوگ لڑ پڑتے ہیں۔
جس عدالت میں جاکر دیکھو مقدمات کی بھر مار ہے۔وکیل اور مختار الگ جھانسے دیتے ہیں۔سیانا سے سیانا آدمی ان کے دھوکے میں آجاتا ہے۔عدالت کی کاروائیاں اس قدر الجھی ہوئی ہوتی ہیں کہ اسٹامپ،طلبانوں(یعنی پیسے طلب کرنا)اور محنتانوں(یعنی محنت کا معاوضہ مانگنا)کے خرچے فریقین یعنی(آپس میں لڑنے والے) کومارڈالتے ہیں۔ہندوستانی ریاستوں میں عدالتوں کااتنا اہتمام نہیں ہوتا۔کسی بات میں اختلاف ہو بھی تو آپس میں رفع دفع کرلیتے ہیں۔کبھی کبھار فریاد بھی آتی ہے تو پنچائیت پر راضی ہو جاتے ہیں۔دیسی ریاستوں کے لوگ جھوٹ کم بولتے ہیں۔
نوبل صاحب کی دعوت میں ابن الوقت کی تقریر بہت طویل ہونے لگی تو اس نے معذرت چاہتے ہوئے یہ کہا کہ کہیں اس نے لذیذ ضیافت کا مزا کرکرا تو نہیں کردیا۔لیکن یہ موضوع (TOPIC)اتنا پھیلا ہوا ہے کہ اگر ہر روز اسی طرح کہا کروں تو ہفتوں میں جاکر ختم ہو۔میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ غدر سے پہلے تک انگریزی گورنمنٹ کی کوئی تعریف تک نہ کرتا تھا۔گورنمنٹ اور رعایا دونوں کے ساتھ میری سچی خیر خواہی نے یہ ظاہر کیا اور غیر متوقع طور پر نوبل صاحب کو غدر کے دوران بے ہوشی کی حالت میں اپنے گھر میں رکھا سوائے انسانیت کے اور میری فرض شناسی کے،اس میں اور کوئی غرض نہ تھی۔سچ پوچھو تو نوبل صاحب کو صرف خدا نے بچایا ہے،میری کسی تدبیر کو اس میں کچھ دخل نہیں۔یہ صرف نوبل صاحب کے اخلاق ہیں کہ انھوں نے میری اتنی قدر افزائی کی۔
گورنمنٹ نے جو مجھ کو جاگیر دی،نوکری دی وہ صرف احسان ہے۔جس کو میں صرف شکر گذاری کے ساتھ قبول کرلو ں تو نا اہل کہلاؤں۔لہذا میں سوچنے لگا کہ اس معاوضہ میں گورنمنٹ کی کون سی خدمت کروں؟نہ تو میرے پاس مال ہے نہ پیشۂ سپہ گری (یعنی جنگ کرنے کا فن) ہے۔صرف میرے پاس دل ہے۔پس میں آپ صاحبان کے روبرو اس بات کو ظاہر کرتا ہوں کہ میں اپنا دل گورنمنٹ کی نذر کرچکا۔خدانے چاہا تو میری تمام عمر اسی میں بسر ہوگی کہ جہاں تک مجھ سے ہوسکے گا گورنمنٹ کی بھلائی میں اور اس کے قیام میں کوشش کرتا رہوں۔خدا میری مدد کرے۔
اس کے بعد ابن الوقت اپنے منصوبوں کو جو اس کے ذہن میں تھے ، اظہار کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ شروع ہی سے اس کو تاریخ اور اخبارات کا بہت شوق رہا ہے۔اگرچہ اس نے گورنمنٹ کے انتظام پر سختی سے نکتہ چینی کی ہے اور اس کے باوجود اسے اقرار ہے کہ انصاف ،رعایا کی آزادی میں،انسانی ہمدردی میں،ملک کے فلاح و بہبود میں اور ترقی میں کوئی گورنمنٹ ، انگریزی گورنمنٹ کا مقابلہ نہیں کرسکتی کیونکہ اس کے اصول بہت ہی عمدہ ہیں۔پس انگریزی حکومت کو وہ ہندوستان کے حق میں خدا کی رحمت سمجھتا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ ہندوستان کی رعایا اس سے فائدہ اٹھائے۔اس سلسلے میں دونوں کے درمیان(یعنی حکومت اور رعایا کے درمیان)جو دوری ہے وہ ختم کردے گا۔
لیکن اس کی کوشش صرف مسلمانوں کی حد تک محدود رہے گی۔مسلمانوں میں کوئی ایسی ملت نہیں جس سے گورنمنٹ نا مطمئن ہو۔پیغمبر اسلام نے جب دیکھا کہ لوگ انھیں اور ان کے ساتھیوں کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچا رہے ہیں تو انھیں صبر کے ساتھ برداشت کرنے کی تعلیم دی۔مسلمانوں نے ان تکلیفات سے عاجز آکر ترکِ وطن کیا جس کو "ہجرت"کہتے ہیں۔پھر بھی لوگوں نے چین سے بیٹھنے نہ دیا۔عرب میں مسلمانوں کی بہت سی فتوحات ہوئیں جن میں سب سے مشہور،جس نے عرب کو بت پرستی سے پاک کیا تھا،"فتحِ مکّہ"تھی۔جس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ فتح مند پیغمبر مکّہ میں داخل ہورہے تھے تو شہر مکّہ میں امن کا اعلان ہو رہا تھا۔
ویسے انگریزی عملداری میں جس قدر مذہبی آزادی ممکن ہے وہ تمام مسلمانوں کو حاصل ہے بلکہ مسلمانوں کی عملداری میںیہ آزادی ممکن نہیں۔اتنا ضرور ہے کہ ہندوستان کے مسلمان،ہندؤوں کی دیکھا دیکھی کھانے پینے میں، پہننے میں چھوت بہت ماننے لگے ہیں۔ہندوستان کے مسلمانوں پر ہندؤوں کے میل جول نے کافی بڑا اثر کیا ہے۔مسلمان، چونکہ انگریزوں سے پرہیز کرنے لگے ہیں، اس لئے انگریزی عملداری کے بہت سے فائدوں سے محروم ہیں۔اس طرح روز بہ روز مفلس اور بے قدر ہوتے جاتے ہیں اور گورنمنٹ کو اپنی طرف سے بدظن رکھتے ہیں۔
ابن الوقت نے کھلے طور پر کہا کہ وہ مسلمانوں کی اتنی"ہندویت" تو ختم کردے گا۔مسلمانوں کا مذہب جدید ہے اور ابھی اس کی اصلیت دوسرے مذہبوں کی طرح غائب نہیں ہوئی۔ لہذا اسے اپنی کوششوں میں ہر طرح کامیابی کی امید ہے۔اسے معلوم ہے کہ جب تک خود اپنے طور پر نمونہ بن کر نہ دکھایا جائے،اس کا اثر نہیں ہوتا۔پس ابن الوقت نے جب تک خود انگریزی وضع کو اختیار نہیں کرلیا،اس نے اپنے منہ سے یہ باتیں نہیں نکالیں۔وہ چاہتا ہے کہ یہ وضع سب مسلمان اختیار کریں۔اس نے سب صاحبوں کے ساتھ ایک میز پر کھانا کھایا اور ان کے روبرو انگریزی لباس پہنے کھڑا ہے اور وہ یقیناً ویسا ہی مسلمان ہے جیساتھا۔وہ جانتا ہے کہ خود مسلمان جن کے لئے اس نے یہ وضع اختیار کی ہے،چھیڑ چھاڑ کر اور ہنس ہنس کر اس کی زندگی کو تنگ کردیں گے۔مگر ان کا بہت تنگ کرنا بیکار ثابت ہوگا۔وقت کا تقاضہ اور تعلیم دو بڑے مددگار ہیں اور ان دونوں کی تائید سے اس کو پورا بھروسہ ہے کہ بہت جلد مسلمانوں کا ایک گروہ اس کی وضع کی تقلید کرے گا۔
اس طرح ابن الوقت نے اپنی تقریر کو معذرت کے ساتھ ختم کیا۔
Urdu Classic "Ibn-ul-Waqt" by Deputy Nazeer Ahmed - Summary episode-13
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں