حافظ کرناٹکی کی حمدیہ کتاب - رباعیاتِ حافظ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-10-18

حافظ کرناٹکی کی حمدیہ کتاب - رباعیاتِ حافظ

haafiz-karnataki
حافظؔ کرناٹکی کا نام اب اردو ادب اور اس میدان میں سرگرم رہنے والے ادبا وقارئین کے لیے نیا نہیں رہا۔اردو میں ان کی ساٹھ سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور مزید کئی کتابیں منظر عام پر آنے کی توقع ہے۔حافظ کرناٹکی برسوں سے لکھ رہے ہیں اور ادبی میدان میں مختلف اصنافِ ا دب کی مسلسل تخلیق کے توسط سے ا ور بعد میں اس کو اشاعت کی صورت میں سامنے لے کراپنی حاضری کاپختہ ثبوت دے رہے ہیں۔اردو زبان و ادب میں اس سے بڑھ کر نیک فعل بھلا اور کیا ہوسکتا ہے۔ادبِ اطفال حافظؔ کرناٹکی کا خاص موضوع رہا ہے۔انھوں نے بچوں کے تعلق مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے۔جس میں نظمیں،درس و تدریسی مضامین،بیت بازی،مذہبی اور اخلاقی مضامین و کتابیں،قومی یکجہتی،سیاسی،ملّی و مذہبی شخصیات،مقدس مقامات اوربچوں کے لیے حمدیہ و دعائیہ ا ور دیگر نوع بنوع رباعیات وغیرہ شامل ہیں۔بچے کسی بھی قوم کا معمار کہلاتے ہیں اور ان کی اچھی اور صحیح ذہنی ترتبیت کرناانسان کا اخلاقی فرض ہوتا ہے۔ایک ادیب قوم کا حساس ترین اور سنجیدہ شخص ہوتا ہے جو سماج یا معاشرے کو بنانے ،سنوارنے اور راہ راست پر لانے کا کام انجام دیتا ہے۔ظاہر سی بات ہے جو معاشرہ جتنااچھا ہوگا اس میں جنم لینے والے یا پلنے بڑھنے والے بچوں کی ذہنی ،مذہبی،تعلیمی اور اخلاقی پرورش بھی اسی قدر متاثر کن ہوگی۔اس تعلق سے بات کی جائے تو ایک ادیب اس میں بہت اہم ،معاون اور مؤثر کردارادا کر سکتا ہے۔لیکن ہر ادیب اس کام میں صد فی صد کامیاب نہیں ہوسکتا۔بہرحال حافظؔ کرناٹکی ایسا نام ہے جنھوں نے اپنی پوری زندگی کو بچوں کی ذہنی نشوونما،شعور کی بالیدگی ،نفسیاتی اور اخلاقی تربیت کے لیے وقف کر دیا ہے۔ حافظؔ کرناٹکی کی تخلیقات کا مکمل جائزہ لینے کے بعد یہ کہنے میں باک محسوس نہیں کرناچاہیے کہ حافظؔ جس چیز کی ترسیل،تبلیغ،تشہیر اور ترقی و ترویج چاہتے ہیں اس میں وہ کامیاب بھی ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔حافظؔ کرناٹکی کے اب تک رباعیوں کے پانچ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔جو ’’موجِ تسنیم ‘‘(رباعیات کا پہلا مجموعہ)’’رباعیاتِ حافظ حصّہ اوّل‘‘،’’رباعیاتِ حافظ حصّہ دوّم‘‘ اور’’ رباعیاتِ حافظ حصّہ سوم‘‘ (حمدیہ) پر مشتمل ہے۔حافظ ؔ کی رباعیات کے پہلے مجموعوں میں شامل رباعیوں کے النوع قسم کے موضوعات رہے ہیں جن میں عشقی،مذہبی،اخلاقی،سیاسی،سماجی،روحانی وغیرہ رباعیاں بھی شامل ہیں۔ البتہ اس مجموعے کی بنیاد پر بھی ان کی تخلیقی طبیعت کا احساس بہ آسانی ہوجاتا ہے۔حافظؔ نے ان مجموعوں کے نہایت کم صفحات میں اتنا مواد بھردیا ہے کہ وہ کئی بڑی بھاری بھرکم کتابوں پر بھی بھاری پڑ جاتے ہیں۔حافظؔ کرناٹکی کو کئی انعامات اور اعزازات دیے چاچکے ہیں جس میں گلبرگہ یونیورسٹی کی طرف ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔حافظؔ کرناٹکی کی رباعیات متقدمین رباعی گو شعرا میر انیس،میر زادبیر،حالی،جوش،فراق وغیرہ سے بھی الگ نوعیت کی ہیں اور اپنے معاصرین رباعی گو شعرا عارف حسن خان،فرید پربتی،مرزا حسن ناصر،عبد المتین جامی،امجد علی امجد،علیم صبا نویدی،فضا ابن فیضی وغیرہ سے بھی منفرد ہیں۔صنفِ رباعیات میں حافظ ؔ کرناٹکی کا مقام اور مرتبہ اہمیت کا حامل ہیں۔کیونکہ ان کی رباعیاں معاصرین رباعی گو شعرا کی بہ نسبت جودت ووحدت ، تخلیقی پختگی اورفنی و فکری شعور کے علاوہ معنویت و مؤثریت سے بھی سرشار نظر آتی ہیں۔
حافظؔ کرناٹکی کی زیر نظر رباعیوں کا مجموعہ’’رُباعیاتِ حافظ(حمدیہ)‘‘حصہ سوم سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ان کی رباعیوں کا تیسرا مجموعہ ہے۔یہ کتاب 104صفحات پر مشتمل ہے۔جس کے ابتدائی 2صفحات کو چھوڑ کر 33صفحات میں ’’عرض ناشر‘‘ اور مصنف کی’’اپنی بات‘‘ کے علاوہ پانچ معتبر قلمکاروں کے مضامین شامل کیے گئے ہیں۔68صفحات پر 474رباعیاں پھیلی ہوئی ہے ۔قطعِ نظر آخری صفحہ کے(جس پر رباعیاں درج ہیں) ہرصفحے میں سات رباعیاں مندرج ہیں۔جیسا کہ مذکور ہوا ہے کہ یہ تمام رباعیاں ایک خصوصی ’’حمدیہ‘‘موضوع کے تحت کہی گئی ہیں۔رباعیات کی ابتدامیں جن پانچ مضامین میں حافظؔ کرناٹکی کی رباعی گوئی کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں ان میں’’رباعی جہان کا آسمان حافظؔ کرناٹکی‘‘از ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی،’’حافظؔ کرناٹکی کی رباعی گوئی‘‘از دیپک بدکی،’’حافظ کرناٹکی کی رباعیات پر:ایک نوٹ‘‘از شارق عدیل،’’حافظؔ کرناٹکی اور حمدیہ رباعیات‘‘از ڈاکٹر داؤد محسنؔ اور’’اردو ادب کی صنف رباعی اور حمدیہ رباعیات‘‘از عمران عاکف خان قابل ذکر ہیں۔اگر ان پانچوں مضامین پر انفرادی طور پر گفتگو کی جائے تو تبصرہ تبصرے ہی کی جگہ رہے گا اوراس کی جگہ مضمون وجود میں آجائے گا۔
حافظؔ کرناٹکی کی رباعیوں میں صنفِ رباعی کی وہ سب فنی خوبیاں موجود ہیں جو اس کی خاص و عام میں مقبولیت کا سبب بن سکتی ہے۔اگر رباعی میں شاعر کا تخلیقی بیانیہ،طرزِ اظہار،زبان و بیان،انوکھا موضوع اوراس کے تنوع،علمی و ادبی شعور،جاذب لفظیات کا استعمال،وجدانی اظہار،جذباتی لگاؤ، صنفِ رباعی کے لوازمہ کا احساس وغیرہ پر بھرپور عبورہے تو کہنا چاہیے کہ رباعی میں تاثیر کاجذبہ بھی بدرجۂ اتم موجود ہوگا۔وہ بھی جب حمدیہ رباعیاں کہی جارہی ہوں تو اس میں ایک دین دار شخص کے جذبات کیسے ہوں گے تویہ اور بھی دلچسپی کا موجب بن جاتا ہے۔جبکہ ان میں بہت سے خصائص پر حافظ ؔ کرناٹکی کی رباعیاں پوری طرح کھری اترتی ہیں۔حافظؔ کرناٹکی ایک مذہبی وملّی شخصیت کے مالک بھی ہیں۔دینی و مذہنی امور پر ان کی نظر،علم وادب کا گہرا ادراک اور اسلام کی فکری بصیرت سے حافظؔ کی ذہنیت روشن ترنظر آتی ہے۔یہ اختصاصی پہلو ان کی رباعیوں میں بھی خاص طور پر مستعمل ہے ۔پہلے حافظؔ کرناٹکی کی چند رباعیوں سے حَظ اٹھائیں؂
1۔ہر درد کے مارے کی دوا ہے اللہ
وہ چاہے تو ہو جائے شِفا بھی واللہ
ہم ذمّہ ہوں اُس کا وہ بھُلا دے ہمکو؟
لاحول ولا قوّۃ اِلا باللہ
2 ۔رب آگ کو گلزار بنا سکتا ہے
منجدھار کو پتوار بنا سکتا ہے
موسیٰ کو سمندر سے گزرنے کے لئے
امواج کو دیوار بنا سکتا ہے
3۔ہم جیسے نہتّوں کا محافظ ہے خُدا
بچوں کا بھی بوڑھوں کا محافظ ہے خُدا
غیروں کی مدد کی نہیں ہم کو حاجت
وہ اپنا ہے اپنو ں کا محافظ ہے خدا
حافظ ؔ کرناٹکی کی درج بالا رباعیوں کے نمونۂ کلام سے قاری ان کی رباعی گوئی پر دسترس اور مہارت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔انھوں نے بہت کثرت سے رباعیاں کہی ہیں۔باوجود اس کے ان کی رباعیوں میں تاثیر میں فرق پڑا ہے اور نہ ہی رباعی کے فن پر آنچ آنے دی ہے۔ بلکہ دونوں میں استحکام اور توازن برقرار رکھتے ہیں۔حافظؔ کرناٹکی کی رباعیاں سادگی،شستگی،برجستگی،روانی،دلنشینی،سلاست اور فصاحت وغیرہ کی اعلیٰ مثال ہے۔جس موضوع پر رباعی لکھی ہے اس کے ساتھ صحیح اور حق بجانب انصاف بھی کیا ہے۔گویا حقیقت بینی اور فہم و فراست کا نور ٹپکتا ہو۔حمدیہ موضوع پر کہی گئی ان کی رباعیاں حسن،چاشنی ،فریفتگی اورقدرت و فطرت کی بوقلمونی طبیعت کی عکاس معلوم ہوتی ہیں۔رباعیاتِ حافظ میں پاکیزگی اور اخلاقی حسن ہے۔جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے تقدس اور ان کی عظمت کا بیان ہے۔حافظ ؔ کرناٹکی اپنی رباعیوں میں کبھی اس کائنات کے خالق کو ’’اللہ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں توکبھی ’’خدا ‘‘کے عظیم الشان نام سے،کبھی’’ رب‘‘ ذوالجلال کے مقدس نام سے فریاد کرتے ہیں تو کبھی ’’مالک‘‘ہر ارضِ گل کے پاک نام سے،کبھی ’’داتا ‘‘جیسے پیارے نام سے اس کی شان و شوکت اور جاہ وجلال کے گیت گاتے ہیں تو کبھی’’معبودِ حقیقی‘‘جیسے نورانی نام سے۔ بہرحال انہیں ہرجانب و سمت اللہ کی پاکبازی اور کرامات کے عجیب و غریب اور حیرت انگیز کارنامے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ حافظؔ کرناٹکی کی رباعیاں ہمارے ایمان میں حرارت پیدا کرتی ہیں اور آنکھوں کو جذبے کی شدت سے نمناک کرکے بھی چھوڑتی ہیں۔ان رباعیوں سے جہاں پروردگارِ عالم کی عظمت و حرمت اور جلال و جمال کی مقدس خوشبو کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔وہیں ان کے کمالات و صفات کا بھی احساس ہوتا ہے۔حافظؔ کرناٹکی نے ان رباعیوں میں قدرت کے نظام،اس کے افعال،خلق کردہ دنیا،اس کے ذات و صفات،اس کی طاقت اور پرواز وغیرہ کا خزینہ رقم کیا ہے۔ان رباعیوں کی ایک خاص خاصیت یہ ہے کہ ان کی زبان و بیان میں بچوں کی نفسیات اور عمر کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔نفاست اور شستہ پن ان رباعیوں کا خاصا ہے۔یہ رباعیاں حافظؔ کرناٹکی کو رباعی گوئی کے معراج پر پہنچانے کے لیے کافی ہے۔
نام کتاب:’’رباعیاتِ حافظ‘‘(حمدیہ)(حصہ سوم)
مصنف: حافظ ؔ کرناٹکی
صفحات:104
طبع اوّل:مئی 2016ء
قیمت: 55روپے
ناشر:فرید بُکڈپو(پرائیوٹ) لمٹیڈ،نئی دہلی

***
غلام نبی کمار
ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، دہلی یونی ورسٹی، نئی دہلی
ghulamn93[@]gmail.com
موبائل : 07053562468
غلام نبی کمار

Book review on Rubaiyiaat-e-Haafiz Karnataki. -Reviewer: Ghulam Nabi Kumar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں