جواب:
کافر کا لفظ کفر سے بنا ہے کہ جس کا بنیادی معنی چھپا لینا ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ الفتح میں کسان اور کاشتکار کو کافر کہا گیا ہے، اس معنی میں کہ وہ بیج کو زمین میں چھپا دیتے ہیں۔ اور کافر اسے کہتے ہیں جو حق بات کو چھپا لیتا ہے یعنی حق سامنے آ جانے کے بعد اس کی تصدیق نہیں کرتا۔ یہ تو اس لفظ کا لغوی اور اصطلاحی معنی ہے لیکن عرفی معنی میں اس لفظ کو گالی بھی سمجھا جاتا ہے۔
پس کافر وہ ہے کہ جس کے سامنے حق بات پہنچ جائے اور وہ اس کی تصدیق نہ کرے۔
اور حق بات سے مراد دو چیزیں ہیں؛ ایک یہ کہ کسی شخص تک یہ بات پہنچ جائے، کسی بھی ذریعے سے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)، اللہ کے رسول ہیں اور وہ ان کے رسول ہونے کی تصدیق نہ کرے تو وہ کافر ہے۔
یا کسی تک یہ بات پہنچ جائے، کسی بھی ذریعے سے کہ قرآن مجید، اللہ کی کتاب ہے جو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوئی ہے اور وہ اس کے اللہ کی کتاب ہونے کی تصدیق نہ کرے تو یہ بھی کافر ہے۔
اسلام کی دعوت پہنچنے سے مراد یہی ہے اور جس تک یہ دعوت پہنچ گئی اور اس نے تصدیق نہ کی تو وہ کافر ہے۔
صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ اللہ کی قسم! کہ جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے، میری امت میں جس یہودی اور عیسائی نے میرے بارے میں سن لیا کہ میں اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہوں، اور پھر وہ مجھ پر ایمان لائے بغیر مر گیا تو وہ جہنمی ہے۔
اس روایت کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ جس تک اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی رسالت کی خبر نہ پہنچی ہو، تو وہ کافر نہیں ہے۔
جہاں تک غیر مسلم کی اصطلاح کا تعلق ہے تو اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسلمان نہیں ہیں۔ ان میں کافر بھی شامل ہیں اور کافروں کے علاوہ ایک اور جماعت ان لوگوں کی کہ جن تک اسلام کی دعوت نہ پہنچی ہو۔ پس غیر مسلم ایک وسیع اصطلاح ہے کہ جو کفار کو بھی شامل ہے اور ان لوگوں کو بھی کہ جن تک اسلام کی دعوت نہیں پہنچی لہذا وہ مسلمان بھی نہیں ہے اور کافر بھی نہیں ہیں کیونکہ حجت، رسولوں کی بعثت اور دعوت کے پہنچنے کے بعد ہی قائم ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے روایات میں آتا ہے کہ اللہ عزوجل قیامت والے دن امتحان لیں گے اور جو ان میں سے کامیاب ہوں گے، وہ جنت میں داخل ہوں گے۔
جہاں تک کافر کو غیر مسلم کہنے کا مسئلہ ہے تو اگر تو اس سے مقصود یہ ہو کہ یہودیوں، عیسائیوں، ہندوؤں کی تکفیر نہیں کرنی تو اس صورت میں یہ جائز نہیں ہے کیونکہ جس کی تکفیر اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کی ہو تو ان کی تکفیر نہ کرنا بھی کفر اور ضلالت ہے۔ اور اگر کافر کو غیر مسلم کہنے میں مقصود یہ ہو کہ انہیں دعوت کے عمل کے ذریعے اسلام کے قریب کر سکے یا ان کے دلوں سے اسلام دشمنی اور مسلمانوں کے بارے بغض اور نفرت کم کر سکے تو اس صورت میں ایسا کہنا جائز بلکہ مستحسن ہوگا۔
ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ غیر مسلم میں کافر بھی شامل ہیں لہذا غیر مسلم ہونے کا مطلب ہر صورت میں یہ نہیں ہے کہ وہ کافر نہیں ہے۔ البتہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جس تک اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے آخری نبی ہونے کی دعوت پہنچ چکی ہو اور وہ آپ کے آخری نبی ہونے کا انکار کر دے تو وہ کافر ہے۔
اور جس تک اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے آخری نبی ہونے کی دعوت ہی نہ پہنچی ہو تو وہ غیر مسلم ہے۔
باقی کافر کو غیر مسلم کہنے کی ایک وجہ اوپر بیان کی جا چکی ہے کہ ہمارے عرف میں یہ تقریباً ایک گالی بن چکا ہے اگرچہ یہ شرع میں گالی نہیں ہے لہذا ہمارے آئین میں شاید اس وجہ سے بھی غیر مسلم کے لفظ کو اختیار کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
***
اسسٹنٹ پروفیسر، کامساٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور
mzubair[@]ciitlahore.edu.pk
فیس بک : Hm Zubair
اسسٹنٹ پروفیسر، کامساٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور
mzubair[@]ciitlahore.edu.pk
فیس بک : Hm Zubair
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر |
Difference between Kafir and non-Muslim. Article: Dr. Hafiz Md. Zubair
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں