سوشل میڈیا پر ہندوستانی مسلمانوں کے جذباتی رویے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-09-20

سوشل میڈیا پر ہندوستانی مسلمانوں کے جذباتی رویے

Emotional-behavior-on-social-media
آج جے۔این۔یو کی لائبریری میں گھومتے ہوئے ایک کتاب پہ نظر پڑی، Jihadist Threat To India یہ کتاب ایک نام نہاد مسلمان کی لکھی ہوئی ہے، اور اس پہ مسلم پولیس افسروں کے تبصرے مذکور ہیں۔ کتاب کا مقدمہ وکرم سود سابق چیف، ریسرچ اینڈ انالسس ونگ (RAW) نے لکھا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ RAW ہمارے ملک کی سب سے زیادہ تیز و طرار خفیہ ایجنسی مانی جاتی ہے، جو زیادہ تر دہشت گردی، ملکی انارکی، داخلی مسائل، بیرونی خطرات غرضیکہ ملکی سلامتی سے متعلقہ ہر معاملے کی جانچ کرتی ہے۔

یہ کتاب مسلمانوں میں بڑھتے ہوئے جہادی نظریے اور رجحان کے تعلق سے لکھی گئی ہے، اور زیادہ تر مذہبی اداروں اور مدرسوں وغیرہ کے حالات پہ بحث کی گئی ہے۔ مصنف نے اس میں بہت حد تک جانبداری سے بھی کام لیا ہے، مگر دلائل بھی پیش کئے ہیں۔ اردو سے واقفیت ہونے کی بنا پر زیادہ تر اردو میں لکھی گئی جوش جذبات سے لبریز تحریروں کا بھی تذکرہ کیا ہے کہ کس طرح مسلمانوں کے اندر سختی اور تشدد بھرا جا رہا ہے۔
اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے کہ سید قطب کے نظریات کے بعد سے ہی مسلمانوں میں سختی اور تشدد کا عروج ہونا شروع ہوا، اسی لٹریچر کے زیر اثر نوجوانوں کو ورغلایا گیا، بطور مثال لکھنؤ کے عالم دین کو بھی پیش کیا گیا ہے کہ داعش کے ظہور کے بعد کس طرح انہوں نے داعش کی حمایت میں بیان دئیے یا خط لکھے۔

اس میں سب سے تعجب کی بات جو سامنے لانے کے قابل ہے وہ یہ کہ اس کتاب میں فیس-بک کمینٹس تک کا ذکر ہے، وہ کمینٹس جو مسلمان علماء و فضلاء کبھی کبھار جوش جذبات میں بہہ کر کرتے ہیں، اور اتنا بھی نہیں سوچتے کہ یہ ایک اوپن پلاٹ فارم ہے۔ اور ظاہر سی بات ہے جب خفیہ معاملات پہ حکومت کی نظر ہوتی ہے تو اوپن فورم پہ کیوں نہیں ہوگی؟ کتاب میں باقاعدہ ان کمینٹس کا ذکر نام اور شہر کے پتہ کے ساتھ ہے، کہ اِس بندے نے یہ لکھا، اُس بندے نے وہ لکھا۔
اپنے اس مضمون کے ذریعے میں خصوصیت کے ساتھ اپنے علماء و فضلاء بھائیوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ جب بھی قلم اٹھائیں، سوچ سمجھ کر اٹھائیں، مصلحت کو بھی مد نظر رکھیں، ہوش پہ جذبات کو غالب نہ ہونے دیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی کسی قلمی لغزش سے آپ یا آپ کے گھر والے مصیبت میں پڑجائیں۔
اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ ہندوستانی ہیں، آپ نے جو پڑھا جو سمجھا، اس کی حقیقت اپنی جگہ پہ، نہ احکام و فرائض تبدیل ہوں گے، نہ قصاص و حدود بدلیں گے، سب کچھ وہی رہیں گے۔ آپ لکھیں نہ لکھیں، مگر چونکہ آپ اس ملک کے باشندے ہیں جس کا قانون آپ کی سوچ و فکر سے کہیں زیادہ مختلف ہے، جس کی بنیاد کسی ایک مذہب پہ نہیں ہے، سیکولرزم جس کی پہچان ہے۔ ہمارے اکابرین نے تقسیم کے وقت اسی ملک میں رہنا پسند کیا تو یقینی طور پہ بہت کچھ سوچ سمجھ کے کیا ہوگا۔
اپنی تحریروں میں اعتدال لائیں، ایسا نہ ہو کہ جب آپ دنیا میں مسلمانوں پہ ہو رہے کہ کسی ظلم کے بارے میں لکھنا شروع کریں تو اس پہ ملک کے سرکاری موقف کو بھول جائیں، اور جہاد جہاد کا راگ الاپنے لگیں، آپ مظلومین کے لئے کچھ تو کر نہیں پائیں گے، الٹا اپنے لئے اور اپنے ہم وطنوں کے لئے پریشانی کا سبب بن جائیں گے، ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ پہ نظر ہے۔

ٹھیک ہے، ہم نے مانا کہ اسلام سرحدوں میں قید نہیں، اسلام کی کوئی زمین نہیں، عالمگیریت ہی اسلام کا مظہر ہے، لیکن محترم بھائی! کچھ دنوں کے لئے تو اس حقیقت کو قبول کر لیجیے کہ آج کے دور میں مذہب کے ساتھ ساتھ کچھ الگ شناختیں بھی ہیں، آپ کو ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانے کے لئے پاسپورٹ اور ویزا کی ضرورت پڑتی ہے۔ قدیم زمانے میں ایسا نہیں تھا، مگر آج وقت اور حالات بدل چکے ہیں۔ دنیا کی جو موجودہ صورتحال ہے وہ یہی بتاتی ہے کہ ملکی شناختیں آج کے دور میں مذہبی شناختوں سے بڑی ہیں۔ ممکن ہے، آپ کہیں کہ ہم اس کو نہیں مانتے۔ بالکل مت مانئیے، مگر فیس-بک پہ لکھتے وقت ہمیشہ یاد رکھئیے کہ آپ ہندوستانی ہیں اور یہی آپ کی حقیقت ہے!
اسی لئے جو بھی لکھئیے، اسی پابندی کے دائرے میں لکھئیے، بایں صورت نقصان کے ذمہ دار بھی آپ ہو سکتے ہیں۔

ملکی حالات پہ لکھنا ہو یا غیر ملکی حالات پہ، ہر صورت میں اعتدال کو ملحوظ خاطر رکھنا ہی دانشمندی ہے، جوش جذبات میں کچھ کا کچھ لکھنا یا پھر مصلحت کو کھو دینا حماقت کہلائے گی دانشمندی نہیں، کیونکہ عقلمند جو ہوتا ہے وہ حالات، مواقع اور جگہوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھتا ہے۔ اور یہی تو ہمارے مذہب کی بھی تعلیم ہے کہ جان بوجھ کر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالا جائے، فائدہ کچھ تو ہوگا نہیں، لہذا تحریر و تقریر کے ذریعہ خواہ مخواہ جوش دلانا چہ معنی دارد؟

ایسا بالکل بھی نہیں ہوگا کہ آپ لکھیں کہ ۔۔۔
"مسلمانو! اب بہت ہوا ظلم، اٹھ کھڑے ہو جاؤ، جہاد کے لئے تیار ہو جاؤ" ۔۔۔ تو مسلمان اٹھ کھڑے ہوں گے۔ یا جیسے حالیہ وقتوں میں روہنگیا کا مسئلہ چل رہا ہے تو اس پہ لکھیں کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو یکجا ہو کے برما پہ حملہ کر دینا چاہئیے، یا ترکی کو کر دینا یا سعودیہ یا پاکستان یا کسی بھی ملک کو۔۔۔ وغیرہ۔
کیا فائدہ ہوگا اس بات کو لکھنے کا؟ سوائے اس کے کہ تھوڑی دیر کے لئے آپ لائکس، کمینٹس، یا ہمدردی بٹور لیں گے، لیکن جو سچائی ہے کہ 'کوئی بھی ملک حملہ کرنے نہیں آئے گا' وہ تبدیل نہیں ہوگی چاہے پورے ہندوستان کے مسلمان مل کر ایک ہی راگ الاپنے لگیں کہ فلاں ملک پر حملہ کر دیا جائے یا فلاں ملک پر پابندیاں عائد کر دی جائیں!
تو پھر ایسی بات لکھنے کا فائدہ کیا ہے، جو الٹا نقصان پہنچا دے؟
ہاں اسی بات کو اگر پلٹ دیا جائے، اور انسانیت کی بنیادوں پہ بات کی جائے، مذہب کی بھی اگر بات کی جائے مگر بدلے میں مذہبی حملے کی بات نہ کی جائے تو اس امر کا ملکی سطح پہ بھی فائدہ ہو سکتا ہے، اور عالمی سطح پہ بھی۔

یہاں ایک بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ اردو میڈیا اور اردو داں طبقہ ایجنسیوں کے نشانے پہ زیادہ رہتا ہے، ذرا سی غلطی پوری زندگی کو نقصان پہنچانے کے لئے کافی ہو سکتی ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ بھی یاد رکھنا چاہیے، کہ اپنی تحریر میں آپ چاہے جتنا امت کا درد دکھا دیں، تھوڑی دیر کے لئے آپ کو لوگ پسند کردیں، لیکن اگر جہاں یہ پتہ چل جائے کہ آپ کو تشدد پسندی کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہے، وہی لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے، جو کہ آپ کی ہر تحریر پہ واہ واہی کرتے ہیں یا تھے، یہاں تک کہ آپ کے اپنے لوگ بھی ساتھ چھوڑ جائیں گے، چہ جائیکہ کوئی ساتھ کھڑا ہو۔
اور یہ کوئی ہوائی بات نہیں ہے، بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کا ایک بہت بڑا المیہ ہے، جب بھی کوئی نوجوان غلط الزام میں گرفتار کیا گیا، اسی کی قوم، اسی کے معاشرے اور اسی کے گاؤں سماج کے لوگوں نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔
کیا ہوا تھا نجیب کے ساتھ، اس کو جب غائب کیا گیا، یہیں دہلی کے اندر مہینوں اس کی ماں جے۔این۔یو کی گیٹ پہ بلکتی رہی، پر کسی بھی مسلم تنظیم کو باوجود یکے کہ سب کا ہیڈکوارٹر دہلی میں ہے، کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ آ کے اس دکھیاری ماں کے آنسو پونچھے، اور آج تو حال ایسا ہے کہ کسی کو نجیب کا نام بھی یاد نہیں ہوگا۔
پھر یہ علماء طبقہ فیس-بک پہ آخر کیوں اتنا جذباتی ہوتا ہے؟ آخر کس کی خاطر؟
امید ہے کہ ان باتوں پہ علماء و فضلاء غور کرنے کی کوشش کریں گے، اور جذباتیت کو پرے رکھ کر لکھنے پڑھنے کی کوشش کریں گے۔

***
عزیر احمد
Room No.32, Sutlej Hostel, JNU, Delhi.
ouzairahmad3[@]gmail.com
عزیر احمد

Emotional behavior of Indian Muslims on social media. Article: Uzair Ahmad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں