طلاق ثلاثۃ کا رواج غیر دستوری - سپریم کورٹ پانچ رکنی بنچ کا اکثریتی فیصلہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-08-23

طلاق ثلاثۃ کا رواج غیر دستوری - سپریم کورٹ پانچ رکنی بنچ کا اکثریتی فیصلہ

طلاق ثلاثۃ کا رواج غیر دستوری - سپریم کورٹ پانچ رکنی بنچ کا اکثریتی فیصلہ
نئی دہلی
پی ٹی آئی
تاریخی فیصلہ میں سپریم کورٹ نے آج مسلمانوں میں طلاق ثلاثہ کا1400سال قدیم رواج ختم کردیا ۔ اس نے اسے کئی بنیادوں پر رد کیا اور کہا کہ یہ قرآن مقدس کی بنیادی اصولوں کے خلاف ہے اور اس سے شرعی قانون کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔پانچ رکنی دسوری بنچ نے3:2کے اکثریتی فیصلہ سے جس میں چیف جسٹس جے ایس کیہر اقلیت میں تھے ، طلاق بدعت ، طلاق ثلاثہ رد کردی ۔ اس نے ایک سطری آرڈر میں کہا کہ3:2کے اکثریتی فیصلہ میں درج مختلف آراء کے مد نظر اسے رد کیاجاتا ہے ۔ جملہ395صفحات پر مشتمل دو علیحدہ فیصلے جسٹس کورین جوزف اور جسٹس آر ایف نریمان نے لکھے ۔ انہوں نے چیف جسٹس آف انڈیا اور جسٹس ایس اے نذیر کی اقلیتی رائے سے اتفاق نہیں کیا کہ طلاق ثلاثہ مذہبی رواج کا حصہ ہے ۔ اور حکومت کو قانونی سازی کرنی چاہئے۔ تین ججس جسٹس جوزف، جسٹس نریمان اور جسٹس یویو للت نے چیف جسٹس آف انڈیا اور جسٹس نذیر سے اس کلیدی مسئلہ پر عدم اتفاق کیا کہ طلاق ثلاثہ کی حیثیت اسلام میں بنیادی ہے۔ ممتاز قانون داں سولی سوراب جی نے کہاکہ یہ ترقی پسندانہ فیصلہ ہے جس نے خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا ہے ۔ اب کوئی بھی مسلمان مرد اس طرح اپنی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا ۔ سنی مسلمانوں کے پاس طلاق کے اب دو طریقے طلاق حسن اور طلاق احسن رہ جائیں گے کیونکہ طلاق بدعت کو سپریم کورٹ پرے رکھ چکی ہے ۔ قرآن مقدس کی آیات کے حوالہ سے جسٹس جوزف نے کہا کہ یہ جہان تک طلاق کا تعلق ہے ، بالکل واضح ہیں ۔ قرآن مقدس نے رشتہ ازدواج کو تقدس اور دوام بخشا ہے تاہم ناگزیر حالات میں طلاق کی اجازت ہے لیکن صلح صفائی کی کوشش ہونی چاہئے ۔ طلاق ثلاثۃ میں صلح صفائی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے لہذا یہ خلاف قرآن ہے ۔ جسٹس جوزف نے یہ بھی کہا کہ قرآن، قانون کا پہلا ماخذ ہے اور اسے ہی فوقیت دی جانی چاہئے۔ دوسرے الفاظ میں قرآن میں جب کسی چیز کی صراحت موجو د ہو تو حدیث اجماع یا قیاس کی بات نہیں کی جاسکتی ۔ اسلام، خلاف قرآن نہیں ہوسکتا۔ جسٹس نریمان نے اپنے علیحدہ فیصلہ میں کہا کہ یہ واضح ہے کہ طلاق ثلاثہ صرف طلاق کی ایک شکل ہے ۔جس کی قانون میں اجازت ہے ۔ لیکن احناف نے بھی اسے گناہ مانا ہے۔ جسٹس جوزف نے چھ درخواستوں کی یکسوئی کرتے ہوئے شمیم آراء کیس میں سپریم کورٹ کے2002کے فیصلہ پر انحصار کیا جس میں کہا گیا تھا کہ طلاق ثلاثہ کو قانونی تقدس حاصل نہیں ۔ سپریم کورٹ نے شمیم آراء کیس میں ہائی کورٹ کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیا تھا اور مسلم پرسنل لا بورڈ جیسے فریقین کی درخواست خارج کردی تھی۔سپریم کوٹ نے اس وقت کہا تھا کہ طلاق کی معقول وجہ ہونی چاہئے اور طلاق دینے سے قبل میا ں بیوی میں صلح صفائی کی کوششیں ہونی چاہئیں۔ ایک ثالث بیوی کی طرف سے ہو اور دوسرا شوہر کی طرف سے۔ ثالثی کی کوشش ناکام ہونے کے بعد ہی طلاق دی جاسکتی ہے ۔ آئی اے این ایس کے بموجب سپریم کورٹ نے منگل کے دن اکثریتی فیصلہ میں طلاق ثلاثہ کے رواج کو غیر دستوری اور ظالمانہ قرار دیا ۔ اس نے کہا کہ یہ اسلامی عقیدہ نہیں ہے ۔ پانچ رکنی دستوری بنچ نے3:2کے اکثریتی فیصلہ میں کہا کہ طلاق ثلاثہ کے لئے کوئی قانونی تحفظ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ظالمانہ ہے ۔ یہ صلح صفائی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رکھتی اور اس سے مسلم خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ پانچ رکنی بنچ نے اپنے آرڈر میں کہا کہ طلاق بدعت پرے رکھی جاتی ہے ۔ جسٹس کورین جوزف، جسٹس روہنٹن فالی نریمان اور جسٹس ادئے اومیش للت نے کہا کہ طلاق ثلاثہ اسلام کا حصہ نہیں ہے ۔ قانون کی نظر میں یہ ٹھیک نہیں اور شریعت بھی اسے گوارہ نہیں کرتی تاہم چیف جسٹس جے ایس کیہر اور جسٹس ایس عبدالنذیر نے کہا کہ طلاق ثلاثۃ مسلم عقیدہ کا حصہ ہے اور اسے دستوری تحفظ حاصل ہے ۔ چیف جسٹس کھیہر نے اپنے فیصلہ میں پارلیمٹ سے خواہش کی کہ وہ اس مسئلہ پر قانون سازی کرے۔ انہوں نے تاہم مسلمان مرد حضرات پر پابندی لگادی کہ وہ آئندہ چھ ماہ تک طلاق ثلاثہ نہیں دے سکیںگے۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں سے کہا کہ وہ اس مدت میں اپنے ختلافات دور کریں اور قانون سازی کریں۔ چیف جسٹس کھیہر اور جسٹس نذیر سے اختلاف کرتے ہوئے جسٹس جوزف نے کہا کہ قرآن مقدس میں جو چیز ٹھیک نہیں وہ شریعت میں بھی ٹھیک نہیں ہوسکتی ۔مذہب جو چیز ٹھیک نہیں وہ قانون کی نظر میں بھی ٹھیک نہیں۔ یو این آئی کے بموجب چیف جسٹس کھیہر اور جسٹس نذیر نے کہا کہ طلاق ثلاثہ قدیم رواج ہے اور مسلمانوں کے دھرم کا حصہ ہے۔ عدالت اس میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ تمام پانچ ججس مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ بنچ میں ایک جج سکھ، ایک عیسائی، ایک پارسی، ایک ہندو اور ایک مسلمان ہے ۔ حکومت کی دلیل تھی کہ مسلمانوں کی شادی اور طلاق کے معاملات شریعت ایکٹ1937کی دفعہ 2میں صراحت کردہ ہیں اور یہ دستور کی دفعہ 13کے تحت قانون کے دائرہ میں آتے ہیں ۔
نئی دہلی سے یو این آئی کی علیحدہ اطلاع کے بموجب وزیر اعظم نریندر مودی نے طلاق ثلاثہ پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کا آج خیر مقدم کیا اور اسے تاریخی اور خواتین کو با اختیار بنانے کا تاریخی اقدام قرار دیا ۔ طلاق ثلاثہ کو غیر دستوری قرار دے کر رد کردینے کی سپریم کورٹ کی رولنگ پر وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا کہ فیصلہ تاریخی ہے ۔ یہ مسلم خواتین کو مساوات عطا کرتا ہے ۔ یہ خواتین کو با اختیار بنانے کا طاقتور اقدام ہے ۔
Supreme Court's triple talaq verdict

سپریم کورٹ کا فیصلہ متضاد ہے: مولانا ولی رحمانی
نئی دہلی
فیاکس
طلاق، تعدد ازدواج اور حلالہ سے متعلق ایک ملک کی سب سے بڑی عدالت( سپریم کورٹ) میں جاری مقدمہ کا فیصلہ باہم ٹکرا رہا ہے ۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ پرسنل لا پورے طور پر محفوظ رہے گا۔ وہ آئین ہند کی دفعہ25کے دائرے میں آتا ہے فیصلہ کا یہ حصہ تمام مسلمانان ہند کی کامیابی ہے ۔ سپریم کورت کا یہ فیصلہ واضح کرتا ہے کہ شرعی احکام مسلم پرسنل لا کا حصہ ہیں اور ان میں ترمیم یا اضافہ کا حق کورٹ کو حاصل نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ کے تازہ فیصلہ سے متعلق ان خیالات کا اظہار آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد ولی رحمانی نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے دوسرے حصے میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ تین طلاق واقع نہیں ہوگی ۔ اس لحاظ سے یہ فیصلہ باہم ٹکرا رہا ہے۔ ایک طرف کورٹ کہہ رہا ہے کہ پرسنل لا میں تبدیلی نہیں ہوسکتی اور دوسری طرف تین طلاق کو بے اثر قرار دے رہاہے، فیصلے کے دوسرے حصے سے بددل یا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ایک مجلس میں تین طلاق کو شریعت نے پسند نہیں کیا ہے اور اسے گناہ قرار دیا گیا ہے ، لیکن اگر کوئی تین طلاق دے دے تو طلاق ہوجائے گی یہ بھی مسلم پرسنل لا کا حصہ ہے ۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے تناظر میں مولانا ولی رحمانی جنرل سکریٹری بورڈ نے کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھرپور تیاری کے ساتھ یہ مقدمہ لڑا ، بہتر ین وکلاء نے طویل غوروخوض کے بعد ملکی اور شرعی قوانین کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے دلائل کورٹ کے سامنے پیش کئے ۔ کورٹ میں جو بحث بورڈ کی جانب سے پیروی کرنے والے وکلاء نے کی وہ بھی بہت واضح ، مدلل اور مکمل تھی ۔ خود فیصلے میں ججوں کی رائے میں بھی اختلاف ہے مگر بورڈ سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتا ہے ، اور اگلا لائحہ عمل مجلس عاملہ کے اجلاس میں طے کرے گا ۔ جو10ستمبر کو بھوپال میں منعقد ہورہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مشکل مسائل وحدت و اجتماعیت اور مسلسل محنت کے ذریعہ حل ہوتے ہیں ، بورڈ پوری ہم آہنگی کے ساتھ قانون شریعت کی حفاظت کا جدوجہد کرتا رہے گا۔
سہارنپور
یواین آئی
محتاط روش اختیار کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند نے آج کہا کہ وہ طلاق ثلاثہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے معاملہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے ساتھ ہے اور فیصلہ پر نظر ڈالنے تک کوئی تبصرہ نہیں کرے گا ۔ دارالعلوم کے مہتمم ابو القاسم نعمانی نے کہا کہ دارالحکومت اس وقت بھی پرسنل لابورڈ کے ساتھ تھا جب وہ عدالت گیا تھا اور اب بھی اس کے ساتھ ہے ۔ دارالعلوم دیوبند کو اب بورڈ کے بھوپال اجلاس کا انتظار ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے ترجمان اشرف عثمانی نے کہا کہ اسلام کے چاروں ائمہ نے بھی طلاق ثلاثہ کی کبھی تائید نہیں کی ۔ علماء کے دوسرے گروپ نے سپریم کورٹ رولنگ کی مخالفت کی اور کہا کہ شریعت اور اسلام میں کوئی بھی مداخلت نہیں کرسکتا ۔ انہوں نے منظر عام پر آنے سے انکار کرتے ہوئے سوال کیا کہ مذہبی معاملہ میں عدالت مداخلت کیسے کرسکتی ہے؟ سابق میں دارالعلوم دیوبند نے طلاق ثلاثہ کی تائید کی تھی اور طلاق ثلاثہ کی مار جھیلنے والی بعض خواتین جب علمائے دیوبند سے رجوع ہوئی تھیں تو انہیں جواب ملا تھا کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے ۔ اسی دوران حکومت یوپی نے عطیہ صابری کی سیکوریٹی بڑھادی۔ سہارنپور کی رہنے والی یہ خاتون سپریم کورٹ میں ایک درخواست گزار ہے ۔

سپریم کورٹ کے فیصلہ کا سیاسی پارٹیوں کی جانب سے خیر مقدم
فیصلہ ترقی پسند: کانگریس قائدین۔ بہتری کی جانب مثبت قدم: بی جے پی
نئی دہلی
یو این آئی
کانگریس نے آج طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کا خیر مقدم کیا اور اسے تاریخی ، حقیقت پسند، منصفانہ اور ترقی پسند فیصلہ قرار دیا۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے شعبہ ذرائع ابلاغ کے انچارج رندیپ سرجے والا نے یہاں اخباری نمائندوں سے کہا کہ طلاق ثلاثہ پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کا وہ خیر مقدم کرتے ہیں۔ یہ ایک ترقی پسند فیصلہ ہے ۔ اس سے ہندوستان میں مسلم خواتین کو یکساں حقوق حاصل کرنے میں مدد ملے گی ۔ انہوں نے کہا کہ کئی سالوں سے نا انصافی اور دباؤ کی شکار خواتین کو راحت پانے میں اس فیصلہ سے مدد ملے گی ۔ سرجے والا نے کہا کہ اچانک تین طلاق کے رواج مقدس قرآن اور حدیث میں حوالہ نہیں ملتا ۔ اسی بنیاد پر عدالتِ عظمیٰ نے طلاق ثلاثہ کے رواج کو غیر دستوری قرار دیا۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ تمام فریق اس فیصلہ کو جو منصفانہ اور حقیقت پسند ہے کو قبول کریں گے ۔ قبل ازیں سینئر کانگریس لیڈر کپل سبل نے عدالت عظمی کے فیصلہ پر کہا کہ وہ فیصلہ کی ستائش کرتے ہیں ۔ اس سے پرسنل لا (عائلی قوانین) کا تحفظ ہوتا ہے اور اسی کے ساتھ طلاق ثلاثۃ کے عمل کی نفی ہوتی ہے ۔ فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے آل انڈیا کانگریس کمیٹی ترجمان منیش تیواری نے کہا کہ طلاق ثلاثہ کی منسوخی کے لئے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا وہ خیر مقدم کرتے ہیں ۔ یہ ایک تعمیری اور ترقی پسند فیصلہ ہے ، جس کا تمام حقیقت پسند افراد خیر مقدم کریں گے ۔ چیف منسٹر مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے کہا کہ وہ اس مسئلہ پر فوری قانون سازی کریں ۔ کانگریس لیڈر سلمان خورشید نے بھی مذکورہ فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے ۔ مرکزی وزیر مینکا گاندھی نے بھی فیصلہ کو ایک اچھا فیصلہ قرار دیا اور کہا کہ جنس کی بنیاد یکساں انصاف کی سمت یہ ایک پیشرفت ہے ۔بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی نے بھی کہا کہ اس سے اصلاحات کی راہ ہموار ہوگی ۔ بی جے پی ترجمان امن سنہا نے کہا کہ اس فیصلہ سے نریندر مودی حکومت کا موقف صحیح ثابت ہوا ہے۔ سنہا جو ایک سینئر ایڈوکیٹ ہیں نے کہا کہ پانچ ججوں پر مشتمل دستوری بنچ کا اکثریتی فیصلہ مسلمانوں میں طلاق ثلاثہ کو غیر دستوری قرار دیا ہے۔ اس سے مسلمان خواتین کو باوقار زندگی گزارنے کا حق حاصل ہوگا۔

ہڑتال کے باعث ملک بھر میں بینک سر گرمیاں معطل
ممبئی
پی ٹی آئی، یو این آئی
عوامی شعبہ کے بینک ملازمین کی ایک روزہ قومی سطح کی ہڑتال کے باعث آج ملک بھر میں بینکنگ کاروبار ٹھپ رہا ۔ بینکوں سے متعلق حکومت کے مجوزہ منصوبوں اور اپنے دیگر مطالبات کی تائید میں یہ ہڑتال منظم کی گئی ۔ اس ہڑتال میں تقریبا دس لاکھ بینک ملازمین بشمول عہدیداروں نے بھی حصہ لیا ۔ ہڑتال کی وجہ سے بینکوں میں کام کاج ٹھپ ہے، عام آدمی کے ساتھ ساتھ کاروباریوں کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے حالانکہ بینکوں نے اے ٹی ایم میں کافی رقم ڈال رکھی ہے لیکن ہڑتال کی وجہ سے اے ٹی ایم بھی تیزی سے خالی ہورہے ہیں ۔ ہڑتال میں آئی سی آئی سی آئی بینک اور ایچ ڈی ایف سی بینک شامل نہیں ہیں۔ اپنے مطالبات کی حمایت میں اس ہڑتال کا اعلان افسران اور ملازمین کی9یونینوں ںے یونائیٹیڈ فورم آف بینک یونینس (یو ایف بی یو) کے بیانر تلے کیا ہے۔ بینک یونینوں کے اہم مطالبات میں سرکاری بینکوں کو خانگیانہ بند کیاجائے ، بینکوں کے انضمام پر پابندی لگے ، جان بوجھ کر قرض ادا نہیں کرنے والوں کو قصور وار قرار دیاجائے ، قرض کی وصولی پر پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پر عمل کیاجائے، پھنسے ہوئے قرض کے لئے بینکوں میں اعلیٰ عہدیدار کی جوابدہی طے کی جائے، بینک بورڈ بیورو منسوخ کیاجائے ، جی ایس ٹی کے نام پر سروس چارج میں اضافہ نہیں کیاجائے اور سبھی سطح پر کافی تعداد میں نئی تقرریاں کی جائیں وغیرہ شامل ہیں بینک آف بڑودہ یونین کے زونل سکریٹری سندیپ سنگھ کا کہنا ہے کہ بینک صنعت کے چیلنجوں میں اضافہ ہورہا ہے لیکن حکومت اصولوں کی تبدیلی کے لئے تیار نہیں ہے ۔ ان کا الزام ہے کہ قرضوں سے نمٹنے کے لئے مناسب اقدامات کرنے کے بجائے حکومت مختلف قانونی راستے اپنانے میں مصروف ہے جس سے بینکوں کی بیلنس شیٹ تو صاف ہوجائے گی لیکن اس کا بوجھ خود بینکوںکو ہی اٹھانا پڑے گا ۔ وہین دوسری جانب بینکوں کو مناسب سرمایہ فراہم نہیں کیاجارہا ہے ۔سنگھ نے کہا کہ بڑی کمپنیوں کے پھنسے ہوئے قرض کا بوجھ عام لوگوں پر مختلف سرویس چارجس میں اضافہ اور بچت اکاؤنٹس پر سود میں کمی کے طور پر ڈالا جارہا ہے ۔حکومت کا رویہ عام آدمی کے مفاد میں نہیں ہے ۔ حکومت تبدیلی کے نام پر اپنی من مانی نہیں کرسکتی ۔ اگر مطالبات نہیں مانے گئے تو ایک بڑی تحریک چھڑ سکتی ہے۔ بینک ہڑتال کا کرناٹک میں بھی زبردست اثر دکھائی دیا، عوامی شعبہ کے بینکوں کے صارفین کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔بینک یونینوں کی تنظیم کی اپیل پر ی گئی اس ہڑتال کے دوران بنگلورو میں بینک ملازمین نے احتجاج منظم کئے اور مرکزی حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔ بینک یونینوں کی اپیل پر ملک گیر ہڑتال سے آج اتر پردیش میں تقریبا چار ہزار کروڑ روپے کے کاروبار کے نقصان ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے ۔ بینک ہڑتال کا بہار میں وسیع پیمانے پر اثر پڑا ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں