قرول باغ سے جامعہ1935کے آس پاس جمنا کے کنارے اوکھلا میں منتقل ہونا شروع ہوگئی ۔ صاحبان خیر کے عطیات سے جو پیسہ آتا اپنا پیٹ کاٹ کے ، اس سے اکابرین ملت اوکھلا میں زمینیں خرید کر اسے ایک نیا مستقبل عطا کرنے میں لگے رہے ۔ ریاست بھوپال کے سربراہ نے جامعہ کو ایک بڑا قطعہ اراضی عطا کیا لیکن جب آزادی آئی تو جامعہ کو فوری طور پر وہ مقام اور مرتبہ نہیں دیا گیا جس کی وہ حقدار تھی ۔ تقسیم وطن کے وقت جامعہ والے بڑے آزمائشی دور سے گزررہے تھے ۔ قرول باغ میں جامعہ کو فسادیوں کے غم و غصہ کا شکار ہونا پڑا۔ اوکھلا میں بھی مدارس ریجمنٹ نے جامعہ والوں کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھالی لیکن ایسے برے وقت میں بھی جامعہ والوں نے خدمت سے دامن نہیں بچایا بلکہ اپنے گھر سے بے گھر ہوئے مسلمانوں کی ایک طرف خدمت کی ، دوسری طرف موجودہ نوزائید پاکستان سے انتقال وطن کرنے والے ان بچوں کی کفالت کو اپنا فریضہ بنالیا جو نفرت و عناد کی فضا میں اپنے مان باپ کو کھوچکے تھے ۔1949میں پنڈت نہرو اور مولانا آزاد کی تحریک اور تجویز پر ذاکر صاحب اپنی مادر علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو بچانے کے لئے وائس چانسلر ہوکر وہاں چلے گئے اور ان کے بعد پروفیسر مجیب نے جامعہ کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ 1963میں ان ہی کے دور میں جامعہ کوDeemed to be universityکا درجہ ملا اور1988میں جامعہ کو ایک مرکزی یونیورسٹی کی حیثیت حاصل ہوئی جس میں مرحوم خورشید عالم خان کی کوششوں کا بڑا دخل تھا ۔
جامعہ والے اس وقت سے برابر ی مطالبہ کرتے رہے کہ جامعہ کو اقلیتی ادارہ قرار دیاجائے اس لئے کہ1988تک جامعہ کے اغراض و مقاصد میں یہ بات تسلیم کی گئی تھی کہ جامعہ کے قیام کا مقصد مسلمانوں کی تعلیمی ضروریات کی کفالت کرنا ہے اور وہاں پر اردو ذریعہ تعلیم رہے گی۔اس بنیاد پر برابر آوزیں اٹھتی رہی ہیں۔ اساتذہ، طلبا خاص کر اولڈ بوائز اس کے لئے مستقل کوششیں کرتے رہے اور پھر اولڈ بوائز کی کوششیں رنگ لائیں۔ جسٹس صدیقی کمیشن نے جامعہ کو اقلیتی کردار عطا کردیا۔ یہ ایک ایسا دیر میں لیا گیا منصفانہ فیصلہ تھا جو تاریخی اہمیت کا حامل تھا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہر درودیوار کی ایک ایک اینٹ اس کے مسلم اقلیتی کردار کی گواہ ہے۔ جامعہ کے اقلیتی کردار ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ جب جامعہ کی مالی حالت کی خرابی کا حوالہ دیتے ہوئے کچھ لوگوں نے یہ چاہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نام سے اسلامیہ نکال دیاجائے تو بابائے قوم مہاتما گاندھی نے اس کی اجازت نہیں دی اور یہ بات واضح کردی کہ اگر کوئی ایسا فیصلہ کیاجاتا ہے تو وہ جامعہ سے اپنا ہر طرح کا تعلق ختم کرلیں گے اور اس کے بعد کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ کوئی دوبارہ ایسی تجویز پیش کرے جو لوگ آج جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کے مخالف ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہو یا جامعہ ملیہ اسلامیہ یہ ہمارے سیکولر اقدار کے جیتے جاگتے نمونے ہیں۔ یہ تاریخی اہمیت کے وہ ادارے ہیں جنہوں نے ایک پسماندہ اقلیت میں جدید تعلیم کو فروغ دیا اور انہیں ایک نیا شعور عطا کیا۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یونیورسٹیاں اقلیتی کردار کی مالک نہیں ہوسکتیں وہ دستور میں بنیادی حقوق کی دفعہ29-30کو پامال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جو یہ کہتے ہیں کہ یہاں پر صرف مسلمان ہی نہیں دوسرے مذاہب کے لوگ بھی پڑھتے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہندوستان مذہبی تکثیریت کا ملک ہے ، آپ اپنی اکثریت کے بل پر اقلیتوں کے وجود کو عدم میں نہیں بدل سکتے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ و علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دروازے پہلے دن سے ہی اس لئے سب کے لئے کھلے رہے کہ ان اداروں کے بانی اور معمار مشترکہ قومیت ، سیکولر اقدار کے ماننے والے تھے۔ وہ کسی قسم کی مذہبی تفریق کو روا نہیں رکھنا چاہتے تھے ۔ آج جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جامعہ میہ اسلامیہ ہو یا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ان کا پورا خرچ مرکزی سرکار اٹھاتی ہے اس لئے ان کا اقلیتی کردار تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اس دلیل کے ذریعہ مسلمانوں کی ہندوستان میں موجودگی کی نفی بھی کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ مسلمان بھی اس ملک میں ٹیکس ادا کرتے ہیں اور اس ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم کا کچھ حصہ اگر ان کے تعلیمی اداروں پر خرچ ہوتا ہے تو یہ کوئی احسان نہیں بلکہ قومی فریضہ ہے کہ جس کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے ۔
ہندوستان میں آپ سیکولر جمہوری اقدار کو محض نعرہ نہیں بنا سکتے ہیں بلکہ اس کے کچھ عملی نمونے ہمارے پا س دنیا کو دکھانے کے لئے ہونے چاہئیں ۔ یہ کیسا طرفہ تماشہ والی کیفیت ہے کہ ایک طرف کسی مسلم ملک کا سربراہ جب ہندوستان آتا ہے تو پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اب جامعہ ملیہ اسلامیہ کو ہندوستانی سیکولرازم کے نمونہ کے طور پر پیش کیاجاتا ہے لیکن تنگ نظری اور تعصب کی یہ کون سی منزلیں ہیں کہ جہاں ہم دو اقلیتی اداروں کے وجود کو برداشت نہیں کرتے، وہ ادارے جہاں دور غلامی میں مسلمانوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر ان اداروں کو چندے کی خطیر رقم دے کر کھڑا کیا تھا۔ کون جانتا تھا کہ آزادی کے بعد ان کے وجود کو معرض خطر میں ڈال دیاجائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ سرکار جو سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ دیتی ہے جو ملک کے تمام شہریوں کو تعلیم و اقتصادیات میں برابر کے مواقع فراہم کرنے کی بات کرتی ہے، وہ ایسا کوئی کام نہیں کرے گی جس سے اس ملک کی دوسری بڑی اقلیت مایوسی اور ان دیکھی کے نتیجے میں اس ملک کے ساتھ اپنے رشتوں کو کمزور ہوتے دیکھ نہ پائے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ غلطیاں پچھلی سرکاروں نے کیں، موجودہ سرکار ان کو نہیں دہرائے گی۔
(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی ، جودھ پور کے پریسیڈنٹ ہیں)
Jamia Millia Islamia - A bright example of secular values. Article: Prof Akhtar ul Wasey
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں