گورکھپور ہاسپٹل میں 30 بچوں کی موت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-08-12

گورکھپور ہاسپٹل میں 30 بچوں کی موت

گورکھپور ہاسپٹل میں 30 بچوں کی موت
سیال آکیسجن کی عدم فراہمی وجہ؟ خاطیوں کو بخشا نہیں جائے گا؛ وزیرصحت
گورکھپور، یوپی
پی ٹی آئی
کم سے کم تیس بچے ریاستی حکومت کے زیر انتظام چلائے جانے والے بابا راگھو داس میڈیکل کالج میں گزشتہ دو دنوں کے دوران فوت ہوگئے ۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ راجیو راؤ یتلا نے آج یہ بات کہی ۔ اگرچہ کہ انہوں نے ان اموات کی کوئی وجہ نہیں بتائی ہے ۔ مرکزی وزارت داخلہ نے ایس پی گورکھپور کے حوالے سے کہا کہ گزشتہ26گھنٹوں میں21بچے سیال آکسیجن کی کمی کے باعث انتقال کرگئے جو بی آر ڈی میڈیکل کالج میں دستیاب نہیں تھی ۔ سینئر عہدیدار مقام واقعہ پہنچ گئے لیکن اس کی قطعی وجوہات کی جانچ سیول نظم و نسق کی طرف سے کی جارہی ہے۔ وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے آج یہ بات کہی۔ اس واقعہ پر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے رد عمل کا سلسلہ شروع ہوگیا جب کہ سماج وادی پارٹی اور کانگریس نے ریاستی وزیر صحت کے استعفی کا مطالبہ کیا۔ راؤ تیلا نے کہا کہ سترہ بچے نو مولود وں کے وارڈ میں انتقال کر گئے جب کہ پانچ اے ای ایس وارڈ اور8جنرل وارڈ میں گزشتہ دو دنوں کے دوران انتقال کرگئے ۔ انہوں نے کہا کہ حتی کہ اموات نو مولودوں کے وارڈ میں تین، اے ای ایس وارڈ میں دو اور جنرل وارڈ میں دو کی اطلاع گزشتہ نصف شب سے ملی ہے ۔ جب کہ 23اموات کی 10,9اگست کی درمیانی شب کو اطلاع ملی ۔ ایک مخصوص سوال کے جواب میں آیا یہ جانی نقصانات آکسیجن کی فراہمی میں کمی کے باعث کوئی موت نہیں ہوئی ہے ۔ ریاستی حکومت نے لکھنو میں ایک سرکاری بیان میں اس بات کو بھی بکواس بتایا ہے کہ ہاسپٹل میں آکسیجن عدم دستیاب تھی۔ وزیر صحت سدھارتھ ناتھ سنگھ نے پی ٹی آئی کو کہا کہ بچوں کے اموات کافی بدبختانہ بات ہے اور حکومت ایک انکوائری کمیٹی قائم کرے گی جو کسی بھی طرح کی کوتاہی کا پتہ چلائے گی اور خاطی پائے جانے والے کسی بھی فرد کو بخشا نہیں جائے گا اور اسے جوابدہ بنایاجائے گا۔
30 children die in Gorakhpur hospital

آرٹیکل 370 پر جوں کا توں موقف برقرار رہے گا - محبوبہ مفتی کا دعویٰ
نئی دہلی
پی ٹی آئی
چیف منسٹر جموں و کشمیر محبوبہ مفتی نے آج کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے پی ڈی پی ، بی جے پی حکومت کے ایجنڈہ اتحاد کے تعلق سے100 فیصد تیقن دیا ہے ۔ محبوبہ مفتی نے وزیر اعظم سے ان اطلاعات کے درمیان ملاقات کی کہ وہ ریاست کو خصوصی موقف دینے والی دستوری دفعات میں ترمیم کی کوششوں کے خلاف ان سے مدد چاہتی ہے۔ پندرہ منٹ کی ملاقات کے بعد باہر نکلتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ پی ڈی پی اور بی جے پی کے درمیان اتحاد کے ایجنڈہ کی بنیاد یہی ہے کہ آرٹیکل 370 پر جوں کا توں موقف برقرار رہے۔ اس سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہ ہو۔ انہوں نے میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ ایجنڈہ کی بنیاد یہی ہے اور کوئی بھی اس کے خلاف نہیں جاسکتا ۔ وزیر اعظم کا رد عمل مثبت رہا۔ وزیر اعظم نے سو فیصد تیقن دیا ہے ۔ یہ ملاقات ریاست کو خصوصی موقف عطا کرنے والے دستور کے آرٹیکل35Aکو چیالنج پر بحث کے پس منظر میں ہوئی۔ چیف منسٹر نے کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم کو جموں و کشمیر کی مشکل صورتحال کی جانکاری دے دی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ صورتحال دھیرے دھیرے سدھر رہی ہے انہوں نے کہا کہ جمون و کشمیر کے عوام کا خیال ہے کہ ان کی شناخت خطرہ میں پڑ جائے گی۔ پیام دینا چاہئے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ چیف منسٹر نے کہا کہ جموں و کشمیر کو مشکل حالات کا سامنا تھا۔ الحاق کے وقت مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باوجود جموں و کشمیر نے ہمارے ملک ہندوستان میں شامل ہونے کا مختلف فیصلہ کیا۔ جموں و کشمیر کا عجیب تنوع ہے ، جہاں ہر چیز مختلف ہے ۔ یہ مسلم اکثریتی ریاست ہے لیکن یہاں ہندو بھی آباد ہیں، سکھ اور بدھ مت کے ماننے والے بھی ۔ ہندوستان کا نظریہ ایک لحاظ سے جموں و کشمیر کا نظریہ ہے ۔ چیف منسٹر نے کہا کہ گزشتہ برس صورتحال پھر خراب ہوگئی تھی لیکن اب زخم بھر رہے ہیں ۔ ایسی صورت میں آرٹیکل 35Aپر بحث منفی اثر مرتب کرے گی۔ چیف منسٹر نے کہا کہ ایسی بحث نہیں ہونی چاہئے ۔ آخر کار جمون و کشمیر ہندوستان کا اہم حصہ ہے۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ جموں و کشمیر ملک کا تاج ہے ۔ یہ مسلم اکثریتی ریاست ہے جس نے دو قومی نظریہ کو مسترد کیا اور اس ملک میں اس خیال سے شمولیت اختیار کی کہ امنگیں اور شناخت برقرار رہے گی۔ شناخت ہمیشہ برقرار رہنی چاہئے ریاست میں پی ڈی پی کی حلیف بی جے پی کے ترجمان وریندر گپتا نے کل کہا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ دستور کے آرٹیکل اور35Aکو خدا حافظ کہہ دیاجائے کیونکہ ان سے علیحدگی پسند نفسیات پیدا ہورہی ہے ۔ تنازعہ2014ء میں اس وقت شروع ہوا تھا جب ایک غیر سرکاری تنظیم(این جی او) وی وی سیٹیزنس نے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی درخواست داخل کرتے ہوئے گزارش کی تھی کہ آرٹیکل35Aپر خط تنسیخ پھیردی جائے ۔ آرٹیکل35Aجموں و کشمیر اسمبلی کو یہ طئے کرنے کا اختیار دیتا ہے کہ ریاست کے مستقل شہری کون ہیں وہ ان کے حقوق اور مراعات طئے کرنے کا بھی اختیار اسے دیتا ہے ۔ آرٹیکل 370 ریاست کو خصوصی خود اختیاری کا موقف عطا کرتا ہے ۔ آئی اے این ایس کے بموجب وزیر اعظم مودی سے ملاقات کے بعد چیف منسٹر جمون و کشمیر محبوبہ مفتی نے جمعہ کے دن کہا کہ انہیں تیقن ملا ہے کہ پی ڈی پی۔ بی جے پی اتحاد کے ایجنڈہ برائے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل35اے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ محبوبہ مفتی نے اخباری نمائندوں سے کہا کہ ہمارے اتحاد کے ایجنڈہ کی بنیاد ہی یہ ہے کہ آرٹیکل 370 پر جوں کا توں موقف برقرار رہے اور ہم میں سے کوئی بھی اس کے خلاف نہ جائے ۔ آرٹیکل35اے پر بحث جموں و کشمیر پر منفی اثر ڈالے گی۔ ایسی بحث نہیں ہونی چاہئے ۔ وزیر اعظم نے اتحاد کے ایجنڈہ کے تعلق سے100فیصد تیقن دیا ہے ۔

کانگریس کے سات ارکان اسمبلی مستعفیٰ
اسپیکر گجرات اسمبلی رمن لال ودرا کا بیان۔ بی جے پی میں شمولیت کا امکان
احمد آباد
پی ٹی آئی
گجرات میں کانگریس کے سات ارکان اسمبلی جنہیں راجیہ سبھا کے انتخابات میں پارٹی کے امید وار احمد پٹیل کے خلاف ووٹ دینے پر پارٹی سے خارج کردیا گیا ہے ، لیجسلیٹرس کی حیثیت سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ یہ بات اسمبلی کے اسپیکر رمن لال اورا نے آج یہاں اخباری نمائندوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتائی۔ گجرات میں ناراض قائدین کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے9اگست کو پارٹی کے قائدین کو چھ سال کے لئے خارج کردیا گیا جن میں سابق قائد اپوزیشن شنکر سنہہ واگھیلا اور سات ارکان اسمبلی شامل ہیں، پارٹی کے ذرائع نے یہ بات بتائی اور کہا کہ 8اگست کو ہوئے راجیہ سبھا کے انتخابات میں کراس ووٹنگ پر یہ کارروائی کی گئی ہے ۔ کانگریس کے سات ارکان اسمبلی نے مجھ سے میری رہائش گاہ پر ملاقات کرکے استعفیٰ کے مکتوب پیش کردیے ہیں ۔ یہ بات اسمبلی اسپیکر رمن لال وورا نے بتائی۔ سات ارکان اسمبلی جن میں سابق قائد اپوزیشن شنکر سنگھ واگھیلا کے فرزند مہندر سنہہ بھی شامل ہیں، انہیں پارٹی قیادت کی تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ دو باغی ارکان اسمبلی رگھو جی پٹیل اور بھولا بھائی گویل جن کے ووٹس کو الیکشن کمیشن کی جانب سے غیر کار آمد قرار دیا گیا، جس کی وجہ سے کانگریس کے امید وار کی کامیابی ممکن ہوسکی ، انہوں نے بھی اپنے استعفیٰ کے مکتوب پیش کردیے ہیں ، دوسرے قائدین جنہوں نے استعفیٰ دے دیا ہے ، وہ امیت چودھری، سی کے راول، جی دھرمیندر سنہہ جڈیجہ اور کرم سنہہ پٹیل ہیں۔ میں نے ان سے استفسار کیا کہ آپ لوگ کیوں استعفیٰ دے رہے ہیں؟ آپ پر کوئی دباؤ ڈالا جارہا ہے یا دھمکی دی گئی ہے ، جس پر استعفیٰ دینے والے قائدین نے نفی میں جواب دیا۔ اسپیکر رمن لال وورا نے یہ بات بتائی۔ مہندر سنہہ واگھیلا نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ایم ایل اے کے عہدہ سے استعفیٰ دے کر ہم نے اپنی اس رسمی کارروائی کی تکمیل کردی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کے سات ارکان اسمبلی جنہوں نے گزشتہ رات استعفیٰ دے دیا ہے اور چھ سے تین جنہوں نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا ہے ، عنقریب بی جے پی میں شامل ہوجائیں گے، تاہم ان کے والد ان آٹھ کانگریس کے قائدین میں شامل ہیں، جنہیں پارٹی کی جانب سے خارج کردیا گیا ہ ، لیکن بر سر اقتدار پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کریں گے ۔ یہ بات مہندر سنگھ واگھیلا نے بتائی۔ گزشتہ ماہ چھ ارکان کے مستعفی ہونے تک اسمبلی میں کانگریس کے ارکان کی تعداد57تھی، جب کہ8اگست کو کانگریس کے آٹھ ارکان اسمبلی نے راجیہ سبھا کے انتخابات میں بی جے پی کے امید واروں کے حق میں ووٹ دیا ، جس کے بعد9اگست کو پارٹی نے انہیں خارج کردیا۔ گزشتہ ماہ راجیہ سبھا کے انتخابات سے قبل کانگریس کے جن چھ ارکان اسمبلی نے استعفیٰ دے دیا تھا ان میں سے تین ارکان نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ہے ، لیکن باقی تین ارکان نے فی الحال بی جے پی میں شامل ہونے کے تعلق سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے ۔ تین ارکان اسمبلی جنہوں نے گزشتہ ماہ بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ہے ، وہ بلونت سنہا راجپوت، تاجا شری بین پٹیل اور پرہلاد بین پٹیل ہیں۔ دوسرے تین جنہوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار نہیں کی، وہ رام سنہا پرمار، چھنا بھاؤ چودھری اور مان سنگھ پرمان ہیں۔

ایودھیا تنازعہ کی سپریم کورٹ میں 5 دسمبرسے مسلسل سماعت
نئی دہلی
پی ٹی آئی، یو این آئی
سپریم کورٹ نے آج فیصلہ کیا ہے کہ ایودھیا اراضی تنازعہ مقدمہ کی مسلسل سماعت5دسمبر سے شروع کی جائے گی اور واضح کیا کہ کسی بھی صورت میں کوئی التوا نہیں دیاجائے گا۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف مختلف اپی لوں کی مشترکہ سماعت کے دوران جسٹس دیپک مشرا ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس اے نذیر کی خصوصی بنچ تقریباً دیڑھ گھنٹہ کی سر گرم بحث کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی کہ 5دسمبر سے اس معاملہ میں قطعی سماعت کی جائے گی ۔ عدالت نے تمام متعلقہ فریقین کو آگاہ کردیا کہ اس دوران سماعت ملتوی کرنے کی کوئی بھی درخواست قبول نہیں کی جائے گی۔ فریقین ضروری تیاری کرلیں ۔ معاملہ کی سماعت شروع ہوتے ہی سنی وقف بورڈ نے کہا کہ بہت سارے دستاویزات کے ترجمے کا کام اب تک نہیں ہوپایا ہے ۔ یہ دستاویزات سنسکرت، فارسی اردو اور عربی اور دیگر زبانوں میں ہیں۔ ان کے ترجمے کے لئے کچھ وقت درکار ہوگا ۔عدالت نے سات برسوں تک دستاویزات کا ترجمہ نہ ہونے پر ناراضگی بھی ظاہر کی ۔ عدالت نے اس کام کے لئے تمام فریقین کے وکلاء کو بارہ ہفتے کی مہلت دی۔ سپریم کورٹ میں سات سال کے وقفہ کے بعد اس معاملہ کی سماعت شروع ہوئی تھی ۔ اس معاملہ میں کچھ عرصہ پہلے بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی نے چیف جسٹس جے ایس کیہر کی صدارت والی بنچ سے جلد سماعت کی درخواست کی تھی ۔ عدالت نے گزشتہ ماہ سوامی کو بھی معاملہ مین فریق بننے کی اجازت دے دی تھی ۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ نے2010ء میں متنازعہ مقام کے2.77ایکڑ اراضی علاقہ کو سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑا ، اور رام للا کے درمیان برابر حصہ میں تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا ۔ چند ماہ قبل سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ اس معاملہ کا عدالت سے باہر حل نکالنے کے امکان کا جائزہ لیاجائے ۔ مختلف فریقین کی جانب سے اس معاملہ پر کوشش بھی کی گئی ، لیکن کوئی حل نہیں نکل سکا۔ لہذا عدالت ابھی خوبی اور خامی کی بنیاد پر ہی اس تنازعہ کا تصفیہ کرے گی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں