گل کو پامال نہ کر لعل و گہر کے مالک - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-07-22

گل کو پامال نہ کر لعل و گہر کے مالک

urdu ncpul
آج وطن عزیز کی فضا خاصی گنجلگ اور حالات کافی کشیدہ و پیچیدہ ہیں ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آج تقریبا تمام تر اقلیتی ، لسانی و ثقافتی ادارے حکومت وقت کی بے توجہی کا شکار ہیں اس امر کی شہادت کے لئے صرف چند مثالیں کافی ہیں ۔
خدا بخش لائبریری پٹنہ کے ڈائریکٹر کا منصب کئی برس سے خالی ہیا ور اس کے پر کرنے کی سمت میں کوئی پیشرفت بھی نہیں نظر آتی۔ کمشنر برائے لسانی اقلیات کا عہدہ میرے استعفیٰ دینے کے بعد تقریباً ایک برس سے زائد مدت سے خالی ہے ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مراکز، خصوصاً کشن گنج کی منظورشدہ گرانٹ تک جاری نہیں کی جارہی ہے تقریبا یہی حال کئی اور لسانی و ثقافتی اداروں کا ہے۔ ساہتیہ اکادمی جیسے موقر ادارے میں اردو کے کئی اہم منصب خالی ہیں اور صرف چند افراد سے کام چلایا جارہا ہے ، جو صرف اردو داں ہیں، ان کا واسطہ نہ علم سے ہے نہ ادب سے۔ یہاں کمشنری برائے لسانی اقلیات کے ضمن میں ایک وضاحت لازم ہے کہ یہ ادارہ ملک میں ریاستی و علاقائی سطح پر لسانی اقلیات کے تحفظ کا ذمہ دار ہے، یعنی ہندوستان کی سرکاری زبان ہندی بھی، اگر غیر ہندی ریاستوں میں محدود سطح پر رائج ہے (مثلا جموں و کشمیر، مغربی بنگال، پنجاب، مہاراشٹرا، ارڈیشہ، گجرات اور جنوبی و شمالی مشرقی ہند کی ریاستیں) تو وہاں ہندی کو اقلیتی زبان کے طور پر تحفظ دیاجاتا ہے اور کمشنر برائے لسانی اقلیات اس کے مفادات کی نگرانی کرتا ہے مگر اس اہم عہدے کی تقرری بھی حکومت کی غفلت کا شکار ہے ۔

یہ تو رہی مرکزی حکومت کی بات، ریاستی سطح پر بھی صورتحال زیادہ بہتر نہیں ۔ اتر پردیش میں رضا لائبریری رام پور میں ڈائرکٹر تو ہے مگر اس کے کئی اہم ذیلی عہدے خالی ہیں ،اردو اکادمی دہلی کب سے اپنے مستقل سکریٹری کے انتظار میں ہے اور بھی کئی مثالیں ہوں گی۔ اس ملک کی مشترکہ ثقافت کو مٹانے کی کوششیں اور بھی کئی سطحوں پر جاری ہیں ، نصابی کتابوں میں زہر بھرا جارہا ہے ، ایک خاص ذہنیت کے علمبرداروں کو بر سر اختیار لایاجارہا ہے ، ہر اس آزاد فرد یا ادارے کا گلا گھونٹا جارہا ہے جو مٹھی بھر (مگر بر سراقتدار)اکثریتی افراد کی فکر کی مخالت کرتا ہو ۔ ہر اختلافی آواز کو یا تو خرید لیاجا رہا ہے یا بے اثر کرنے کی تمام جائز و ناجائز کوششیں کی جارہی ہیں اور اس کے لئے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں سرکاری بازوؤں کو بھی استعمال کیا جاتا ہے ، خواہ وہ محکمہ انکم ٹیکس ہو یا سی بی آئی ۔ مگر شاید ارباب اختیار کو یہ احساس نہیں کہ:
دل اسیری مٰں بھی آزاد ہے آزادوں کا

حال ہی میں ایک نیا منصوبہ سامنے آیا ہے جو بنیادی طور پر خطرناک بھی ہے اور منفی طور پر موثر بھی۔ اس لئے کہ اگر یہ کامیاب اور نافذ ہوگیا تو اس ملک پر ایسے کثیر جہتی اور دوررس، مضر اثرات مرتب ہوں گے جس کا اندازہ کرنا بھی ہولناک ہے ۔ میری مراد حکومت ہند کی ناک کے نیچے برسرکار نیتی آیوگ اور دفتر وزیر اعظم کی اس تجویز سے ہے جس کے تحت ایک دو نہیں ملک کے اہم ترین، ثقافتی اقدار کے علمبردار 976 ادارے زد پر ہیں، جنہیں آزاد ہندوستان کی انصاف پرور حکومتوں نے ثقافت، ادب اور فن کی نشوونما کے لئے قائم کیا تھا اور اس مقصد کے لئے مناسب رقوم مختص کی تھیں۔ یہ ادارے کئی عشروں سے خاموشی سے اپنا کام انجام دے رہے ہیں ، مگر اچانک موجودہ ارباب اختیار کو یہ نادر خیال سوجھا کہ یہ تمام ادارے بے مصرف ہیں اور ان کا آزادانہ کردار غیر ضروری ، لہذا انضمام و ادغام کے نام پر انہیں محدود و بے اثر کرنے کے لئے منصوبہ سازی شروع ہو گئی۔ اگرچہ اس طویل فہرست میں اقلیتی ادارے چند ہی ہیں، مگر ہمیں تو تمام اداروں کی فکر ہے ، کیونکہ وہ سب ہماری تاریخ، ہماری اقدار کی حفاظت اور ہماری مشترکہ ثقات و ملکی ادب کی نشوونما و بقاء کے لئے ضروری ہیں ۔
ان اداروں میں ساہتیہ اکادمی، جیسا موقر ادبی ادارہ بھی شامل ہے جو ہمارے اولین وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کی یادگار ہے ۔ اس ادارے نے ملک گیر سطح پر 82 زبانوں کے ادب اور ان کی عملی میراث کو محفوظ کرنے، نیز ان کو ترقی دینے کے لئے بے مثل خدمات انجام دی ہیں ، مگر اب اس ادارے پر بھی خطرات کی تلوار لٹکی ہوئی ہے اور اسے حاشیہ پر لاکر بے اثر کرنے کا پورا انتظام کیا جارہا ہے ۔ بالاتفاق یا قصداً معتوبین کی اس فہرست میں اردو کا سب سے ہمہ گیر، فعال اور کرداری سطح پر موثر ادارہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان بھی شامل ہے ، بلکہ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ اصل نشانہ وہی ہے۔
حکومتی تجاویز کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حکومت انضمام و الحاق کے نام پر اس وسیع المشرب اور وقیع ادارے کو کسی دوسرے بڑے ادارے ( مثلاً یونیورسٹی یا کسی انسٹی ٹیوٹ میں ضم کرکے اور اس کی عملی حیثیت کو محدود کرکے اس کی شناخت و آزادانہ حیثیت کو بے اثر) بلکہ نادر کردینے پر آمادہ ہے ۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان( این سی پی یو ایل) ایک ایسا ادارہ ہے جس کی شہرت آج چہار دانگ عالم میں ہے، اس کی سرگرمیوں کا دائرہ ملکی حدود سے نکل کر مشرق وسطی کے ممالک تک پہنچ رہا ہے ۔ ایک انداز ے کے مطابق آج یہ دنیا بھر میں اردو کا سب سے بڑا اشاعتی ادارہ ہے جو نہ صرف اردو ادب بلکہ عربی و فارسی ادب ، نیز طب یونانی کی میراث کو محفوظ کرنے کا فر ض بھی انجام دے رہا ہے ۔ علمی سطح پر دیگر قابل ذکر کارناموں کے علاوہ اس نے لغات نویسی کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ۔ اس کے کئی زیر تکمیل منصوبے ایسے ہیں جن کے اثرات آئندہ صدیوں کو محیط ہوں گے ۔ اردو کی تشہیر و اشاعت اس کے فروغ ، نیز اس زبان کو سائنس ،ٹکنالوجی اور روزگار سے جوڑنے کے لئے اس ادارے نے بے مثل کارنامے انجام دیے ہیں، ملک میں اس کے ایک ہزار سے زائد مراکز بر سر عمل ہیں، اس کے ذریعہ بے شمار اردو اداروں، جریدوں، اخباروں اردو کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی پرورش ہو رہی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے ملک گیر اردو میلوں میں کروڑوں روپے کی اردو کتابیں فروخت ہو رہی ہیں۔ کونسل کے یہ تمام کارنامے روز روشن کی طرح عیاں ہیں اور ان سے صرف نظر، کوئی نابینا ہی کرسکتا ہے (راقم الحروف کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ کئی برس سے کونسل کے انتظامیہ سے مشاورتی سطح پر منسلک ہے ، اس لئے اسے ان تمام حقائق کا علم بھی ہے اور انہیں بیان کرنے کا حق بھی)۔۔

اب ایسے عظم الشان ادارے کو کسی دوسرے ادارے کا لاحقہ بنانا کہاں تک مناسب اور جائز ہے ، اس کا کوئی منطقی جواز نظر نہیں آتا۔ ایک عام پڑھا لکھا شخص بھی اتنا سمجھ سکتا ہے کہ کسی بھی یونیورسٹی کا اپنا کردار، اپنا نظام اور منفرد طریق کار ہوتا ہے، نیز اس کی بنیادی ذمہ داری تعلیم و تعلم ہے ، جب کہ ایک خالصتاً علمی و ادبی ادارے(خواہ این سی پی یو ایل ہو یا ساہتیہ اکادمی) کا کردار ، طریقہ نظم اور طریق عمل قطعا مختلف نوعیت کا ہوتا ہے ۔ان دونوں کا اتصال نہ ممکن ہے ، نہ قابل عمل۔ اس کے برعکس ہونا تو یہ چاہئے کہ ایسے اہم علمی و ادبی ادارے کو زیادہ آزادی اور زیادہ اختیار دے کر یکدم خود مختار ( مثلاً کارپوریشن)بنادیا جائے ، تاکہ اس کا دائرہ عمل وسیع تر ہوجائے اور اس کی کارکردگی مزید بہتر ہو ، حکومت اس سطح پر غور بھی کررہی ہے کہ چند اداروں کو کارپوریشن کا درجہ دے کر ان کے وجو د کو مزید اعتبار بخشا جائے ، مگر بدقسمی سے ان میں این سی پی یو ایل شامل نہیں ، جب کہ تقاضائے وقت یہی ہے کہ یہ ادارہ نہ صرف اس مختصر فہرست میں شامل ہو، بلکہ سب سے اول بھی۔
کاش حکمرانان وقت حالات کی نبض کو محسوس کریں اور عاقلانہ فیصلہ کریں ، کیونکہ اگر اردو کا فروغ ہوگا تو ہندوستانیت کا فروغ ہوگا جس سے ہندوستان کی تہذیبی ترقی بھی ہوگی اور نیک نامی بھی۔ قابل ذکر ہے کہ مذکورہ صدہا (976) اداروں کا مجموعہ سالانہ بجٹ 27 ہزار کروڑ روپے سے زائد ہے ، جس میں این سی پی یو ایل کا محض 70 کروڑ روپے سالانہ کا بجٹ ، کل کا صرف اور صرف 1000 اعشاریہ فی صد ہے ، محض اعشاریہ 1000 فیصد ۔
کیسی ستم ظریقی ہے کہ ارباب اختیار کو اس حقیر رقم کاحامل ادارہ بھی کھٹک رہا ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ارباب حکومت کے علاوہ خود ہمارے بعض نادان دوستوں کی آنکھوں میں بھی قومی کونسل، بحیثیت ادارہ کھٹک رہا ہے اور وہ بجائے اس کی بقا کی کوشش کے اس کی بیخ کنی پر تلے ہوئے ہیں اور انہوں نے بہانہ بنایا ہے کہ کونسل کے موجودہ ڈائریکٹر کو، لیکن انہیں یہ پتہ نہیں یا پھر وہ سمجھنا نہیں چاہتے کہ اس نازک وقت میں ان کی مخالفت کے اثرات ایک فرد تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ بالواسطہ طور پر اس ادارے کے وجود پر اثر انداز ہوں گے۔ تب مفاد کے متلاشی لوگوں کو کسی بھی قسم کا فائدہ کس طرح حاصل ہوگا؟ اس سلسلے میں میری گزارش یہ ہے کہ اگر کسی کو موجودہ ڈائریکٹر یا کسی منصب وار سے کوئی شکایت ہے تو وہ اس کے خلاف قانونی سطح پر کارروائی کریں اور اگر الزام ثابت ہو تو اسے کیفر کردار تک پہنچائیں ، ادارے کی جڑیں نہ کاٹیں، کیونکہ اگر سایہ چاہئے تو درخت کا قائم رہنا ضروری ہے ، جب درخت نہ ہوگا تو سایہ نہ ہوگا، نہ درخت کا رکھوالا۔
میری نظر میں کیا، ہر صاحب فہم و عقل کی نظر میں ادارہ اہم ہوتا ہے۔ فرد یا افراد نہیں۔ مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ جو یاران میکدہ اس وقت قومی کونسل کے سربراہ ( بلکہ دراصل خود قومی کونسل) کے خلاف صف آرا ہیں ، انہیں یہ اندازہ ہی نہیں کہ وہ اردو کا کتنا بڑا نقصان کرنے کے درپے ہیں اور ان کی اس سازشانہ مہم کا انجام کیا ہوگا ۔ سردست میں منفی فکر کے حامل تمام حضرات کو فارسی کا یہ شعر نذر کرتا ہوں کہ شاید مردناداں پہ کلام نرم و نازک کا اثر ہو۔
چشم بر اہندمے خواراں، کہ کی باراں شود
ابرمی خواہند مستاں، خانہ گوویراں شود
(سارے مے خوار منتظر ہی کہ کب بارش ہو ، مست تو بس بارش چاہتے ہیں ، چاہے بارش کی زیادتی سے (خود) ان کے گھر ویران ہوجائیں)

میں آخر میں حکومت وقت سے پرزور اپیل کرتا ہو کہ وہ این سی پی یو ایل کی جاں بخشی کرے اور اس ادارے کو آزادانہ طور پر ، خالصتاً علمی ترجیحات کی بنیاد پر کام کرنے دے، بلکہ اسے مزید مستحکم و مختار بنائے ، اس کے اس حسن عمل سے نہ صرف ملک کا ایک بڑا طبقہ مطمئن ہوگا بلکہ ایک عالم میں اس کو وقار حاصل ہوگا۔

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور کے پریسیڈنٹ ہیں۔)

The case of NCPUL. Article: Prof Akhtar ul Wasey

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں