تحفظ آثار قدیمہ حیدرآباد - قطب شاہی دور کے 13 قدآدم دروازے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-07-27

تحفظ آثار قدیمہ حیدرآباد - قطب شاہی دور کے 13 قدآدم دروازے

hyderabad old city news - حیدرآباد پرانے شہر کی خبریں
2017-jul-27

26/جولائی
رہنما نیوز بیورو
qutubshahi-door-dabeerpura
چار مینار کی تعمیر کے برسوں بعد جب اس کے آس پاس کے علاقوں میں لوگ آباد ہونے لگے اور بستیاں جہاں قائم ہوگئیں تو قطب شاہی دور میں بادشاہ وقت نے اپنی رعایا کو چوروں، ڈاکوؤں ، لٹیروں اور حملہ آوروں سے محفوظ رکھنے اس وقت کے حیدرآباد کے اطراف ایک 18 فٹ اونچی اور 8 فٹ چوڑی تقریباً 6 میل کی پتھر کی دیوار تعمیر کروائی تھی جو شہریوں کی محافظ تھی اگر چیکہ فی زمانہ اس قدر اونچی چوڑی پتھر کی چھ میل طویل دیوار تعمیر کرنے کے بارے میں تصور کرنا بھی مشکل ہے ۔ اور ایسی دیوار کی بحیثیت شہر حیدرآباد کے آثار قدیمہ ، ہر حال میں حفاظت کی جانی چاہئے تھی لیکن بد بختی سے ایسا نہیں ہوا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پرانے شہر کے کچھ علاقوں میں ہی اس دیوار کے آثار باقی رہ گئے۔
INTACH [Indian National Trust for Art and Cultural Heritage]
کی رکن اور موروثی اہمیت کی حامل، حیدرآباد کی یادگاروں کے تحفظ کے لئے سرگرداں مسز پی انورادھا نے بتایا کہ احمد آباد میں بھی ایسی ہی پتھر کی دیوار موجود ہے جسے آثار قدیمہ کا درجہ حاصل ہے اور مقامی حکام اس کی باقاعدہ نگہداشت کرتے ہیں جو سیاحوں کے توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے ۔ لیکن نہ تو شہر یان حیدرآباد نے اپنے شہر کی دیوار کی قدر کی اور نہ ہی ارباب مجاز اس کے تحفظ کی اہمیت کو سمجھ سکے ۔
qutubshahi-door-purana-pul
مورخین کے مطابق قدیم شہر کی بستیوں کے اطراف تعمیر کردہ اس 18 فٹ اونچی دیوار کے مختلف مقامات پر تیرہ قد آدم دروازے اور تیرہ کھڑکیاں تھیں۔ یہ دیوار علی آباد ، فتح دروازہ، دودھ باؤلی، پرانا پل، پٹیلہ برج ،نیاپل، دبیر پورہ، میر جملہ تالاب اور لال دروازے کے گرد محصور تھی لیکن اب اس دیوار کے کچھ ہی حصہ علی آباد، لال دروازہ، سلطان شاہی سے تالاب کٹہ اور دبیر پورہ میں باقی ہیں۔
علی آباد کے ساکن ایک بزرگ نے کہا شہر میں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی آبادی کے ساتھ رہائشی جگہ کی قلت کے باعث ان علاقوں میں رہنے والوں نے آہستہ آہستہ وہ دیوار توڑنی شروع کردی اور مقامی عوامی قیادت یا بلدی عہدیداروں نے بھی اس دیوار کو محفوظ رکھنے میں کوئی دلچسپی لی ۔
qutubshahi-door
شہر کے ایک نامور مورخ جناب ایم اے قیوم کے مطابق یہ دیوار اتنی اونچی تعمیر کی گئی تھی جسے پھلانگ کر آنا ممکن نہیں تھا اور دشمنوں سے شہر کو محفوظ رکھنے دیوار کے کچھ اہم پوائنٹس پر توپ رکھنے کے لئے برج بھی تعمیر کئے گئے تھے جس میں گولہ بارود بھرا جاتا تھا اور اس کی رات دن نگرانی کے لئے مسلح پہرہ دار متعین ہوتے تھے۔ ان کے بموجب دیوار کی تعمیر سلطنت قطب شاہی کے آخری فرمانروا ابوالحسن تانا شاہ کے دور میں شروع ہوئی تھی جس کی تکمیل آصفجاہی دور میں ہوئی ۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے دیوار میں صرف بارہ دورازہ رکھے گئے تھے ۔ اور بعد میں ایک اور افضل دروازہ کا اضافہ کیا گیا تھا۔ تمام دروازے لوہے اور شیشم کی لکڑی کے بنے ہوئے تھے جن پر مسلح پہرے دار تعینات رہتے تھے یہ دروازے مغرب کے ساتھ ہی بند کردئیے جاتے تھے اور فجر کی اذان کے بعد کھولے جاتے تھے۔
جناب قیوم کے بموجب 1908 کی طغیانی میں اس دیوار کا بڑا حصہ ڈھے گیا تھا اور پھر 1950 میں شہر کی ٹریفک کے بہاؤ میں سہولت پیدا کرنے دیوار کے کئی حصوں کو منہدم کر دیا گیا تھا۔ تمام دروازے بھی گرا دئیے گئے تھے اور شہریوں نے دیوار اور دروازوں کی انہدامی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ۔ تاہم دیر سے ہی سہی لیکن آثار قدیمہ کے تحفظ کے جہت کاروں کی نمائندگی سے دیوار کے کچھ حصہ اور صرف دروازے (پرانا پل دروازہ اور دبیر پورہ دراوزہ) بچ گئے ہیں۔
دروازوں کی فہرست :
(1) پرانا پل دروازہ (موجود ہے)
(2) دبیر پورہ دروازہ (موجود ہے)
(3) علی آباد دروازہ
(4) فتح دروازہ
(5) دودھ باؤلی دروازہ
(6) افضل دروازہ
(7) لال دروازہ
(8) گولی پورہ دروازہ
(9) دلی دروازہ
(10) چادر گھاٹ دروازہ
(11) میر جملہ دراوزہ
(12) چمپا دروازہ
(13) یاقوت پورہ دروازہ

Hyderabad Archaeological Protection, 13 life-sized doors of Qutb shahi dynasty
Hyderabad news, old city news, hyderabad deccan old city news, news of old city

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں