تیری تلاش میں - افسانہ از مکرم نیاز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-04-03

تیری تلاش میں - افسانہ از مکرم نیاز

teri-talash-mein-afsana-mukarram-niyaz

میں برسوں سے اس کی تلاش میں ہوں۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے ، اسے حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف رہا ہوں۔ مگر آہ! وہ کبھی میرے ہاتھ نہیں آئی، البتہ اس کے بھیس میں سینکڑوں مل کر مجھے دھوکہ ضرور دیتے رہے اور میں جان بوجھ کر دھوکہ کھاتا ہی رہا کہ شاید ایک نہ ایک دن میری لگن ضرور رنگ لائے گی اور میں بالآخر اسے پا جاؤں گا مگر یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ آج تک وہ میری نظروں سے اوجھل ہے۔
نہ جانے اس کی خاطر میں نے عمر کا کتنا بڑا فاصلہ طے کر لیا ہے ، میں اپنے پیچھے نظر دوڑاتا ہوں اور مجھے خار دار جھاڑ جھنکار سے پر وہ طویل راستہ نظر آ رہا ہے جس پر کبھی میں نے بچپن میں ایک دفعہ موسم خزاں کے دوران سیر کی تھی۔ قدم قدم پر مجھے ٹھوکر لگتی رہی تھی۔ ایک ایک قدم مجھے سنبھال سنبھال کر رکھنا پڑا اور پھر ایک طویل مسافت طے کرنے کے باوجود میں اس چمکیلے جگنو کو پکڑ نہ سکا ، اسے اپنی گرفت میں نہ لے سکا ۔ اسے حاصل کرنے سے محروم رہا ، وہ میرے آتشِ شوق کو بھڑکا کر نجانے کہاں غائب ہوگیا تھا؟
اور آج عمر کے اس موڑ پر جب میں ایام ماضی کی طرف اپنی بے چین نظریں دوڑاتا ہوں تو نجانے کیوں مجھے اس طویل اور سنسان تاریک راہ کی یاد آ گئی ہے۔ میں اس مانوس راہ پر ڈرتے ڈرتے اپنے قدم بڑھاتا ہوں۔ میرے چاروں طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا ہے ۔ میں اندھوں کی طرح ٹٹول ٹٹول کر چند قدم چلتا ہی ہوں کہ اچانک ٹھٹھک کر رک جاتا ہوں ۔ اس سنسان راستے کے سنّاٹے میں یہ آواز کیسی؟
میں اس آواز کی طرف اپنے کان لگا دیتا ہوں۔
"کیا تم سمجھتے ہو کہ میں نے تمہیں یوں ہی پال پوس کر بڑا کیا ہے؟ نہیں، یہ تمہاری خام خیالی ہے، بہت پڑھ لیا ہے تم نے، اب میرے بزنس میں تمہاری شرکت ناگزیر ہوچکی ہے۔ کہاں تک میں اکیلا یہ بوجھ سنبھال سکوں گا۔۔۔۔۔ میں نے تو جہاں تک ہوسکے تمہاری مثالی تربیت کی، تمہاری ایک ایک ضرورت کا خیال رکھا، تمہیں کسی چیز کی کمی نہ ہونے دی، صرف اس لئے کہ وقت آنے پر تم بھی اپنے فرض سے انکار نہ کر سکو۔۔۔ اب میں تھک چکا ہوں ۔ اب مجھے آرام کی ضرورت ہے ، اب وقت آگیا ہے تم میری جگہ لے لو۔۔۔"
میں مخاطب کو دیکھنا چاہتا ہوں مگر اس گہرے اندھیرے میں یہ ممکن نہیں، میں اس کے قریب جاتا ہوں ، قریب اور قریب تر ، اور اس ہستی کی صورت مجھ پر آہستہ آہستہ واضح ہوتی چلی گئی ہے۔
اوہ۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ تو میرے ابا جان ہیں۔ یہ تو مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ پھر ان کے ان جملوں کا کیا مطلب ہے؟ نہیں۔۔۔ نہیں، یہ میرے ابا جان نہیں ہو سکتے ۔ یہ ان کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔


مکمل افسانہ عنقریب شائع ہوگا۔

میں غور سے ان کے چہرے کو دیکھنے لگتا ہوں، ان کی آنکھوں میں اس شئے کو ڈھونڈنا چاہتا ہوں جس کی مجھے ہمیشہ سے تلاش رہی ہے، مگر مجھے وہ شئے تو کیا اس کی جھلک تک نظر نہیں آ رہی ہے۔ اچانک میرے ابا جان کا چہرہ دھندلا پڑنے لگا ہے ، ان کے چہرے کے نقوش مٹنے لگے ہیں۔ میں حیرت و استعجاب سے انہیں تک رہا ہوں۔ اب ان کے چہرے کی جگہ محلے کے دکاندار کے چہرے نے لے لی ہے ۔ وہ دکاندار جس کے پاس میں بچپن میں سودا سلف لانے کی خاطر جایا کرتا تھا اور وہ ہمیشہ ہی اپنے ایک ہاتھ سے مجھے سودا تھماتے ہوئے دوسرا ہاتھ پیسوں کے لئے آگے پھیلا دیا کرتا تھا۔
میں عجب مخمصے میں گرفتار ہوگیا ہوں ۔ تو کیا وہ پیار، وہ چاہت وہ لگاؤ محض ایک سودا تھا؟ کیا وہ صرف ایک ڈھونگ تھا جسے میں بچپن سے دیکھتا چلا آ رہا ہوں؟ نہیں، مجھ میں اس تلخی کو قبول کرنے کی ہمت نہیں۔ میں خوف زدگی کے عالم میں چونک کر پیچھے ہٹ جاتا ہوں اور پھر اچانک میں نے وہاں سے دوڑ لگا دی ہے۔ اس کے باوجود اس مانوس آواز نے میرا پیچھا نہیں چھوڑا۔ اس کی بازگشت اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے ۔
"۔۔۔ میں نے تمام وقت تمہاری نازبرداری کی ، تمہاری ساری تکلیفیں اٹھائیں، تمہیں سر اٹھاکر جینے کے قابل بنایا اور اب۔۔۔ تمہیں میری خدمت کرنی چاہئے۔"


میں بھاگ رہا ہوں ، بھاگتا چلا جارہا ہوں ۔ اندھیرے راستے میں یکدم میں نے ٹھوکر کھائی اور زمین بوس ہونے ہی والا تھا کہ دو ہاتھوں نے مجھے سنبھال لیا۔
"کون ہو تم۔۔۔ ۔؟ "میں نے ڈرتے ہوئے سوال کیا۔
"میں۔۔۔ ۔میں۔۔۔ مجھے نہیں پہچانتے تم؟ کیا زمانہ آگیا ہے میرے خدا ، تم بھی اتنی جلد احسان فراموش بن جاؤ گے ، مجھے قطعی اس کا احساس نہ تھا، میں بچپن سے تمہارے ساتھ رہا ہوں ۔ ہر نازک موڑ پر تمہارے کام آیا ہوں ۔ جہاں جہاں تمہیں مدد کی ضرورت ہوئی میں نے اپنا فرض نبھایا ہے اور آج۔۔۔ آج جب کہ مجھے تمہارے تعاون کی ضرورت لاحق ہوئی ہے ، تم نے یکلخت مجھے پہچاننے سے انکار کر دیا ہے۔ کیا یہی تمہاری دوستی ہے؟ اپنے لنگوٹیے یار کے لئے کیا یہی تمہار ا حسنِ سلوک ہے؟"
میں حد درجہ شرمندہ ہوکر اس چہرے کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہوں اور اب اس کے چہرے سے اندھیرا کچھ کچھ چھٹنے لگا ہے۔ ارے۔۔۔ ۔یہ تو میرا بچپن کا جگری دوست ہے ، مگر اس کے یہ الفاظ۔۔۔ یہ جملے۔۔۔؟
میں اس کی آنکھوں میں اپنی مخصوص شئے کو تلاش کرنا چاہتا ہوں مگر وہاں اس کی پرچھائیاں بھی نہیں۔۔۔ وہاں تو مجھے صرف 'ضرورت' اور 'غرض' نظر آ رہی ہے۔ دفعتاً میرے دوست کا چہرہ آہستہ آہستہ تبدیل ہونے لگا ہے۔ میں اچھل پڑتا ہوں۔ مجھے ایک دفعہ پھر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور میں نے دوبارہ دوڑ لگا دی۔ پشت سے آواز کا سلسلہ برابر جاری ہے ۔۔۔۔۔
"سنو۔۔۔ ذرا سنو تو۔۔۔ میں ان دنوں سخت پریشانیوں میں گرفتار ہوں ، میرے بزنس کا دیوالیہ نکل گیا، قرض خواہ الگ تنگ کر رہے ہیں، تمہاری مالی اعانت کے بھروسہ پر ہی اب زندہ ہوں میں، تمہیں میری دوستی کا واسطہ۔۔۔ "


مگر میں وحشت زدہ سا ہو کر دوڑتا چلا جا رہا ہوں۔ میرے چاروں طرف اندھیرا ابھی تک طاری ہے اور راستہ طویل۔ میں دم لینے کے لئے ذرا دیر کو رک جاتا ہوں۔ میری سانس تیز تیز چل رہی ہے ۔ اس حالت میں اچانک مجھے اپنے شانے پر ایک نرم و نازک سے لمس کا احساس ہوتا ہے اور میرے کانوں میں میٹھی اور سریلی سر گوشی گونجنے لگی ہے۔۔۔
" اس طرح کہاں دوڑے چلے جارہے ہو جانم؟ اب کون سی فکر تمہیں کھائے جا رہی ہے؟ میرا بھی تو کچھ خیال کرو، اب میں اپنے ابو سے زیادہ بہانے نہیں بنا سکتی۔ خدا کے فضل سے تم اپنے شاندار بزنس کی شروعات کر چکے ہو، پھر دیر کس بات کی؟ میں نے صرف تمہاری خاطر اپنے لئے آئے ہوئے بے شمار رشتے ٹھکرا دئیے ہیں۔۔۔ اب یہ تمہارا فرض بنتا ہے کہ جلد سے جلد میرے گھر اپنا رشتہ بھیجو۔ آخر کہاں تک انتظار کروں تمہارا۔۔۔۔۔۔؟"
میں چونک پڑتا ہوں، اس نسوانی لہجے میں تو چاہت بھرا شکوہ ہے، لگاؤ والی شکایت ہے ، میں اسے پہچاننے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہاں، یہ میری محبوبہ ہے! میں نے زندگی میں پہلی اور آخری مرتبہ صرف اسی معصوم اور پر خلوص دوشیزہ سے پاکیزگی سے بھرپور عشق کیا ہے ۔ مگر دوسروں کی طرح اس کے ان جملوں نے بھی مجھے الجھن میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس کے باوجود میں نے اس کی آنکھوں میں اپنی امید بھری آنکھیں ڈال دی ہیں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ میں اپنی مخصوص شئے اس کی آنکھوں میں ضرور جاؤں گا۔
مگر مجھے ایک دھکا سا لگتا ہے۔ نہیں! ان آنکھوں میں بھی اس شئے کا وجود نہیں اور اب اس نیلی آنکھوں والی کا چہرہ بھی دم بدم بدلتا جا رہا ہے ۔اس کا چہرہ اس بنک کی لیڈی کیشئر کے چہرے میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں سے میں اپنی رقم نکالا کرتا تھا اور وہ کیشئر چیک پیش کرنے پر ہی مجھے اپنی جمع شدہ رقم ادا کرتی تھی۔ تو کیا یہاں بھی وہی معاملہ تھا؟ اس ہاتھ دے اُاس ہاتھ لے؟ میں گھبرا کر دوڑ پڑتا ہوں۔ پیچھے سے نسوانی آواز برابر چلا رہی ہے:
"نہیں۔ مجھے اس موڑ پر اکیلا نہ چھوڑ جانا۔ میں نے تو تمہاری خاطر کئی قربانیاں دی ہیں۔۔۔۔۔ پلیز، یوں بےدرد نہ بنو۔۔۔ "


ایک بار پھر میں اس طویل اور سنسان راہ پر دوڑا چلا جا رہا ہوں ، تھکن کا احساس مجھ پر بہت حد تک غالب آ چکا ہے ۔ میں رک کر ذرا دم لینا چاہتاہوں لیکن ڈرتا ہوں کہ پھر کسی غرض مند چہرے سے بھینٹ نہ ہو جائے، دوڑتے دوڑتے اچانک سامنے سے آتے ایک شخص سے ٹکرا کر میں لڑکھڑا جاتا ہوں۔
"اندھے ہو کیا؟ " میں جھنجھلا کر بول پڑتا ہوں۔
"معافی دے دو بھیا۔۔۔"
"یہ آواز۔۔۔۔ یہ آواز۔۔۔ "میں سوچنے لگتا ہوں۔
"یہ آواز تو مانوس سی لگتی ہے ۔" اب میں ذرا قریب سے اس کا مشاہدہ کرنے لگتا ہوں ۔ ہائیں، یہ تو میرا ماں جایا ہے۔ میرا چھوٹا بھائی۔ اور پھر اس مخصوص چیز کی یاد آتے ہی میں اس کے چہرے پر اپنی آنکھیوں گاڑ دیتا ہوں ، وہ خود کچھ نہیں بول رہا، مگر اس کی آنکھیں بہت کچھ بول رہی ہیں۔
"میں نے ہمیشہ سے تمہاری بھلائی چاہی ہے، بھیا۔ رات کے اندھیرے میں تمہارے شاندار مستقبل کی دعائیں مانگی ہیں ۔ تمہارے تعلیمی کیرئیر کے دوران میں نے ہر طرح سے تمہاری مدد کی ہے ۔ سودا سلف لانے کی تمام ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ۔ تم پر گھریلو پریشانیوں کی جھلک تک نہ پڑنے دی کیونکہ مجھے تمہاری تعلیم کا خیال تھا۔ اور اب ، اب جب کہ تم قابل ہو چکے ہو مجھے تمہاری مدد کی ضرورت آ پڑی ہے ، ہاں بھیا، میں اپنا مستقبل سنوارنے کی خاطر مڈل ایسٹ جانا چاہتا ہوں۔ میرے پاس لیاقت ہے ، ہنر ہے، مناسب تعلیم ہے۔ مجھے دوبئی کا ویزا دلا دو بھیا۔۔۔ "
میں بوکھلا جاتا ہوں ، میری امیدوں کا محل یہاں بھی مسمار ہو چکا ہے۔ چونکہ میرے چھوٹے بھائی کے چہرے پر بھی اس دکاندار کی شبیہ ابھر آئی ہے جو ایک ہاتھ سے کچھ دیتا ہے تو دوسرے ہاتھ سے کچھ لینے کی امید نہیں بلکہ یقین رکھتا ہے۔


میں اس کی آنکھوں کو نظر انداز کر کے تھکے تھکے انداز میں دوبارہ اپنے راستے پر چل پڑتا ہوں ۔ اب میں نے ایک طویل مسافت طے کر لی ہے۔ راستے میں مجھے کئی چہرے ملے ۔ وہ سبھی میرے احباب اور رشتہ دار تھے ۔ مگر افسوس کہ ان تمام کی آنکھوں میں بھی میں اس شئے کو نہ پا سکا جس کی مجھے تلاش تھی، ہے اور رہے گی بھی!
سبھی لوگ، اپنے چہرے پر کوئی نہ کوئی خول چڑھائے ملے۔ میں ضرور دھوکہ کھا جاتا اگر ان کی آنکھیں سچ نہ بول دیتیں۔ آنکھوں کو پردہ میں چھپایا نہیں جا سکتا۔ وہ تو وہی کہتی ہیں جو باطن میں چھپا ہوتا ہے اور جس طرح آنکھیں انسان کے ظاہر کی وفادار نہیں ہوتیں اسی طرح اس وسیع و عریض دنیا میں کوئی کسی کا مخلص نہیں ہوتا، نہ کوئی کسی کا وفادار ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی کسی کا رشتہ دار۔ یہاں سبھی غرض مند ہوتے ہیں، سب ایک دوسرے سے سودا کرتے ہیں۔ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔


اس سنسان اور تاریک راہ پر میں اب بھی اپنے قدم بڑھائے چلا جا رہا ہوں ۔ راستے میں کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں مگر مجھے لگتا ہے جب تک اسے ڈھونڈ نہ لونگا تب تک مجھے قرار نہ آئے گا، تب تک میرے من پر بے چینی اور الجھن کے بادل چھائے رہیں گے۔
"اجی ، سنو تو۔۔۔" اندھیرے میں کہیں سے مجھے مخاطب کیا گیا ہے۔
"آئندہ ماہ میری خالہ زاد بہن کی شادی ہے ، اس دفعہ میں زری کے کام والی ساڑی ضرور لوں گی ۔ پچھلی بار ماموں زاد بہن کی شادی میں تو تم نے مجھے ٹال دیا تھا، مگر اس مرتبہ تمہیں ضرور میری خواہش پوری کرنی ہوگی۔ آخر کب تک تم مجھے بہلاتے رہوگے؟ میں نے تو تم سے شادی کرنے کی خاطر سارے میکے کی مخالفت مول لی تھی۔ پورے تین سال کئی اچھے خاصے رشتوں کو ٹھکرایا۔ ایک ادھر تم ہو کہ ایک معمولی سی ساڑی مجھے خرید کر نہیں دے سکتے۔ دوسری طرف ہر ماہ خاصی بڑی رقم اپنے والدین کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہو ۔ اپنے بھائی کو دوبئی بھجوانے کا تمام بندوبست خود کرتے ہو، خودغرض دوستوں کی اب تب جب تب مدد کرتے رہتے ہو اور بہن کی شادی کا سارا خرچہ اٹھانا بھی اپنا فرض سمجھ لیتے ہو ۔ مگر میرے لیے تمہاری چاہت بس یہی کنجوسی ہے ؟"
اپنائیت سے کہے گئے ان شکوہ بھرے الفاظ میں میری بیوی کے طنز کی جھلک خاصی نمایاں ہے ، میں خاموشی کے ساتھ اپنی بیوی کی آنکھوں میں اس شئے کا سراغ لگانا چاہتا ہوں جس کی ایک جھلک میں نے شادی کے فوری بعد چند دنوں تک اس کی آنکھوں میں دریافت کی تھی مگر اب۔۔۔ اب وہ شئے تو کیا اس کی جھلک تک مفقود ہے ۔ اور میری بیوی کا چہرہ۔۔۔ وہ بھی اب آہستہ آہستہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے ۔
بیوی کے اس طنز کے ساتھ مجھے اپنی ماں کے اس وقت کے چہرے کی بھی یاد آئی ہے جس سے میں ایک بار اسی سنسان راہ کی تاریکی میں ٹکرا چکا تھا ۔ مجھے پورا پورا یقین تھا کہ میں ماں کی آنکھوں میں اس مخصوص مطلوبہ شئے کو ضرور پالوں گا۔
"میں نے نو ماہ تک تمہاری تخلیق کا بوجھ برداشت کیا۔ دو سال تک اپنا دودھ پلا کر تمہاری پرورش کی اور پھر کئی سال تمہیں انسان بنانے کے لیے دکھ درد جھیلے۔ تو اس کا صلہ تم یہی دو گے کہ اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرلو؟ کیا تمہاری زندگی کا ایک فیصلہ کرنے کا اختیار مجھے نہیں؟ کیا اسی لئے میں نے تمہاری پرورش کی تھی کہ جوان ہونے پر اپنی شریک حیات خود منتخب کر بیٹھو؟ تمہارا اعلیٰ تعلیم یافتہ خالہ زاد بھائی تمہاری اکلوتی بہن سے شادی کرنے کو تیار ہے بشرطیکہ تم اس کی نیک سیرت اور قبول سیرت بہن سے شادی کرلو ۔ اس پیشکش کو قبول کر لینے کے میرے مشورے کو کیا تم میری اتنی ساری قربانیوں کی خاطر نہیں مان سکتے، جس میں تمہاری بہن کی بھلائی بھی شامل ہے ۔۔۔؟"
گویا ماں کے نزدیک میں شطرنج کا ایک معمولی پیادہ ٹھہرا جسے مخالف کھلاڑی کے ایک مہرہ کو قبضہ میں کرنے کے لئے قربانی کا بکرا بنا دیا جائے؟ کیا میرے جذبات نہیں؟ کیا میری امنگیں نہیں؟ کیا میری اپنی کوئی ذاتی شخصیت نہیں ہے؟ میں ماں کی نظروں میں ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے ساتھ ساتھ اس مخصوص شئے کو بھی تلاش کرنا چاہتا ہوں جس کے لئے میں اندھیری راہوں میں مسلسل سفر کرتا رہا ہوں۔ مگر مجھے بے انتہا حیرت اور شدید مایوسی کا تیز ترین جھٹکا لگتا ہے ، ماں کی آنکھیں بھی تو میری مطلوبہ شئے سے یکسر عاری ہیں۔ میں بڑی مشکل سے یہ صدمہ برداشت کر پاتا ہوں۔
بہن کی آنکھوں میں بھی میں نے وہ شئے نہیں پائی چونکہ اس کی آنکھوں میں پوشیدہ سوال کے جواب کے طور پر مجھے اس کی تمام نوازشوں ، مہربانیوں کا صلہ اس کے جہیز کی شکل میں چکا کر جو دینا پڑا۔


اور اب ۔۔۔
اب میں اس سنسان طویل اور تاریک راستے پر دوڑتے دوڑتے کافی تھک گیا ہوں ، میرے اعصاب مضمحل ہو چکے ہیں۔ حالانکہ ابھی میرے سامنے ایک طویل زندگی کھڑی ہے ، مگر لگتا ہے اس کی تلاش اب فضول ہوگی۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ اس دنیا میں نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہوگی مگر اس مشینی اور ادلے بدلے کی دنیا سے اب تو شاید اس کا وجود ہی ختم ہو چکا ہے ۔
اس لئے عرصہ ہوا میں نے چہرے دیکھنا چھوڑ دیا ہے ، حوصلہ ہی نہیں رہا۔ ہمیشہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں اس کے بجائے کوئی دوسرا نہ نکل آئے ۔
اب میں چاہتا ہوں یہ طویل سنسان راستہ جلد سے جلد ختم ہو جائے تاکہ میں اس کے دوسرے سرے پر پہنچ جاؤں ، جہاں روشنی میرا انتظار کر رہی ہے ، جہاں میں اس اتھاہ تاریکی سے نجات پا جاؤں گا۔ اس لئے میں نے اپنی رفتار میں کافی تیزی پیدا کرلی ہے ، میں دوڑتا چلا جارہا ہوں، تیز اور تیز تر ، تیز ترین رفتار سے۔۔۔


اچانک اپنی پوری کوشش کے باوجود میری رفتار میں فرق آ گیا ہے ، میں رکنا نہ چاہتے ہوئے بھی رکنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ کیونکہ۔۔۔ ایک طویل عرصے بعد گہرے اندھیرے سے ایک بار پھر کسی نے مجھے آواز دی ہے۔ میں نے اس آواز کی طرف کان لگا دئے ہیں۔۔۔ وہ مدھم ہے، بہت خفیف سی۔
"پا۔۔۔ ۔۔۔پا۔۔۔ پاپا۔۔۔۔۔"
میں آواز کی سمت بڑھ جاتا ہوں۔
"پاپا۔۔۔ پاپا، آپ مجھے چھوڑکر کہاں جا رہے ہیں؟ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا پاپا۔۔۔۔"
میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس ننھے سے لڑکے کو اپنی طرف کھینچتا ہوں۔ ارے، یہ تو میرا بیٹا ہے۔
"ضرور بیٹے، ضرور۔۔۔ " یہ کہہ کر میں اسے گود میں اٹھا لینا چاہتا ہوں کہ اپنی پرانی عادت کے سبب بےاختیار میری بے قرار نظریں اس کی آنکھوں سے جا ٹکرائی ہیں اور میں اچھل پڑتا ہوں۔۔۔ حیرت و استعجاب سے نہیں بلکہ مسرت و انبساط سے۔ کیوں کہ۔۔۔
کیونکہ میں نے ایک طویل عرصے کی تلاش کے بعد بالآخر اپنے بیٹے کی آنکھوں میں جگمگاتی محبت کی خالص ، بے غرض اور بے ریا چمک کو پا لیا ہے لیکن۔۔۔۔


میں اپنی آنکھوں کو کیا نام دوں جن کا عکس میں اپنے بیٹے کی آنکھوں میں دیکھ رہا ہوں اور جس میں اپنی چاہت ، عنایت اور تربیت کا اجر اپنی اولاد سے وصول کرنے کی تمنا انگڑائیاں لے رہی ہے!!
***

نوٹ:
فیس بک گروپ "[اردو افسانہ - URDU AFSANA]" میں پیش کیے گئے اس افسانہ پر قارئین کے کچھ دلچسپ، مفید اور معلوماتی تبصرے بھی ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔

Anjum Rana
کیا عمدہ افسانہ ہے
انتظامیہ اور مصنف ،،مکرم ناز،، صاحب کو ڈھیروں داد

Ruby Fatima
بہت عمدہ افسانہ ہے ۰۰۰انسان جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے اسے دنیاوی سمجھ آجاتی ہے اور وہ کہیں نہ کہیں اپنے ہی رشتوں میں خودغرضی کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے ایک بچپن ہی ایسا ہے جو ہر غرض اور ریاکاری سے پاک ہے۰۰اس سچائی کی تلاش میں جس طرح افسانے کا کردار پریشان ہے اس کی ذہنی حالت کو بخوبی سے پیش کیا گیا ہے۰

فیصل قریشی
عمر کا کتنا بڑا فیصلہ۔
کے سواء سب بہترین ‛
کمال کی روانی افسانہ طویل تھا مگر ایک ہی نشست میں ختم کیا مصنف کے لیے نیک خواہشات۔

Mukarram Niyaz
فاصلہ کی جگہ "فیصلہ" کمپوزر کی اور میری طرف سے پروف ریڈنگ کی بھی غلطی ہے، معذرت خواہ ہوں.
افسانے کی پسندیدگی کا بہت شکریہ

DrReyaz Tawheedi Kashmir
افسانے کا پلاٹ اچھا ہے.کہانی کی بنت بھی ٹھیک ہے.لیکن کہانی میں صرف انسانی کردار کے یک رخی پہلو کو نشانہ بنایا گیا ہے بلکہ انسان کے خودغرضانہ پہلو پر ہی فوکس کیا گیا ہے.اگرچہ مادیت پرست سوچ کے حامل افراد کی مطلبی سوچ کی اچھی عکاسی کی گئی ہے لیکن ماں باپ کی توقعات کو اسی ترازو میں تولنا تو منفی جذبات کو بھڑکانے کے مترادف نظر آرہا ہے..بہرحال مجموعی طور پر افسانہ ٹھیک ہی نظر آرہا ہے...مبارک باد

Alyas Gondal
افسانہ پڑھتے ہوئے کہیں بیچ میں مجھے یہ خیال آیا کہ راوی جس غیر مشروط (unconditional )محبت اور تعلق کی تلاش میں ہے وہ اسے اپنی ماں کی آنکھوں میں ضرور مل جائے گی، لیکن جب افسانہ وہاں تک پہنچا تو مایوسی ہوئی۔ اس حوالے سے یہ ایک لا متناہی کھوج ہے کیونکہ افسانے کے اختتام پر راوی خود ایک ویسا ہی کردار بن چُکا ہے جیسے اسے مِلتے رہے۔ اور پھر وُہی رونا دھونا جو اب کی بار راوی کے بیٹے کے حصے میں آئے گا۔۔۔
لکھا بہت خوبصورت اور رواں اسلوب۔
نیک تمنائیں۔

Muhammad Abbas
اچھا افسانہ ہے اور عمدہ پیرایہ اپنایا گیا ہے۔ بےغرض محبت کی تلاش جدید عہد کا ایک عام موضوع ہے اور عام موضوع پہ اچھا افسانہ نکال لینا قابل تعریف ہے۔ افسانہ جو دکھانا چاہتا تھا پوری طرح دکھا دیتا ہے اور کہیں بھی کمزور نہیں پڑتا۔ معاشرہ لین دین کے اصولوں پر ہی چلتا ہے۔ جو لوگ اس حقیقت کو جوانی میں تسلیم نہیں کرتے، وہ لوگ جب خود د وسروں کے محتاج ھوتے ہیں، تب ان پر اس معاشرتی اصول کی حقیقت کھلتی پے۔

زینت جبیں
افسانہ مجھے پسند آیا اور میں محمد عباس صاحب کی اس بات سے تائید کرتی ہوں کہ عام موضوع سے اچھا افسانہ نکال لینا ہی اصل ہنر مندی یے ۔

Shabnum Ali Khan
بہت ہی خوبصورت اور عمدہ افسانہ ہے۔ زندگی کے تلخ حقائق پیش کرنے کےساتھ ساتھ سچی منظر کشی کی گئی ہے ہے۔۔۔
زندگی کے تلخ تجربات پر مبنی ہے جس میں کدار کی کشمکش کو پیش کیا گیا ہے ۔بہت ہی عمدہ پلاٹ ہےاور اسلوب میں دلکش روانی ہے۔۔ ۔۔مجموعی طور پر ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ افسانہ جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے جس میں فرد اپنی ہی تلاش میں ایک عجیب کشمکش کے ساتھ مبتلا ہے۔۔۔۔
افسانہ نگار کو بہت مبارکباد

Gul Arbab
اچھی تحریر ہے

Sadaf Iqbal
مذکورہ بالا افسانے میں غضب کی برجستگی ہے ۔ افسانہ نگار کی فکری گہرائ ان کا مشاہدہ اور الفاظ پر گرفت افسانے سے مترشح ہے ۔ کردار اور تکنیک کی نیرنگی بھی ہمیں متوجہ کرتی ہے ۔اس افسانے میں گہری فکر کے ساتھ انسانی ہمدردی اور انسان دوستی کی بے پناہ جذبے کا احساس ملتا ہے ۔ افسانہ ہر اعتبار سے اچھے افسانوں میں شمار کیا جا سکتا ہے ۔

Javed Nadeem
افسانے کے خوبصورت بیانئے کی داد نہ دینا کنجوسی ہوگی ۔ افسانے کا موضوع روایتی ہے اور کوئ نیا پن نہیں ہے افسانے میں ۔ مگر بیانیہ اس قدر رواں ہے کہ قاری افسانہ پڑھ کر ہی دم لیتا ہے ۔ اس ایونٹ میں کئ بہترین افسانے پڑھنے کو ملے ۔ یہ افسانہ محدود کینوس پر تمام فنی خوبیوں کے ساتھ پینٹ کیا گیا ہے ۔ بس موضوع کا روایتی پن کھٹکتا ہے ۔

Kauser Baig
بہت خوبصورت افسانہ رواں دواں، تجسس ،تلاش سے بھرا اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے کا نظام پر دنیا قائم ہے جہاں سے کہانی شروع ہوئی تھی پھر وہی پر ختم ہوئی ۔
بہت عمدہ لکھا واہ

Hasan Imam
مکرم نیاز صاحب کے افسانے کے ابتدائی جملے اتنی ہنرمندی اور دیدہ وری سے تخلیق کیئے گئے ہیں کہ ان کو پڑھنے کے فورا بعد ذہن میں تجسس کی فضا پیدا ہو کر افسانے کو مکمل کرنے کے لیئے بیقرار کر دیتی ہے اور یہی ایک لکھاری کی کامیابی ہے ۔ ان کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہے ، انہوں نے بیانیہ کو فوقیت دی ہے ۔
اگرچہ اس افسانے میں تاریک پہلو کو بیان کیا گیا ہے جس سے یاسیت اور قنوطیت کا احساس ہوتا ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے ۔ آج کے معاشرے میں اخلاقی قدریں جس طرح پامال ہو رہی ہیں اور انسانی اقدار جس انحطاط کا شکار ہے اس کی عکاسی بڑی خوبصورتی سے کی گئی ہے ۔ اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو مجھے وہ معاشرے کے نباض بھی لگتے ہیں اور عکاس بھی ۔
ڈھیروں داد مصنف کے لیئے

Mukarram Niyaz
اتنے بھرپور تبصرے کے لیے بہت بہت شکریہ محترم حسن امام صاحب

Khurshid Talab
مجھے جب بھی فرصت ہوتی ہے افسانہ فورم پہ آ جاتا ہوں ۔ افسانہ فورم فیس بک کا واحد فورم ہے جہاں معیاری افسانوں کو ترجیح دی جاتی ہے اس کے لئے ابرار مجیب صاحب صدف اقبال اور جمیل حیات داد کے مستحق ہیں
مکرم نیاز صاحب کو پہلی بار پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے اور ان کے افسانے نے مجھے چونکا دیا ہے ۔ اسلوب سے لے کر ٹریٹمنٹ تک داد کا مستحق ہے ۔ مکرم نیاز صاحب کے یہاں تازہ کاری کے علاوہ فنی پختگی بھی ہے ۔ موضوع کے ساتھ انہوں نے پورا پورا انصاف کیا ہے
میری دعائیں مکرم صاحب کے ساتھ ہیں یونہی لکھتے رہیں اور ادب کے آسماں کا روشن ستارہ بنیں ۔ آمین

Parvez Saleem
بہت ہی خوب صورت

Rifat Mehdi
بہت خوب انتہائی حساس
ودلگداز تحریر

Shazli Khan
شاندار افسانہ ہے ، افسانے کے پلاٹ کی بنت بھی عمدہ ہے ، طرز تحریر و اسلوب کی روانی قابل تعریف ہے ، عہد حاضر کے بے شمار موضوعات میں سے ایک عام سا موضوع ہے پھر بھی مصنف نے اس موضوع کی پیش کش کمال فنکاری سے ہے اور موضوع کا حق ادا کر دیا ہے ، افسانہ فکر کو مہمیز کرنے کے ساتھ ساتھ انسان دوستی اور ہمدردی جیسے آفاقی جذبے کو نمایاں کرتا ہے ۔۔ افسانہ نگار کو ڈھیر ساری مبارکباد ۔

Muazzam Shah
افسانہ اچھا ہے
ایک عام سے ۔موضوع کو ٹریٹمنٹ خاص بنا گیا
بہت سی داد

Mukarram Saroya
بہت عمدہ افسانہ،مصنف کو اپنے بیٹے کی آنکھ میں وہ چیز مل گئی جس کی اسے تلاش تھی ۔غرض کے دھارے میں بندھے انسانوں کے لئے نئی نسل امید کا استعارہ ہوتی ہے جو انسانوں کو اندھیرے میں روشنی کی کرن دکھاتی ھے کہ رات کی ظلمت کتنی بھی کیوں نہ ہو ننھا دیا اسکو توڑ دیتا ہے یہ ہی امید ہے محبت ہے جو اعتبار پر مجبور کرتی ہے ۔

Kamran Ghani Saba
بہت ہی عمدہ افسانہ ہے. ایک عام سے موضوع کو مکرم نیاز صاحب نے بہت ہی خوبصورتی سے فکشن کا روپ عطا کیا ہے. آج کے دور میں بے غرض محبت کی تلاش کا انجام اس افسانہ میں پیش کیا گیا ہے
مجھے حیرت ہے کہ مکرم نیاز صاحب نے فکشن کی دنیا سے کنارہ کشی کیوں اختیار کر رکھی ہے؟

Shams Wadood
بیٹے کی آنکھ میں باپنکو جو امید نظر آتی ہے...اور اب باپ بھی اپنی "عنایت اور تربیت کا اجر اپنی اولاد سے وصول کرنے کی تمنا " رکھے ہوئے ہے...یہاں بھی لے اور دے والا ہی معاملہ ہے....؟

Ali Nisar
افسانہ فورم اور اس کے تمام اراکین کو میں میرے دوست سید مکرم نیاز صاحب کے مختصر سے تعارف کے ساتھ متعارف کروانا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے تو میں مکرم صاحب کو افسانہ فورم پر شرکت کے لئے دلی مبارکباد دیتا ہوں اور خیر مقدم کرتا ہوں۔ آں جناب مکرم نیاز صاحب عرصہ دراز ہوا افسانے لکھنے سے پرہیز کر رہے ہیں اور یہ افسانہ انہوں نے آج سے کوئئ بیس برس پہلے لکھاتھا۔ موصوف حیدرآباد کے نامور آرکیٹیکٹ اور معروف شاعر رؤف خلش صاحب کے صاحبزادے ہیں اور پیشے کے لحاظ سے سیول انجینیر ہیں۔Taemeer Web Development تعمیر ویب ڈیولپمنٹ کے(executive director) ہیں۔ گزشتہ دو دہایئوں سے مملکت سعودی عرب میں اپنی خدمات انجام دینے کے بعد اب واپس اپنے وطن حیدرآباد میں محکمہ عمارات و شوارع میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ادب کو جدید تکنالوجی سے جوڑنے میں کافی تگ و دو کرتے رہے ہیں.حیدرآباد کے ایک بہت ہی علمی و ادبی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ اب میں آتا ہوں ان کے لکھے افسانے کی طرف۔ ( نہ جانے اس کی خاطر میں نے عمر کا کتنا بڑا فیصلہ طے کر لیا ہے (عمر کا کتنا بڑا فاٖصلہ) ہونا چاہیے۔ کیونکہ مجھے یقین ہے کہ میں اپنی مخصوص شئے اس کی آنکھوں میں ضرور جاؤں گا۔(اس کی آنکھوں میں ضرور پا جاوں گا ہونا چاہیئے۔) میں اس کے چہرے پر اپنی آنکھیوں گاڑ دیتا ہوں ، (اپنی آنکھیں گاڑ دیتا ہوں) ہونا چاہیئے۔ املا کی ان چند اغلاط کی نشاندہی کے بعد میں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ افسانہ نگاری کا فن محترم کی گھٹی میں پڑا ہے اور زیرنظر افسانہ اس کی زندہ مثال ہے۔ بہترین اسلوب، روان بیانیہ، زبان و بیان کی خوبی سے مملو موجودہ عہد کا نباض، انسانی جبلتوں اور کمزوریوں کو درشاتا ہوا، خود غرض معاشرے میں بے لوث محبت کی تلاش میں نکلا یہ شخص کہاں تک کامیاب ہوا ہے اس کا اندازہ اس افسانے پر کئے گئے بہترین تبصروں سے عیاں ہے۔

Mukarram Niyaz
بہت بہت شکریہ علی نثار بھائی اس قدر وقیع تبصرہ کے لیے آپ کا شکرگزار ہوں. کسی سبب آپ کا یہ کمنٹ کافی تاخیر سے نظر میں آیا، معذرت خواہ ہوں.
میری حیثیت اتنی نہیں جتنی کہ آپ نے بڑھا کر بیان کی ہے. عزت افزائی کے لیے ممنون ہوں. فی الحال یہاں کے مسائل سے فرصت ابھی تک نصیب نہیں ہوئی، اسلیے ادبی دنیا میں غیرفعالیت جاری ہے.

Mohammad Ehsanul Islam
ایک ایسے کردار کا قصہ جو دوسروں سے بے لوث محبت اور بے پایاں خلوص کا ہمیشہ سے خواہاں ہے مگر خود اس بات سے ناواقف کہ محبت اور خلوص قربانی اور ایثار مانگتے ہیں ۔ ایک خود غرض انسان ۔۔۔۔ ضعیف باپ کی مدد ، بہن کی شادی اور بھائ کے مستقبل سے لاپرواہ اور گریزاں ۔ ڈیوٹی یاد دلائے جانے پر اسے اسمیں صرف دوسروں کی خودغرضی اور سودے بازی ہی نظر آتی ہے ۔ ایسے انگنت کردار ہمارے آس پاس نظر آتے ہیں بلکہ خود ہمارے اندر بھی زندہ ہیں ۔ مختلف کرداروں کی یکے بعد دیگرے آمد اور مکالمے افسانے کی طوالت میں اضافہ کا سبب بنے ہیں ۔ شاید ایسا کچھ ضروری بھی رہا ہو ۔ بہرحال بیانیہ کی روانی نے طوالت سے پیدا شدہ اکتاہٹ کو کم کیا ہے ۔ مصنف کیلئے داد و ستائش ۔

Nasir Siddiqi
بلکل متاثر کر نہ سکا۔لب لباب روایتی ہے
مجھے افسوس ہے کی میرے افسانے بہت سارے افسانوں سے اچھے ہونے کے باوجود قابل اشاعت نہیں سمجھے گئیے۔اس ایونٹ کے لئے ۔لیکن کوئی بات نہیں ۔

Moazzam Raaz
بہت خوب!
"اردو افسانہ" کی عمدہ پیشکشی . . .
مکرم نیاز کا افسانہ "تیری تلاش میں" مکرر لفظ لفظ پڑھنے کا اتفاق ہوا
افسانے کے کینوس، برتے گئے اسلوب، انداز بیان کی روانی (. . . اور کمپوزنگ کی چند اک معمولی غلطیوں) کے علاوہ معاشرے میں جاری گذشتہ ربع صدی سے زائد سلگتے، اک اہم موضوع کا مصنف نے جس فنکارانہ انداز میں احاطہ کیا ہے اس سے قطع نظر اختتامیہ کے حوالے سے اگر ایک شعر میں اپنے تاثرات کا اظہار کروں تو شعر کچھ یوں ہوگا:
وارثوں کا یہی مقدر ہے !
اپنے پرکھوں کا بوجھ ڈھو لینا

Ali Nisar
معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہوں گا محترم معظم راز کہ اب وہ دور نہیں رہا اور موجودہ دور میں وارثوں کا بوجھ ڈھونے کا چلن رواج بدل چکا ہے۔.

Moazzam Raaz
محترم نثار بھائی!
پہلے دیکھا نہیں جاتا تھا پرندہ اس میں
اب یہ حالت ہے کہ پنجرہ نہیں دیکھا جاتا
ممکن ہے آپ کی بات درست ہو لیکن ضروری نہیں کہ موجودہ دور کا ہر شخص اپنے عہد میں جاری چلن/ رواج کا اسیر ہو. . .
بڑی تعداد اپنے پرکھوں کے تئیں بقول شاعر یوں بھی ہوتی ہے:
نام لکھ لکھ کے ہتھیلی پہ دکھاتا ہے مجھے
ہاتھ میں اس کے یہ کانٹا نہیں دیکھا جاتا !!

Ali Nisar
کسی حد تک أپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں اور اسی کے ساتھ یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ أپ کی اور ہماری جنریشن کو میں سینڈوچ جنریشن کہتا ہوں جنہیں اپنے وارثوں اور بزرگوں دونوں کا بوجھ اٹھانا پڑا ہے۔


***
سید مکرم نیاز
مدیر اعزازی ، "تعمیر نیوز" ، حیدرآباد۔
taemeer[@]gmail.com
syed mukarram niyaz
Syed Mukarram Niyaz
سید مکرم نیاز

Urdu short story 'Teri Talash meiN'. By: Syed Mukarram Niyaz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں