ہر ایک کی بلواسطہ یا بلاواسطہ ،بلا تفریق اور تمیزکے رہنمائی اور ترجمانی کرتا ہے۔ رسالے عوام کے جذبات و احساسات اور خیالات کی ترجمانی اور نمائندگی کرتے ہیں اور اسی بنا پر عوام کو رسائل وجرائد کے اندر پوشیدہ مواد کی پشت پناہی حا صل ہوتی ہے۔اس اعتبا ر سے ادبی جریدے قوم و فردکے معیار کو بڑھانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں ۔ رسائل میں درج مواد کی حیثیت اور وقعت کسی سند سے کم نہیں۔رسائل و جرائد کی عمر سینکڑوں سالوں پر بھی محیط ہوسکتی ہے اور ایک سال یا ایک دو مہینے بھی یا اسے بھی کم۔رسائل و جرائد میں ایک کثیر تعداد میں مختلف النوع کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں جو تنقید و تحقیق کے میدان سے تعلق رکھنے والے اہل علم حضرات اور محققین کے لئے راہ راست کا باعث بنتے ہیں۔ سینکڑوں قسم کے رسائل میں کسی خاص موضوع کوتلاش کرناآسان کام نہیں ۔ اس صورت میں صرف اشاریہ ہی ایک فرد کی صحیح رہنمائی اور رہبری کر سکتا ہے اور کئی دن ،مہینوں یا سالوں کی تحقیق و جستجو کے باوجود نہ ملنے والے مواد کی تلاش چند منٹو ں کی جا سکتی ہے۔ کس رسالے اور کس جگہ مواد دستیاب ہے بآسانی اس کا پتہ لگا یا جا سکتا ہے۔ ایک محقق اپنی تحقیق کو نقطہ آغاز سے انجام تک پہنچانے کے لیے کیسے کیسے دقیق مراحل سے گزرتا ہے،کس قدر عرق ریزی سے مواد مہیا کرتا ہے اور حوالہ جات کو تلاش کرنے نیز انہیں محفوظ کرنے کے لیے کتنی اور کیسی جاں توڑ محنت کرتا ہے کچھ اسی کو معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن ایک اشاریہ اور اشاریہ ساز محقق کی مذکورہ دشواریوں کو نہ صرف آسان کر دیتا ہے۔ بلکہ اشاروں اشاروں میں ایک ایسی حوالجاتی دنیا بسا دیتا ہے جو محقق کے خوابوں کو تعبیر سے آباد ہونے میں غیر معمولی تعاون عطا کرتی ہے۔ یہی رسائل و جرائد کتب خانہ کی زینت بنتے ہیں، کتب خانے کو روشن کرتے ہیں اور ان کو محفوظ رکھنے کی ضمانت بھی کتب خانہ یا لائبریری ہی دے سکتا ہے۔کچھ وقت بعد یہ رسالے جلد شکستہ ہو جاتے ہیں ان کا کاغذ ٹوٹنے وپھٹنے لگتا ہے اس صورتِ حال میں اشاریہ ہی اہم ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے وہ اس معنوں میں کہ اگر کسی کتب خانے میں دستیاب رسالہ بری یا بوسیدہ حالت میں ہیں یہاں تک کہ اس میں درج عبارت کو پڑھنا مُحال ہے تو اسی رسالے کے،اسی شمارے ،اسی مضمون یا اسی عبارت کو صرف اور صرف اشاریہ کی مدد سے ہی کسی دوسرے کتب خانے میں بآسانی اور بنا کسی پریشانی کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے لازمی بنتا ہے کہ یونیورسٹیاں اور دیگر تعلیمی ادارے اپنے یہاں کتب خانوں میں بھی موجود رسائل و جرائد کے اشاریے تیار کرنے کا اہتمام کریں۔ صرف ایک مضمون کوقلم بند کرنے سے اتنے اچھے موضوع پر خامہ فرسائی اس بات کی گواہی نہیں دیتی کہ اس کی حق شناسی ادا ہو گئی بلکہ یہ اس کے ساتھ حق تلفی ہو گی۔ ابھی تک ہندوپاک میں جن اردو رسائل کے اشاریے تیار کیے گئے ہیں ان سبھی پر اور ان سب کی خدمات کو ایک مضمون میں لکھنا مناسب تو نہیں ہے تاہم راقم ا لحروف کو جن دستیاب رسائل کے اشاریوں سے سابقہ پڑا ان کی تفصیل ذیل میں پیش کی جارہی ہیں۔
تہذیب الاخلاق کو سر سید احمد خان نے 1870ء میں جاری کیا تھا۔ اس رسالے کے جاری کرنے کا مقصد مسلمانوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ترقی تعلیم سے آگاہ کرنا تھابلا شبہ اس رسالے نے یہ مفید خدمت انجام دی ۔اس کے ساتھ اس نے مسلمانوں کے تہذیبی و تمدنی جلو ؤں کو پیش کرنے اور ان پر جو گرد اڑائی جا رہی تھی اسے صاف کرنے کی کوشش کی۔اردو زبان و ادب کی ترقی اور اس کے فروغ و اشاعت میں بھی اس کا نمایاں کردار رہا ہے۔
اس کا اشاریہ " مندرجات تہذیب ا لا خلاق"کے نام سے ڈاکٹر ضیا ء ا لدین انصاری نے مرتب کیا ، جو 1870ء کی اشاعتوں پر مشتمل ہے اس کی ترتیب عنوانات اور مصنفین کی الف بائی ترتیب پر ہے ، جا بہ جا نوٹ بھی فاضل مرتب نے لکھ کر اس سے استفادہ کو مزید آسان بنانے کی کوشش کی ہے، البتہ موضوعات کے لحاظ سے بھی اس کے مندرجات کی تفصیل ہونی چاہئے تھی ۔ اس سے گو ضخامت بڑھ جاتی ، لیکن استفادہ مزید آسان ہو جاتا۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے "رسالہ تہذیب ا لاخلاق کا توضیحی اشاریہ" کے نام سے آفتاب عالم نے 1991ء میں اس کا دوسرا اشاریہ 1870ء سے 1876ء تک ترییب دیا۔لیکن یہ سلسلہ یہی نہیں تھما بلکہ اس کے کچھ سال بعد ہی فرح تبسم نے"رسالہ تہذیب ا لاخلاق کا توضیحی اشاریہ" کے نام سے اس رسالے کا تیسرا اشاریہ1997ء میں 1879ء سے 1894 ء تک کے شماروں پر ترتیب دیا۔اوالذ کے بعد کے دونوں اشاریے غیر مطبوعہ حالت میں ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں سائنسی طریقوں اور اصولوں وضابطوں کے مطابق ترتیب دے کرشائع کر کے منظر عام پر لایا جائے۔تاکہ تحقیقی میدان سے وابستہ افراد مذکورہ اشا ریوں سے مستفید ہو جائیں۔
ماہنامہ" معارف" اعظم گڑھ اردو کا سب سے اہم اور معیاری علمی و تحقیقی رسالہ ہے ۔اِسے علامہ شبلی نعمانی کی خواہش کے مطابق سید سلیمان ندوی نے اپنی ہی ادارت میں دارالمصنفین،اعظم گڑھ سے جولائی1916ء/ رمضان1334ھ میں جاری کیا۔یہ ماہنامہ تب سے آج تک بڑی آب و تاب کے ساتھ مسلسل شائع ہو رہا ہے ۔ اس کی ایک طویل اور شان دار تاریخ ہے ۔ علم و فن کا شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جس پر معارف میں اظہار خیال نہ کیا گیا ہو ۔اس کی حیثیت علوم اسلامیہ کی ایک اردو انسائیکلوپیڈیاسے کم نہیں۔علامہ اقبال نے ایک خط میں لکھا تھاکہ " اس سے حرارت ایمانی میں تازگی پیدا ہوتی ہے" ۔ معارف کی ضرورت و افادیت کے پیش نظر اور اس کے محفوظ سرمایہ علم تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اس کااشاریہ ترتیب دیا گیا ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلی کوشش ڈاکٹر رضا بیدار نے کی ۔انھوں نے معارف کا 1916ء سے 1970 ء تک کا اشاریہ مرتب کر کے شائع کیا۔اس اشاریہ کی تقدیم و ترتیب ثانی شائستہ خان نے انجام دی۔ اس کی ترتیب موضوعاتی ہے۔ترتیب میں مندرجات کو 27 خانوں میں پھانٹ دیا گیا ہے اور ان کے عنوان دے دئیے گئے ہیں ان کی مزید ذیلی تقسیم بھی ہوئی ہے مگر یہ سرخیوں کے ساتھ نہیں ہے۔اشاریہ میں سب سے پہلے مقالہ کا عنوان ہے۔ پھر بریکیٹ میں مصنفین کا نام ، پھر رسالہ کی جلد اور شمارہ کا حوالہ۔ مقالہ کا عنوان اگر خود توضیحی نہیں ،تو نیچے ایک لکیر دے کر اس کے بارے میں مختصر سی وضاحت کر دی گئی ہے۔ مصنف کا نام نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یا تو وہ اداریہ ہے، یا مدیر ہی کا مقالہ۔ ماہ و سال اور صفحات کا اندراج نہیں کیا گیا ہے۔مذکورہ اشاریے میں اگر چہ سائنسی اصولوں کی مکمل طور پر پیروی نہیں کی کی گئی ہے لیکن اشاریہ ہر حالت میں محققین کو ٹھوکر کھانے سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
ماہنامہ معارف کا دوسرا اشاریہ محمد سہیل شفیق" تاریخ اسلام کراچی یونیورسٹی" نے مرتب کیا ۔ اس میں 1916ء سے 2005 ء تک کے مضامین کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ ترتیب میں جولائی 1916ء سے جون 2005ء تک کے مقالات کے عنوانات اور مقالہ نگاروں کے نام زمانی ترتیب کے مطابق جلد ، شمارہ اور ماہ وسال کی تعیین کے ساتھ اور پھر موضوعات کے لحاظ سے ان کا اندراج کیا گیا ہے۔اس کے بعد اشارےۂ مصنفین ہے۔یہ اشاریہ گذشتہ اشاریہ کے مقابلے زیادہ مبسوط ہے۔لیکن اس میں بھی جدید اصول اشاریہ سازی کے لحاظ سے کمیاں راہ پا گئی ہیں۔معارف کا تیسرا اشاریہ ڈاکٹر جمشید احمد ندوی نے مرتب کیا ہے جو معارف کے جو لائی 1916ء سے دسمبر 2011 ء تک کے سبھی شماروں کا احاطہ کرتے ہیں۔یہ جلد اول با اعتبار مضامین ہے اس کی ضخامت 723 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس اشاریہ کو مضامین ، مضمون نگار اور موضوعات کے عناوین کے تحت تقسیم کیا گیا ہے اور ہر عنوان کے لیے ایک جلد مختص کی گئی ہے۔ پہلے دونوں اشاریوں کی بہ نسبت اس اشاریہ کو سائنسی اصولوں کے مطابق ڈھالا گیا ہے۔مضمون ، مضمون نگار ، جلد ، شمارہ ، ماہ و سال اور صفحات سب چیزوں کا اندراج کیا گیا ہے۔
2016ء کا سال معارف کے قارئین کے لئے اس اعتبار سے بھی خوش آیند ہے کہ اسی سال اس کی ایک صدی(سنچری) یعنی سو سال پورے ہوجاتے ہیں۔ ان سو سالوں میں معارف میں کس کس نے لکھا؟کیا لکھا؟ کس جلد اور کس شمارے میں شائع ہوا؟ سنِ اشاعت یعنی ماہ و سال کیا تھا؟مضمون کی ضخامت کیا تھی؟ کن موضوعات پر لکھا گیا؟ غرض یہ ساری معلومات ہمیں ایک ہی جگہ "اشاریہ معارف" میں مل جاتی ہے۔تحقیق کو استحکام بخشنے اور ساتھ ساتھ دیرپا اور پائیدار بنانے میں یہ اشاریائی کتاب معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
رسالہ "نگار" کا اجراء اردو ادب کے ایک ممتاز ادیب ،افسانہ نگار، شاعر،نقاد، دانشور، صحافی، انشائیہ نگاراور محقق جناب نیاز فتحپوری نے 1922ء میں لکھؤ سے کیا۔نیاز فتحپوری کی زندگی کا سب سے بڑا اور اہم کارنامہ "نگار"کو ہی شمارکیاجاتا ہے۔جو مسلسل چوالیس(44)برسوں تک ہندو پاک کی سر زمین کو شاداب وسیراب کرتا رہا۔رسالہ نگار کی عمر ہندوستان میں کافی طویل رہی۔جب کہ پاکستان میں اس کی عمر صرف چار سال رہی۔نگار کا سفر 1922ء سے 1966ء تک محیط ہے۔ جس میں چالیس سال ہندوستان اور چار سال پاکستان میں اس کی اشاعت ہوتی رہی۔لیکن یہ بات ذہن نشین کرنی لازمی ہے کہ آزادی 1947ء تک دونوں ممالک کے لوگ نگا ر سے مستفید ہوتے رہیں۔ پاکستان میں نگار کی اشاعت کی وجہ یہ تھی کہ نیاز فتحپوری 1962ء میں پاکستان ہجرت کرگئے تھے۔ نگار نے 1962ء تک کل 36 خاص نمبر شائع کیے جن میں مومن نمبر،بہادرشاہ ظفر نمبر،غالب نمبر،اردو شاعری نمبر،مصحفی نمبر،نظیر نمبر،انتقاد نمبر،افسانہ نمبر،حسرت نمبر، داغ نمبر ،اقبال نمبر وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔نگار میں اردو ادب کی تقریباً ہر صنفِ ادب سے متعلق مضامین شائع ہوتے رہیں۔لیکن آج ادب کا ایک طالب علم جب کسی موضوع پرقلم اٹھا تا ہے کہ نگار کے اوراق پر اس کو ماضی کی تمام حکایتیں اور واقعات کی معلومات یکجا مل جاتی ہیں۔لیکن چالیس سال کی فائل یعنی تقریباً پونے پانچ سو شماروں سے اپنے مواد کو تلاش کرنا ریسرچ اسکالر کے لیے ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔لہٰذا نگار کی علمی ، ادبی، لسانی اور مذہبی افادیت کے پیشِ نظرجناب ڈاکٹر عطا خورشید نے چالیس سال کے عرصے پر محیط نگار کاایک جلد میں "اشاریہ "تیار کیا ہے۔یہ ایک موضوعاتی اور وضاحتی اشاریہ ہے ۔جس میں انھوں نے مضامین کو موضوعات کے اعتبار سے تقسیم کر دیا ہے۔ہر اُس عنوان کو جس سے موضوع کی وضاحت نہیں ہوتی ہے ایک دو جملوں میں وضاحت کر دی گئی ہے۔موضوعات کی تقسیم سہل سے سہل تر بنانے کے لیے بنیادی موضوع کے تحت تمام عنوانات کو یکجا کر دیا گیا ہے پھر ان عنوانات کومختلف موضوعات کے تحت رکھا گیا ہے پھر اسے شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔مثال کے طور پر تنقیدی موضوعات کو ذیلی عنوانات جیسے خصوصی تنقید اور عمومی تنقید میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔شاعری میں تمام موضوعات کو الفبائی ترتیب سے پیش کیا گیا ہے۔ادب کو مشرقی ادب اور مغربی ادب کے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور پھر ان کو بھی ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے۔جن موضوعات کے تحت اشاریہ نگار کو ترتیب دیا گیا۔ ان میں چند درج ذیل ہیں جیسے۔۔۔ اخلاقیات، ادب، اسلامیات، اشتراکیت، اقتصادیات، انسانیات، پاکستان، تاریخ، تذکرے، تعزیرات، تعلیمات، تقویم، تنقید، جغرافہ، جفر، خیل، حیاتیات، دست شناسی، روحانیات، ریاضی، زراعت، سائنس، صحافت، لسانیات وغیرہ۔ اندراجات میں عنوان،مقالہ نگار کا نام اور ماہ و سال وغیرہ درج ہے جب کہ نمبر شمار،جلد نمبر اور صفحات کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔
رسالہ جامعہ کا شمار ہندوستان کے چندگنے چنے ماہناموں میں ہوتا ہے ۔اس ماہنامے کااشاعت 1923ء میں عمل میں آئی ۔ یہ رسالہ ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وساطت سے آج بھی بڑی شان اور جاہ و جلال کے ساتھ نکلتا ہے۔اس طرح 93 سال سے استقلال کے ساتھ اردو علم و ادب کی خدمت انجام دینے میں پیش پیش ہے۔اس کا پہلا شمارہ جنوری 1923ء میں علی گڑھ سے نورالرحمٰن اور شریک مدیر ڈاکٹر یوسف حسین خان کی ادارت میں شائع ہوا۔اس کے بعد بھی "جامعہ" کی ادارت ہمیشہ اردو ادب کے بڑے بڑے لوگ سنبھالتے رہے ہیں۔ جن میں مولانا اسلم جیراجپوری، ڈاکٹر سید جمال الدین، ڈاکٹر صغرا مہدی،ڈاکٹر سید عابد حسین،پروفیسر ضیاء الحسن فاروقی، پروفیسر نورالحسن ہاشمی،پروفیسر یوسف حسین خاں وغیرہ حضرات شامل ہیں۔"جامعہ" نے اپنے علمی اور ادبی مضامین اور یادگار سالناموں کی بدولت بڑی شہرت و مقبولیت پائی ہے۔رسالہ جامعہ کا سب سے پہلا اشاریہ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری ،پٹنہ نے 1995ء میں شائع کیا ۔اسے شعائر اللہ خاں نے اپنے دو رفقائے کار کی مدد سے مرتب کیا ہے ۔ اشاریہ دو حصوں پر مشتمل ہے ۔پہلا حصہ اشاریے کا متن ہے ۔ جس میں شماروں کے جملہ مندرجات کو ادب،اخلاقیات، تاریخ، تذکرہ، کتب خانے اور ہندوستانی مسلمان جیسی چند موضوعی سرخیوں کے تحت الفبائی ترتیب سے درج کیا گیا ہے۔ کسی ایک سرخی کے تحت مقالات، افسانے، کہانیاں وغیرہ کو الفبائی تسلسل میں درج کیا گیا ہے۔مضمون کی نشاندہی کے لئے جلد نمبر و شمارہ نمبر،سن و مہینہ کی تفصیل دی گئی ہے۔لیکن صفحات کے نمبر شمار نہیں دیے گئے ہیں۔ اشاریے کا دوسرا حصہ مصنف وار ہے جس میں مصنف کے نام کے سامنے متنِ اشاریہ میں اس کے مضمون کا نمبر درج کیا گیا ہے ۔
رسالہ جامعہ کا دوسر ا اشاریہ فرزانہ بی بی نے اپنے پی۔ ایچ ۔ ڈی تھیسس کے طور پر مرتب کیا ہے جس کا عنوان "رسالہ جامعہ کا تنقیدی اشاریہ "ہے ۔اس اشاریے میں انھوں نے متنِ اشاریہ کو آٹھ موضوعی عنوانات کے تحت تقسیم کیاہے۔ جیسے شذرات ، تعلیمی ، تاریخی ، تہذیبی ، سیاسی ، شخصی ، اور ادبی مضامین ہے۔ہر عنوان کے تحت پہلے مضامین عنوانات کی الفبائی ترتیب ہے اس کے بعد چند مضامین پر وضاحتی انداز سے چند سطری نوٹ ہیں۔اشاریہ میں مصنفِ اشاریہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کی حوالجاتی افادیت کم ہو جاتی ہے۔موضوعی عنوانات بھی مضامین کی وضاحت نہیں کرتے ۔ مثال کے طور پر شذرات ، ادب ،سیاست ، تہذیب و تاریخ کسی بھی موضوع پر ہو سکتا ہے لیکن بذاتِ خود کوئی موضوع نہیں ہوسکتا ہے۔شخصی مضامین کو بھی سیاسی ، تاریخی ، ادبی مضامین وغیرہ کے عوانات کے تحت فرد کے دائرہ اختصاص کے مطابق درج کرنا زیادہ مناسب تھاجو کہ اس کے برعکس ہے۔ذکر کیے گئے دونوں اشاریے جامعہ کے دورِ اول یعنی 1923ء تا 1947ء تک شائع شدہ مندرجات کا احاطہ کرتے ہیں ۔ رسالہ جامعہ کا تیسرا اشاریہ محفوظ ا لرحمان خاں سابق ڈپٹی لائبریرین ڈاکٹر ذاکر حسین لائبریرین نے بھی مرتب کیا تھا جس میں 1989ء تک کے مندرجات کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ لیکن کسی وجہ سے وہ اشاریہ شائع نہیں کیا جا سکا۔
رسالہ جامعہ کا تیسرا مطبوعہ اشاریہ " اشاریہ رسالہ جامعہ " کے عنوان سے جنوری 2012ء میں شائع ہوا۔یہ ضخیم اشاریہ پانچ جلدوں پر مشتمل ہے جس کے مرتب ڈاکٹر شہاب الدین انصاری ہیں اور اس کو شائع کرنے کا شر ف ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کو حاصل ہے ۔ یہ اشاریہ پچھلے سبھی اشاریوں کے بہ نسبت مبسوط اور جدید اصولوں اور تقاضوں کے مطابق تیار کیا گیا ہے۔اشاریہ رسالہ جامعہ 1923ء تا 1947ء اور 1960ء تا 2008ء کے سبھی مطبوعہ شماروں کا احاطہ کرتا ہے۔اس اشاریے کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔پہلا حصہ رسالہ جامعہ کی طباعتی تفصیلات جیسے جدول اشاعتی تفصیلات،رسالہ جامعہ کے خاص نمبر، رسالہ جامعہ کے خاص عنوانات ،رسالہ جامعہ کے مدیران اور ارکانِ مجلس مشاورت، رسالہ جامعہ کے مدیران مع مدتِ ادارت وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ دوسرا حصہ مقالات، موضوعی اشاریہ مقالات،اشاریہ مترجمین و مرتبین مقالات، تیسرا حصہ اشاریہ اردو کلام،شعری تخلیقات اردو،اشاریہ فارسی کلام،تعلیمی دنیا و تعلیمی مسائل،اشاریہ احوال و کوائف جامعہ وغیرہ ، چوتھا حصہ ضمیمہ برائے اشاریہ 1994ء تا 2008ء پر مشتمل ہیں جس میں اداریے شمیم حنفی،مضامین،اشاریہ تخلیقی ادب،تبصرے، کتابیات،وغیرہ شامل ہیں۔اس کی ترتیب میں سائنٹفک اصولوں اور ضابطوں کو ملحوظ نظر رکھا گیا ہے۔
مولانا عبد ا لماجد دریا آبادی نے 1925ء میں ہفتہ وار سچ جاری کیا۔مولانا صاحب کے ساتھ رسالے کی ادارت میں مولوی عبدالرحمٰن نگرامی اور حاجی ظفرالملک لکھنوی بھی تھے۔ لیکن بعد میں ان دونوں صاحبان نے رسالے سے اپنا تعلق منقطع کیا اور پھر مولانا نے رسالے کا بھار اکیلے کاندھوں پراُٹھایا ۔نو سال بعد جب 1933ء میں جب انھوں نے تفسیرقرآن کا منصوبہ بنایاتواسے پاےۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے سچ کو نکالنا بندکر دیا ۔ اس مختصر مدت کے باوجود سچ کا شمار ان رسائل میں ہوتا ہے جنھوں نے ایک بہت وسیع حلقے کو متاثر کیا ۔ ضرورت تھی کہ اس کا اشاریہ تیار کیا جائے ۔چنانچہ مولانا مرحوم کے عزیز جناب عبد ا لعلیم قدوائی نے یہ نیک کام انجام دیا ہے جس سے خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ نے2000ء میں شائع کیا ہے۔اس اشاریہ کی ضخامت 578 صفحات ہیں۔ اس میں عنوانات اور مصنفین کے لحاظ سے تفصیلات درج نہیں کی گئی ہیں۔تاہم فاضل مرتب نے توضیحی نوٹ کے ذریعے اس کی افادیت میں ضرور اضافہ کیا ہے۔ہفتہ وار سچ کا توضیحی اشاریہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یقیناً مفید ہے تاہم جدید اشاریہ سازی کے مقابلے میں اس کی افادیت کم تر ضرور ہے ۔ اگر توضیحات کے ساتھ عنوانات اور مصنفین کا بھی اشاریہ ہوتا تو اس کی افادیت دو چند ہوجاتی۔ فاضل مرتب نے موضوعات میں تنوع کے باوجود انتہائی محنت اور عرق ریزی سے یہ اشاریہ مرتب کیا ہے بالخصوص توضیحات و تشریحات میں انھوں نے جو کاوش کی ہے وہ لائق تحسین ہے۔
سچ کے بعد مولانا عبد ا لماجد دریا بادی نے مئی 1935ء میں ہفتہ وار صدق جاری کیا ۔ یہ اصلاً سچ کا نقش ثانی تھا تاہم بنیادی طور پر یہ سچ سے جدا ایک اہم علمی ، ادبی اوراصلاحی پرچہ تھا ۔ "صدق"اگست 1950ء تک جاری رہا۔ اس کی سترہ سالہ زندگی میں ملکی اور سیاسی حالات میں بڑے نشیب و فراز آئے۔ملک تقسیم ہوا ، اردو غداروں کی زبان ٹھہری۔ لیکن مولانا اپنے مشن پر ثابت قدم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا شمار ہندوستان کے اہم رسائل میں ہوتا ہے۔ جناب عبد ا لعلیم قدوائی نے سچ ہی کی طر ح صدق کا بھی تجزیاتی اورتوضیحی اشاریہ تیار کیا ہے ۔سچ کے اشاریہ کی طرح "صدق" کا اشاریہ بھی عبدالعلیم قدوائی نے ہی ترتیب دیا ہے۔اپنے پیش رو سچ کی طرح صدق بھی ایک نیم مذہبی،ادبی، علمی اور اصلاحی پرچہ رہا۔اس میں تمام اندراجات کوبنیادی طور پرموضوع کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔قدوائی صاحب نے اسے بڑی محنت اورژرف نگاہی سے تیار کیا ہے۔اس کی کماحقہ داد وہی حضرات دے سکتے ہیں جو اس فن سے واقفیت رکھتے ہیں اور اس کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں۔ اس میں بھی فاضل مرتب نے موضوعات کی ایک طویل فہرست کے تحت مضامین و مقالات ، خبریں ، مراسلے ، تذکرے ، تبصرے علٰحیدہ علٰحیدہ درج کیے ہیں۔ مستقل عنوانات مثلاً سچی باتیں وغیرہ پر جو توضیحی نوٹ قلم بند کیے ہیں۔ موضوعات میں اخلاقیات،ادباء ،تذکرے، اردو ادب، اردو شاعری،اسلام اور دیگر مذاہب،اسلام تاریخ،اسلامیات،اسلامی ادارے وغیرہ کو بڑی خوبی سے ترتیب دیا گیا ہے۔نمبر شمار،عنوان،مضمون نگار،جلد نمبر،شمارہ نمبر اور صفحہ نمبر کے اندراج سے علماء و دانشور حضرات کے مقالات و نگارشات سے پوری آگاہی حاصل ہو جاتی ہے۔ جس سے یقیناً اشاریہ کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔
ماہنامہ" برہان" کی حیثیت بھی انسائیکلوپیڈیا سے کم نہیں۔اس کا پہلا شمارہ جولائی 1938ء میں سعید احمد اکبر آبادی کی ادارت میں شائع ہوا۔اس کے بعد مفتی عتیق الرحمٰن عثمانی اور مولوی محمد ظفر احمد خاں ادارہ برہان کے ساتھ وابستہ رہیں۔حالانکہ یہ رسالہ تقریباً 2001ء تک مسلسل شائع ہوتا رہا لیکن اس عرصہ میں اس نے علم و فن کی مختلف موضوعات پر بلند پایہ علمی و تحقیقی نگارشات شائع کیں۔موضوعات اور مستقل عنوانات میں اس میں اور ماہنامہ معارف میں بڑی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے۔ اہمیت اور افادیت کے پیش نظر خدا بخش لائبریری نے معارف کے بعد اس کا اشاریہ بھی مرتب کر کے اپنے جرنل (شمارہ 103، 1996ء) میں شائع کیا۔اس اشاریہ کوبعد میں تصحیح و ترتیب، متن میں ضروری اضافے اور اشاریہ مصنفین کتابی صورت میں مولانا آزاد لائبریری ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی اُس وقت کی مہتمم ڈاکٹر شائستہ خان نے دوبارہ شائع کیا۔
اس اشاریہ کی ترتیب بھی اشارےۂ معارف کے طرز پر موضوعاتی ہے۔اس کے مختلف النوع موضوعات میں مذاہب،قرآنیات،حدیث،فقہ، اسلام، فلسفہ وکلام،متعلقاتِ اسلام، سیاسیاتِ ہندوستانی مسلمان، معاشیات،تعلیم، نفسیات، سماجیات،طب، صحافت، اردو ادب، شاعری،ابولکلام آزاد،اقبال،فارسی ادب، عربی ادب وغیرہ شامل ہیں۔اشاریہ کی ترتیب اس طرح ہے۔ پہلے مضمون کاعنوان ، پھر قوسین میں مقالہ نگار کا نام ، اس کے بعد جلد نمبر، اور آخر میں شمارہ نمبر کا اندراج کیا گیا ہے۔ ماہ و سال اور صفحات کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے ۔ آخر میں اشاریہ مصنفین ہے جس میں مقالہ نگاروں کے نام الف بائی ترتیب پر دیے گئے ہیں اور نمبر شمار سے ان کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اکثر عنوان خود توضیحی ہیں، لیکن جہاں جہاں کہیں ایسا نہیں ہے وہاں مختصراً مضمون کے بارے میں چند لفظوں میں وضاحت کر دی گئی ہے یعنی جابجا وضاحتی نوٹ بھی لکھے گئے ہیں جس میں مطلوبہ مواد بآسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔برہان کا یہ اشاریہ 1965ء تک کا ہے ۔ ضرورت ہے کہ اس اہم علمی و دینی مجلہ کا مکمل اشاریہ جدید اصولوں کے مطابق مرتب کیا جائے ۔
صوبہ بہار کے ادبی افق سے "معاصر" کے عنوان سے ایک ایسا ستارہ طلوع ہوا جو دیکھتے ہی دیکھتے انتہائی روشن اور تابناک بن گیا۔غالباً بہار میں فلک صحافت پر نمودار ہونے والے کہکشاں میں سب سے زیادہ درخشاں ستارہ ’معاصر‘ہی ہے۔جس کی ادارت ابتداء سے ہی اردو کے معروف قلمکاروں نے سنبھالی۔ اس کے پہلے مدیر ڈاکٹر عظیم الدین احمد تھے۔اُن کی وفات کے بعد اس کی بھاگ ڈور ڈاکٹر عبدالمنان بیدل نے سنبھالی۔ بیدل عظیم آبادی نے کافی عرصے تک مدیر کی حیثیت سے اس کے فرائض انجام دیے۔ جبکہ ان کی وفات کے بعد کلیم الدین احمد اس کے آخر یعنی 1983ء تک مدیر اعلیٰ رہے۔ اپنے اشاعتی سفر کے دوران اگر چہ رسالے کی اشاعت میں کئی بار رخنہ پڑا تاہم رسالہ ’معاصر‘ نے اردو ادب کے میدان میں جو خدمات انجام دی وہ قابلِ ستائش ہے اور اس بات کو فراموش بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ رسالے کی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کا اشاریہ تیار کرنا لازمی بنتا تھا۔بہار کی نامور اور معروف علمی شخصیت ڈاکٹر نوراسلام نے پٹنہ کے اس انتہائی اہم رسالے کے مندرجات کا اشاریہ تیار کیا ہے جسے خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کو شائع کرنے کا فخر حاصل ہے۔’معاصر‘ آج سے چھہتر(76) سال قبل نومبر 1940ء میں جاری ہوا تھا۔ یہ اصلاً دائرہ ادب پٹنہ کا ترجمان تھا۔ اس میں اعلیٰ معیار کے علمی و ادبی، تحقیقی و تنقیدی مضامین شائع ہوتے تھے۔ڈاکٹر نوراسلام نے ہر لحاظ سے ’معاصر‘ کا مکمل اور جامع اشاریہ تیار کیا ہے۔اشاریے کی ترتیب و تہذیب میں فاضل مرتب نے لائبریری سائنس کے اصول و قواعد کو پوری طرح ملحوط رکھا ہے۔ جس سے اردو کے اشاریائی ادب میں اِسے ایک منفرد مقام حاصل ہوگیا ہے۔یہ اشاریہ اول سے آخر تک ’معاصر‘ کے حوالے سے اہل قلم حضرات کی رہنمائی کرتا ہے۔رسالہ’ معاصر ‘کے اشاریہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے حصے میں تمام مندرجات کو موضوعات کے تحت درج کیا گیا ہے ان موضوعی عنوانات کو ابجدی ترتیب سے درج کیا گیا ہے ۔ان کے تحت مضامین وغیرہ کی ذیلی ترتیب بھی ابجد کے اعتبار سے ہے ۔ موضوعات کی الفبائی ترتیب میں دو مقامات پر اصول سے انحراف کیا گیا ہے ۔ایک اداریے کے اندراج میں اور دوسرے متفرقات کے مقام کے تعین میں ۔دوسرے حصے میں ان ہی تمام اندراجات کو مصنفین کے تحت درج کر دیا گیا ہے اور ذیلی ترتیب عنوانات کے تحت کی گئی ہے ۔ یہاں بھی تمام اندراجات کے لیے ابجدی ترتیب کو ہی پیشِ نظر رکھا گیا ہے ۔ یہ دونوں حصے مل کر ہی اشاریے کو مکمل اور قابل استفادہ بناتے ہیں۔باقی اگر مجموعی ترتیب پر ہماری نظر پڑھتی ہے تونمبر شمار، عنوان مضمون ، مضمون نگار، جلد، شمارہ ، ماہ و سال اور صفحات کی پوری تفصیل ’معاصر‘ کے اشاریے میں موجود ہیں۔ہر مضمون کے ساتھ ساتھ دو،چا ر چار سطور میں وضاحتی نوٹ بھی پیش کئے گئے ہیں جس سے مضمون کی صراحت ہو جاتی ہے۔
"آجکل" اردو کا ایک تاریخ ساز رسالہ ہے۔یہ رسالہ ادارہ"یونائیٹڈ پبلی کیشنزڈویژن" سے 5 مئی 1941ء کو منصۂ شہود میں آیا۔ابتدا میں یہ پشتو زبان میں "نن پرون" کے نام سے شائع ہوتا تھا ۔ لیکن بعد میں لوگوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اس رسالے کا اردو ایڈیشن 10 جون 1942ء’آجکل‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔جو کہ ’نن پرون‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ (کچھ اہلِ قلم حضرات اس کا پہلا ایڈیشن 25 نومبر 1942ء لکھتے ہیں جو غلط ہے)۔پہلے یہ پندرہ روزہ جریدہ تھا اور ہر ماہ کی 10 اور 25 تاریخ کو جلوہ افروز ہوتا تھا لیکن بعد میں دسمبر 1949ء میں یہ رسالہ مستقل طور پر ماہنامہ ہوگیا۔’ آجکل ‘اب اپنے 75 ویں سال میں قدم رکھ چکا ہے جو کہ اس کی’ ڈائمنڈ جوبلی ‘کا سال بھی ہیں۔صحیح معنوں میں اس رسالے سے ادب کی جو خدمت ہوئی ہے اسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ رسالہ ادبی حلقے میں اپنی مکمل شناخت قائم کر چکا ہے۔مختلف اوقات میں اس کے ادارے سے آغا یعقوب دداشی، وقار عظیم،جوش ملیح آبادی،معین احسن جذبی،شان الحق حقی،جگن ناتھ آزاد، بلونت سنگھ، عرش ملسیانی،شہباز حسین،مہدی عباس حسینی اور راج نرائن راز، محبوب الرحمٰن فاروقی، حسن ضیاء، ابرار رحمانی وغیرہ جیسے ادیب، شاعر اور صحافی وابستہ رہے۔ جنھوں نے اس رسالے کو خوب سے خوب تر بنانے میں اپنا خونِ جگر صرف کیا ہے۔رسالہ آجکل میں اردو کی بیشتر اصناف سے متعلق موادشائع ہوتا ہے علم و ادب اور تحقیق کے موضوعات جتنے وسیع پیمانے پر آجکل کی زینت بنے وہ کسی اور رسالے کو میسر نہ ہو سکے جیسے مضامین، مقالے ،افسانے ، ڈرامے،ناول،خطوط، مزاحیہ،سفرنامے ، غزلیں، نظمیں وغیر ہ غرض اس کا دائرہ کار کااتناوسیع و عریض ہے جس کااحاطہ کرنا بہت مشکل ہے۔
’آجکل‘ جیسے معتبر اور مؤقرادبی جریدے کا اشاریہ ڈاکٹر جمیل اختر نے " اشاریہ آجکل" کے عنوان سے لکھا اور اردو اکاڈمی کے توسط سے 1988ء میں شائع کیا۔ اس کے مطابق 1988ء تک رسالہ آجکل سے کل75 خاص نمبر شائع ہوئے۔جس میں گاندھی نمبر، اردو نمبر، ابو الکلام آزاد نمبر،افسانہ نمبر،اقبال نمبر، امیر خسرو نمبر، بہادر شاہ ظفر نمبر،پریم چند نمبر ، حسرت موہانی نمبر،غالب نمبر،کشمیر نمبرعابد حسین نمبر،سجاد ظہیر نمبر،میر انیس نمبر،میر تقی میر نمبر وغیرہ وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اب تک اس کے خاص شماروں کی تعداد سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ہندوستان میں کوئی رسالہ ایسا نہیں ہے جو آزادی کے پہلے سے اب تک اُسی آب و تاب سے نکل رہا ہو۔علم و ادب کے اس بیش قیمتی خزینے کا اشاریہ تیار کرنا یقینی بنتا تھا۔رسالہ آجکل کا اشاریہ تیار کرنے کا فریضہ ڈاکٹر جمیل اختر صاحب نے انجام دیا۔اس لیے اُن کے اس جستجوئے تحقیق کو سلام۔کیونکہ اب تک جتنے بھی اشاریے تیار کیے گئے تھے اُن میں کوئی نہ کوئی کمی ضرور پائی گئی۔یہاں تک کہ آج بھی یہ خامیاں اکثر اشاریائی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔لائبریری سائنس کے اصولوں کو بروئے کا ر نہ لا کر کوئی بھی اشاریائی کتاب کامیابی کے زینے طے نہیں کر سکتی ۔ اس اشاریہ میں اگر چہ معتدد اصولوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے تاہم کچھ کمیاں اس میں بھی رہ گئی ہیں۔ اشاریہ آجکل ابتداء سے 1986ء کے شائع شدہ 600 شماروں پر مشتمل ہے ۔اس میں ’آجکل‘ میں شائع شدہ مشتملات کو مختلف اصناف کے تحت تقسیم کر کے ان کے عنوانات کو حرفِ تہجی کے اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے۔اس اشاریے میں مضامین کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ایک حصہ ادبی مضامین سے متعلق ہے اور دوسرا ادب کے علاوہ دیگر مضامین سے متعلق ہے ادبی حصے کا نام مقالے اور دوسرے کانام مضامین رکھا گیا ہے۔یہ جلد عنوانات کے اعتبار سے ترتیب دی گئی ہے۔’آجکل ‘جڑی ہر معلومات کو ترتیب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔مدیران،نائب مدیران،سالنامے، خاص نمبرکی معلومات سے بھی مزین ہے۔عنوانات میں حصہ نثر، حصہ شعر، عالمی ادب(مختلف زبانوں کے افسانوی تراجم، ڈرامے، نظمیں،گیت)، علاقائی ادب(فلمیات، افسانے، ڈرامے، غزلیں، نظمیں، بچوں کا ادب)وغیرہ کو بڑی خوبی سے پیش کیا گیا ہے۔عنوانات میں درج اندراجات کو حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔البتہ مدیران و نائب مدیران، اداریوں کو تاریخی اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔باقی ضروری اندراجات جیسے مضمون کا نام ، مضمون نگار، ماہ وسال اور صفحات کی تفصیل کو بھی پیش کیا گیا ہے۔لیکن جلد و شمارہ نمبر کا اندراج نہیں کیا گیا ہے۔جس کہ اس کی ایک کمی قرار دی جاسکتی ہے۔"اشاریہ آجکل‘ ‘کی دوسری جلد میں مشتملات کی ترتیب مصنف وار کی گئی ہے۔اس میں صرف اداریوں کا اشاریہ عنوان کے لحاظ سے نہیں ہے بلکہ جس طرح وہ ہر ماہ شائع ہوئے ، اُسی ترتیب سے اشاریہ میں شامل ہیں۔دوسری جلد 2000ء میں منظر عام پر آئی۔"اشاریہ آجکل" ایک ایسی ڈائرکٹری ہے جس سے 46 سال کے دوران’آجکل‘ میں شائع شدہ ہر نوع کے مواد کی مفصل معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں اور حوالے کی اس کتاب سے کئی تحقیقی کتابیں معرضِ وجود میں آسکتی ہیں۔ یہ اشاریہ ایک ایسا آئینہ خانہ ہے جس میں مختلف النوع نظم و نثر اور ان کے مصنفین کے چہرے زیادہ روشن نظر آتے ہیں، اور ان کی شناخت بے حد آسان ہوجاتی ہے۔ ادب کا کوئی قاری اس اشاریہ سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔
رسالہ "شاہراہ" دہلی سے شائع ہونے والا ایک معیاری رسالہ تھا بیسوی صدی کی نصف دہائی یعنی جنوری ،فروری 1949ء میں اس کا پہلا شمارہ شائع ہوااور 1960ء تک مسلسل شائع ہوتا رہا۔ترقی پسند تحریک کی حمایت کرنے والے اس رسالے کو ''ترقی پسند اردو مصنفین کا ترجمان ''سمجھا جا تا رہا ہے۔ترقی پسند تحریک کے زیراثرتخلیق ہونے والے ادب کی اشاعت کا ذمہ بھی رسالہ شاہراہ کے ہی سر تھا جس کو اس نے بخوبی نبھایا بھی۔ یہ ایک ترقی پسند رسالہ تھا جس کے ابتدائی شماروں کے سرورق پر''ترقی پسند مصنفین کا دو ماہی ترجمان''درج ہوتا تھا ۔ اس رسالے میں چند اہل قلم ایسے بھی تھیں جنھوں نے پہلی بار قلم اٹھایا اور ادبی دنیا میں اپنی گہری چھاپ چھوڑی۔اس مستند ،معتبر اور پُر وقار رسالے کا اشاریہ ترتیب دینے کا فخرنوشاد منظر کو نصیب حاصل ہوا۔جو پچھلے سال یعنی 2014ء کو منظر عام پر آیا ۔اس کی اشاعت ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے ہوئی۔اشاریے کو دو ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے با ب کا نام" شاہراہ کے مشمولات کا تجزیاتی مطالعہ" رکھا گیا ہے اوراس کے دوسرے باب میں "رسالہ شاہراہ کا اشاریہ "ترتیب دیا گیا ہے۔
رسالہ "شاہراہ" میں شائع ہونے والے مشمولات کو تخلیق کاروں کے نام سے حروف تہجی کے لحاظ سے مرتب کیا گیا ہے۔پہلے باب ہی میں شاہراہ کے مشمولات کا تجزیاتی مطالعہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ ان مشمولات کو ضمنی عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے جیسے اداریے، مضامین ، نظمیں غزلیں، رباعیاں، افسانے،ناولیں اور تراجم نظمیں ۔کتاب کا دوسرا حصہ شاہراہ کا اشاریہ ہے۔ اس حصے میں اداریے ، مضامین نظمیں ، غزلیں، افسانے ، ناول ، ڈرامے وغیرہ کو کئی ضمنی حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے اشاریہ تیار کیا گیا ہے۔ فہرست کو مصنف کے ناموں سے حروف تہجی کے اعتبا ر سے ترتیب دیا گیا ہے۔بہر حال نوشاد منظر صاحب نے اشاریہ رسالہ" شاہراہ "مرتب کر کے اردو ادب میں فنِ اشاریہ کے تئیں اپنی دلچسپی کا ثبوت پیش کر کے ایک عمدہ اور قابلِ تقلید کارنامہ سرانجام دیا۔موصوف کی اس خدمت کو سنہرے لفظوں میں یاد کیا جائے گا۔
ماہنامہ" تحریک" دہلی کی اشاعت کا آغاز مارچ 1953ء میں ہوا۔ او ر یہ رسالہ اس کے بانی مدیر گوپال متل کی سربراہی میں نکلنا شروع ہوا۔اور مسلسل سنہ 1981 ء تک نکلتا رہا۔رسالہ "تحریک"کا شمار اردو کے معتبر اور بلند پایہ رسالوں میں ہوتا ہے۔اس رسالے نے لگاتار 29 سال تک اردو ادب کی خدمت کی۔اور آخر کا ر 1981ء میں اس کی اشاعت کا سلسلہ مستقل طور پر منقطع ہوگیا۔ماہ نامہ" تحریک" میں مدیران کے فرائض اس کے بانی،ادیب ، صحافی اور شاعر جناب مرحوم گوپال متل نے ابتداً انجام دی۔ان کے بعد مخمور سعیدی، تمکین کاظمی اور پریم گوپال متل صاحب کے نام آتے ہیں۔رسالہ" تحریک" کو شہرت اور مقبولیت عطا کرنے میں اس کے مدیروں نے اپنا خونِ جگر صرف کیا ہے۔ماہنامہ" تحریک" دہلی نے کل 15 خاص نمبر شائع کیے۔ جن میں جگر نمبر، غالب نمبر، اقبال نمبر، بسمل سعدی نمبر،سلور جوبلی نمبر وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔"تحریک" میں شائع ہونے والی نگارشات اور تخلیقات اس اعتبار سے خاص اہمیت کی حامل ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے زمانے میں اپنے ہونے کا جواز رکھتی تھی بلکہ آج بھی علم و ادب سے سروکار رکھنے والوں کو سیراب کر رہی ہیں۔ اس اعتبار سے ماہ نامہ" تحریک" کا اشاریہ ترتیب دینااردو ادب سے وابستگان کے لیے ایک احسان تھا۔یہ فریضہ مطیع ا للہ خاں نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا۔یہ اشاریہ 2011ء میں موڈرن پبلشنگ ہاؤس سے شائع ہو کر منظر عام آیا۔ماہ نامہ" تحریک" میں شائع ہونے والے مواد کو موضوعات کے اعتبار سے تقسیم کیا گیا ہے۔اشاریہ مصنف کے نام سے حروف تہجی کے اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے۔ 431 صفحات کی یہ کتاب مکمل طور پر اردو ادب کی بیشتر اصناف سے متعلق تحریریں جیسے افسانے، ڈرامے، خاکے، رپوتاژ، نظمیں،غزلیں،رباعیات،قطعات،گیت،نوح، انشائیے وغیرہ کو منظر عام پر لانے میں کامیاب ہوا ہے۔اشاریہ میں مدیران ، خاص نمبر اور اداریے کی تفصیل زمانی اعتبارسے ترتیب دی گئی ہے۔جب کہ مضامین کو مصنف کے ناموں سے الفبائی ترتیب سے پیش کیا گیا ہے۔ اندراجات میں پہلے نمبر شمار، پھر مضمون نگار کا نام، ، عنوان ، ماہ و سال اور صفحہ نمبر کی ترتیب ہے۔غرض" اشاریہ ماہ نامہ تحریک" اردو ادب کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔
ماہنامہ "نیادور" کا شمار ہندوستان کے صفِ اول کے رسائل میں ہوتا ہے۔یہ ملک کے چند مایہ ناز اور اہم ادبی رسائل کی فہرست میں شامل ہیں جن کی خدمات کو اردو زبان و ادب اور صاف ستھری و بے داغ صحافت کے لیے ہمیشہ یاد کیا جائے گا ۔ ’نیا دور ‘میں شروع سے ہی ملک کے ان قابل قدر ادیبوں اور شاعروں کی نگارشات شائع ہوتی رہی ہیں جن کے تذکرے کے بغیر اردو ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکے گی۔
’نیا دور‘ کو ملک کے نامور مجاہدِ آزادی ، ادیب ، صحافی اور کئی اہم سرکاری عہدوں پر کام کرنے والی شخصیت علی جواد زیدی نے اپریل 1955ء میں شائع کیاتھا۔’نیا دور ‘کی خشتِ اول اتنی شاندار تھی اور زیدی صاحب کا جذبہ اتنا بے لوث تھا کہ رسالہ’ نیا دور‘ آج بھی اسی شان و شوکت سے شائع ہو رہا ہے اور علم و ادب کی خدمت میں مصروف عمل ہے۔علی جواد زیدی کے بعد سید امجد حسین،امیر احمد صدیقی،نجیب انصاری،وضاحت حسین رضوی وغیرہ اس کے مدیران رہے ہیں۔نیا دور اترپردیش سرکار کا ترجمان ہونے کے باوجود نہایت اعلیٰ ادبی معیار کا حامل رسالہ ہے۔ کیو نکہ اس کے اب تک کے سبھی مدیران نہایت اعلیٰ خوبیوں والے افرد رہے ہیں ۔’ نیا دور‘ ایک ایسا رسالہ ہے جس کا ماضی ایسا تابناک حال، اتنا درخشاں اور مستقبل اس قدر روشن ہے کہ صدیوں تک اردو کے تئیں اس کی بے لوث خدمت کو یاد کیا جائے گا۔اس میں ادبی، سیاسی، سماجی، تہذیبی اور مختلف النوع مضامین شائع ہوتے تھے۔ اس کا اشاریہ بھی اسی اعلیٰ معیار کے ساتھ تیار ہونا چاہیے تھا اور اس کا فریضہ بے مثال انجام پایا۔ ’نیا دور‘ کا اشاریہ ڈاکٹر اطہر مسعود خاں نے ترتیب دیا ۔ جو رام پور رضا لائبریری سے 2009ء میں شائع ہو کر منظر عام آیا ۔ اس اشاریے میں 1955ء سے 2001ء تک کے سبھی شماروں کا احا طہ کیا گیا ہے۔اس اشاریہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس عرصے کے دوران کی سبھی تصاویرکی ایک تاریخ بھی مرتب کی گئی ہے۔اداریوں کی توضیح بھی کی گئی ہے۔ 561 شماروں کا اشاریہ 800 صفحات پر نہایت جامع انداز میں پیش کیا گیا ہے۔اس اشاریہ کا پہلا حصہ اصناف وار اور دوسرا حصہ مصنف وار اشاریہ پر مشتمل ہے۔اس کی اندراجات میں عنوان کا نام ،مضمون نگار، ماہ و سال اور صفحہ نمبر کا اندراج کیا گیا ہے۔ لیکن جلد نمبر اور شمارہ نمبر کے اندراج کی کمی قاری کو ضرور کھٹکتی ہے۔لیکن محققین کو اپنے مطلب کی چیز تلاش کرنے میں کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ غرض ’نیا دور‘ کا اشاریہ ہرلحاظ سے قابلِ اعتبار اور مبسوط کارنامہ ہے۔
اس علمی و تحقیقی مجلہ کا اجرا جنوری 1960ء میں ڈاکٹر یوسف حسین خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کیا ۔ بہت جلد اس نے اہلِ علم کی توجہ حاصل کر لی اور اپنی مختلف النوع نگارشات سے ایک معیار ی رسالہ قرار پایا۔ یوسف حسین خان کے بعد مسلم یونیورسٹی کے متعدد اہل قلم حضرات جن میں فضل الرحمٰن، پروفیسر مسعود حسین خاں، پرفیسر خورشید الاسلام، پرفیسر عتیق احمد صدیقی، پرفیسر نورالحسن نقوی، پروفیسر شہریار، پروفیسر سید محمد ہاشم وغیرہ جیسے صاحبان اس کے ساتھ بحیثیتِ مدیر وابستہ رہے۔ادب کے ساتھ ساتھ اس میں اخلاقیات،تاریخ و تنقید، افسانہ، اردو زبان، اردو شاعری،ارضیات، اسلامیات،اردو لغات، انسانیات، سر محمد اقبال، انگریزی ڈراما، تاریخ نگاری، ترکی،تعلیم، تلگو ادب، بنگالی ادب، سائنس، سر سید احمد خاں وغیرہ وغیرہ جیسے موضوعات پر مضامین شائع ہونے لگے۔اس مجلہ میں 1960ء سے 1990ء تک شائع ہونے والے مضامین کا اشاریہ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین انصاری نے مرتب کیا ہے جو خدا بخش لائبریری جرنل، پٹنہ (80، 1992ء) میں شائع ہوا ہے ۔ اس کی ترتیب موضوعاتی ہے۔مختلف موضوعات کو الف بائی ترتیب کے مطابق درج کر کے ان کے ضمن میں آنے والی تحریروں کے عنوانات دیے گئے ہیں ۔ مضمون نگاروں کے نام ، جلدنمبر اور شمارہ نمبر کے علاوہ ماہ وسال اور صفحات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے ۔ جابجا وضاحتی اور تشریحی نوٹ لکھ کر اشاریہ کو مزید آسان اور مفید بنایا گیا ہے ۔ اس اشاریہ میں مصنفین اور عناوین کے لحاظ سے مشمولات کا اندراج نہیں کیا گیا ہے ۔ اس اشاریے میں سائنسی اصول اور ضوابط کی صد فیصد پیروی کی گئی ہے۔ اس اشاریہ کی ضخامت 49 صفحات ہے۔بعد میں 1991ء سے 1999ء تک شائع ہونے والے مضامین کا اشاریہ کبیراحمد خان نے مرتب کیا جو فکرو نظر ، جلد 37، شمارہ4(2000ء)میں شائع ہوا۔ ضمیمہ میں 2000ء کے چار شماروں کا اشاریہ بھی شامل کر دیا گیا ہے۔’ ’فکرو نظر" کے ستمبر 2015ء کی جلد نمبر 52 اور شمارہ نمبر 3 میں ڈاکٹر محمد بکر عالم صدیقی نے " اشاریہ فکرو نظر" (1988ء تا 1995ء) ترتیب دیا۔ گذشتہ سے پیوستہ کے اس اشاریہ میں بھی سائنسی طریقۂ کار کا التزام برتا گیا ہے۔ اس کی ترتیب میں نمبر شمار، مضمون، مضمون نگار،اشاعت، جلد نمبر، شمارہ نمبر اور مدیر کے اعتبار سے دی گئی ہے۔ اس کے نمبر شمارہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ متذکرہ بالا ستمبر شمارے سے قبل سابقہ شماروں میں بھی اس اشاریہ کی کچھ قسطیں شائع ہوئی ہیں جن سے میرا واسطہ نہیں پڑا۔ اس اشاریہ کو بھی بے حد خوش سلیقگی اور زیب و زینت سے آراستہ و پیراستہ کیا گیا ہے۔
عالمگیر شہرت کا مشرقی کتب خانہ جو خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کے نام سے مشہور ہے ، بہار کے ایک خوش نصیب مرد خود آگاہ اور پٹنہ کے مشہور و معروف اور کامیاب وکیل مولوی خدا بخش خاں نے قائم کیا تھا۔تاکہ تشنگانِ اردو اپنی پیاس بجھا سکیں۔ اس لائبریری کی پٹنہ میں 1891ء میں بنیاد رکھی گئی۔ "خدا بخش لائبریری" جرنل قاضی عبدالودود کے تخیل کا زائیدہ ہے۔ یہ علمی و تحقیقی اور حوالہ جاتی رسالہ قاضی عبد ا لودود کی کوششوں سے ہی 1977ء میں شائع ہونا شروع ہوا تھا اور آج بھی مسلسل اُسی شان اور آب و تاب کے ساتھ ادبی حلقے میں اپنی مثبت چھاپ چھوڑ رہا ہے ۔لیکن کچھ عرصے سے حکومت کی عدم توجہ اور غیر متحرک انتظامیہ کے باعث رسالے کی اشاعت میں قدغنیں پیش آئیں۔ابتداًجرنل میں کیا کیا ہوگا ، کیا نہ ہوگا یہ سب قاضی صاحب کے ذہن کی اُپچ تھی۔اس جرنل میں جو چیزیں خصوصیت کے ساتھ پیش ہوتی رہیں ان میں خدا بخش خطبات کے متن، لائبریری کے اہم مخطوطات کا تعارف، نادر نسخوں کے مکمل متون، مشاہیر کی خود نوشت تحریروں کے عکس، کمیاب رسائل کے منتخبات اور لائبریری منصوبوں کے تحت ہونے والے کام مثلاً جنوبی ایشائی علاقائی سمینار کی رودادیں، مشاہیر کی آپ بیتیاں، اپنے کلام کا انتخاب، خدا بخش مخطوطات کی فہرستوں کی تصحیحات، اور ضروری اضافے قابل ذکر ہیں۔ اس جرنل کے سرورق پر لکھا ہوتا تھا کہ" اس میں انگریزی، اردو، فارسی یا عربی میں ایسے مضامین شائع ہوں گے جو خدا بخش لائبریری کے نادر مواد پر مبنی ہوں، یا لائبریری سے کسی نہ کسی قسم کا تعلق رکھتے ہوں"۔اس جریدے کے پہلے ایڈیٹر ڈاکٹر عابد رضا بیدار مقرر ہوئے ۔اس کے دیگر مدایران میں محبوب حسین،مصطفی کمال ہاشمی،حبیب الرحمٰن چغتائی،ڈاکٹر امتیاز احمد،ڈاکٹر محمد ضیاء الدین انصاری وغیرہ شامل ہیں۔
"خدا بخش لائبریری جرنل‘ کا پہلا اشاریہ 1۔52 شماروں پر مشتمل تھا جس کو ادارے نے اسی جرنل میں شائع کیا تھا۔اس اشاریہ میں انفرادی طور پر ہر شمارے کی فہرست مضامین اس کے ساتھ میں دی گئی ہے۔جیسے پہلے شمارہ نمبر اور اس کے بعد اس میں شائع شدہ مضامین کی فہرست۔آخر میں اس شمارے کے کل صفحات اور قیمت بھی دکھائی گئی ہے۔فہرست میں پہلے مضمون کا عنوان اور پھر مضمون نگار کے نام کا ندراج کیا گیا ہے۔ اس کے سو شماروں کا دوسرا اشاریہ بھی جرنل میں ہی (شمارہ 102، 1996ء) میں شائع ہوا ہے۔(اصلاًاشاریہ95شماروں کا ہے ۔ باقی 5 شماروں کی محض فہرست دی گئی ہے)۔ یہ اشاریہ 1977ء سے لے کر 1995ء تک جرنل کے تمام شماروں کا مکمل طور پر احاطہ کرتا ہے۔ اس کی ترتیب بھی موضوعاتی ہے ۔ جس کو اردو دانشوری،اردو غزل، لغت/ / فرہنگ،تذکرۂ عام، تذکرۂ ادبا، تذکرۂ مشاہیر، عربی ادب، فارسی ادب ، تذکرہ شعراء فارسی ، فارسی مخطوطات، تصوف مخطوطات، مخطوطات اردو، طب مخطوطات،تدوین متن،تاریخ اودھ وغیرہ وغیرہ جیسے ذمروں میں منقسم کیا گیا ہے۔پہلے عنوان، پھر مقالہ نگار کا نام ، اس کے بعد شمارہ نمبر درج ہے ۔ آخر میں اشاریہ مصنفین ہے۔ 2009ء میں اس جرنل کا تیسرا اشاریہ محترمہ تسنیم فاطمہ نے مرتب کیا ۔ یہ اشاریہ101 سے لے کر 150 شماروں پر محیط ہے اور ان میں شائع شدہ مقالات کی موضوع وار فہرست پر مبنی ہے۔چونکہ اس عرصے میں جرنل کے مشتملات بھی بدلے ہیں اور اردو،انگریزی اور ہندی کے مقالات تواترم کے ساتھ شائع ہوتے رہے ہیں۔ لہٰذا مذکورہ اشاریے میں انگریزی اور ہندی کے گوشے بھی شامل ہیں۔نیز عربی اور فارسی زبان میں شائع ہوئے مقالات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ تبصرہ کتب کا بھی ایک خصوصی گوشہ اس میں شامل ہے۔ کل ملا کر اس میں اردومیں 36،انگریزی میں 19، ہندی میں 10 عنوانات کے حوالے شامل ہیں۔اشاریہ اردو 32 صفحات پر،اشاریہ ہندی 6 صفحات پر اور اشاریہ انگریزی16 صفحات پر مشتمل ہیں۔ کل صفحات کی تعداد 62 ہے۔ ڈاکٹر عابد رضا بیدار کی کوششوں سے نہ صرف معارف ،برہان اور خدا بخش لائبریری جرنل وغیرہ کے اشاریے مرتب ہو کر شائع ہوئے ہیں بلکہ بعض دوسرے علمی و ادبی رسائل کے اشاریے بھی ان کی کوششوں اور تحریک پر مرتب ہوئے اور جرنل میں شائع ہوئے ۔ اس لیے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اردو اشاریہ نگاری کے ارتقاء میں ان کا بڑا حصہ ہے۔ تاہم یہ بات بھی غلط نہیں کہ یہ اشاریے رواداری میں تیار ہوئے ہیں اور ان کے سلسلے میں اشاریہ سازی کے فنی اصولوں کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ہے۔ تاہم محققین اور طالبانِ علم کے لئے یہ اشاریے رہنما کے طور پر انتہائی مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔
رسالہ" ایوانِ اردو" دہلی اردو اکاڈمی سے 1987ء سے نکلنا شروع ہوا۔ شمالی ہند کے بیشتر ادباء کا ترجمان رسالہ" ایون اردو" ہے۔ جس میں ہر صنفِ ادب پر مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ یہ رسالہ آج بھی بڑی آن بان اور شان کے ساتھ شائع ہو رہا ہے اور ادبی حلقے میں اس کے گہرے اثرات مرتسم ہو رہے ہیں۔اس رسالے کا اشاریہ جناب فاروق انصاری نے مرتب کیا جو فروری 1993ء میں دہلی سے شائع ہوا۔اس اشاریہ کو "ایوانِ اردو" کے شریک مدیر جناب مخمور سعیدی کی اجازت سے مرتب کیا گیا ہے۔اس کی آٹھ قسطیں اسی رسالے میں شائع ہوچکی تھیں۔ جس کو پھر مزید اضافے کے ساتھ کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔اس کی ضخامت تقریباً 187 صفحات ہے۔جن موضوعات کا اشاریہ تیار کیا گیا ان میں ادبی، تاریخی، ماحولیاتی اورسائنسی مضامین، افسانے، انشائیے، طنزو مزاح، کاکے، گوشۂ رفتگاں، ڈرامے، انٹر ویوز، رپوتاژ، سفرنامہ، غزلیں ،نظمیں وغیرہ شامل ہیں۔ یہ اشاریہ ابتداء یعنی مئی1987ء سے اپریل 1992ء تک کے سبھی شماروں پر مشتمل ہے جو کہ لگ بھگ ساٹھ شمارے بنتے ہیں۔رسالہ "ایوانِ اردو" کی ادارت کے فرائض مختلف اوقات میں مختلف حضرات سے انجام پائی۔ جن میں سید صادق علی، مخمور سعیدی،سید شریف الحسن نقوی،منصور احمد عثمانی،سید اشتیاق عابدی وغیرہ شامل ہیں ۔ کئی خصوصی نمبروں کی اشاعت کا فخر بھی اس رسالہ کو حاصل ہے۔فاروق انصاری نے اشاریہ" ایوان اردو"کو مصنف کے نام سے حروفِ تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا ہے۔مضامین کا خلاصہ بھی مختصراً پیش کیا گیا ہے۔مضامین سے متعلق اہم مکتوبات کو بھی مضمون کے ذکر کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔یقیناً یہ اشاریہ قارئین حضرات کے لئے راہِ راست کا باعث بن سکتا ہے۔ چونکہ یہ رسالہ ایک مدت سے نکل رہا ہے اس لئے اب اس کے تازہ اشاریہ کو مرتب کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ تاکہ اس سے مزید مدد حاصل کی جا سکیں۔
سر زمینِ پاکستان سے نکلنے والا ایک مایہ ناز رسالہ" نقوش" ہے۔جو کافی عرصے تک علم و ادب کی خدمت کرتا رہا۔ زبان و ادب سے متعلق بیش بہا سرماےۂ علم اس رسالے میں محفوظ ہیں۔رسالہ" نقوش "میں اردو ادب کے مشہور و معروف قلمکاروں نے اپنی تخلیقی اور فن جوہر کا مظاہرہ پیش کیا۔ہاجرہ مسرور، احمد ندیم قاسمی، سید وقار عظیم ، محمد طفیل، جاوید طفیل وغیرہ نے رسالہ" نقوش "میں بحیثیتِ مدیران کام کیا۔ان سبھی نے اپنا خونِ جگر سینچ کر رسالہ نقوش کو بلندیوں پر پہنچایا۔مارچ 1950ء میں رسالہ" نقوش "لاہور سے نکلنا شروع ہوا تھا اور تب سے جولائی 1987ء تک برابر علم و ادب کی خدمت کرتا رہا۔جنا ب مر حوم محمد طفیل صاحب کی کوششوں اور خواہش پر اس رسالے کا اشاریہ تیار کیا گیا۔اس کے مرتب سید جمیل احمد رضوی ہیں اس اشاریے کے دو حصے ہیں۔پہلا حصہ شمارہ 1 تا 18 پر مشتمل ہے جبکہ دوسرا حصہ شمارہ 19 تا 133 پر محیط ہے۔ اس اشاریے میں کتابوں پر تبصرے اور اشتہارات کو چھوڑ دیا گیا ہے۔پہلے حصے میں جن عنوانات کے تحت اشاریہ ترتیب دیا گیا ہے ان میں مقالات، نظمیں اور غزلیں ، افسانے و ڈرامے،خاکے اور طنزو مزاح، سمپوزیم ، متفرقات شامل ہے۔مقالات کے تحت اندراجات کی ترتیب لکھنے والے کے نام سے الفبائی ہے۔اندراج کے عناصر ترکیبی اس طرح ہے: مقالہ نگار کا نام ، عنوان مقالہ، شمارہ نمبر،خاص شمارے کا نام ( اگر موجود ہے) قوسین میں تاریخ اشاعت اور آخر میں وہ صفحات جن پر مقالہ موجود ہے اسی طرح باقی عنوانات کے ذیل میں بھی اندراجات کی ترتیب اسی طرح ہے۔دوسرے حصے کے عنوانات اس طرح دیے گئے ہیں : مقالات(دینی و ادبی مقالات اور مضامین) ، منظومات(حمدونعت، نظمیں، غزلیں)،شخصیات(بشمول آپ بیتی)، مکاتیب ، افسانے و ڈرامے(بشمول ناولٹ)،خاکے و طنزو مزاح، سمپوزیم،رپوتاژ،سفرنامہ،انٹرویو، متفر قات۔اس حصے میں بھی ہر عنوان کے تحت اندراجات کی ترتیب لکھنے والے کے نام سے الفبائی ہے۔ ہر اندراج کے عناصر ترکیبی کے بھی پہلے حصے میں مذکور ہ ترتیب سے ہیں۔ الغرض اشاریہ ماہ نامہ" نقوش" ہر اعتبا ر سے قارئین کی رہنمائی کرتا ہے۔اس اشاریے کی ضخامت 404 صفحات ہیں۔ اس میں سینکڑوں تخلیق کاروں کی تخلیقات اور مضامین کے عنوانات کا اندراج ہے ۔ ان تخلیق کاروں اور قلمکاروں کا نام رسالہ "نقوش" سے جڑا ہوا ہے جن کا طوطی نہ صرف اپنے وقت میں بولتا تھا بلکہ آج بھی ان کی خدمات سے استفادہ حاصل کر کے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ اشاریہ ہی ہماری اس سلسلے میں صحیح رہنمائی کرتا ہے۔
سہ ماہی" اقبال" ایک ممتاز علمی و ادبی مجلہ ہے۔اس کا اجراء جولائی 1952ء میں ہوا۔یہ مجلہ علامہ اقبال کی زندگی ، ان کے کلام اور فکر و فلسفے کی ترویج و تفہیم کے لیے شائع ہوتا ہے اور انہی کے نام سے منسوب بھی ہے۔اس مجلے میں مضامین کا تنوع نظر آتا ہے۔مختلف اور النوع علمی اور تحقیقی و تنقیدی مقالات کے علاوہ کتب و رسائل پر تبصرے بھی شائع ہوتے ہیں۔اس مجلے کے دو شمارے (اپریل ،اکتوبر) اردو زبان میں اور دو شمارے (جنوری،جولائی) انگریزی زبان میں چھپتے ہیں۔بیچ میں اس کی اشاعت کا سلسلہ اگر چہ منقطع بھی رہا ۔تاہم اس کے بعد تسلسل کے ساتھ شائع ہو رہا ہے (اب پتہ نہیں شائع ہوتا ہے کہ نہیں)۔ اس کے مدیران کی بات کریں تو سب سے پہلے مدیر جناب میاں محمد شریف تھے اس کے بعد محمد سعید شیخ مدیر اعزازی اور قائم مدیر مقرر ہوئے۔ اس کے بعد پروفیسر محمد عثمان،ڈاکٹر محمد جہانگیر خان، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وحید قریشی اس کے مدیر اعزازی مقرر ہوئے۔ ان سب خوبیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس رسالے کا اشاریہ تیار کرنا لازمی تھا۔یہ کام محترمہ اختر ا نساء نے انجام دیا۔ یہ اشاریہ اکتوبر 1952ء تا اکتوبر 1991ء/جنوری 1992ء پر مشتمل ہے اور بزمی اقبال لاہور اس کے ناشر ہیں۔اشاریہ مجلہ" اقبال" جلد 1 تا 38۔39 کے شماروں پر مشتمل ہے۔مضامین کی وضاحتی فہرست چار طرح سے پیش کی گئی ہے۔شمارہ وار اشاریہ، مصنف وار اشاریہ، موضوع وار اشاریہ اور تبصرہ کتب ۔ شمارہ وار اندراجات کی تفصیل زمانی اعتبار سے ترتیب دی گئی ہے۔جیسے جلد نمبر ، شمارہ نمبر،ماہ و سال، عنوان مقالہ، مصنف کا نام ، اور صفحات کی تعداد درج کی گئی ہے۔ مصنف وار اشاریہ میں جملہ تحریروں کے حوالے مصنف وار مرتب کیے گئے ہیں اس حصے میں مصنف کی شائع شدہ تمام تحریرات(مضامین، ترجمے، تبصرے اور منظومات) کے حوالے یکجا ملیں گے۔مصنف کے نام الفبائی ترتیب سے درج ہیں۔ ایک مصنف کی ایک سے زائد نگارشات کے حوالے زمانی ترتیب سے مرتب کئے گئے ہیں۔موضوع وار اشاریہ میں موضوعات کے تحت عام تحریروں کے حوالے ہیں تاکہ کسی خاص موضوع سے دلچسپی رکھنے والے قاری کو سارے متعلقہ حوالے یکجا مل جائیں۔موضوعات کی ترتیب الفبائی ہے اور ہر حصہ مصنف وار مرتب کیا گیا ہے۔ اشاریہ کتب و رسائل کی فہرست کو الفبائی ترتیب سے مرتب کیا گیا ہے۔ اشاریے کے ہر حصے میں مندرجہ ذیل معلومات فرہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مصنف کا نام، مضمون کا نام ، جلد نمبر ، شمارہ نمبر، تاریخ اشاعت، صفحات کی تعداد سب چیزوں کا ندراج ہے۔ انگریزی شماروں کی وضاحتی فہرست علا حدہ تیار کی گئی ہے اور یہ ترتیب بھی انہی اصولوں کے مطابق ہے جن کا ذکر سطور بالا میں ہوا ہے۔اس طرح رسا لہ مجلہ "اقبال" کا اشاریہ ہر اعتبار سے تحقیقی نوعیت کے کام سر انجام دینے والوں کی رہنمائی کر سکتا ہے ۔
رسالہ" نوائے وقت" کی ابتداء 23 مارچ 1940 ء میں ہوئی۔ اس کے بانی مدیر جناب حمید نظامی نے لاہور سے اس کا پہلا پندرہ روزہ پرچہ شائع کیا۔تحریک پاکستان میں نوائے وقت کے کردار سے کون واقف نہیں ہیں ۔یہی وہ اخبار ہے جس نے تحریک پاکستان کے دوران مسلمانانِ ہند کی بلعموم اور پنجاب کے مسلمانوں کی بلخصوص ذہنی آبیاری کی۔نوائے وقت نے نہ صرف ہر سطح پر بلکہ ہر محاز پر برصغیر کے مسلمانوں کے دشمنوں اور بدخواہوں کا تدبر و فراست سے مقابلہ کیا۔ہندو اور انگریز کی مخالفت میں گہری ہوئی مسلم لیگ کو ایک ٹھوس اور قابل اعتماد ،صحافتی،پلیٹ فارم مہیا کیا۔آزادی اور اسلام مخالف دشمن عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔رسالہ نوائے وقت کی مسلمانوں کی حمایت اور ان کی سرپرستی کے تئیں خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ سرفراز حسین مرزا نے پاکستان سٹڈی سنٹر پنجاب یونیورسٹی سے دسمبر 1987ء کو اشاریہ نوائے وقت شائع کیا۔انھوں نے اس اشاریہ کا موضوع ''سیاسیات ہند اور مسلمانوں کی جدوجہد آزادی ''رکھا۔660 صفحات پھیلایہ ذخیرہ انھوں نے رسالہ نوائے وقت کے دستیاب ریکارڈ 1944ء سے 1947ء کی فائلوں سے حاصل کیا ۔جس سے انھوں نے تحریک پاکستان کی ایک طویل دستاویزی روئیداد مرتب کی۔اشاریہ نوائے وقت کو سرفراز حسین صاحب نے دس ابواب میں منقسم کیا ہے جیسے آل انڈیا مسلم لیگ و صوبجاتی مسلم لیگیں، سیاسیات ہند اور مسلم لیگ، ہندو کانگریس اور دیگر سیاسی جما عتیں،مرکزی و صوبائی اسمبلیوں کی کا روائی ، شخصیات،فرقہ وارانہ فسادات،اقلیتیں،سیاسیات کشمیر اور باب دہم مضامین پر مشتمل ہیں۔آخر میں ضمیمہ اور انڈکس ہے۔
دس ابواب میں منقسم اس کتاب کے بارے میں سب سے پہلے تو یہ کہنا قابلِ ذکر ہوگا کہ وطن عزیز میں شائع ہونے والی یہ اپنی نوعیت کی پہلی حوالہ جاتی کتا ب ہے جو تحقیق کے سنگلاخ میدان میں سرگرداں افراد کے لیے خاص طور پر دلچسپی اور کشش کا باعث ہو سکتی ہے ۔ نیز یہ کتاب ان دانشوروں اور محققین کے لیے، جو تحریک پاکستان کے مختلف موضوعات پر تحقیق کر رہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں، ایک اہم بنیادی ماخذ ثابت ہو گی۔ نوائے وقت کی خبروں کے ذخیرے کو علٰحیدہ علٰحیدہ سرخیوں کے ساتھ مختلف حصوں میں اس طرح تقسیم کیا گیا ہے کہ ہر قاری اپنی پسند کے عنوان کے تحت دئیے گئے مندرجات کو بآسانی تلاش کر سکے کہ جن کی ترتیب مختلف موضوعات کے اعتبار سے تاریخ وا ررکھی گئی ہے۔ باب ششم کی سرخیاں شخصیات کے حوالے سے ترتیب دی گئی ہے جن کو حروف تہجی کے اعتبار سے رکھا گیا ہے۔باب دہم میں مضامین کے عنوانات کو شامل کیا گیا ہے اور ساتھ میں ایڈیٹر کا نام، ماہ و سال اور صفحہ نمبر بھی درج کیا گیا ہے۔اداریوں اور شذرات کو بہ لحاظ تاریخ وار ترتیب دیا گیا ہے جیسے ماہ و سال کے ساتھ عنوان اداریہ کا اندراج ہے۔غرض اشاریہ نوائے وقت تحریک آزادی کے سلسلے میں اردو ادب کے ذخیرے کو ملامال کر گیاہے۔
کتابیات
1۔ اشاریہ نقوش ؛ سید جمیل احمد رضوی ؛ ادارۂ فروغ اردو، لاہور ؛ جولائی1987ء ؛
2۔ اشاریہ رسالہ آجکل ڈاکٹر جمیل اختر ؛ اردو اکاڈمی، نئی دہلی ؛ 1988ء ؛ (جلد اوّل 1942ء تا 1988ء)
3۔ اشاریہ ایوانِ اردو ؛ فاروق انصاری ؛ شاہین ایڈورٹائزرس،دہلی ؛ فروری 1993ء
4۔ رسالہ نگار کا وضاحتی اشاریہ ؛ ڈاکٹر عطا خورشید ؛ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ 1994ء
5۔ ماہنامہ معارف کا اشاریہ ؛ ڈاکٹر عابد رضا بیدار اور شائستہ خان ؛ ناشر خود مصنف ؛ 1995ء
6۔ اشاریہ خدا بخش جرنل(1۔100) ؛ ادارہ ؛ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ ؛ 1996ء
7۔ اشاریہ سہ ماہی مجلہ اقبال اختر النساء بزمِ اقبال لاہور 1998ء
8۔ ہفتہ وار سچ کا توضیحی اشاریہ ؛ عبد العلیم قدوائی ؛ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ 2002ء
9۔ رسالہ معاصر کا توضیحی اشاریہ ؛ ڈاکٹر محمد نوراسلام ؛ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ 2002ء
10۔ ہفتہ وار صدق کا توضیحی اشاریہ ؛ عبدالعلیم قدوائی ؛ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ ؛ 2003ء
11۔ تنقید کے نئے اُفق ؛ ڈاکٹر جمیل اختر ؛ کتابی دنیا، نئی دہلی ؛ 2007ء ؛
12۔ نگاہِ طائرانہ ؛ مظہر امام ؛ ایجوکیشنل پبلشن ہاؤس، دہلی ؛ 2007ء
13۔ اشاریہ ماہنامہ نیا دور ؛ ڈاکٹر اطہر مسعود خاں ؛ رضا لائبریری ،رام پور ؛ 2009ء
14۔ اشاریہ خدا بخش جرنل(101۔150) ؛ ادارہ ؛ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ ؛ 2009ء
15۔ اشاریہ ماہنامہ تحریک مطیع اللہ خاں ؛ موڈرن پبلشنگ ہاؤس، دہلی ؛ 2011ء
16۔ اشاریہ معارف ؛ ڈاکتر جمشید احمد ندوی ؛ دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ ؛ 2012ء
17۔ اشاریہ رسالہ جامعہ ؛ شہاب الدین انصاری ؛ ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز، نئی دہلی 2012ء
18۔ رسالہ شاہراہ کا تجزیاتی مطالعہ اور اشاریہ ؛ نوشاد منظر ؛ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی 2014ء
رسائل
19۔ اسلامیات کے چند اہم اردو رسائل و جرائد کے اشاریے ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی سہ ماہی تحقیقاتِ اسلامی،علی گڑھ، یو پی جلد25،شمارہ4،دسمبر2006ء، ص40۔45
20۔ سہ ماہی فکرو نظر (علی گڑھ ) کا اشاریہ ؛ ڈاکٹر ضیاء الدین انصاری ؛ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ ؛ شمارہ نمبر 80، سال 1992ء، ص 295۔344 ؛
***
غلام نبی کمار
ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، دہلی یونی ورسٹی، نئی دہلی
ghulamn93[@]gmail.com
موبائل : 07053562468
غلام نبی کمار
ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، دہلی یونی ورسٹی، نئی دہلی
ghulamn93[@]gmail.com
موبائل : 07053562468
غلام نبی کمار |
Index of certain important Urdu literary magazines and journals. -Article: Ghulam Nabi Kumar
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںاشاریہ اردوجرائد
جواب دیںحذف کریںیہاں فائل اٹیچ نہیں ہے
آداب! بلال نظامی صاحب
جواب دیںحذف کریںکون سے فائل اٹیچ نہیں ہے
بہت اچھی کوشش ہے جناب
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ ناصر خان صاحب
جواب دیںحذف کریں