بات کہنے کا سلیقہ چاہیے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-07-13

بات کہنے کا سلیقہ چاہیے

Etiquettes-of-dialogue-and-speech
ان دنوں ذاکرنائک کا معاملہ موضوع بحث ہے ،جس پر چوطرفہ تکرارجاری ہے ۔ذاکرنائک کے ساتھ کیاہوگاکیانہیں یہ توآنے والاوقت ہی بتائے گالیکن قوی امکان یہی ہے کہ کچھ نہیں ہوگا۔اس سلسلے میں ملک کےمعروف اورمتوازن روزنامہ انقلاب کے ایڈیٹرشکیل حسن شمسی کے معروف کالم موضوع بحث میں تین قسطوں میں ان کے مضامین شائع ہوئے ۔عمومی طورپرشکیل حسن شمسی کااسلوب ،انداز اوران کاطریقہ کار پسند کیا جاتا ہے،وہ انتہائی صبروضبط ،معروضیت اورتحمل کے ساتھ لکھنےکے عادی ہیں ،جس کی وجہ سے ان کے کالم کو خاصی اہمیت اورشہرت بھی حاصل ہے اوروہ قولی وفعلی اعتبارسے بھی فرقہ وارانہ منافرت کو ہوادینے کے قائل نہیں ہیں ۔وہ اکثر اکثریت کی آراکا احترام کرنے والے اور مذہبی امورمیں بھی شدت پسندی سے پرہیز کرنے والوں میں شامل ہیں ۔
شکیل شمسی کے تین قسطوں پرمشتمل مضامین کے ردعمل میں وہ طوفان بدتمیزی کھڑاکیا گیا ،جس کی امید کسی بھی صا لح معاشرےکے متوازن اورمعتدل لوگوں سے نہیں کی جاسکتی ۔بدزبانی سے آگے بڑھ کر ان کے ماں باپ ،ان کے افراد خانہ ،خاندان اوران کے فرقےکو گالیاں دی گئیں ۔ان کے مخالفین دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ۔ان میں ایک نے اتحاد امت کی دہائی دی تودوسرے نے لاف وگزاف بکا ۔
ان کےمخالفین کے پہلے طبقےنے ماہرانہ انداز میں اتحادکی دہائی دیتے ہوئے صرف اس معاملے پر انہیں فرقہ پرست اوراتحاد امت کو پارہ پارہ کرنے والا قراردیا تودوسرے نے ماں بہن سے آگے بڑھ کر آرایس ایس ،اسرائیل اوردیگراسلام مخالف تحریکوں وتنظیموں کا انہیں ایجنٹ قراردیا۔حالاں کہ ان کاجرم صرف اتنا تھاکہ انہوں نے یزید کی حمایت کی وجہ سے ذاکرنائک سے اختلاف کیا تھا۔یہ کوئی نئی بات نہیں چوں کہ جمہورعلمائے اسلام نے نہ صرف یزید پرلعنت ملامت کی ہے بلکہ بعض نےلعنت کی اجازت بھی دی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ آج ذاکرنائک کومسلمانوں کی جن مخالفتوں کاسامنا ہے اس کی اصل وجہ کیا ہے کیا اس پرغوروفکر کی ضرورت نہیں ؟ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت یزید کے خلاف ہے اوررہے گی ۔ایسے میں یزید کواحترام کے ساتھ یادکرنا اتحادکی رسی کو کمزورکرنے کے مترادف نہیں؟اگرذاکرنائک کے عقائد توسل اوردیگربہت سے عقائد احناف سے میل نہیں کھاتے تواس کا برملا اظہاراوراس کےخلاف عوام کوبھڑکانا کیا اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا عمل نہیں ؟بات یہ ہے کہ جب تک کسی کی باتیں ہمیں اچھی لگتی ہیں اوروہ ہمارے مطابق بات کرتا ہے تووہ شخص ہمیں اچھا لگتا ہے اورجوں ہی وہ ہمارے اذہان وقلوب کے مخصوص سانچے کے خلاف بات کرتاہے ہم اس کے درپئے آزارہوجاتے ہیں اور الٹا چورکوتوال کو ڈانٹنا شروع کردیتا ہے ۔صورت حال یہ ہے کہ فی زماننا ہمارے افکارونظریات اپنے بھائیوں سے بھی کئی معاملات میں میل نہیں کھاتے ،بہت سے امورمیں بحث وتکرار کی نوبت تک آجاتی ہے توکیا ہم اپنے سگوں کوماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں ؟انہیں منافق اورایجنٹ قراردیتے ہیں ؟اورکیا یہی طریقہ کار ہمیں اسلام سکھاتا ہے ؟ایک طرف ہم سنی ہونے کا دعوی کرتے ہیں اوردوسری طرف اختلاف آراکا احترام نہیں کرپاتے ،کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہی ہےکہ جو کوئی ہم سے اختلاف کرے ہم بزوراوربزعم اس کی آواز دبانے کی کوشش کریں اوراگراس سےبھی بات نہ بنے تو اس کی ماں بہن کو گالیاں دیں ؟
ذاتی طورپر میں خود سنی ہوں اس کے باوجود میں اپنے جوانوں کے اس رویے کی مذمت کرتاہوں چوں کہ جس سنت سے منسوب کرکے ہم خود کو سنی کہلانا پسند کرتے ہیں، اس میں کہیں بھی اس بات کی گنجائش نہیں کہ ہم اپنے بدترین دشمنوں کوبھی ماں بہن کی گالیاں دیں ،چہ جائےکہ اپنے مسلک مخالف کو ۔ہم کیسے سنی ہیں کہ اختلاف آرا برداشت نہیں کرپاتے ،جب کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خودپرکوڑاپھینکنے والی خاتون کی عیادت سے بھی نہیں چوکتے اورہمارے علما ،دانشوران ،ذی علم حضرات کس طرح کی سوچ رکھتے ہیں کہ وہ ہر چھوٹے بڑے معاملےمیں تو قرآن واحادیث ،اجماع امت کی دلیل مانگتے ہیں لیکن جب کوئی اہل تشیع یا کسی اور فرقہ کا فرد ان کے موقف کے خلاف کسی کی مخالفت کرتا ہے تووہ اتحاد امت کی دہائی دینا ناگزیرسمجھتے ہیں اور اپنے جوانوں کی گالیوں پرمجرمانہ خاموشی اختیارکرلیتے ہیں اوراختلاف آرارکھنے والوں کے خلاف کم پڑھےلکھے بےشعورنوجوانوں کواس کے پیچھے ہانک دیتے ہیں کیا یہ عمل ویسا ہی نہیں ہے جیسا طائف میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت علی کے خلاف روارکھا گیا تھا۔مسلکی نظریات سے اختلاف سلامت رکھئے مگرغیرسماجی اورغیرانسانی رویوں کو ہواتو نہ دیجئے ۔بہت ہی افسردگی کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ جس اسلام اور رسول نے غلط القاب وآداب سے کسی کو مخاطب کرنے سےہمیں روکا ہے اسی کی تعلیم کے حصول میں رات دن اپنی زندگی صرف کرنے والے نئی نسل کے لوگ کس سوچ کے عادی ہوتے جارہے ہیں ،کہاں سے رسد حاصل کررہے ہیں تعلیم تو کچھ حاصل کررہے ہیں اوران کے رویے اس کے برخلاف جارہے ہیں آخرایسا کیوں ؟کیا واقعی ہمارے مدرسے ہماری نئی نسل کی تربیت اورتعلیم میں ناکام ہیں ؟یہ لمحہ فکریہ ہے کہ جن مدرسوں میں برسوں قیام کے بعد نئی نسل کے لوگوں کی زبان تک درست نہیں ہوپارہی ہے اس کی تعلیم کتنی ہوگی اس کا اندازہ لگانا کیوں کرمشکل ہوسکتا ہے ۔ ایک مدرسے کا طالب علم ہونے کے ناطے میں ایسی زبان کے استعمال پر حیرت زدہ ہوں ،سوچ رہاہوں کہ ہمارے تعلیمی نظام اتنے کمزورکیوں ہوتے جارہے ہیں کہ وہ اپنے طلبہ کوصا لح فکرونظرسے بھی آشنا نہیں کرپارہے ہیں ۔وہ کون سے درسگاہیں ہیں ،جہاں مخالفین کو گالیاں دینا سکھایا جاتا ہے ۔میری ان باتوں پر یقینا کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ تو اس شخص کا ذاتی فعل ہے ،جس نے گالیاں دی ہیں، مگرمیراسوال اپنی جگہ برقراررہے گاکہ آخربچے اسکول اور مدرسے میں جاتے ہی کیوں ہیں ،میرے خیال میں حصول تعلیم کے ساتھ ہی ساتھ تہذیب ذہن ودماغ ،تربیت قلب وجگر اگر کوئی مدرسہ اوراسکول اپنے طلبہ کی نہیں کرپاتاتواس کی بقاکاجوازکیا ہے ؟
ہمارے سامنے رسول اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ آئینہ کی طرح صاف وشفاف ہے ۔ان کی زندگی کا ایک ایک ورق عیاں ہے ان اوراق کو صرف مدمخالف کو زیرکرنےکےلیے استعمال میں نہ لایاجائے ،خود کو بھی اس آئینے میں رکھ کر دیکھا جائے ۔اسلام نے خوداحتسابی کو جو اہمیت دی ہے وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔ہمیں اپنااحتساب بھی کرنا ہوگااگرہمیں موقع پڑنے پراتحادکی ضرورت ہوتی ہے تو دوسروں کو بھی صرف قولی طورپر نہیں عملاً اتحادپیش کرنا ہوگا۔بہت سارے مواقع ایسے آتے ہیں جب دوسروں کوبھی آپ کے اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت تو آپ فتوے دیتے ہیں اورخود کو سب سے بڑا مفتی سمجھتے ہیں پھر دوسروں سے اتحاد کی امید ہی کیوں رکھتے ہیں ۔ کہنے دیاجائے کہ ذاکرنائک سے اختلاف یا اتحاد اتنابڑامسئلہ نہیں ہے ۔جتنابڑامسئلہ مسلمانوں کی اکثریت کو تکلیف پہنچاتے ہوئے یزید کو رحمۃ اللہ علیہ ، یا رضی اللہ عنہ کہنا۔اگرہمیں ایک مسلمان کو کسی کے شرسے محفوظ رکھنےکے لیے اتحاد کا مظاہرہ کرناچاہیے تو اسلامی تاریخ کو بھی شرسے محفوظ رکھنے کےلیے یزید کی مذمت اور یزیدی اعمال کی مذمت ناگزیرہے ۔اگرآپ توسل کو نہیں مانتے تویہ آپ کو یادرکھناچاہئےکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد توسل کو اپناعقیدہ تسلیم کرتی ہے اوراس کے بھی جذبات کا احترام آپ کو کرناچاہیے اگرآپ ایسانہیں کرپاتے تومعذرت کے ساتھ مجھے کہناہوگاکہ پھرکوئی دوسراآپ کے جذبات واحساسات کااحترام کیوں کرےگا ؟اگرآپ رسول اسلام کو اپنی طرح تسلیم کرتے ہیں تو دوسرابھی ویساہی خیال کرے یہ ضروری نہیں آپ اس پرزورنہیں ڈال سکتے وہ اپنے عقائد واعمال اورمستحبات میں آزاد ہے ۔آپ بزوراسے اس کے عقائد سے منحرف نہیں کرسکتے ۔آپ اس کے عقائد کو تسلیم کریں یانہ کریں مگراسے ذہنی وفکری طورپرٹارچرکرنے کا آپ کو کوئی حق حاصل نہیں ہے ۔
اسلام نے کسی پر تعلیم کا دروازہ بندنہیں کیا ہے ۔چھوٹی ذات ہو یابڑی ،ادنی ہو یااعلی ،عربی ہو یاعجمی ،سنی ہو یاشیعہ سب کو تعلیم حاصل کرنے اور سوچنے کا حق حاصل ہے ۔آج کسی بھی طبقے کو اپنے مخالف طبقے کے کسی مفتی کی چنداں ضرورت نہیں ۔اس کےپاس اپنے مفتی ہیں ،اپنی کتابیں ہیں ،اس کے مجتہدین اوردانشوران ہیں ،وہ سوچ رہے ہیں ،سمجھ رہے ہیں ،اپنے اپنے طورپر عمل کررہے ہیں ۔اگر آپ کو لگتا ہے کہ کوئی مسلمان اسلام کے کل میں تحریف کامرتکب ہورہا ہے تو اسے ادعواالی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ کے تحت دعوت اسلامی طریقے پردیں اس سے مجادلہ مناظرہ نہ کریں اس سے مکالمہ کریں اور مکالمے کا طریقہ سیکھنے کےلیے پہلے رسول اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ،اہل بیت اطہار،صحابہ کرام ،اسلام سے غیرمانوس ممالک میں دعوت دین کا کارنامہ انجام دینے والےمصلحین امت کی زندگیوں سے سیکھیں نہ کہ دہشت گردوں کو اپناآئیڈیل بنائیں ۔نرم دم گفتگو گرم دم جستجو کاسلیقہ سیکھیں ،نیم بوکرآم کی توقع رکھنا نصف النہارمیں خواب دیکھنے کے مترادف ہے ۔اس لیے آم کی شجرکاری کریں اورآم کی توقع رکھیں ۔

نورین علی حق

The need of Etiquettes of dialogue and speech. -Article: Noorain Ali Haq

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں