اسکولوں کے معیار تعلیم اور فنڈز کی کمی پر تشویش کا اظہار - نائب صدر حامد انصاری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-03-22

اسکولوں کے معیار تعلیم اور فنڈز کی کمی پر تشویش کا اظہار - نائب صدر حامد انصاری

نئی دہلی
یو این آئی
نائب صدر حامد انصاری نے اسکول کی تعلیم کے معیار اور فنڈز کی کمی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مفت اور لازمی تعلیم کے حق سے متعلق قانون کے بہتر نفاذ کے لئے منریگا کی طرح اس قانون کا بھی خاص طور پر آڈٹ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ڈاکٹر انصاری نے آج یہاں تعلیم کے حق سے متعلق انون کے چھ سال کی تکمیل پر منعقد ایک قومی کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے یہ بات کہی ۔ کانفرنس میں تعلیم کے حق سے متعلق قانون کے نفاذ پر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کا بھی مطالبہ کیاگیا ۔ کانفرنس کا انعقاد حق اطلاعات( آر ٹی آئی) فورم نے کیا ہے ۔ نائب صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ تعلیم کے حق سے متعلق قانون کا نفاذ صرف آزادی کے بعد ملک کا سب سے بڑا واقعہ نہیں ہے بلکہ دنیا کا ایسا پہلا قانون ہے جو بنیادی تعلیم کی پوری طرح ذمہ داری حکومت کو دیتا ہے لیکن اس کے چھ سال پورے ہونے کے باوجود اس میں متعدد کمیاں ہین۔ آج ملک میں دیہی اور شہری تعلیم کے درمیان کھائی بنی ہوئی ہے اور امیر اور غریب بچوں کی تعلیم میں فرق بنا ہوا ہے ۔ اسکولوں میں داخلوں میں اضافہ ہونے کے بعد بھی ڈراپ آؤٹ کا مسئلہ بنا ہوا ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ 60لاکھ بچے ہندوستان میں ہی اسکول سے باہر ہیں ۔ نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ان میں76فیصد بچے دلت اور قبائلی نیز اقلیتی معاشرے کے ہیں ۔ اس کے علاوہ اسکولوں میں ذات کی بنیاد پر امتیازی سلوک بھی جاری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں66فیصد بچے سرکاری اور حکومت کی امداد یافتہ اسکولوں میں پڑھتے ہیں جب کہ تعلیم کا بجٹ جی ڈی پی کا3.5فیصد سے بھی کم ہے جو اب بھی قومی تعلیمی پالیسی میں مقررہ 6فیصد سے کافی کم ہے۔ اتنا ہی نہیں پانچ سال میں سروشکھا ابھیان کے بجٹ میں بھی چھ فیصد کی کمی آئی ہے ۔2012-13میں23873کروڑ سے گھٹ کر2016-17کے بجٹ میں22500کروڑ روپے ہوگیا ہے ۔2015-16میں گزشتہ سال ستمبر تک اس ابھیان کے لئے بجٹ کی57فیصد رقم ہی جاری ہو پائی نائب صدر محمد حامد انصاری نے کہا کہ گزشتہ پانچ سال میں سرو شکشا ابھیان میں1,15,625کروڑ روپے خرچ ہونے کے باوجود معیار کا سوال بنا ہوا ہے۔ سال2012کی گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابق ہندوستان 120ممالک میں تعلیم کے میدان میں102ویں نمبر پر ہے۔6سے14سال کے بچوں میں کتابیں، پڑھنے، لکھنے اور سمجھنے اور دیگر طرح کی مہارت میں کمی آئی ہے جو تشویش کی بات ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اسکولوں میں ٹیچروں کی کمی اور تربتی کے فقدان میں بھی معیار متاثر ہورہے ہیں۔ پانچ لاکھ اساتذہ کے عہدے خالی ہیں اور چھ لاکھ60ہزار اساتذہ کو تربیت بھی نہیں دی جاسکی ہے ۔ دس فیصد اسکولوں میں صرف ایک استاد ہے ۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق مہاراشٹرا میں15فیصد سے لے کر جھار کھنڈ میں42فیصد ٹیچرس اسکولوں سے غائب رہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اچھے ٹیچرس کی ضرورت ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ان کی تنخواہ اچھی ہو اور ان کی بہتر انداز میں تقرری کی جائے۔ تعلیم کے حقوق سے متعلق قانون کے نفاذ کی نگرانی ریاست کے تعلیمی محکموں کی ہے پر اس کو منریگا کی طرح آڈٹ کرائے جانے کی ضرورت ہے ۔ آر ٹی آئی فورم کے صدر اور سابق خارجہ سکریٹری مچکنددوبے نے کہا کہ ہندوستان کو عظیم اور ترقی پذیر قوم بنانے کے لئے اور بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اسے مضبوطی سے قائم کرنے کے لئے تعلیم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ کسی بھی قوم تعلیم کے بغیر تیار نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے اس کے لئے پارلیمنٹ کا ایک خصوصی اجلاس بلانے کا بھی مطالبہ کیا ۔ کانفرنس کو نیشنل یونیورسٹی آف ایجوکیشنل اینڈ پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن( این یو ای پی اے) کے پروفیسر جے وی جی تلک اور آر ٹی کے کنوینر امبریش رائے اور یونیسیف کے ہندوستان کے نمائندے لیوس جارج اسینالٹ نے خطاب کیا۔ کانفرنس میں مشہور ماہر اقتصادیات جیتی گھوش ، پروین جھا، آرگووندا، شانتا سنہا جیسے ماہر تعلیم حصہ لے رہے ہیں۔

Vice President Hamid Ansari advocates special audit mechanism for RTE

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں