مظفر نگر فسادات - مقامی ضلع انتظامیہ اور انٹلی جنس ذمہ دار - عدالتی کمیشن رپورٹ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-03-07

مظفر نگر فسادات - مقامی ضلع انتظامیہ اور انٹلی جنس ذمہ دار - عدالتی کمیشن رپورٹ

لکھنو
یو این آئی
جسٹس(ریٹائرڈ) وشنو سہائے جو ڈیشیل کمیشن جس نے اتر پردیش میں مظفر نگر فسادات کی تحقیقات کی ہے اس نے2013فسادات کے لئے مقامی ضلع انتظامیہ اور انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ان فسادات میں68افراد فوت ہوئے اور50ہزار افراد بے گھر ہوئے ۔ تحقیقات کے حقائق اور سماج وادی پارٹی کی عملدرآمدرپورٹ کو ریاستی اسمبلی میں رکھا گیا ۔ عدالتی تحقیقات میں جہاں مقامی ارباب مجاز کو فسادات روکنے میں ناکام بتایا گیا وہیں بالآخر فسادات پر کنٹرول کرلینے پر ان کی تعریف بھی کی گئی ۔ کمیشن نے کہا کہ مہا پنچایتوں میں مجمع کے بارے میں انٹلی جنس نے قبل ازیں اندازہ نہیں کیا تھا ۔ یہ فسادات کی اصل وجوہات میں سے ایک ہے ۔ کمیشن نے اکھیلش یادو حکومت کو کلین چٹ دی ہے اور اس وقت کے مظفر نگر کے ایس ایس پی سبھاش چندر دوبے اور مظفر نگر کے مقامی انٹلی جنس انسپکٹر پریل پرتاب سنگھ کو فسادات کے راست ذمہ دار قرار دیا ہے ۔ تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو شل راج شرما کا رول بھی جانچ کے دائرہ میں ہے ۔ حکومت نے اپنی عملدرآمد رپورٹ میں فسادات میں دوبے کے تسائل کی محکمہ واری تحقیقات شروع کرنے کا حکم دیاتھا۔ انٹلی جنس انسپکٹر پریل پرتاب سنگھ سے ان کے رول اور تسائل پر ایک تشریح بھی طلب کی گئی ہے۔ حکومت نے بھی ڈسٹرکٹ، مجسٹریٹ کو شل راج شرماسے دو نکات پر تشریح چاہی ہے ۔ ایک تو یہ کہ وہ مہا پنچایت میں مجمع کا اندازہ نہیں کرسکے ۔ دوسری بات یہ کہ سیاسی و مذہبی رہنماؤں کی جانب سے کی گئی اشتعال انگیز تقاریر کی ویڈیو ریکارڈنگ کیوں نہیں کی گئی ۔ رپورٹ میں فسادات رونما ہونے والے واقعات کو تسلسل سے بیان کیا گیا ہے ۔ تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ دو ہندو نوجوانوں سچن اورگورو کے قتل میں ماخوذ14افراد کو رہا کردئیے جانے سے فرقہ میں برہمی بڑھ گئی ۔ اس سے یہ پیام ملا کہ ضلع کے ارباب مجاز مسلم فرقہ کے زیر اثر کام کررہے ہیں۔ فسادات رونما ہونے کی مختلف دیگر وجوہات بھی بتائی گئیں۔ جہاں تک بی جے پی کے رکن اسمبلی سنگیت سوم کے رول کا تعلق ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قائد اور دیگر229کے خلاف مبینہ طور پر یوٹیوب پر فرضی ویڈیو اپ لوڈ کرنے پر پہلے ہی سے تحقیقات زیر دوراں ہے ، چنانچہ حکومت کی جانب سے ان کے خلاف مزید کوئی ایکشن شروع نہیں کیا جاسکتا ۔ تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ کئی خاطی افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کئے جاچکے ہیں ۔ چنانچہ ان کے خلاف کسی تازہ کیس کی ضرورت نہیں ہے ۔30اگست2013ء کی مسلم پنچایت کا جہاں تک تعلق ہے ایک کیس سیاست دانوں قادر رانا، نور سلیم رانا، راشد صدیقی، احسن قریشی اور دیگر کے خلاف پہلے ہی رجسٹرڈ ہے اور اس طرح مزید کوئی ایکشن نہیں لیاجاسکتا ہے ۔ اس طرح7ستمبر2013کو ہندو مہا پنچایت منعقد ہوئی ۔ یہ الزام عائد کیا گیا کہ نفرت انگیز تقریریں کی گئیں لیکن چونکہ کوئی ویڈیو ریکارڈنگ نہیں کی گئی اس لئے کسی کو بھی نفرت انگیز تقریر کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ پنچایت کے کئی کیسوں میں مقامی انٹلی جنس وہاں جمع لوگوں کا اندازہ قائم کرنے میں ناکام رہی ۔ رپورٹ میں میڈیا پر بھی الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے تشدد کی رپورٹس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے فسادات کو ہوا دی۔ انہوں نے اپنی سماجی ذمہ داری کو نہیں نبھایا۔ کمیشن نے کہا کہ فسادات( جو مظفر نگر ، شاملی ، باغپت ، سہارنپور ، اور میرٹھ تک پھیل گئے تھے) پچھلے سال ستمبر میں قائم کردہ مظفر نگر فسادات کے عدالتی کمیشن نے اپنی فائنل رپورٹ ریاستی حکومت کو پیش کردی ہے ۔ یہ سات حصوں میں700صفحات پر مشتمل ہے ۔ کمیشن نے تحقیقات کے دوران377افراد سے جرح کی ہے جن مین100سینئر عہدیدار شامل ہیں ۔ سوم جنہیں فسادات کے لئے ایک اور پارٹی کے رکن اسمبلی سریش رانا کے ساتھ بک کیا گیا ہے ۔ انہوں نے تحقیقاتی رپورٹ پر پہلے ہی سوالات کھڑے کئے ہیں۔ انہوں نے اسے امتیازی قرار دیااور کہا کہ یہ سماج وادی پارٹی کی تیار کردہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جب عدالتی کمیشن نے فسادات کے بارے میں ہمارے بیان نہیں لئے ہیں، تب ہم پر فسادات کا الزام کس طرح عائد کیاجاسکتا ہے ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ یہ حکمراں پارٹی کو بچانے کے لئے تیار کردہ یکطرفہ تحقیقات تھیں۔

Muzaffarnagar riots panel report , the “negligence” of the local administration, the “failure” of the intelligence

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں