جوتا نامہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-12-13

جوتا نامہ

The Shoes
اس زمانے میں تو ، جوتے اپنی قیمتوں کی وجہ سے بجائے پیروں میں پہننے کے سروں پہ رکھنے لائق ہو گئے ہیں۔ ایک جوڑی جوتا خریدنے کے لیے انسان کو کتنے ہی دنوں تک پلس مائینس کرتے ہوئے کاٹ کسر سے کام لینا ہوتا ہے تب کہیں جا کر وہ جوتے پانے کے لائق ہوتا ہے۔
جوتے خریدنے کے بعد انہیں سنبھالے رکھنے کے عجیب و غریب مراحل بھی اہل جوتا کے لیے پریشانی کا باعث ہوا کرتے ہیں۔ نامۂ محبوب کی طرح چھپانے اور ہتھیلی کے چھالے کی طرح سنبھالنے کے باوجود بھی انہیں چوری ہو جانے کی لت ہوتی ہے۔۔۔۔ اور یہ چوری ہو جاتے ہیں۔ اب کسی دوسرے جوتے کی دستیابی کا دار و مدار آپ کی جیب پر ہوتا ہے یا پھر نزدیک پاس کے علاقے میں مسجد کی دستیابی اور نماز کے اوقات پر منحصر رہتاہے۔ آج کل اچھے سے اچھے جوتے کھونے اور پانے کا ایک معتبر اور قابلِ بھروسہ مقام تقریب گاہوں کے ساتھ ساتھ عبادت گاہوں کو بھی گردانا گیا ہے۔

اس زمانے میں جوتوں کی اونچی قیمتوں نے اہلِ جوتا کے ساتھ عجیب سازش رچی ہے۔ پتہ نہیں وہ کون سے زمانے تھے جب جوتے انسانی پیروں کی حفاظت پہ مامور ہوا کرتے تھے۔ جب کہ ہم نے تو آنکھ کھولی تب سے انسان کو جوتوں کی حفاظت پہ مامور دیکھا ہے۔ اہلِ جوتا کو جوتوں کا چوکیدار ہی پایا ہے۔ شاید جس زمانے میں خلیل خاں صاحب فاختہ اُڑا کر امن و چین کی بنسی بجایا کرتے تھے ٹھیک اس زمانے میں شاید جوتے بھی ہمارے پیروں کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے۔ مذکورہ خلیل خاں کے تعلق سے ہم ہمیشہ ہی شش وپنج میں مبتلا رہتے آئے ہیں کہ خدا جانے ان کے پاس کہاں سے اتنا فاضل وقت آئے چلا جاتا تھا جو یہ بے محابا فاختائیں اُڑا کر ایک عالم کو حواس باختہ کیے جاتے تھے۔ جب کہ انہی خلیل خاں کو پتنگ، کبوتر، گل چھرّے افواہیں اور بے پرکی یہ تمام چیزیں اُڑانے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی۔

خیر، خدا قادرِ مطلق ہے وہ اپنے بندوں سے جتنے اور جیسے کام لیناچاہتا ہے لیتا ہے۔ جوتوں کے پرستار انسان ہی نہیں محکمے بھی ہوا کرتے تھے۔ محکمۂ پولس تو جوتوں کا سب سے بڑا فین واقع ہوا ہے۔ اس محکمہ میں جوتوں کو اہلِ جوتا پر زبردست فوقیت دی گئی ہے۔ بلکہ جوتوں کی صحیح دیکھ بھال کو پولس قوانین میں خاص مقام حاصل ہے۔ جوتوں کی غلط دیکھ ریکھ اورناقص تربیت پرپولس ملازمین کے انکریمنٹ اور پروموشن رک جاتے ہیں۔ گویا یہ محکمہ جوتوں ہی پر اپنی ایڑی چوٹی کا سارا زور صرف کردیتا ہے۔ اس لیے ہمارا خیال ہے کہ مذکورہ محکمہ کو جوتوں سے شغل فرمانے کے لیے کھلا چھوڑدینا چاہیے اور لا اینڈ آرڈر کی ذمہ داری کسی اور محکمہ کو دے دینی چاہیے۔

گزشتہ زمانوں میں سر کی پگڑی عزت کا استعارہ تھی اسے پیروں پہ رکھ کر بگڑ ے کام بنا لیے جاتے تھے۔ جوتوں کی چڑھی ہوئی قیمتوں کے باعث امید کی جا سکتی ہے کہ اب اکیسویں صدی میں بجائے پگڑیوں کے جوتوں کو ہماری عزت کی نمائندگی کا حق مل جائے گا۔
"جوتوں میں دال بٹنا" یہ محاورہ ہمارے سنہرے دور کی یادگار بن کر رہ گیا ہے۔ آج کل یہ محاورہ منظر کا روپ دھار کر رونما ہونے سے اس لیے کترا رہا ہے کہ ان دنوں جوتے اور دال دونوں چیزیں اپنی قیمتوں کی وجہ سے نوادرات میں شامل ہو گئی ہیں اور بات یہاں تک پہنچی ہے کہ اگر ہم سے کوئی بیک وقت جوتا او ردال خریدنے کا ارادہ ظاہر کرے تو۔۔۔۔۔ "یہ منہ اور مسور کی دال" کا طعنہ اس پر اُچھال دیا جاتاہے۔ اب چونکہ جوتے اور دال یہ دونوں اشیا ہماری دسترس سے نکل چکی ہیں اس لیے یہ پیروں اور ہانڈیوں سے کوچ کر کے محاوروں میں پڑاؤ ڈال گئی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فی زمانہ،جوتوں کی ہمہ جہت کارگذاریاں بڑے گل کھلا رہی ہیں۔ جوتے پہننے کے بجائے کھانے، مارنے اور پھینکنے کے عمل میں زیادہ مصرو ف رہنے لگے ہیں۔ یہ واقعہ ہے کہ آج کل جس کسی رہنما یا سربراہ مملکت کی جانب جوتا پھینکا جاتاہے تو وہ رہنما اور سربراہ دیکھتے دیکھتے عظیم شخصیت میں بدل جاتا ہے۔ پرنٹ میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر خوب تشہیر ہوتی ہے اور پھر اسے ساتویں آسمان پَہ بٹھا دیا جاتا ہے۔
جوتوں کے اس اعجاز کے باعث ہی آج کل ہر چھوٹا بڑا رہنما اس آرزو میں جئے جارہا ہے کہ دیکھیں کب اس کی قسمت یاری کرتی ہے اورکب اس پہ جوتا پھینکا جاتاہے۔

اس کے علاوہ گزشتہ زمانے میں عورت کو "پیر کی جوتی" کہا جاتا تھا۔ شاید اس زمانے میں جوتیاں بہت ہی زیادہ ارزاں تھیں اس لیے خواتین بھی اس محاورے کا خاص نوٹس لیا کرتی تھیں لیکن اب زمانے نے جوتوں اور جوتیوں کے حق میں کروٹ بدلی ہے یعنی عزت اور وقار جوتوں کے ہاتھ آ گیا ہے تو۔۔۔ اب ہماری خواتین اوران کی انجمنوں کو چاہیے کہ وہ آندولن کر کے سبھائیں لے کر بھوک ہڑتالیں کر کے ۔۔۔۔۔ "پیر کی جوتی" اس محاورے کو پریکٹس میں لائیں تاکہ مرد،عورت کو بھی اپنے جوتوں ہی کی طرح سینت سینت کر رکھ سکیں، ان کی حفاظت کر سکیں۔ اگر ہماری خواتین خود کو مرد کے پیر کی جوتی ثابت کروا کر اپناپرانا حق واپس لینے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو یہ آج کی خواتین کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔

***
Babu R. K.
فون : 09890985449

The Shoes, humorous essay. Article: Babu R. K.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں