حلوائی بازار میں واقع یہ مکان عبدالخلیل کا ہے۔مذکورہ خبر کی اشاعت کے بعد ایک طرف جہاں انتظامیہ اور پولس حرکت میں آگئی وہیں دوسا کے حلوائی بازار کے مکین بھی حیرت میں پڑگئے۔انہوں نے اس خبر کے خلاف پورے جوش وخروش کے ساتھ احتجاج بھی کیا لیکن خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ انہوں نے جوش میں ہوش قائم رکھے۔انہوں نے کوئی توڑ پھوڑ نہیں کی۔اشتعال انگیز نعرے نہیں لگائے۔بسوں میں آگ نہیں لگائی۔راستہ نہیں روکا۔انہوں نے اپنے برادران وطن کو بھی اپنے ساتھ لے لیا اورانہیں بتایا کہ دیکھئے ہمارے مکان پر کون سا جھنڈا لگاہوا ہے لیکن اس اخبار نے کون سا جھنڈا لکھا ہے۔انصاف پسندہندو بھائیوں نے بھی حلوائی بازار کے مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ادھر پولس نے بھی اپنے طورپر تحقیقات کیں اور معلوم ہوا کہ یہ معمول کا جھنڈا ہے جو بعض مسلمان ربیع الاول کی مناسبت سے اپنے گھروں پر لگاتے ہیں۔اس جھنڈے پر چاند تارہ ضرور بنا ہوا ہے لیکن اس پر پاکستان کا کوئی نشان نہیں ہے۔یہ جھنڈا سیاسی نہیں بلکہ مذہبی ہے۔اور یہ صرف دوسا میں ہی نہیں بلکہ ملک کے دوسرے بہت سے حصوں میں لگایا جاتا ہے۔
پولس کا رویہ یقیناً قابل تعریف رہا۔اس نے مکان مالک عبدالخلیل کی تحریری شکایت اور وضاحت پر کارروائی کرتے ہوئے فوراً مقدمہ قائم کیا اور خطاکار رپورٹرکو گرفتار کرلیا۔حالانکہ ہندوستانی پولس نے اپنی جو شبیہ بنالی ہے اس کی روشنی میں ہونا یہ چاہئے تھا کہ پولس آناً فاناًمالک کو گرفتار کرتی‘اخبارات میں بڑی بڑی سرخیاں لگتیں اور ٹی وی چینل دن بھر یہی رٹ لگائے رہتے کہ راجستھان پولس نے دہشت گردوں کے ایک خطرناک گروہ کو پکڑلیا ہے اور یہ کہ ان کے تار پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں۔نہ جانے کس کس پر آفت آتی اور پورے ملک کے مسلمانوں کے نام نہاد قائد یہی سمجھتے رہتے کہ ہوسکتا ہے کہ دوسا کے یہ مسلمان دہشت گردوں کے حامی ہوں۔لیکن پولس نے ایسا نہیں کیا جس کے لئے وہ فی الواقع ہم سب کے شکریہ کی مستحق ہے۔ یہاں ایک وضاحت اور ضروری ہے کہ پولس کا رویہ شایداتنا اطمینان بخش اورسریع الحرکت نہ ہوتا اگر رپورٹر نے اپنی رپورٹ میں پولس اور ایجنسیوں کو’’غفلت ‘‘کے لئے سخت سست نہ سنائی ہوتیں۔لیکن پھر بھی پولس پورے ہندوستان کے اور خاص طورپر راجستھان کے مسلمانوں کے شکریہ کی مستحق ہے۔اس موقع پر خود دوسا کے مسلمان بھی مبارکباد اور شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بھرپورفہم وشعورکا ثبوت دیا اور قانونی گرفت کا مضبوط اور موثر اقدام کیا۔واقعہ یہ ہے کہ پورے ملک کے مسلمانوں کو ایسے مواقع پر اسی طرح کے طرز عمل کو اختیا رکرنے کی ضرورت ہے۔خاص طورپر ایسے میں کہ جب شدت پسند عناصر کے بال وپر نکل آئے ہوں اور انہیں کسی قسم کا کوئی خوف وخطر نہ رہا ہو۔ہمیں ایک طرف جہاں اپنے قانونی اور آئینی حقوق کا بھرپور استعمال کرنا ہے وہیں اپنے انصاف پسند برادران وطن کو ساتھ لے کر صحیح صورت حال سے آگاہ کرانا ہے۔ہمیں پولس اور انتظامیہ کے ان افسران کی تالیف قلب بھی کرنی چاہئے جو قانون کی بالادستی کو مقدم رکھتے ہیں اورجو سیاسی زہرناکی سے پاک ہیں۔اس ضمن میں دوسا کے ایس پی ‘ایس ایچ او‘جے پورکے آئی جی اور ایس ڈی ایم قابل تعریف ہیں جنہوں نے صورت حال کی نزاکت کو سمجھا اور اتنے بڑے اخبار کے انتہائی غیر ذمہ دار صحافیوں کے خلاف قانونی شکنجہ تنگ کردیا۔یہاں راجستھان کی وزیر اعلی وسندھرا راجے اورطوعاً وکرہاً ہی سہی وزیر اعظم کا بھی شکریہ!
***
موبائل : 9810041211
Editor-in-chief VNI & Media Adviser to President IICC, New Delhi
موبائل : 9810041211
Editor-in-chief VNI & Media Adviser to President IICC, New Delhi
ایم ودود ساجد |
Our Thanks to Rajashtan Police. Article: M. Wadood Sajid
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں