تکثیریت کی جیت - فرقہ واریت کی ہار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-11-09

تکثیریت کی جیت - فرقہ واریت کی ہار

Bihar Grand Alliance victory
2014ء میں جب سے بی جے پی بر سر اقتدارآئی ہے ، اس نے ہر دفعہ فرقہ واریت کابیچ بویا ہے ، ترقی، مساوات، رواداری اورسب کا ساتھ سب کاوکاس کے نعرہ کے ساتھ بر سر اقتدار آنے والی بی جے بی جس تیزی کے ساتھ ملک کے منظر نامہ پر چھائی ، جس بھاری جیت کے ساتھ اس نے پارلیمنٹ کے الیکشن جیتے تھے ، اس کی تنزلی اور اس کا گراف بھی اسی تیزی کے ساتھ گر تاگیا، بی جے کے آئے دن ملک میں غیر مقبول ہونے میں اس کی انانیت ، خود سری، تکبر اور عدم روادار ی اور بھید بھاؤ کی سیاست تھی ، جس کے لئے اس نے کتنے ہی داؤ پیچ کھیلے ، کتنے ہی متنازعہ بیانات اور خصوصا اقلیتوں کو پریشان کرنے والے شوشے چھوڑے، لوجہاد، گھر واپسی، گاؤ کشی پر پابندی وغیرہ نہ جانے صرف 18ماہ میں مودی اینڈ کمپنی نے اقلیتوں کو ہراساں کرنے کے لئے کیا کیا اصطلاحات گھڑی، سادھوی پراچی، ساکشی مہاراج، آدھتیہ ناتھ جیسے بی جے پی لیڈران کاکام تو بس جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کرنے کا تھا، یہ ہر مسئلہ میں خصوصا اقلیتوں کے تعلق سے اپنے تیر ونشتر سے بھری زبانوں سے وار کرتے ، اس کے علاوہ بی جے پی جن ترقی اور خوشحالی کے وعدوں کے ساتھ بر سر اقتدار آئی تھی ، صرف یہ بیانات زبانی جمع خر چ ثابت ہوئے ، پارلیمانی انتخابات کے بعد ہریانہ میں اس نے 90میں سے 47اور مہاراسٹرا میں 288میں سے 122اور جھاڑکھنڈ میں 81میں سے 42سیٹ جیتے تھے ، پھر اس کے بعد کشمیر میں بھی بے جے پی نے پہلی دفعہ 25سیٹیں حاصل کی تھی جس کی بناء پر ایسے لگ رہا تھا کہ مودی اور امیت شاہ کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا ہے ، ہندوستان کے باسی بجائے اس کے وہ سیکولرزم اور جمہوریت پر ایقان رکھتے ہیں، فرقہ واریت کی جانب ان کا ذہن مبذول ہونے لگاہے ، لیکن یہ بات اس وقت غیر درست ثابت ہوئے جب کیجریوال نے دہلی انتخابات میں بی جے پی کے غبارے کی ہوا اتاردی اور آپ نے منجملہ 70کے 67پر جیت درج کر کے بی جے پی کے مصنوعی اور زبانی دعوؤں کی قلعی کھول دی اور انصاف اور جمہوریت کی حکومت کی ہندوستان میں پھر سے آمد کا بغل بجادیا، نتیش کمار نے بذات خود پہنچ کر کیجریوال کو اس موقع سے مبارک بادی دی تھی، یہی وہ تال میل تھا جس نے مہاگٹھ بندھن کے وجود میں آنے اور بی جے پی کی فرقہ واریت پر روک لگانے اور ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد، یہاں گنگا جمنی تہذیب اور رواداری اور اہنسا اور میل جول اورآپسی رکھ رکھاؤ کی فکر کی بنیاد پر وجود میں آیا جس میں لالو ، نتیش اورکانگریس شامل رہے ، جس کے لئے کیجروال کی تائید حاصل رہی، پھر بہار انتخابات کے نتائج نے بے جے پی کی دوغلی سیاست ، عدم رواداری، تفرقہ پسندی کی سیاست کو دھتکار دیا، نوشتہ دار بہار میں عظیم اتحاد کی پیشن گوئی کر رہاتھا، عظیم اتحاد نے 178سیٹوں پر جیت درج کی جب کہ این ڈی اے کو محض 58سیٹوں تک محدود ہونا پڑا، بہار اسمبلی انتخابات دراصل یہ ہندوستان کی جمہوریت ، رواداری، تحمل اور تکثیریت کے بقاء یا عدم بقاء کے لئے ریفرینڈم کی حیثیت رکھتے تھے ، دراصل بہار میں لوگوں نے بی جے پی کواپنے فرقہ وارانہ بیانات اور عدم روادری کی راہ کو اپنانے کی وجہ سے دھتکار دیا ہے ، بی جے پی کی شکست میں گائے کے گوشت کی افواہ پراخلاق کا قتل ، ہریانہ کے فرید میں دلتوں کومکان کو زندہ جلا دینا، اور ایک مرکزی وزیر کی جانب سے دلتوں کا کتے سے تقابل کی بات، بیف سے متعلق وزیر اعظم سمیت دیگر قائدین کے فرقہ وارانہ بیانات، نتیش کمار کے ڈی این اے پر شک کا ریماک، لالو کاکو شیطان قرار دیئے جانے اور بی جے پی کی شکست پر پاکستان میں دیوالی منائے جانے سے متعلق متنازعہ بیان، اور ملک میں عدم رواداری پر اور دادردی واقعہ پر پر معقولیت پسند دانشوروں، مصنفین، ادباء،مورخین، سائنسدانوں سمیت فلم سازوں کے ایوارڈ واپسی ، کلبرگی، پنسارے قتل اور اظہارِ آزادی رائے پر قدغن لگانے والے بیانات وغیرہ نے مجموعہ طور بی جے پی کی شکست کے لئے بڑاکردار ادا کیا، بجائے اس کے ان واقعات اور سانحات پر بی جے پی لیڈران اس کی مذمت کرتے ؛ بلکہ توہین آمیز بیانات دیئے جارہے تھے ، آدھتیہ ناتھ، سادھوی پراچی ، ساکشی مہاراج وغیرہ کی زبان تو بالکل بے قابو ہوچکی تھی ، پوری ملک میں انتشار وافتراق کی فضاء بنائی جارہی تھی، ماحول میں کثافت اور زہر گھولا جارہا تھا،بہار انتخابات میں مہا گٹھن بندھن کی کامیابی سے آئے دن بی جے پی کے گراف اور مقبولیت میں کمی کا پتہ چلتا ہے ، آج بھی ہمارا ملک سیکولر ملک ہے ، ملک کی عوام جمہوریت، رواداری، محبت ، میل ملاپ، آپسی رکھ رکھاؤ اور گنگا جمنی تہذیب پر ایقان رکھتی ہے ، خود بی جے پی نے بھی اس انتخاب کو اپنی بقاء اور عدم بقاء اور وقار کامسئلہ بنیا ہوا تھا، چنانچہ وزیر اعظم مودی نے 30سے زیادہ ریلیوں سے خطاب کیا، امیت شاہ سمیت بی جے پی کے 20دوسری مرکزی وزراء سمیت بہار کے بی جے پی کے سینئر لیڈر سوشل مودی نے 192ریلیوں سے خطاب کیا اور عوام کو لبھانے اور رجھانے کی خوب کوشش، فرقہ واریت کاکارڈکھیلا گیا،بی جے پی آنے پر بیف پر پابندی کی بات کہی گئی، لیکن کوئی وطیرہ کام نہ آیا۔
مرض بڑھتا ہی گیاجوں جوں دوا کی
کے مصداق روز بروز بی جے پی کے فرقہ واریت کو شکستِ فاش سے دوچار ہونا پڑتے جارہا ہے ،بی جے پی کی اس شکست اور مہا گٹھ بندھن کی کامیابی پر راہول گاندھی نے اسے ’’ فرقہ پرست طاقتوں پر اتحاد کی ، انا پر عاجزی کی ، نفرت پر محبت کی فتح قرار دیا ہے ‘‘ دہلی چیف منسٹر کیجریوال نے اسے ’’ نفرت کرنیوالوں کے گال پر طمانچہ قرار دیا ہے ‘‘ مغربی بنگال کی وزیر اعلی نے اسے ’’رواداری کی جیت اور عدم برداشت کی شکست قرار دیا ہے ‘‘ کیجریوال نے مزید یہ کہا کہ : ’’ عوام نے مودی، شاہ کا غرورتوڑدیا‘‘انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ان دونوں کو جو غرور وتکبر کانگریس کو کئی برسوں حکومت کرنے پر آیاتھا وہ ان دونوں میں ایک سال کے اندر آیا ہے ‘‘ اس کے علاوہ عالمی اور بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس کو بی جے پی اور مودی کے زوال کی پیشن گوئی قرار دیا ہے ، شوسینا نے کہا ، بہار کے نتائج ایک رہنما کے کمزور ہونے کی علامت ہیں ، اپنے تنقیدی بیانات میں شہرت رکھنے والے اعظم خان نے کہا: بہار انتخابات میں فاشسٹ طاقتوں کی شکست ہوئی اور بابائے قوم کے نظریات ، دانشوروں، ادیبوں اور سماج وادیوں کی قربانیوں کی جیت ہوئی‘‘۔
بہرحال بہار اسمبلی انتخابات نے یہ بتلایا دیا کہ ملک کی عوام تکثیریت اور رواداری پر ایقان رکھتی ہے ، کانگریس کے گھوٹالے والی سیاست نے بی جے پی کے ترقی کے وعدوں کے مقابلے اس کو برسر اقتدار آنے کا موقع دیا تھا، لیکن بی جے پی نے بجائے اس کے کے ملک کی تکثیریت کا پاس ولحاظ کرتی ،ملک کی تقسیم کی راہ پر گامزن تھی جس کی قیمت اس کو یہاں چکانی پڑی ۔

***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
رفیع الدین حنیف قاسمی

Bihar Grand Alliance victory. Article: Mufti Rafiuddin Haneef Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں