دادری سانحہ ۔ نین تارا سہگل اور ہندی شاعر اشوک باجپئی نے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ لوٹا دیا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-10-08

دادری سانحہ ۔ نین تارا سہگل اور ہندی شاعر اشوک باجپئی نے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ لوٹا دیا

نئی دہلی
پی ٹی آئی
ممتاز مصنفہ جواہر لال نہرو کی بھانجی نین تارا سہگل نے آج ملک میں ناراضگی کے حق کے تئیں بڑھتی ہوئی عدم رواداری اور دہشت کی لہر پر وزیر اعظم کی خاموشی پر احتجاج کرتے ہوئے اپنا ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ واپس کردیا ہے ۔ سہگل نے جنہیں ان کی انگریزی ناولRich Like Us(1985) کے لئے ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ دیا گیا تھا، کہا کہ آج کی حکمراں آئیڈیا لوجی ایک فاشسٹ آئیڈلوجی ہے اور اب مجھے اس پر تشویش ہورہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اب تک فاشسٹ حکومت نہیں تھی۔ میں وہی کررہی ہوں جس پر میرا ایقان ہے ۔ مصنفین اور معقولیت پسندوں بشمول ایم ایم کلبرگی اور گویندر پنسارے کی ہلاکتوں کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے الزام لگایا کہ توہم پرستی پر سوال اٹھانے والے معقولیت پسندوں ، ہندو ازم کی بدنما اور مسخ کردہ شکل ہندوتوا کے کسی بھی پہلو پر سوال اٹھانے والے کسی بھی شخص چاہے وہ دانشور انہ یا فن کے شعبہ سے تعلق رکھتا ہو کو درکنار کیاجارہا ہے ، دبایا جارہا ہے اور یا ان کا قتل کیاجارہا ہے۔88سالہ مصنفہ نے ایک بیان میں کہا کہ حال ہی میں ایک گاؤں کے لوہار محمد اخلاق کو بیف کھانے کے شبہ میں ان کے گھر سے نکالا گیا اور بے رحمی سے مار مار کر ہلاک کردیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم دہشت کی اس لہر پر خاموش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ ساہتیہ اکیڈیمی بھی خاموش ہے ۔ نین تارا نے کہا کہ قتل کئے گئے ہندوستانیوں کی یاد میں ناراضگی کے حق کو سربلند رکھنے والے تمام ہندوستانی اور تمام ناراض عناصر کی تائید میں جواب خوف اور غیر یقینی میں رہ رہے ہیں، میں میرا ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ واپس کررہی ہوں ۔ نین تارا سہگل نے ماضی میں ان کی رشتہ کی بہن آنجہانی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کی ایمر جنسی پر بھی تنقید کی تھی ۔ انہوں نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ مودی ایک سیاستداں ہیں جو جانتے ہیں کہ کب بولنا ہے ۔ انہوں نے لمبی لمبی تقریریں کی ہیں ٹویٹر اور دوسرے سوشیل میڈیا پر بھی وہ سرگرم ہیں ۔ ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے لئے وہ ذمہ دار ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت میں ہندوستان پسماندہ گی کی طرف جارہا ہے ۔ حکومت تہذیبی تنوع کے ہمارے عظیم نظریے کو مسترد کررہی ہے ۔ مصنفہ نے ایک کھلا خط لکھا جس کا عنوان ہندوستان کا انتشار ہے ۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ ساہتیہ اکیڈیمی ان مسائل پر خاموش ہے ۔ ہبلی کے ایک رائٹر کلبرگی کے قتل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بعض مصنفین نے اپنے ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈس واپس کئے تھے ۔
ممتاز ادیبہ نین تارہ سہگل کے بعد سابق صدر نشین للت اکیڈیمی اشوک واجپائی نے ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈواپس کردیا ہے ۔ انہوں نے یہ اقدام جینے اور اظہا ررائے دونوں کی آزادی کے حق پر حملہ، کے خلاف بطور احتجاج کیا ہے۔ دادری واقعہ اور عقلیت پسندوں کی سلسلہ وار ہلاکتوں پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کی مسلسل خاموشی پر سوال اٹھایا ۔ واجپائی نے آج پی ٹی آئی سے کہا کہ سہگل نے صحیح کیا ہے ۔ وہ باتونی وزیر اعظم ہیں ۔۔وہ ملک سے یہ کیوں نہیں کہتے کہ اس ملک کی تکثیریت کی بہر قیمت حفاظت کی جائے گی ۔ 74سالہ ہندی شاعر مضمون نگار اور ادبی و ثقافتی نقادنے سینئر قائدین بشمول مرکزی وزیر ثقافت مہیش شرما کے بیانات کو ناپسند کیا اور کہا کہ ان سے ملک کے ہمہ ثقافتی اور ہمہ مذہبی تانہ بانہ کی بے عزتی ہوتی ہے۔ وزیر ثقافت نے اورنگ زیب روڈ کا نام بدل کر اے پی جے عبدالکلام روڈ کردینے پر کہا تھا کہ کلام مسلمان ہونے کے باوجود عظیم قوم پرست تھے ۔ اشوک واجپائی نے کہا کہ اس قسم کے بیانات سے ملک کے ہمہ ثقافتی اور ہمہ مذہبی تانہ بانہ کی بے عزتی ہوتی ہے ۔ کل جواہر لال نہرو کی بھانجی نین تارہ سہگل 88سالہ نے اپنا ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ واپس کرنے کے فیصلہ کا اعلان کیا تھا ۔ کھلے مکتوب میں انہوں نے دادری میں بیف کھانے کے شبہ میں ایک مسلمان کی ہلاکت، کنٹر قلم کار ایم ایم کلبرگی اور عقلیت پسند نریندر دابھولکر اور گووند پنسارے کے قتل کا بھی حوالہ دیا تھا ۔ انہوں نے بھی ان واقعات پر وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی پر سوال اٹھایا تھا ۔ واجپائی نے کہا کہ یہ ان قلم کاروں اور دانشوروں کے ساتھ اظہار یگانگت ہے جو دن دھاڑے قتل کئے جارہے ہیں ۔ واجپائی نے ادیبوں کی خود اختیاری کے تحفظ میں ساہتیہ اکیڈیمی کی ناکامی پر مایوسی کا اظہار کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ساہتیہ اکیڈیمی نے ادیبوں کی خود اختیاری کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے اس پر احتجاج نہیں کیا ہے ۔ ادیبوں کی برادری کو احتجاج کے لئے اٹھ کھڑا ہونا چاہئے ۔

After Nayantara Sahgal, Ashok Vajpeyi surrenders Akademi Award in protest

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں