نیکیوں کا موسم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-07-02

نیکیوں کا موسم

good-deeds
پورے عالمِ اسلام کے لیے یہ مہینہ رحمت، برکت اور مغفرت کے واسطے اللہ کی جانب سے ایک تحفہ ہے۔
ہم یہاں رمضان کی نیکیوں کے بارے میں گفتگو نہیں کریں گے۔ کیوں کہ اِس موضوع پر بے شمار مضامین اور مقالے انٹرنیٹ پر اورکتابی شکل میں موجود ہیں۔ہم یہاں اس موضوع پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں کہ کیا نیکیاں صرف وہی ہیں جو ہمارے معاشرے میں رائج ہیں؟ یا جسے ہم بچپن سے دیکھتے اور کرتے آئے ہیں؟یا اصل نیکی یا کارِ ثواب عمل وہ ہے جو قومِ مسلم کو طریقۂ محمدی(ﷺ) سے ملتا ہے؟
اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ اِس ماہ مبارک میں نیکیوں کا حجم اور پیمانہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ ہمیں نیکیوں کا ذخیرہ بڑھانے میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔ اور بڑے پیمانے پر ہم بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے بھی ہیں۔ لیکن ایک چھوٹی چیز ایسی ہے جو ہمارے دلوں کے اندر ہوتی ہے اور جس کے درست نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے سارے اعمال ضائع چلے جاتے ہیں یا ضائع ہو جائیں گے۔ جس کی خبر اور احساس آج بہت کم لوگوں کو ہوتی ہے۔ اصل معاملہ کا پتا تو روزِ قیامت ہی معلوم ہوگا جب ہمارے اعمال تولے جائیں گے۔ اور وہ ہے "نیت"۔ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے پورے معاشرے میں اور عالمی پیمانے پرآمدنی کے ذرائع بڑھے ہیں۔ لوگ پہلے سے زیادہ مالدار اور خود کفیل ہوئے ہیں۔ دوسری قومیں اِس کا کتنا صحیح یا غلط استعمال کر رہی ہیں، اِس بارے میں عالمی پیمانے پر ریسرچ کرنے والے اصحاب زیادہ بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں۔ ہم یہاں صرف اپنے معاشرے میں رائج غلطیوں کی جانب توجہ دلانا چاہتے ہیں تاکہ اِس سے احتیاط کریں اور اپنے اعمال ضائع ہونے سے بچالیں۔
متفق علیہ کی روایت مشکوٰۃ شریف کی پہلی حدیث "إنَّمَا الأعْمَالُ بِالنِّیات، وإنما لامری ءٍ ما نوی، فمن کانت ھجرتہ إلی اﷲ و رسولہ، فھجرتہ إلی اﷲ و رسولہ و من کانب ھجرتہ إلٰی دنیا یصیبھا، أو امراۃٍ یتزوجھا فھجرتہ إلٰی ما ھاجر إلیہ۔
سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، ہر آدمی کووہی ملے گا جس کی ان نیت کی، جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کے لیے اپنا گھر بار چھوڑا تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے (ہی ) ہے ۔(یعنی اسے ثواب ملے گا) اور جس شخص نے دنیا کے لیے یا کسی عورت سے شادی کے لیے گھر بار چھوڑا تو اس کی ہجرت اسی مقصد کے لیے ہے (یعنی اسے ثواب نہیں ملے گا)
نیت میں کتنی نیکی ہے اس کا اندازہ تو نیت کرنے والے پر منحصر ہے۔ البتہ اکثر میں معاملے میں ایک چیز کا احساس ہونے لگا ہے کہ Igoیا "انانیت" نے ہمارے مابین دوری پیدا کردی ہے۔ اور یہ انانیت بھی ہماری نیکیوں کو بالکل ایسے ہی کھا جاتا ہے جس طرح سے دیمک کتابوں کو۔ تقریباً بیس بائیس سال پہلے کا واقعہ ہے جب ہمارے یہاں کی معاشی حالت بہتر ہونے لگی تھی اور عام لوگوں کے گھروں میں ٹیلی ویژن کا چلن عام ہو چکا تھا، لوگ نئے نئے تعلیم یافتہ بھی ہونے لگے تھے، ٹی وی چینل کی تعداد بڑھنے لگی تھیں۔ اب وہ لوگ کچھ کریں نہ کریں، عالمی خبروں اور تبصروں میں ہی لگے رہتے تھے اور تبصرہ کرنے پر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ ٹی وی چینلز کی باڑھ نے ہمیں ایک طرف جہاں اخلاقی طور پر بے کار کر دیا دوسری طرف صحت کے اعتبار سے بھی ناکارہ کر دیا ہے۔
اخلاقی طور پر ایسے کہ جب کبھی اُن جیسے سے ملاقات کی غرض سے اُن گھر جانا ہوتا تھا تو اکثر وہ "ڈیوٹی آور" کے بعد ٹی وی میں محو ہوتے تھے اور صرف "السلام علیکم اور وعلیکم السلام "سے کا م چلا لیا کرتے تھے یا یہ سمجھ لیتے تھے کہ ملاقات ہو گئی۔ یا"السلام علیکم اور وعلیکم السلام "اور چند رسمی کلمات کے بعد ٹی وی آن اور ملاقاتی سے رابطہ گون۔ بالکل Enoکی طرح صرف چند سیکنڈوں میں۔ اور جب ملاقاتی کچھ انتظار کے بعد رخصت ہونے کا من بنا لے اور اجازت طلب کرے تو"ارے صاحب بیٹھیے! ابھی آئے ابھی جارہے ہیں، یہ کیا بات ہو گئی، ابھی تو ہماری ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ جناب آپ ابھی مصروف ہیں میں کسی اور فرصت کے وقت آؤں گا ۔(آپ نے بھی اکثر اندازہ کیا ہوگا اور کئی لوگوں نے افسانے کہانیوں کے ذریعہ بھی یہاں کی تفصیل بیان کی ہے یا آپ خود بھی سمجھ سکتے ہیں)۔
نا مناسب ہے خون کھولانا
پھر کسی اور وقت مولانا
دوسری طرف صحت کے اعتبار سے بھی ناکارہ ہوتے جارہے ہیں۔ اکثر مسجدوں میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ کرسیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ گھٹنے اور کمر درد، ذیابیطس، بلڈ پریشر وغیرہ کے مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی ہیں۔ حالانکہ عمر کے حساب سے بھی ابھی صرف چالیس سال کو ہی پار کیا ہے۔ پچاس سال کے بعد والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ رمضان اور روزے کے بارے میں لوگ اپنوں میں اور دوسرے لوگوں سے ایسے گفتگو کرتے ہیں جیسے کہ یہ مہینہ اُن کے لیے رحمت نہیں بلکہ زحمت بن کے آیا ہو۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اکثر لوگوں کے گیارہ مہینے کا لائحہ الگ ہوتا ہے اور اس ماہ کا الگ۔ حالاں کہ اس میں بہت ہی معمولی فرق آتا ہے۔ گراں اِس لیے گزرتا ہے کیوں کہ گیارہ مہینے اُن کاانداز ہی نرالا ہوتا ہے۔ صوم کا جو مطلب ہے اور جو اللہ کو مطلوب ہے، (یعنی کھانے ،پینے ،جماع اور لغویات سے رُکنے کا نام ہے) اگر اُس کو تسلیم کرلیا جائے تو زندگی کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔ اگر باقی گیارہ مہینوں میں بھی اِن اعمال کو سنت کے مطابق اپنا لیا جائے اور لغویات سے پرہیز کرلیا جائے توہمیں یقین ہے کہ نا تو لوگ کوئی متعدی بیماری میں مبتلا ہوں گے اور نہ ہی اخلاقی اور ایمانی طور پربدتر اور کمزور۔
اِس ماہ میں اکثر افطار پارٹیوں کا رواج اورشوق ہے، جس میں کچھ لوگ بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ حالاں کہ اکثر لوگ جو نئے نئے مالدار بنے ہیں وہ زکوٰۃ کے بارے میں نہیں جانتے۔ جمعہ کی نماز میں وہ اُس وقت حاضر ہوتے ہیں جب خطبہ ختم ہو چکا ہوتا ہے یا اکثر حصہ گزرچکا ہوتا ہے۔ نہ جمعہ کی اہمیت کو جانتے اور سمجھتے ہیں اور نہ زکوٰۃ کے بارے میں سیکھتے یا پوچھتے ہیں۔ اور ایک طرح سے فرض ادا نہیں کر پاتے۔ مالدار بننے کے بعد کھانے کھلانے اور حج کرنے کو ہی کارِ ثواب سمجھ لیا گیا ہے۔ جب کہ کھانے کھلانے میں بھی طریقۂ رسول موجود ہے اور اس کے بعد زکوٰۃ کے طور طریقے کو اپنا کر ادا کیا جائے۔ پہلے محلہ ، معاشرہ میں ضرورت مندوں کو دیکھا جائے جو مالی طور پر کمزور ہیں یا روزگار وغیرہ کے لیے محتاج ہیں اُن کو روزگار کرایا جائے۔ حتی الامکان پہلے محلہ یا گاؤں کے لوگوں کو خوشحال بنایا جائے۔ زکوٰۃ ادا کیا جائے پھر حج کیا جائے۔ اور اِن اعمال میں رِیا(نام و نمود)کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔
اللہ کا بڑا کرم ہے کہ اب ایسے افراد بھی ہیں جو کئی بار حج کر چکے ہیں یا ایک سے زیادہ بار حج کرتے ہیں یا ارادہ کر چکے ہیں۔ پہلا حج جو اُنہوں نے کیا وہ تو فرض تھا لیکن بعد کا حج نفلی ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ ایسے نادار اورضرورت مند بھی ہیں جنہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے سرمایہ نہیں یا کسی متعدی بیماری میں مبتلا ہیں یا روزگار کرنا چاہتے ہیں لیکن سرمایہ نہیں ہے۔ یانوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں جو موجودہ معاشرہ کی بگاڑ کی وجہ سے وقت پر نکاح نہیں کر پارہے ہیں۔ اگر اُس نفلی حج کی رقم کو اِس طرح کے ضرورت مندوں پر خرچ کیا جائے تو اجر تو اتنا ہی ملے گا جتنا کہ نفلی حج سے ملتا لیکن معاشرہ میں جو بہتری آئے گی اور اُن ہی لوگوں کے ذریعہ مزید دوسرے لوگوں کو خود کفیل بنانے کا سلسلہ چلے گا تو یہ کہیں زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہوگا۔ کیوں کہ ایک طرح سے یہ صدقۂ جاریہ ہوگا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اِس معاملے میں ہمارا معاشرہ بہت پیچھے ہے۔ ہندوستان کے کچھ علاقہ کے لوگوں نے اِس موضوع پر خصوصی توجہ دی ہے جس کی وجہ سے وہ علاقہ (مہاراشٹر، کیرل، کرناٹک، آندھرا پردیش کے کچھ علاقے) اب علم و عمل کے اعتبار سے ممتاز بن گیا ہے۔
ایک معاشرتی بیماری اور ہے جس نے نسل در نسل تباہ کر رکھا ہے اور وہ ہے غصہ کی حالت میں طلاق۔ اِس کے پیچھے بھی Igoیا "انانیت" کا عمل دخل ہے۔ اِس میں بھی مالدار گھرانوں کا زیادہ عمل دخل ہے۔ اکثر خاندان نکاح کے بندھن میں بندھتے ہیں بعد کی زندگیوں کے بارے میں طریقۂ محمدی (ﷺ) کو نہیں اپناتے بلکہ اکثر تو نہ جانتے ہیں اور نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یعنی ایک طرح اِس طرح کے گھرانے اسلامی اقدار سے خالی ہوتے ہیں، حالاں کہ عصری تعلیم سے یہ خوب واقف ہوتے ہیں لیکن پتا نہیں اسلامی اصول کو سیکھنے میں کیوں لاپرواہی کرتے ہیں۔ اِس طرح کے خاندانوں نے صرف مال کمانے کو ہی زندگی کا اہم حصہ تسلیم کر لیا ہے۔ جب کہ سب سے زیادہ ضروری جسمانی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے"صحت یا تندرستی" ہے ۔ اخلاقی اعتبار سے صحت مند نہ ہونے کی وجہ سے ہی طلاق کے واقعات پیش آتے ہیں۔ اگر شادی پورٹل کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلے گا کہ مسلم گھرانے کے بھی بائیس تا پچاس سال عمر کی طلاق یافتہ خاتون دوبارہ نکاح کی خواہشمند ہیں۔جس میں کئی صاحبِ اولاد بھی ہیں۔ آخر کتنی بڑی بات ہوگئی یا بگاڑ میں کتنا آگے جاچکے ہوتے ہیں کہ اُنہیں لوٹنا مشکل ہوجاتا ہے اور جس کی وجہ بچوں پر اُس کا غلط اثر مرتب ہوتا ہے۔ میں نے ذاتی طور پر دیکھا ہے کہ اِس میں ننانوے فیصد غلطیاں عورتوں کی ہوتی ہے۔ اور اُن کی ماؤں کی طرف سے کچھ ایسی ہدایتیں ہوتی ہیں جو آگ پر تیل کا کام کرتی ہیں اور پھر گھر تباہ ہوجاتا ہے۔ جو کیس عدالتوں میں آتے ہیں وہاں سے بھی عورتوں کی جانب سے کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی۔ صرف یہ کہ "شوہر کفالت نہیں کرتا یعنی خرچہ نہیں دیتا یا کم دیتا ہے" اس بارے میں جو اخباری رپورٹ کی بنیاد پر کئی معاملے آئے تو دیکھا یہ گیا کہ خرچہ کی وجہ ہے۔ ایسے ہی ایک معاملہ میں عورت نے طلاق لینے کے لیے عرضی غازی آباد کورٹ دائر کیا۔ جب جج نے عورت سے پوچھا "تو کیوں طلاق لینا چاہتی ہے تو جواب تھا کہ "جی یہ مجھے خرچہ کم دیتا ہے" جب شوہر سے تصدیق کی گئی تو شوہر نے کہا کہ "تجھے کتنا خرچہ چاہیے؟" عورت نے کہا کہ "گھریلو خرچ کے علاوہ پانچ ہزار روپے میرا جیب خرچ" شوہر نے کہا کہ "میں تجھے دس ہزار روپے ماہانہ جیب خرچ دوں گا۔لیکن تو روٹی اپنے ہاتھوں سے بنا کے کھلائے گی"۔ معاملہ سلجھ گیا۔ پتا یہ چلا کہ وہ عورت کھانا شوہرکو خود سے بنا کے نہیں دیتی تھی۔ جب کہ مالی طور پر اس گھر میں کوئی تنگی نہ تھی۔ ذرا غور کریں تو پتا چلے گا کہ یہ موڈرن کلچر جس میں عورتیں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتی ہیں اور شوہر سے بے جا فرمائش اور مطالبہ کرکے اپنے گھر و خاندان کو تباہ کر رہی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اچھی خاصی آمدنی کمانے والی عورتیں بھی بغیر شوہر کے یا طلاق یافتہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں؟ جن گھروں میں شوہر کے گزرنے یا معذور ہونے کے بعد مالی تنگی آتی ہے اُس میں اکثر عورتوں کا ہی ہاتھ رہتا ہے۔کیوں کہ جب حیثیت اور علم کے اعتبار سے شوہر کچھ دستکاری ہنر سیکھنے کا مشورہ دیتا ہے یا سکھانے کی کوشش کرتا ہے تو اکثر عورتیں لاپرواہی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ (اللہ نہ کرے) اگر کوئی ناگہانی آفت آجائے تو ایسی عورتیں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتی ہے۔
ابھی چند ماہ پہلے ایک ایسی ہی عورت سے سابقہ پڑا۔اپنی بہن کی شادی کے لیے آبائی گاؤں جانا ہوا۔ گھر پہنچے ہوئے چند منٹ ہی ہوئے کہ ایک خاتون جن کی عمر تقریباً پچپن سے ساٹھ سال کے درمیان رہی ہوگی، خوش لباسی میں وارد ہوئیں۔میں اپنی والدہ وغیرہ کی ملنے والی سمجھ کر اوپر کی منزل میں اپنے کمرے میں چلا گیا۔ خاتون کی واپسی کے بعد جب میں نے معلوم کیا تو معاملہ کچھ اور ہی پایا۔ "پتا یہ چلا کہ یہ فلاں جگہ رہتی ہیں۔ مالی مدد طلب کرنے کے لیے آئی تھیں۔ اِن کے دو بیٹا ،بہو اور پوتے پوتیاں ہیں۔ بیٹی کی شادی کر دی۔ نواسا نواسی بھی ہے۔بیٹا بہو ساتھ نہیں دیتے بلکہ بیٹا بہو کے کہنے پر ساتھ نہیں دیتا۔ شوہر کا انتقال ہو چکا ہے۔ یہ پوچھنے پر کہ شوہرکیا کرتے تھے؟ پتا چلا کہ بواسیر کا کامیاب علاج کر لیتے تھے وہی ان کی آمدنی کا ذریعہ تھا۔ بیٹا بہو کے علیحدہ ہونے کی وجہ سے اِن کو مالی تنگی رہتی ہے حالاں کہ یہ پیشہ ورانہ طور پر نہیں مانگتیں چند ہی گھروں میں جاتی ہیں اور صرف اپنے گزارے بھر کا ہی طلب کرتی ہیں۔"
اِس واقعہ سے جو چند عبرتناک پہلو سامنے آیا اور مجھے سمجھ میں آیا اُسے میں نے اپنی والدہ، بہن اور بھاؤج کے سامنے پیش کیا وہ یہ ہے: "اِس واقعہ میں ننانوے فیصد عورت کی غلطی ہے۔ پہلی یہ کہ اِنہوں نے بچوں کی تربیت صحیح طریقے سے نہیں کی ہوگی، کہیں نہ کہیں خامی ضرورہے۔ دوسری بات اِن کے گھر میں مالی فراخی تھی تو اِس میں احتیاط سے کام نہیں لیا، تیسری بات یہ کہ اِنہوں نے شوہر کے ہنر کو سیکھنے کی کوشش نہیں کی اور نا ہی شاید پہلے سے کوئی ہنر ہے جس کے ذریعہ وہ کما کر اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرسکتی ہوں۔ " اور سب سے بڑی غلطی کہ قرآن مجید تک تعلیم بھی نہیں ہے لہذا گھریلو طور پر بچوں بچیوں کو پڑھا کر بھی اپنے گزارے کا بندوبست نہیں کر سکتیں۔ کہتی ہیں اگر دوائی بنانے کا طریقہ ہمیں بتا گئے ہوتے تو ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ میں نے کہا یہ بھی غلط۔ کیسے؟ میں نے کہا کہ "شاید ہی کوئی ایسا شخص یا شوہر ہو کہ گھر میں جڑی بوٹی یا دوائی کے اجزا لاکر رکھے اور یہ نہ بتائے کہ اِس سے احتیاط برتا جائے۔ بچے نہ چھوئیں، یا نہ کھائیں، یا نہ ضائع کردیں۔ اگر یہ ایک ایک چیز بھی پوچھتیں تو بہت لمبی زندگی تھی بہت آسانی سے اجزاء کی پہچان کر لیتی اور دوائی بنانے کا طریقہ سیکھ لیتیں۔" اِس میں ایک پہلو اور جھلک رہا کہ خاتون خود بے جا لاڈ پیار میں پلیں۔ نہ خود ابتدائی تعلیم رکھتی تھیں اور نہ ہی گھر کا ماحول بہرئ بنا پائیں۔ شادی کے بعد بھی وہ خود فراخی میں زندگی گزاری۔ اِس دوران بھی نہ کسی نے رہنمائی کی ہوگی اور نہ خود ہی توجہ دی ہوگی۔
قارئین کرام غور فرمائیں! کیا ہمارے معاشرے میں ایسا نہیں ہورہا ہے۔؟

ممکن ہے کہ اِس مضمون کو پڑھنے کے بعد خاتون قلم کاروں کی رَگِ حمیت پھڑک اٹھے اور تین کو تیرہ بنائیں یا مردوں کی کمیوں کو اُجاگر کرنے میں زمین آسمان کی قلابیں ملائیں۔ کچھ تجربات مردوں کے بارے میں بھی عرض کرتا ہوں۔
نااہلیت، ناکارہ پن،شراب یا لغویات کا عادی، اخلاقی بیماری یا کمی، عورتوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہیں۔اور جن مردوں میں یہ کمی ہوتی ہے وہ گھر بھی واقعی جہنم کا نمونہ ہی ہوتا ہے۔ قریباً انیس سو نوے عیسوی کا واقعہ ہے: میں روزنامہ اخبار میں ملازمت کرتا تھا۔ شام کی ڈیوٹی انجام دے کر دس بجے رات کو آفس سے چھوٹ کر کرایہ کے کمرے پر گیارہ بجے رات تک پہنچ جاتا تھا۔کھانا کھاکر جیسے ہی سونے کی تیاری کرتا یا پہلی ہی نیند لگی ہوتی تھی کہ دھڑام ، دھڑوم، اٹھا پٹک کی آوازیں آنے لگتیں۔ واقعہ یہ ہے کہ مکان مالک نکما ہے۔ تین بچے پانچ سے دس سال کے درمیان کے ہیں۔بیوی دِن بھر چھوٹے بچوں کے لیے ضروری سامان بیچ کر دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتی تھی۔ نکما شوہر دن بھر مٹر گشتی کرتا اور کرایہ کے دکان کا کرایہ ہضم کرکے بیوی کی کمائی پر ڈاکہ ڈالتا اور لڑائی کرتا۔"
اُس کا بڑا لڑکا کیرم کھیلنے کے بہانے اکثر میرے کمرے میں آیا کرتا تھا۔ میں نے مذکورہ معلومات اُسی کے ذریعہ حاصل کی تھی۔ میرے کمرے کا کرایہ اِس بچے کی بیوہ پھوپھی کے حصہ میں جاتا تھا۔ شرابی کی بری عادت یعنی کے کہیں نہ کہیں پینے کے واسطے پیسہ حاصل کرنا۔ وہ کوشش میرے اوپر بھی کرنا چاہتا تھا۔ خیر ۔ بڑا لڑکا اور لڑکی ذرا ہوشیار تھے تو میں نے کہا کہ ممی سے چپکے سے پوچھ تیرے پاپا کے پینے کی عادت ختم ہو جائے گی۔ پاپا کے سامنے بات مت کرنا۔ نہیں سمجھ میں آرہی تو ممی سے بات کرا۔ میں سمجھا دوں گا۔ مالی حالت اتنی خراب تھی کہ دس دن کی دوائی کے لیے پچاس روپے بھی نہیں تھے۔ خیر میں نے حالات سے آگاہ کر دیاکہ تیری مرضی ہے۔ کماکے وہ تجھے دے نہیں رہا، اُلٹا تیری کمائی پر بھی ڈاکے ڈال رہا۔ پٹائی بھی کھاتی ہے۔ کچھ روپیوں کا بندوبست کرکے ڈیڑھ دو مہینہ علاج کرا لے۔ تاکہ کم از کم اپنے بچے تو صحیح طریقے سے پرورش کر لے گی۔پٹائی سے بھی بچ جائے گی۔ پیسے بھی تجھ سے نہیں چھینے گا۔ میری بات اُسے سمجھ میں آئی۔
اُس زمانے میں دن کے وقت میں پڑھائی کرتا تھا اِس لیے میں نے دوسرا کمرہ لے لیا۔ کچھ دنوں کے بعد ملاقات ہوئی تو پتا چلا کہ اُس کی شراب چھڑا دی گئی۔ دو وقت میں تین روٹی کھاتا ہے اور ایک بنڈل بیڑی پیتا ہے۔ میں نے اُس کی بیوی سے پوچھا ۔ اُس نے خوشی ظاہر کی۔ بچے پڑھ رہے ہیں اور پارٹ ٹائم اسکوٹر مرمت کا کام سیکھ رہے ہیں۔"چلو اچھی بات ہے۔" کہہ کر میں نے اُس کی دل جوئی کی۔
اب ذرا اِس واقعہ پر غور کریں کہ جو عورتیں گھر سنوارنا چاہتی ہیں وہ ایسی عورتوں کو مناسب مشورہ کیوں نہیں دیتیں؟ لڑنے کا ہی مشورہ کیوں دیتی ہیں؟ اگر میں کوئی منفی مشورہ دیتا تو شاید یہ گھر تباہ ہو جاتا اور اُس کا گناہ میرے ذمہ ہوتا۔ شرابی کا گردہ خراب ہو چکا تھااور اس کی موت پینتالیس سال کی عمر میں ہو چکی۔ میں نے مثبت طریقہ بتایا تو گھر کا ایک ناکارہ حصہ ضائع ہوا۔ باقی سب ٹھیک ہے۔بچے اب کماؤ ہو گئے ہیں۔ الحمد للہ

***
Mohammad Firoz Alam
(Font Designer, Software Developer)
firozhashmi[@]gmail.com
موبائل : 9811742537, 9999089178
House No. 183, Ward No. 13 Chipyana Khurd Urf Tigri, Gautam Budh Nagar, UP-201307
Shanti Vihar, East End Street No.1, (beside Yamuna Expressway, Near Gaur City) NOIDA
فیروز ہاشمی

The season of good deeds. Article: Firoz Hashmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں