نائب صدر جمہوریہ کے وقار پر حملہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-06-25

نائب صدر جمہوریہ کے وقار پر حملہ

india-vp
شاید ہندوستان کی جمہوری تاریخ کایہ پہلا سانحہ ہوگا جب کسی برسراقتدارپارٹی اوراس کی مذہبی نظریات کی ہمنوا تنظیم کےسینئرلیڈران کے ذریعہ نائب صدرجمہوریہ کی عظمت پر سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کی گئی ہو۔
21/جون 2015ء کوعالمی یوم یوگا کے موقع پر محکمہ آیوش کی جانب سے راج پتھ پر منعقدیوگا کی تقریب میں نائب صدرجمہوریہ ڈاکٹرحامدانصاری کی عدم شرکت پربی جے پی کے قومی مجلس عاملہ کے رکن و سینئر لیڈررام مادھو نے جواب طلب کرنے کی جسارٹ کر ڈالی ۔ انہوں نے ٹویٹ کیاکہ :
دو سوال: ٹیکس پیرس کے پیسے سے چلنے والا راجیہ سبھا ٹی وی نے یوگ دیوس کی تقریب کومکمل طورسے بلیک آوٹ کیوں کیا؟
دوسرا نائب صدرجمہوریہ کسی بھی تقریب میں کیوں شامل نہیں ہوئے ؟

ملک کے اعلیٰ ترین عہدہ پر براجمان شخصیت سے کسی پارٹی کے لیڈرکے ذریعہ کسی بات کا جواب طلب کرنانہ صرف مضحکہ خیز ہے بلکہ ملک کی قومی عظمت سے چھیڑچھاڑکرنے کے مترادف بھی ہے۔ کیوںکہ نائب صدرجمہوریہ کا عہدہ صدرجمہوریہ کے بعدملک کا سب سے باوقار اور اعلیٰ عہدہ ہے۔ نائب صدرجمہوریہ کے دفترسے اس کا جواب دیاگیاکہ اس تقریب میں انہیں مدعو نہیں کیاگیاتھا جس کے بعدمحکمہ آیوش کی جانب سے پروٹوکول کا حوالہ دیتے ہوئے وضاحت پیش کی گئی کہ نائب صدرجمہوریہ کواس تقریب میں مدعو ہی نہیں کیاگیا کیوںکہ کسی ایسے پروگرام میں نائب صدرکومدعونہیں کیا جاسکتا جہاں وزیراعظم بحیثیت مہمان خصوصی مدعو ہوں چوںکہ یہ تقریب محکمہ آیوش نے منعقدکی تھا اوراس میں وزیراعظم کومہمان خصوصی کے طورپر مدعوکیاگیاتھا ۔
نائب صدرکاعہدہ وزیراعظم کے عہدہ سے بڑاہے اس لئے اس تقریب میں انہیں مدعوکرنا پروٹوکول کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ حکومت کی اس وضاحت کے بعد مسٹر مادھو نےاپنی خفگی مٹانے کیلئے جہاں ایک طرف اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا وہیں ایک اورشرمناک حرکت کربیٹھے۔ انہوں نے دوبارہ ٹویٹ کیاکہ نائب صدرجمہوریہ کی صحت ٹھیک نہیں ہے اس لئے وہ اس یوگادیوس میں شریک نہیں ہوئے جس کے بعدنائب صدرجمہوریہ کے دفترنےیہ وضاحت کرکے ان کے جھوٹ کی قلعی کھول دی کہ نائب صدرجمہوریہ صحت مند ہیں۔ محکمہ آیوش کے وزیر مملکت برائے آیوش سری پدنائیک نے نائب صدرسے جواب طلب کرنے کی جسارت کو بھی افسوسناک قراردیا۔

بہرحال ابھی مسٹرمادھوکے بیان پر گرما گرم بحث کاسلسلہ جاری ہی تھاکہ اس دوران وشوہندوپریشد کی لیڈر سادھوی پراچی کا شرمناک بیان آیاکہ راج پتھ پر کسی لیڈرکی بیٹی کی شادی نہیں تھی جس میں انہیں دعوت نامہ بھیجنے کی ضرورت ہوتی ۔ دوقدم آگے بڑھ کروہ یہاں تک کہہ گئیں کہ جولوگ یوگ دیوس کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں ۔
سادھوی پراچی اورمسٹررام مادھوجس خطرناک لہجے میں گفتگوکررہےہیں اسے نظراندازنہیں کیاجاسکتا ہےکیوںکہ ان دونوں کا یہ بیان قومی و ملکی عظمت پر حملہ ہے ۔ اگران دونوں لیڈروں کے تنظیمی پس منظرکوذہن میں رکھ کر ان کے بیانات کا تجزیہ کیاجائے توجوخطرناک نتیجہ سامنے آئےگا وہ انتہائی شرمناک اور ہندوستان کے جمہوری ڈھانچہ کوکمزورکرنے کی سازش کا اشارہ کررہاہے۔
یادرہے کہ رام مادھو آرایس ایس کے پرچارک اورمتنازعہ لیڈر رہےہیں ، مرکزمیں مودی حکومت کی تشکیل کے بعد آرایس ایس کی دباؤکے بعدانہیں بی جے پی کی مجلس عاملہ کا رکن نامزد کیاگیا۔ اپنی ہرزہ سرائی کیلئے مشہورسادھوی پراچی کا تعلق فرقہ پرست تنظیم وشوہندوپریشد سے ہےگوکہ دونوں تنظیموں کے نام الگ ہیں تاہم دونوں کا نظریہ اورمقصدایک ہے ۔

یقینی طورپرایک بات ذہن نشیں رہے کہ یوگ کوئی قومی تہوارنہیں ہے اورنہ ہی قومیت کی شناخت کادرجہ رکھتاہے بلکہ وہ ہندومت کا ایک لازمی مذہبی عنصرہے جس کے انعقادکا قطعی مقصد ہندوتوا کلچر کافروغ ہے ۔ پھر یوگا میں سوریہ نمسکارجیسے کئی ایسے آسن ہیں جسے کوئی موحدکسی بھی حال میں قبول نہیں کرسکتا۔ ہندوستان چوںکہ ایک جمہوری ملک اورمختلف مذاہب کا گہوارہ ہے ایسے میں ایک مذہبی رسم دوسروں پر زبردستی کیوںکر تھوپی جاسکتی ہے اور یہ کہ اس میں شرکت وعدم شرکت کے حوالے سے کی گئی بازپرس کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے۔

دونوں لیڈروں کے بیانات کے دوران ایک اوربیان مرکزی وزیرتعلیم اسمرتی ایرانی کا آیا جو بے حد خطرناک اور سیکولرزم پرزبردست حملہ ہے ۔ اسمرتی ایرانی نے کہاہے کہ مرکزی حکومت کے زیراہتمام چلنے والے تمام اسکولوں میں یوگا کو لازمی کیاجائےگا اوردرجہ 6/ سے 10/ویں جماعت تک یوگا کو لازمی موضوع بنائے جانے کے ساتھ ہی اسے ٹیچرٹریننگ کا حصہ بھی بنایاجائےگا۔ یہی نہیں انہوں نے آئندہ سال یوم یوگا پر قومی سطح پر انعامی مقابلے کے انعقادکااعلان بھی کردیا۔ یہ بات واضح ہونے کے باوجود کہ مرکزی حکومت کے ماتحت اسکولوں میں پڑھنے والے طلبا کا تعلق کسی ایک مذہب سے نہیں پھر اسے لازمی کرنا کیا جمہوری حقوق پرحملہ اورکسی پر زبردستی ہندومت کلچرکو اپنانے کیلئے مجبورکرنا نہیں ہے تواورکیاہے؟

یہ کوئی پہلا سانحہ نہیں ہے جب نائب صدرجمہوریہ کے وقارپرحملہ کیاگیا ہو، بلکہ اس سے قبل بھی 26/ جنوری 2015ء کویوم جمہوریہ کی تقریب پرسلامی کے دوران نائب صدرکے ذریعہ سیلوٹ نہ کرنے اورخاموش کھڑے رہنے کے بہانے بھی ان پر کیچڑ اچھالنے کی جسارت کی جاچکی ہے۔ ہوا یوں تھاکہ یوم جمہوریہ کی قومی تقریب میں صدرجمہوریہ ،وزیراعظم اوردیگر وزراء سلامی دے رہے تھے اورنائب صدرخاموش کھڑے تھے بس کیاتھاکہ اس بات پرسوشل میڈیاپرسرگرم آرایس ایس کے کارندوں نےایسی ہائے توبہ مچائی کہ نائب صدرکے دفترکونہ صرف وضاحت پیش کرنی پڑی تھی بلکہ ثبوت میں یوم جمہوری کے موقع کی کئی سابق صدور و نائب صدورکی ویڈیوکلپ بھی جاری کرنی پڑی تھی کیوںکہ اسے ایک الگ عینک سے دیکھاجانے لگاتھا۔
حالاںکہ اسی تقریب میں مرکزی وزیرخارجہ ششما سوراج اور وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ بھی خاموش کھڑے تھے لیکن ان کے اس رویہ پر کسی نے سوالیہ نشان نہیں لگایا۔ ہاں!یہ الگ بات ہے کہ نائب صدرجمہوریہ کے دفترکی جانب سے کی گئی وضاحت کے بعدخود وزیراعظم گھیرے میں آگئے تھے کیوںکہ اس موقع پر ہمارے معزز وزیراعظم ہی پرٹوکول کی خلاف ورزی کر بیٹھے تھے لیکن فرقہ پرست تنظیموں کے افرادکی نظراس پرکیسے پڑسکتی تھی ۔

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا نائب صدرجمہوریہ کوصرف اس لئے نشانہ بنایاجارہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں اگرایسا ہے تویہ بہت سنگین معاملہ ہے اس پر حکومت اور وزیراعظم کو وضاحت پیش کرنی چاہئے تاکہ ہندوستان کی جمہوریت پرعوام کا اعتقاد مزیدپختہ ہوسکے اور متحدہ قومیت کے نظریہ کو مضبوطی حاصل ہو سکے ۔

***
sabirrahbar10[@]gmail.com
موبائل : 9470738111
صابر رہبر

Attack on the dignity of Vice President of India. Article: Sabir Rahbar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں