تلنگانہ انکاؤنٹر - وقاراحمد اور ساتھیوں کی تدفین - جلوس جنازہ میں سینکڑوں افراد شریک - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-04-09

تلنگانہ انکاؤنٹر - وقاراحمد اور ساتھیوں کی تدفین - جلوس جنازہ میں سینکڑوں افراد شریک

حیدرآباد
منصف نیوز بیورو/ آئی اے این ایس
ضلع ورنگل کے آلیر اور جنگائوں کے درمیان ایک فرضی انکائونٹر میں ہلاک وقار احمد اور ان کے ساتھیوں کی نعشیں آج شام ارکان خاندان کے حوالہ کردی گئیں ۔ وقار احمد اور سید امجد علی کی بھی تدفین انجام دے دی گئی ۔ 33 سالہ وقار احمد اور27 سالہ امجد علی کی نماز جنازہ مسجد نور اولڈ ملک پیٹ میں بعد نماز مغرب ادا کی گئیں اور وقار کی تدفین قبرستان اکبرعلی شاہ جھولوں کا چمن ، سلطان شاہی میں عمل میں آئی جب کہ سید امجد علی کو معین باغ کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا ۔ ایک اور مہلوک ڈاکٹر حنیف کی ایک مینار مسجد(مشیر آباد) میں بعد نماز عشا نماز جنازہ ادا کی گئی اورتدفین متصل قبرستان میں عمل میں آئی ۔ جلوس جنازہ میںہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود تھے ۔ قبل ازیں ان کے رشتہ دارورنگل کے سرکاری ایم جی ایم ہاسپٹل پہنچے جہاں پوسٹ مارٹم کی کارروای انجام دی گئی ۔ وقار احمد ، سید امجد علی اور محمد ذاکر کے رشتہ دار حیدرآباد سے ورنگل پہنچے جب کہ احمد آباد کے متوطن محمد حنیف کی نعش بھی ارکان خاندان نے حاصل کی ۔ پولیس، اظہار خان کے رشتہ داروں کا انتظار کررہی ہے جو لکھنو سے یہاں آنے والے ہیں ۔ اظہار خان کی نعش دواخانہ میں محفوظ کردی گئی ہے۔ وقار احمد کے والد محمد احمد نے ابتدا میں انکائونٹر کی سی بی آئی تحقیقات کے اعلان تک اپنے بیٹے کی نعش نہ لینے کا اعلان کیا تھا تاہم بعد میں انہوں نے اپنا موقف تبدیل کردیا ۔پولیس نے وقار امد اور امجد کی تدفین کے پیش نظر ملک پیٹ میں سخت سیکوریٹی انتظام کرلیا تھا ۔ صبح میں ایم جی ایم ہاسپٹل میں فارنسک ماہرین کی ایک ٹیم نے نعشوں کا پوسٹ مارٹم کیا۔ ایسے واقعات کے سلسلہ میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں پوسٹ مارٹم کارروائی کی ویڈیو گرافی لی گئی۔ ان تمام کو اگرچہ ضلع نلگنڈہ کے آلیر پولیس اسٹیشن کے حدود میں ہلاک کیا گیا تاہم ان کی نعشیں ورنگل لے جائیں گئیں کیونکہ وہ ورنگل سنٹرل جیل کے زیر دریافت قیدی تھے ۔ اسی دوران پولیس نے بتایا کہ منگل کے واقعہ کی تحقیقات کاآغاز کردای گیا ہے اور اس سلسلہ میں عدالتی تحقیقات کا حکم بھی دیا گیا ہے ۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ قومی انسانی حقوق کمیشن اور سپریم کورٹ کے جاری کردہ ہدایات کے پیش نظر عدالتی تحقیقات انجام دی جارہی ہیں۔ اسی دوران نئی دہلی سے پی ٹی آئی کے بموجب تلنگانہ کے ضلع ورنگل میں5 زیر دریافت قیدیوں اور اندھرا پردیش کے ضلع چتور میں 20 مزدوروں کے منصوبہ بند اور سفاکانہ و بہیمانہ قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے بائیں بازو جماعتوں نے آج دونوں واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور مہلوکین کے قریبی ورثا کو معاوضہ ادا کرنے پر زور دیا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا( مارکسسٹ) نے آندھرا پردیش میں عام ورکرس کی ہلاکت کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ انہیں پولیس ظلم کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ تلنگانہ میں5 زیر دریافت قیدیوں(وقار احمد اور اس کے ساتھیوں) کے قتل عام پر سی پی آئی ایم نے کہا کہ یہ پولیس کی منصوبہ بند کارروائی تھی تاکہ دو دن قبل ضلع نلگنڈہ میں پولیس ملازمین کی ہلاکتوں کا انتقام لیاجاسکے ۔ وقار احمد اور اس کے ساتھیوں کی ہلاکتوں پر سی پی آئی نے بھی مماثل خیالات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ واقعہ ایک فرضی انکائونتر تھا جس میں پولیس نے روایتی الزامات عائد کرتے ہوئے نہتے قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ ضلع چتور کی ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے سی پی آئی ایم پولیٹ بیورو نے کہا کہ پولیس کے دعوے جھوٹے ہیں کیونکہ تصاویر میں ہمیں واضح ثبوت نظر آتا ہے کہ پولیس نے نہتے مزدوروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ پارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ ضلع چتور میں جن افراد کو ہلاک کیا گیا ہے وہ مزدور تھے اور سمگلروں نے جو سرخ صندل کی لکڑی کا غیر قانونی کاروبار کرتے ہیں، لکڑی کی کٹائی کے لئے ان کی خدمات حاصل کی تھیں جس کے لئے انہیں بھاری معاوضہ کا لالچ دیا گیا تھا۔
پارٹی پولیٹ بیورو نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت اے پی اور پولیس حکام سرخ صندل کی لکڑی کی اسمگلنگ کی روک تھام میں ناکام ہوچکے ہیں ۔ اور اس سلسلہ میں مناسب اقدامات اٹھانے کے بجائے مزدوروں کو پولیس ظلم و ستم کا نشانہ بنادیا گیا ۔ پارٹی نے تمام مہلوکین کے ورثا کو فوری معاوضہ کی ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسے ہی جذبات و خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سی پی آئی جنرل سکریٹری ایس سدھار کر ریڈی نے کہا کہ تا حال ایک بھی اسمگلر جو سر غنہ ہوسکتا ہے ، پولیس نے گرفتار نہیں کیا ہے ۔ صرف کرایہ کے مزدوروں کو قتل کیاجارہا ہے کیونکہ ایسے الزامات بھی سامنے آتے رہتے ہیں کہ اسمگلروں کا تعاون کرنے میں حکمراں پارٹی کے قائدین بھی شامل ہیں ۔ صرف مناسب تحقیقات کے ذریعہ ہی حقائق منظر عام پر لائے جاسکتے ہیں ۔ وقار احمد اور اس کے ساتھویں کی فرضی انکائونٹر میں ہلاکت کے بارے میں سدھاکر ریڈی نے کہا کہ یہ انکائونٹر نہیں بلکہ سفاکانہ قتل ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پانچ نوجوان، زیر دریافت قیدیوںکو رونگل جیل سے حیدرآباد لے جاتے ہوئے منصوبہ بند طور پر ہلاک کردیا گیا ۔ راستہ میں پولیس ویان میں انہیںگولیوں سے بھون دیا گیا اور یہ دکھایا گیا کہ ان کاانکائونٹر کیا گیا ہے ۔


--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں