اعتماد نیوز
آلیر میں5مسلم زیردریافت قیدیوں کے پولیس انکاؤنٹر کے سلسلہ میں دائر کردہ درخواست کو ہائیکورٹ نے قبول کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت گرمائی تعطیلات کے بعد8جون تک ملتوی کردی ۔ ہائیکورٹ کی سماعت کے جج جسٹس ولاس راؤ افضل پور کرنے آج5مسلم زیردریافت مقتول قیدیوں کے اکارن خاندان کی جانب سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کی ۔ ہائیکورٹ میں مقدمہ کی گزشتہ سماعت کے دوران عدالت نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل رام چندر راؤ کو ہدایت دی تھی کہ وہ پولیس کی جانب سے آلیر پولیس انکاؤنٹر کے سلسلہ میں جوابی حلف نامہ داخل کریں ۔ عدالت میں آج ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے جوابی حلف نامہ داخل کیا جس کے بعد جٹس والاس راؤ افضل پور کرنے درخواست گزاروں کی درخواست کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت تعطیلات کے بعد تک ملتوی کردی۔ درخواست گزاروں نے پولیس انکاؤنٹر میں ملوث17پولیس ملازمین کے خلاف دفعہ302کے تحت قتل کا مقدمہ درج کرنے، پولیس انکاؤنٹر کے مہلوکین 5مسلم زیر دریافت قیدیوں کے دوبارہ پوسٹ مارٹم کروانے اور مقدمہ کی سی بی آئی کے ذریعہ تحقیقات کروانے کا عدالت سے مطالبہ کیا تھا۔ عدالت کی جانب سے مقدمہ کی سماعت کو تعطیلات کے بعد ملتوی کرنے پر درخواست گزاروں کے وکلاء ، وی گھو ناتھ ، غلام ربانی اور شیخ خالد سیف اللہ نے عدالت سے استدعاء کی کہ پولیس ملازمین کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے اور سی بی آئی کے ذریعہ تحقیقات کی اپیل پر تعطیلات کے بعد سماعت کی جائے، تاہم عدالت اب انکاؤنٹر کے مقتولین کے دوبارہ پوسٹ مارٹم کے سلسلہ میں کوئی فیصلہ کرے۔ کیونکہ تاخیر کے نتیجہ میں مقتولین کے اجسام کے اعضاء علیحدہ ہوجائیں گے اس سے پوسٹ مارٹم میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں ۔ درخواست گزاروں کے وکلاء نے عدالت سے استدعاء کی کہ دوبارہ پوسٹ مارٹم کے سلسلہ میں دائر کردہ درخواست کو مسترد کردیاجائے ، وہ اس سلسلہ میں عدالت میں دوبارہ اپیل دائر کر کے عدالت سے راحت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اس پر ہائیکورٹ نے تین درخواستوں میں سے دوبارہ پوسٹ مارٹم کی ایک درخواست کو مسترد کرتے ہوئے دیگر دو درخواستوں کو سماعت کے لئے قبول کرلیا ۔ پولیس کی جانب سے عدالت میں جو جوابی حلف نامہ داخل کیا گیا ، اس کے تحت پولیس نے عدالت کو بتایا کہ آلیر پولیس انکاؤنٹر کی تحقیقات کے لئے حکومت نے خصوصی تحقیقاتی ٹیم ایس آئی ٹی کی تشکیل دی ہے ۔ اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے فرسٹ کلاس جوڈیشیل مجسٹریٹ آلیر نلگنڈہ بھی تحقیقات کررہے ہیں ۔ ابھی مجسٹریٹ کی جانب سے اس کی تحقیقاتی رپورٹ داخل نہیں کی گئی ہے، جیسے ہی وہ رپورٹ داخل کریں گے وہ رپورٹ عدالت میں پیش کردی جائے گی ۔ جوابی حلف نامہ میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر تحقیقات میں ضرورت محسوس ہو تو انکاؤنٹر کے مقتولین کے مابقی اعضاء کو قبروں سے دوبارہ نکال کر پوسٹ مارٹم کروایاجاسکتا ہے ۔
دریں اثنا نئی دہلی سے اعتماد نیوز کی ایک علیحدہ اطلاع کے بموجب مرکزی مملکتی وزیر داخلہ کرن رجیجو نے کہا ہے کہ آلیر (ضلع نلگنڈہ) میں7 اپریل کو پانچ زیر دریافت قیدیوں کی محافظ پولیس دستوں کے ہاتھوں انکاؤنٹر میں ہلاکت کا قومی انسانی حقوق کمیشن نے نوٹ لیا ہے اور ریاست تلنگانہ سے اس خصوص میں رپورٹ طلب کی ہے۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی ایم پی و صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے اس واقعہ پر پو پوچھے گئے سوال کا لوک سبھا میں کرن رجیجو نے تحریری جواب دیا ۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے پولیس کے ہاتھوں وقار احمد کے بشمول پانچ دیگر زیر دریافت قیدیوں کی ہلاکت کے واقعہ کو سوال کے ذریعہ زیر بحث لایا ۔ انہوں نے اسے بہیمانہ قتل قرار دیتے ہوئے استفسار کیا کہ مرکزی حکومت نے اس سنگین واقعہ پر کیا کارروائی کی ہے ؟ جس پر مرکزی وزیر نے بتایا کہ ریاستی حکومت اس معاملہ سے نمٹ رہی ہے ۔ تلنگانہ حکومت نے اس کی تحقیقات شروع کردی ہے ۔ وزیر موصوف نے کہا کہ جو قیدی انکاؤنٹر میں ہوئے ہیں ان پر سنگین کیسیس درج تھے۔ انہوں نے کہا کہ آلیر پولیس اسٹیشن میں اس انکاؤنٹر کے واقعہ پر ایک مقدمہ درج کیاگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی انسانی حقوق کمیشن نے اس واقعہ پر عوامی سماعت کا اہتمام کیا ہے۔ اس نے ریاستی حکومت سے رپورٹ بھی طلب کی ہے تاہم ریاستی حکومت نے کمیشن کو تا حال کوئی رپورٹ حوالہ نہیں کی ہے۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے اس واقعہ کو فرضی انکاؤنٹر سے تعبیر کیا ۔ انہوں نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ زیر دریافت قیدیوں پر چاہے کتنے ہی سنگین مقدمات عائد کیوں نہ ہوں،انہیں عدالت کے ذریعہ سزا دلائی جانی چاہئے تھی ۔ انہوں نے کہا کہ پولیس قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتی ، ہتھکڑی بندھے ہوئے زیر دریافت قیدیوں کا پولیس نے قتل کیا ہے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ نظم و قانون کے امور مرکز اور ریاست دونوں کے تحت آتے ہیں ۔ مرکزی حکومت اس واقعہ پر اپنی ذمہ داری سے فرار حاصل نہیں کرسکتی۔ انہوں نے اس واقعہ کی بر سر خدمت جج یا پھر سی بی آئی کے ذریعہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے اس انکاؤنٹر میں ملوث پولیس ملازمین کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا بھی مطالبہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ غیر جانبدارانہ اور آزادانہ تحقیقات سے یہ پتہ چل سکتا ہے کہ یہ قتل کس کی ایماء پر کیا گیا ۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے اس واقعہ پر جن نکات کو اٹھانے کی کوشش کی اس سے مرکزی حکومت اپنا دامن بچاتی رہی ۔ مرکزی وزیر کرن رجیجو نے اپنے جواب کے ذریعہ اس معاملہ کو ریاستی حکومت کی جھولی میں ڈال دیا ۔ صدر مجلس نے مرکز کے اس موقف کو غیر منصفانہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مہلوکین کے ورثاء انصاف کے طلب گار ہیں ان سے انصاف کیاجائے اور اس واقعہ کے اصل خاطیوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کیاجائے ۔
Telangana Alair encounter: HC adjourns hearing
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں