مسلم نوجوانوں کا انکاؤنٹر - خاطی پولیس جوانوں کے خلاف کارروائی کا تیقن - چیف منسٹر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-04-10

مسلم نوجوانوں کا انکاؤنٹر - خاطی پولیس جوانوں کے خلاف کارروائی کا تیقن - چیف منسٹر

حیدرآباد
منصف نیوز بیورو
تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندر شیکھرراؤ نے آج متحدہ مسلم محاذ کے ایک وفد کو تیقن دیا کہ ضلع ورنگل کے آلیر اور جنگاؤں کے درمیان پانچ زیر دریافت قیدیوں کے انکاؤنٹر میںملوث پولیس ملازمین کے خلا ف سخت کارروائی کرتے ہوئے انہیں سزا دیںگے ۔ ورنگل سنٹرل جیل سے شہر حیدرآباد کی ایک عدالت کو لاتے ہوئے وقار احمد اور اس کے چار ساتھیوںکا انکاؤنٹر کردیا گیاتھا ۔ کے چندر شیکھر راؤ نے وفد سے کہا کہ مقدمہ کی تمام تفصیلات اور انکوائری رپورٹ حاصل ہونے تک انہیںمہلت دیجائے ۔ صدر مسلم متحدہ محاذ عبدالرحیم قریشی کی قیادت میں وفد نے چیف منسٹر سے مطالبہ کیا کہ انکاؤنٹر کی سی بی آئی یاہائیکورٹ کے ایک بر سر خدمت جج کے ذریعہ تحقیقات کا حکم دیا جائے۔ انہوںنے وضاحت بھی کی کہ تمام نوجوان پولیس ویان میں ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے اور ویان کی نشستوں سے انہیںباندھ دیا گیا تھا ۔ ایسے حالات میں کس طرح یہ قیدی پولیس پر حملہ کرسکتے ہیں ؟ اس کے علاوہ تمام قیدی 17پولیس جونوانوں کی نگرانی میں تھے جن کے پاس عصری انساس رائفل تھے ۔انہوں نے سوال کیا کہ کس طرح بیڑیوں میں جکڑے ہوئے قیدی ، پولیس جوانوں کی بھاری رائفلیں چھیننے کی کوشش کرسکتے ہیں۔انہوںنے کہا کہ پانچوں نوجوانوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ تمام نوجوانوںکو آٹو میٹک ہتھیاروں سے انتہائی قریب سے گولیاں ماری گئیں جب کہ وہ پولیس ویان میں نشستوں پر ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے ۔ گولیاں قریب سیمارے جانے کے نتیجہ میں وہ جسموں کے آر پار ہوگئیں۔ رپورٹ میں یہ بھی اشارہ دیا گیا ہے کہ قیدیوں کے جسموں پر کئی گولیوں کے نشانات تھے جب کہ خاص طور پر اہم اعضاء کو نشانہ بنایا گیا ۔ پولیس کا یہ کہنا ہے کہ ایک زیر دریافت قیدی کا رفع حاجت کے لئے گاڑی روکنے کی درخواست کرنا اور پھر وہ اس کے ساتھیوں کا پولیس نوجوانوں پر حملہ کر کے ہتھیار چھیننا، انتہائی مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے ۔ صدر مسلم متحدہ محاذ نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پانچ زیر دریافت قیدیوںکا17پولیس جوانوں کی پارٹی نے منصوبہ بند انداز میں سفاکانہ بہیمانہ اور سرد خوں قتل کیا ہے ۔در حقیقت تمام زیر دریافت قیدیوں کے خلاف جاری دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت آخری مرحلہ میں داخل ہوچکی تھی اور عدالت چند ہفتوں میں اپنا فیصلہ سنانے والی بھی تھی ۔انہوں نے مزید بتایا کہ صرف چھ ماہ قبل ایک زیر دریافت قیدی نے عدالت سے فریاد کی تھیکہ اسے جان کا خطرہ لاحق ہے کیونکہ ورنگل جیل سے حیدرآباد کی عدالت لانے اور واپس لے جانے کے دوران پولیس اسے ہلاک کرسکتی ہے ۔ اس نے عدالت میں ایک درخواست بھی داخل کی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ اسے ورنگل سنٹرل جیل سے حیدرآباد کی چنچل گوڑہ جیل یا چرلہ پلی جیل منتقل کیاجائے ۔مولانا عبدالرحیم قریشی نے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ سے درخواست کی کہ وہ آرمڈ ریزروپولیسکے17جوانوںکے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم جاری کریں ۔ انہوں نے کہاکہ انصاف کے مفاد میں فرضی انکاؤنٹر میں ملوث جونوں کے خلاف کارروائی ضروری ہے ۔ تمام واقعہ کی سی بی آئی یا ہائی کورٹ کے ایک بر سر خدمت جج کے زریعہ آزادانہ تحقیقات ہی حقائق کا پردہ فاش کرسکتی ہیں۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے وفد کی تمام باتوں کی سماعت کی اور کہا کہ تحقیقات میں تمام حقائق سامنے آجائیں گے اور اس کی رو سے خاطی پولیس جوانوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے انہیںسخت سزا دی جائے گی۔

دریں اثنا حیدرآباد سے آئی اے این ایس کی ایک علیحدہ اطلاع کے بموجب ضلع ورنگل کے آلیر اور جنگاؤں کے درمیان پانچ زیر دریافت قیدیوں کے انکاؤنٹر کے بعد ان میں کی چار کی کل تدفین عمل میں آئی جب کہ پانچویں مہلوک نوجوان33سالہ اظہار خان کی نعش ورنگل کے ایم جی ایم ہاسپٹل میں محفوظ کردی گئی ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ اظہار خان کے رشتہ دار لکھنو سے یہاں پہنچنے والے ہیں۔ وقار احمد، سید امجد علی ، محمد حنیف اور محمد ذاکر کی کل شہر کے مختلف قبرستانوں میں تدفین عمل میں آئی ۔ پولیسنے اسموقع پر انتہائی سخت سیکوریٹی انتظامات کئے تھے ۔ تمام نعشوں کا کل ورنگل میں پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا ۔ تمام مہلوک نوجوان دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کررہے تھے اور شہر کی ایک عدالت میں ان کا مقدمہ جاری تھا، جو آخری مرحلہ میں داخل ہوچکا تھا ۔ مقدمہ کی سماعت کے سلسلہ میں ہی انہیںحیدرآباد لایاجارہا تھا تاہم راستہ میں انکا انکاؤنٹر کردیا گیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ وقار احمد نے محافظ دستے کی بندوق چھیننے کی کوشش کی جس پر پولیس کو گولیاں چلانی پڑیں۔ ارکان خاندان نے اس دعویٰ کو جھوٹا قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایک فرضی انکاؤنٹر تھا جومنصوبہ بند طریقہ سے انجام دیا ۔ ارکان خاندان کا کہنا ہے کہ ہتھکڑیاں اور بیڑیوں میں موجود قیدی کس طرح پولیس کا ہتھیار چھین سکتا ہے جب کہ وہ پوری طرح پولیس گاڑی سے بندھے ہوئے تھے ۔محمد حنیفکے ایک چچا عبداللطیف نے جو احمد آباد سے یہاں پہنچے کہا کہ پولیس نے تمام بچوں کو بہیمانہ قتلکیا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ حنیف اور دیگر نوجوانوں کے خلاف مقدمہ آخری مراحل میں داخل ہوچکا تھا ۔ اسی دورانمسلم گروپس اور انسانی حقوق تنظیموں نے اس واقعہ کی سی بی آئی یا ہائی کورٹ کے کسی بر سر خدمت جج کے ذریعہ تحقیقات کا اعلان کیا ہے ۔مسلم گروپس کا الزام ہے کہ پولیس نے اپریل کے اوائل میں ضلع نلگنڈہ میں دو مشتبہ سیمی کارکنوں کے ہاتھوں پولیس ملازمینکی ہلاکت کا وقار اور اس کے ساتھیوں سے انتقام لیا ہے ۔وقار اور دیگر مہلوک زیردریافت قیدیوں کے ارکان خاندان نے دعویٰ کیاہے کہ ان کے بچوں کو انتہائی قریب سے گولیاں ماری گئیں جب کہ اہم اعضاء کو نشانہ بنایا گیا ۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں بھی یہ بات پائے ثبوت کو پہنچچکی ہے ۔ کہ تمام نوجوانوں کو انتہائی قریب سے گولیاں ماری گئیں جب کہ ہر ایک نعش سے پانچ تا آٹھ گولیاں نکالی گئی ہیں۔ دیگر معنوں میںہر ایک نوجوان کو پانچ تا آٹھ گولیاں ماری گئیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایاجاسکے کہ کسی کے بھی کسی بھی حال میں زندہ رہنے کی گنجائش نہ رہے ۔ رائفلوں کی گولیاں پستول کی گولیوں کے مقابلہ بڑی اور انتہائی مضبوط و سخت اور زہریلی ہوتی ہیں۔ صرف ایک گولی اگر سینے میں مار دی جائے تو انسان کا بچنا ناممکن ہوتا ہے ۔

Muslim leaders meet KCR on Viqar encounter

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں