31/مارچ مالے آئی اے این ایس
مالدیپ کی پالیمنٹ نے جیل کی سزا بھگتنے والے افراد کو سیاسی پارٹی کی رکنیت حاصل کرنے سے باز رکھنے کے لئے ایک قانون کو منظوری دی ہے جس نے موثر طریقے سے سابق صدر محمد نشید کو مالدیوین ڈیمو کریٹ پارٹی( ایم ڈی پی) سے معزول کردیا ہے ۔ اس پارٹی کے نشید شریک بانی ہیں ۔ پیر کے روز85نشستی پارلیمنٹ میں یہ قانون 42-2ووٹوں سے منظور ہوگیا ۔ ایم ڈی پی کے ارکان پارلیمنٹ نے رائے دہی میں حصہ نہیں لیا ، لیکن ڈپٹی اسپیکر ریکو موسی مانک کی جانب سے رائے دہی کا اعلان کیے جاتے ہی انہوں نے مجلس فلور پر احتجاج کیا اور اسپیکر کی آواز کو دبانے کے لئے میگافونس اور سائرنوں کا استعمال کیا ۔ مالدیپ کی حکمراں پروگریسیو پارٹی کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہے ۔ نشید ایم ڈی پی کی قیادت اور رکنیت سے محروم ہوجائیں گے ۔ کیونکہ انہیں اپنے دور اقتدار میں ایک جج کو قید کرنے سے متعلق دہشت گردی کاخاطی قرار دیا گیا ۔ دہشت گردی کے ایک کیس میں خاطی پائے جانے پر انہیں13سال جیل کی سزا ہوئی ، لیکن ان کی پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ کیس ان پر صد ر عبداللہ یامین کی حکومت کی جانب سے تھوپا گیا ہے۔ نشید کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان الزامات کا مقصد انہیں 2018ء کے صدارتی الیکشن میں مقابلہ سے روکنا ہے ۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ایم ڈی پی کے چیرمین علی وحید نے کہا کہ پارٹی اس ترمیم کو قبول نہیں کرے گی ۔ اور اپنے قائد کا انتخاب خود کرے گی ۔ پارٹی نے کہا کہ جیل کی سزا کے باجود نشید ایم ڈی پی کے صدارتی امیدوار برقرار رہیں گے ۔ وحید نے کہا کہ چوں کہ حکومت کے پاس مطلق اختیار ہے ۔ لہذا وہ تمام سیاسی حریفوں کے خاتمہ کی کوشش کررہی ہے ۔ میری یہ بات نوٹ کرلیجئے کہ وہ آخر میں ایم ڈی پی سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرے گی لیکن جو ہمارے دلوں میں ہے اس سے وہ نجات کیسے پائے گی؟ واضح رہے کہ 2مارچ سے ایم ڈی پی روزانہ ہر اجلاس میں احتجاج کرتی آئی ہے اور اس نے کہا کہ اس کا احتجاج اس وقت تک ختم ہوگا جب تک کہ حکومت نشید کو رہا نہیں کرتی ۔ اپوزیشن کے مظاہروں کی وجہ سے پارلیمنٹ میں متذکرہ بالا بل پر کبھی بحث نہیں ہوئی۔ عدالت پارٹی نے صدر یامین کے انتظامیہ سے یہ کہہ کر حمایت سے دستبرداری اختیار کرلی کہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ یہ بل قیدیوں کو جیل میں رہنے کے دوران این جی اوز کی قیادت یا رکنیت سے بھی باز رکھتا ہے ۔Maldives passes law 'to oust ex-leader from politics'
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں